ٹونی بلیئر مرزا غالبؔ کی عدالت میں
جب لیڈر اپنے استدلال میں کمزور پڑتا ہے تو وہ کسی فلسفی کا کوئی بیان سناتا ہے
جب لیڈر اپنے استدلال میں کمزور پڑتا ہے تو وہ کسی فلسفی کا کوئی بیان سناتا ہے، یا کوئی ضرب المثل یا شعر کا سہارا لیتا ہے۔ اس طرح اپنی تقریر کی بلاغت کو سہارا دیتا ہے یا بیان کو ہر دل عزیز بنا کر مزید فصیح بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے اور یقیناً اس کا اثر مجمع پر پڑتا بھی ہے، اس طرح لیڈر کی علمی استعداد سے سامعین متاثر بھی ہوتے ہیں۔
دراصل شعرا مشاہدات کی دنیا میں ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں۔ اردو شاعری میں بھی عشق و محبت کی داستانوں کے علاوہ فلسفہ شعور، جمالیات، تیغِ نگاہ، دلِ ناداں، چاک گریبانی، گنجینہ معنی اور ہزارہا اصطلاحات، اشعار کو پنکھ لگا دیتی ہیں۔ مگر شعرا میں تفکر، فلسفیانہ وجوہ کی تلاش مستقبل کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ تعقل کی شاعری کی ابتدا اقبال سے شروع ہوتی ہے یہ کسی حد تک درست بھی ہے، جس میں مستقبل کا ادراک ہے مثلاً:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
حالانکہ 1960ء کے ابتدائی دور میں سوویت یونین نے پہلی بار اپنا سیارہ اسپوتنک(Sputnik) فضا میں بھیجا، پھر روس امریکا اس دوڑ میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے۔ اب دونوں خلائی مشن میں دوڑ رہے ہیں۔ مگر 2000ء سے اب مشترکہ مشن پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ خلائی اسٹیشن میں اشتراک مگر اس کے مقاصد کیا ہیں۔ فلاح انسانیت یا سیاسی بالادستی کی دوڑ۔ ابھی مریخ سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہاں پانی وافر مقدار میں ہے مگر حیات کے نشان پر دونوں ممالک خاموش ہیں، کہیں پر دونوں میں اشتراک، تو کہیں پر اختلاف۔ بالادستی کی اسی دوڑ نے ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے۔
انسانیت کے نام پر قتل و غارت گری۔ آج سے 20 برس قبل دنیا کے نئے نقشے بنائے گئے اور پھر دنیا کے مختلف ملکوں کو تقسیم ہوتا دکھایا گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا یونی پولر ورلڈ کا مالک بنا، ہر حکومت اس کی یس سَر تھی ماسوائے ایران کے۔ روسی حکومت اپنے جگر لخت لخت کو جمع کرنے میں مصروف تھی۔ بالآخر وہ دن آیا جب یوکرین میں مظاہرے امریکی نواز جمہوریت پسندوں نے شروع کرائے اور وہاں سیاسی کشمکش شروع ہوئی۔
یوکرین جو روس کا سیاسی ساتھی اور سوویت یونین کا اتحادی تھا اس نے 2012ء میں نیٹو سے رابطے بڑھائے۔ اس پر روس اور امریکا کی یہاں پراکسی وار شروع ہوئی۔ اس میں روس نے امریکا نواز یوکرین کے بڑے حصے پر سابق کمیونسٹوں کی مدد سے قبضہ کر لیا۔ یوکرین مشرقی یورپ کا گنجان ترین علاقہ ہے، جہاں کی آبادی تقریباً 5 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں امریکا کی اتحادی افواج کی پسپائی نے روس کی ذہنی اور فکری سوچ میں تبدیلی پیدا کر دی۔ ایک طرف امریکا کا نیو ورلڈ آرڈر تھا تو دوسری جانب پوتن کی اسمبلی، ڈوما میں تھنک ٹینک کی فکری نشستیں شروع ہو گئیں۔
چین سے وہی تعلقات ہو گئے جو تقریباً جوزف اسٹالن کے اور ماؤزے تنگ کے زمانے میں 50ء کی دہائی میں تھے۔ فی الوقت پاکستان اور چین کے بہترین تعلقات کو کسی بھی وقت روس استعمال کر سکتا ہے۔ چین اور روس نے شام کے مسئلے کو ایک ہی انداز میں سوچا اور عمل پیرا ہوئے۔ عالمی افق پر دونوں ویٹو پاورز کا ایک ہی موقف ہے۔ جب کہ امریکا اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کا الگ موقف ہے۔
صدر بش نے جس دور میں آج سے 13 برس قبل رجیم چینج (Regime Change) یعنی حکومت کی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، روس اس وقت اسلحہ سازی خصوصاً کروز میزائل میں پیچھے تھا اور وہ ماضی کے زخموں کے علاج میں مصروف تھا۔ وہ اس طرح کھل کے سامنے نہ آیا جیسا کہ آج یوکرین کے مسئلے پر آیا اور کریمیا کو ایک آزاد ملک کی شکل دے بیٹھا۔ یعنی 2015ء کے وسط تک امریکا کا یونی پولر ہونے کا نعرہ جاتا رہا۔ دنیا اب واضح طور پر سمجھ چکی ہے کہ اسرائیل امریکا کا زبردست اتحادی ہے۔ امریکا نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جو نئے جغرافیہ کا ہدف بنایا تھا شام اس میں بڑی رکاوٹ تھا۔ کیونکہ شام حزب اللہ کا اتحادی ہے اور اب مشرق وسطیٰ میں دو نمایاں اتحاد سامنے آ گئے ہیں۔
ایک امریکا اسرائیل خلیجی ممالک، دوسرا روس فلسطین، شام حزب اللہ اور ایران۔ چونکہ پاکستان میں (CNN) سی این این اور بی بی سی ہی عام لوگوں کی دسترس میں ہیں اور پاکستانی میڈیا بین الاقوامی خبروں سے گریزاں ہے، اس لیے پاکستانی عوام کو عالمی حالات کا زیادہ ادراک نہیں۔ چونکہ پاکستان شروع سے ہی امریکا کا اتحادی تھا اور ہے اس لیے یہاں کے تجزیہ کار بھی امریکی انداز میں سوچتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب تک بھارت کانگریس کا زیر اثر تھا وہ روس نواز تھا اور جب سے بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت ہے پاکستان اور بھارت دونوں اپنے معاملات امریکا سے رجوع کرتے ہیں۔
حالانکہ امریکا نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاملے میں پاکستان سے مساوی سلوک نہیں کیا۔ کیونکہ پاکستان اسرائیل کے لیے نرم موقف نہیں رکھتا۔ بہر صورت امریکی موقف دنیا کے ہر ذی شعور پر واضح ہے کہ امریکا نے عراق، شام، لیبیا، مصر اور دیگر مسلم ریاستوں کو اس لیے کمزور کیا کہ وہ قوم پرست تھیں۔ اور وہاں پر وہ شدت پسند تنظیموں کی حکومت چاہتا تھا۔ لیبیا اس کا واضح ثبوت ہے جہاں معمر قذافی کو بغیر کسی جرم کے سزا دی گئی۔ ان کے دونوں بیٹوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔
مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت پر ضرب لگائی گئی۔ محض اس لیے کہ وہ فکری طور پر اسلام کو سمجھنے والی حکومت تھی۔ وہ اسرائیل کے موقف کو غلط اور فلسطینیوں کو حق پر سمجھتی تھی۔ ایک جمہوری حکومت کا غیر جمہوری انداز میں فوجی حکومت کے ذریعے تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں پر امریکا نواز حکومت قائم کر دی گئی۔ رہ گیا شام کا تو وہاں آج سے چار برس قبل بغاوت کرائی گئی مگر وہ کامیاب نہ ہوئی کیونکہ شام حزب اللہ کا حامی ہے اور دمشق کے لوگ بے جگری سے اسد حامی قوتوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ ہزاروں قتل بھی ہوئے اور لاکھوں تمام شورش زدہ علاقوں سے ان ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے، جن لوگوں نے رجیم چینج یعنی حکومت کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگایا، جمہوریت پسندوں اور دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والے انتخاب کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی فوج اور قوت کے ذریعے حکومت کو الٹنے کا درس دیتے رہے۔
صدام حسین کو ہٹا لیا مگر عراق میں کیا پایا۔ نیٹو ممالک نے صدر بش کے فلسفے کو اپنایا اور ان میں سب سے بڑھ کر ٹونی بلیئر نے جو اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ محض بش کے فیصلے پر کان دھرے اور عمل شروع کر دیا۔ بمباری کی، دس لاکھ افراد قتل ہوئے، لاکھوں زخمی ہوئے۔ مگر جنگ میں شرکت کے لیے اسمبلی کا نہ اجلاس بلایا گیا، بغیر سوچے سمجھے ٹونی بلیئر نے جنگ میں شرکت کی۔ دنیا کے عوام کا ردعمل کچھ اور تھا اور مغربی حکومتوں کا ردعمل کچھ اور۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں صدام کو ہٹا کر وہاں ایک ایسی حکومت کی پرورش کی جو اسلام کا نام لے کر اسلام کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔
سفاکی، بے رحمی، بربریت، ہتھیار گرا دینے والے کو قتل کرنا، غیر مسلموں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ، اسوۂ حسنہ سے غداری۔ اتنی بربریت بڑھی کہ بعد میں خود ہی ان کے خلاف پروپیگنڈے میں شریک ہوئے اور ظاہری طور پر ان پر بمباری کی اور حملہ آور ہوئے۔ مگر جتنا وقت گزرتا گیا یہ عجیب مزاحمتی عمل تھا جس قدر دوا کی اتنا مرض بڑھتا گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس خلا میں روس نے جگہ لے لی اور اپنی کارروائی شروع کر دی اب امریکا برطانیہ کو پردہ پوشی کی بھی مہلت نہ ملی۔ 7 لاکھ مہاجرین نیٹو ممالک میں داخل ہو چکے مزید چلے آ رہے ہیں۔ تقریباً 3 ہزار راستے میں ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے اس جنگ کے نتائج یہ نکلے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان سے لوگ چل پڑے۔
ان میں اکثریت عراق، شام اور لیبیا کی ہے جب یہ منظر دیکھا گیا اور ٹونی بلیئر سے سی این این نے انٹرویو کیا، تو انھوں نے عراق جنگ پر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا کہ وہ غلط تھے اور آج جو عراق، شام میں کشت و خون ہو رہا ہے اس کی وجہ عدم استحکام ہے اور انتظامی خلا پیدا ہو گیا جس سے آئی ایس آئی داعش کی جگہ بنی اور یہ بتانا بھول گئے کہ ہم نے ہی ان کی پرورش کی تھی، تا کہ اسلام کا امن و سلامتی کا چہرہ مسخ کر کے دنیا کو دکھایا جائے۔ ہائے یہ زود پشیمانی 13 برس بعد پیدا ہوئی، جب لاکھوں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ چکے۔ آر ٹی نیوز (RT) نے اپنے تبصرے میں کہا کہ جنگی جرائم کا یہ اعتراف ہے اور کیا کہنا مرزا اسد اللہ خان غالب کا جنھوں نے ایسے ویسے مجرموں کے لیے اپنی جوانی یعنی 1850ء میں ایک خیالی کٹہرا بنایا تھا جس میں ایسے مجرموں کو وہ سزا سناتے تھے اس سزا کے دو مصرع ملاحظہ ہوں:
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
دراصل شعرا مشاہدات کی دنیا میں ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں۔ اردو شاعری میں بھی عشق و محبت کی داستانوں کے علاوہ فلسفہ شعور، جمالیات، تیغِ نگاہ، دلِ ناداں، چاک گریبانی، گنجینہ معنی اور ہزارہا اصطلاحات، اشعار کو پنکھ لگا دیتی ہیں۔ مگر شعرا میں تفکر، فلسفیانہ وجوہ کی تلاش مستقبل کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ تعقل کی شاعری کی ابتدا اقبال سے شروع ہوتی ہے یہ کسی حد تک درست بھی ہے، جس میں مستقبل کا ادراک ہے مثلاً:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
حالانکہ 1960ء کے ابتدائی دور میں سوویت یونین نے پہلی بار اپنا سیارہ اسپوتنک(Sputnik) فضا میں بھیجا، پھر روس امریکا اس دوڑ میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے۔ اب دونوں خلائی مشن میں دوڑ رہے ہیں۔ مگر 2000ء سے اب مشترکہ مشن پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ خلائی اسٹیشن میں اشتراک مگر اس کے مقاصد کیا ہیں۔ فلاح انسانیت یا سیاسی بالادستی کی دوڑ۔ ابھی مریخ سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہاں پانی وافر مقدار میں ہے مگر حیات کے نشان پر دونوں ممالک خاموش ہیں، کہیں پر دونوں میں اشتراک، تو کہیں پر اختلاف۔ بالادستی کی اسی دوڑ نے ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے۔
انسانیت کے نام پر قتل و غارت گری۔ آج سے 20 برس قبل دنیا کے نئے نقشے بنائے گئے اور پھر دنیا کے مختلف ملکوں کو تقسیم ہوتا دکھایا گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا یونی پولر ورلڈ کا مالک بنا، ہر حکومت اس کی یس سَر تھی ماسوائے ایران کے۔ روسی حکومت اپنے جگر لخت لخت کو جمع کرنے میں مصروف تھی۔ بالآخر وہ دن آیا جب یوکرین میں مظاہرے امریکی نواز جمہوریت پسندوں نے شروع کرائے اور وہاں سیاسی کشمکش شروع ہوئی۔
یوکرین جو روس کا سیاسی ساتھی اور سوویت یونین کا اتحادی تھا اس نے 2012ء میں نیٹو سے رابطے بڑھائے۔ اس پر روس اور امریکا کی یہاں پراکسی وار شروع ہوئی۔ اس میں روس نے امریکا نواز یوکرین کے بڑے حصے پر سابق کمیونسٹوں کی مدد سے قبضہ کر لیا۔ یوکرین مشرقی یورپ کا گنجان ترین علاقہ ہے، جہاں کی آبادی تقریباً 5 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں امریکا کی اتحادی افواج کی پسپائی نے روس کی ذہنی اور فکری سوچ میں تبدیلی پیدا کر دی۔ ایک طرف امریکا کا نیو ورلڈ آرڈر تھا تو دوسری جانب پوتن کی اسمبلی، ڈوما میں تھنک ٹینک کی فکری نشستیں شروع ہو گئیں۔
چین سے وہی تعلقات ہو گئے جو تقریباً جوزف اسٹالن کے اور ماؤزے تنگ کے زمانے میں 50ء کی دہائی میں تھے۔ فی الوقت پاکستان اور چین کے بہترین تعلقات کو کسی بھی وقت روس استعمال کر سکتا ہے۔ چین اور روس نے شام کے مسئلے کو ایک ہی انداز میں سوچا اور عمل پیرا ہوئے۔ عالمی افق پر دونوں ویٹو پاورز کا ایک ہی موقف ہے۔ جب کہ امریکا اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کا الگ موقف ہے۔
صدر بش نے جس دور میں آج سے 13 برس قبل رجیم چینج (Regime Change) یعنی حکومت کی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، روس اس وقت اسلحہ سازی خصوصاً کروز میزائل میں پیچھے تھا اور وہ ماضی کے زخموں کے علاج میں مصروف تھا۔ وہ اس طرح کھل کے سامنے نہ آیا جیسا کہ آج یوکرین کے مسئلے پر آیا اور کریمیا کو ایک آزاد ملک کی شکل دے بیٹھا۔ یعنی 2015ء کے وسط تک امریکا کا یونی پولر ہونے کا نعرہ جاتا رہا۔ دنیا اب واضح طور پر سمجھ چکی ہے کہ اسرائیل امریکا کا زبردست اتحادی ہے۔ امریکا نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جو نئے جغرافیہ کا ہدف بنایا تھا شام اس میں بڑی رکاوٹ تھا۔ کیونکہ شام حزب اللہ کا اتحادی ہے اور اب مشرق وسطیٰ میں دو نمایاں اتحاد سامنے آ گئے ہیں۔
ایک امریکا اسرائیل خلیجی ممالک، دوسرا روس فلسطین، شام حزب اللہ اور ایران۔ چونکہ پاکستان میں (CNN) سی این این اور بی بی سی ہی عام لوگوں کی دسترس میں ہیں اور پاکستانی میڈیا بین الاقوامی خبروں سے گریزاں ہے، اس لیے پاکستانی عوام کو عالمی حالات کا زیادہ ادراک نہیں۔ چونکہ پاکستان شروع سے ہی امریکا کا اتحادی تھا اور ہے اس لیے یہاں کے تجزیہ کار بھی امریکی انداز میں سوچتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب تک بھارت کانگریس کا زیر اثر تھا وہ روس نواز تھا اور جب سے بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت ہے پاکستان اور بھارت دونوں اپنے معاملات امریکا سے رجوع کرتے ہیں۔
حالانکہ امریکا نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاملے میں پاکستان سے مساوی سلوک نہیں کیا۔ کیونکہ پاکستان اسرائیل کے لیے نرم موقف نہیں رکھتا۔ بہر صورت امریکی موقف دنیا کے ہر ذی شعور پر واضح ہے کہ امریکا نے عراق، شام، لیبیا، مصر اور دیگر مسلم ریاستوں کو اس لیے کمزور کیا کہ وہ قوم پرست تھیں۔ اور وہاں پر وہ شدت پسند تنظیموں کی حکومت چاہتا تھا۔ لیبیا اس کا واضح ثبوت ہے جہاں معمر قذافی کو بغیر کسی جرم کے سزا دی گئی۔ ان کے دونوں بیٹوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔
مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت پر ضرب لگائی گئی۔ محض اس لیے کہ وہ فکری طور پر اسلام کو سمجھنے والی حکومت تھی۔ وہ اسرائیل کے موقف کو غلط اور فلسطینیوں کو حق پر سمجھتی تھی۔ ایک جمہوری حکومت کا غیر جمہوری انداز میں فوجی حکومت کے ذریعے تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں پر امریکا نواز حکومت قائم کر دی گئی۔ رہ گیا شام کا تو وہاں آج سے چار برس قبل بغاوت کرائی گئی مگر وہ کامیاب نہ ہوئی کیونکہ شام حزب اللہ کا حامی ہے اور دمشق کے لوگ بے جگری سے اسد حامی قوتوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ ہزاروں قتل بھی ہوئے اور لاکھوں تمام شورش زدہ علاقوں سے ان ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے، جن لوگوں نے رجیم چینج یعنی حکومت کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگایا، جمہوریت پسندوں اور دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والے انتخاب کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی فوج اور قوت کے ذریعے حکومت کو الٹنے کا درس دیتے رہے۔
صدام حسین کو ہٹا لیا مگر عراق میں کیا پایا۔ نیٹو ممالک نے صدر بش کے فلسفے کو اپنایا اور ان میں سب سے بڑھ کر ٹونی بلیئر نے جو اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ محض بش کے فیصلے پر کان دھرے اور عمل شروع کر دیا۔ بمباری کی، دس لاکھ افراد قتل ہوئے، لاکھوں زخمی ہوئے۔ مگر جنگ میں شرکت کے لیے اسمبلی کا نہ اجلاس بلایا گیا، بغیر سوچے سمجھے ٹونی بلیئر نے جنگ میں شرکت کی۔ دنیا کے عوام کا ردعمل کچھ اور تھا اور مغربی حکومتوں کا ردعمل کچھ اور۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں صدام کو ہٹا کر وہاں ایک ایسی حکومت کی پرورش کی جو اسلام کا نام لے کر اسلام کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔
سفاکی، بے رحمی، بربریت، ہتھیار گرا دینے والے کو قتل کرنا، غیر مسلموں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ، اسوۂ حسنہ سے غداری۔ اتنی بربریت بڑھی کہ بعد میں خود ہی ان کے خلاف پروپیگنڈے میں شریک ہوئے اور ظاہری طور پر ان پر بمباری کی اور حملہ آور ہوئے۔ مگر جتنا وقت گزرتا گیا یہ عجیب مزاحمتی عمل تھا جس قدر دوا کی اتنا مرض بڑھتا گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس خلا میں روس نے جگہ لے لی اور اپنی کارروائی شروع کر دی اب امریکا برطانیہ کو پردہ پوشی کی بھی مہلت نہ ملی۔ 7 لاکھ مہاجرین نیٹو ممالک میں داخل ہو چکے مزید چلے آ رہے ہیں۔ تقریباً 3 ہزار راستے میں ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے اس جنگ کے نتائج یہ نکلے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان سے لوگ چل پڑے۔
ان میں اکثریت عراق، شام اور لیبیا کی ہے جب یہ منظر دیکھا گیا اور ٹونی بلیئر سے سی این این نے انٹرویو کیا، تو انھوں نے عراق جنگ پر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا کہ وہ غلط تھے اور آج جو عراق، شام میں کشت و خون ہو رہا ہے اس کی وجہ عدم استحکام ہے اور انتظامی خلا پیدا ہو گیا جس سے آئی ایس آئی داعش کی جگہ بنی اور یہ بتانا بھول گئے کہ ہم نے ہی ان کی پرورش کی تھی، تا کہ اسلام کا امن و سلامتی کا چہرہ مسخ کر کے دنیا کو دکھایا جائے۔ ہائے یہ زود پشیمانی 13 برس بعد پیدا ہوئی، جب لاکھوں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ چکے۔ آر ٹی نیوز (RT) نے اپنے تبصرے میں کہا کہ جنگی جرائم کا یہ اعتراف ہے اور کیا کہنا مرزا اسد اللہ خان غالب کا جنھوں نے ایسے ویسے مجرموں کے لیے اپنی جوانی یعنی 1850ء میں ایک خیالی کٹہرا بنایا تھا جس میں ایسے مجرموں کو وہ سزا سناتے تھے اس سزا کے دو مصرع ملاحظہ ہوں:
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا