مذہبی اور نیشنلسٹ پاکستان کا فرق پہلاحصہ
وطنِ عزیزکے اندرونی حالات بے شک گمبھیر صورتحال سے دوچار ہیں، جس پر تمام محب وطن پاکستانی سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔
وطنِ عزیزکے اندرونی حالات بے شک گمبھیر صورتحال سے دوچار ہیں، جس پر تمام محب وطن پاکستانی سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔
ان سب میں قابلِ ذکر وہ افراد اور خاندان ہیں جنہوں نے خود اور ان کے بعد ان کی نسلوں نے بھی ہجرت کا عذاب جھیلا ہے،کیونکہ انھوں نے اپنے گھر بار ،مال ملکیت ، عزیز رشتے داروں سمیت پیچھے رہ جانے والے ان کے صدیوں کے یادگار لمحات ، بچپن کے محبوب ترین دوست یعنی گھروں کے صحن،ان صحنوں اوردرودیوار میں بسے ان کے آباؤاجداد کا پیار، صحن میں کھڑی ماں کی وہ مسکراہٹ جو اپنے بچوں کو خیروعافیت سے گھر میں داخل ہوتے وقت ان کے پر نورچہروں پر ابھرتی تھی، وہ سب چھوڑ چھاڑکرآنے والے خاندانوں نے'' مملکتِ خداداد'' کو صرف ایک نوزائیدہ مملکت کی اسے بجائے خالقِ کائنات کا عملی مظہر سمجھا تھا۔اسی نظریے کی خاطر انھوں نے وہ عظیم قربانیاں دیں جن کے نتیجے میں ببول کے بے وقعت کانٹے بھی تاریخی اہمیت کے حامل بن گئے۔
بحیثیت قوم اپنے عہد طفلی میں ہی ان کے اس عظیم جذبے کے عملی اظہارکے اس اندازکی دوسری کوئی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم کی صدیوں پر محیط تاریخ میں بھی رقم نہیں کی جاسکی ہے۔لیکن وہ'' مملکت خداداد '' میں اپنی آمد کے پہلے دن سے ہی اجنبیوں کی طرح بڑے شہروں خصوصی طور پر کراچی کے پسماندہ اور غربت زدہ علا قو ں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے آئے ہیں ۔جن میں ایسے ایسے مطہر اور پاکیزہ خاندان آج بھی موجود ہیں، جن کے اکثر افراد جلیل القدر اور صاحب عمل حضرات ہیں۔جن کے گھروں کی پاکیزگی اور طہارت کی گواہی خود ان کے محلے دار بھی دیتے ہیں ۔
اس لیے ملک کے موجودہ حالات پر''نظریہ پاکستان ''سے روحانی تعلق رکھنے والے خاندانوں کے افرادکی اضطرابی کیفیت ونظریاتی بے چینی کوحقیقی معنوں میں سمجھنا تو بہت ہی مشکل ہے، لیکن اس سے بھی مشکل کام ہے، ہمار ے موجودہ مسائل کے حل کے لیے مقتدرحلقوں کی جانب سے ملی تقاضوں سے ہم آہنگ مؤثر ومخلصانہ اقدامات کی امید رکھنا ہے ۔
اس امید کے معدوم ہوتے ہوئے امکانات پر ہمارے بعض اہلِ دانش حضرات تو یہاں تک فرماتے آئے ہیں کہ ہمیں''کسی اورکے مسائل'' میں پریشان رہنے اوراس کے نتیجے میں مسلسل (مادی طور پر)نقصان اٹھاتے رہنے کی پالیسی ترک کردینی چاہیے اور صرف اپنی ''قومی ترقی'' پر توجہ دینی چاہیے، جس سے ''پاکستانیت ''کا اقوامِ عالم کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شمارکیا جانا نہ صرف ممکن بن سکے بلکہ اس طرز عمل سے اقوام عالم میں عملی طور پر پاکستان کو جمہوریت پسند،لبرل اور وسیع النظر ملک قراردلوایا جاسکے۔
المختصر ان دانشورحضرات کا'' مملکتِ خداداد'' سے محبت اور روحانی تعلق کا پیمانہ تو خود ان کے اپنے پاس ہی ہے اور ہمیں ان کی عقل کی طرح ان کے اس پیمانے پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔کیونکہ انھوں نے آج تک تصویرکو اس کے الٹے اور ادھورے رخ سے دیکھا ہے،جس کے نتیجے کے طور پر ان کے دلائل کی روشنی میں یہ نکتہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ان حضرات کے دلوں میں وطن عزیزسے محبت کا جو جذبہ مؤجزن ہے بس وہ ''مملکتِ خداداد'' کے تصورکی بجائے مغربی جمہوریت اور'' مغربی نیشنلزم کے رنگ میں رنگے پاکستان ''کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، جب کہ اپنی بات کی صداقت اور استدلال میں یہ قابل صد احترام حضرات ریاست مدینہ کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کی حکمت عملی کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں۔اپنی اس سوچ کے حق میں وہ ٹھوس مادی و معروضی حالات کو جواز بناتے ہیں۔
یہ حضرات صلح حدیبیہ کا حوالہ دیکر استعماری قوتوں کے بیجا مطالبات ماننے پر زور دیتے آئے ہیں اور اسے ''استحکامِ جدید نیشنلسٹ پاکستان ''کی ضمانت قرار دیتے رہتے ہیں۔حالانکہ یہ حضرات جانتے ہیں کہ :1مکہ میں رسول اللہ ﷺ کا مشن تھا''فلیعبدورب ھٰذا البیت'' جس پر حضورﷺ نے کوئی کمٹمنٹ نہیں کی۔
اس دعوت کو نہ کوئی خوف تھا نہ کسی انسان کی حمایت کی محتاجی لاحق تھی ۔اسی لیے پہلے پہل پیغام ہی سرداران قریش کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔حضور ﷺ نے برملا طور پر ایک ہاتھ پر شمس اور دوسرے پر قمر ملنے کے عوض بھی اس دعوت پر کوئی کمٹمنٹ گوارا نہیں کیا۔
جنگ بدر سے قبل حضور اکرم ﷺ نے مدینہ کے اوس وخزرج قبائل کے خونی جھگڑے کا تصفیہ کرواکے انھیں بھائی بھائی بنایا تو یہودیوں نے خود ہی سات نکاتی معاہدے کے ساتویں نکتے میں حضوراکرم ﷺ کو مسلم و یہود کا ''مشترکہ منصف ''بھی تسلیم کیا تھا۔:2جنگ بدرکے بعد تین مراحل میں یہودیوں کے تین قبیلوں بنوقینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ۔اس کے بعد فتح مبین یعنی صلح حدیبیہ ہوئی۔آپ اس صلح کے کتنے ہی سیاسی فائدے گنواسکتے ہیں۔
اس کا انحصار آپ کی دانش پر ہے،لیکن یہ تو بالکل سامنے کی روشن حقیقت ہے کہ'' فلیعبدو رب ھٰذاالبیت'' کی دعوت دینے والے اپنے پیش کردہ نظریے سے متصادم بتوں سے بھرے کعبہ کاکس طرح طواف کرتے؟ یہ تو ربِ کعبہ کو بھی گوارا نہ ہوتا اس لیے قدرت نے قریش کے دماغ پلٹ دیے ۔
اگر قریش مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے نہ روکتے اور مسلمانوں کو بتوں سے بھرے کعبے کا طواف کرنے دیتے تو یہ دعوت کی روح کے خلاف تھا ۔ کعبتہ اللہ سے بت نکالنے کا کوئی جوازنہ رہتا۔''نیشنلسٹ پاکستان''بھی لات، منات اور عزہ (سیکولرنیشنلزم،کمیونزم اور جمہوریت) سے''کمپرومائیز '' جیسا ہی ہے۔
استعماری قوتیں چاہے کتنے ہی سخت مطالبات منوالیں،معاہدے کروالیں لیکن ''لاینال عہد الظالمین''اور ''فلیعبدو رب ھٰذا البیت'' کی دعوت(یعنی بیت المقدس اور خانہ کعبہ کی مشترکہ تہذیب کی وارثی) لے کراللہ عزوجل کی راہ میں ہجرت کرنے والے کبھی معاشی، سیاسی وافرادی ناتوانی کی وجہ سے ناکام نہیں رہتے۔چاہے وہ ہجرت کعبہ سے بت نکالنے کے مطالبے کی وجہ سے کی جانیوالی ہجرت ہو، یزید کی بیعت نہ کرنے کے مسئلے پرکربلا کی جانب گامزن قافلے کی ہجرت ہو یا پھر''مملکت خداداد'' کی جانب کی جانیوالی ہجرت ہی کیوں نہ ہو۔ (جاری ہے)
ان سب میں قابلِ ذکر وہ افراد اور خاندان ہیں جنہوں نے خود اور ان کے بعد ان کی نسلوں نے بھی ہجرت کا عذاب جھیلا ہے،کیونکہ انھوں نے اپنے گھر بار ،مال ملکیت ، عزیز رشتے داروں سمیت پیچھے رہ جانے والے ان کے صدیوں کے یادگار لمحات ، بچپن کے محبوب ترین دوست یعنی گھروں کے صحن،ان صحنوں اوردرودیوار میں بسے ان کے آباؤاجداد کا پیار، صحن میں کھڑی ماں کی وہ مسکراہٹ جو اپنے بچوں کو خیروعافیت سے گھر میں داخل ہوتے وقت ان کے پر نورچہروں پر ابھرتی تھی، وہ سب چھوڑ چھاڑکرآنے والے خاندانوں نے'' مملکتِ خداداد'' کو صرف ایک نوزائیدہ مملکت کی اسے بجائے خالقِ کائنات کا عملی مظہر سمجھا تھا۔اسی نظریے کی خاطر انھوں نے وہ عظیم قربانیاں دیں جن کے نتیجے میں ببول کے بے وقعت کانٹے بھی تاریخی اہمیت کے حامل بن گئے۔
بحیثیت قوم اپنے عہد طفلی میں ہی ان کے اس عظیم جذبے کے عملی اظہارکے اس اندازکی دوسری کوئی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم کی صدیوں پر محیط تاریخ میں بھی رقم نہیں کی جاسکی ہے۔لیکن وہ'' مملکت خداداد '' میں اپنی آمد کے پہلے دن سے ہی اجنبیوں کی طرح بڑے شہروں خصوصی طور پر کراچی کے پسماندہ اور غربت زدہ علا قو ں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے آئے ہیں ۔جن میں ایسے ایسے مطہر اور پاکیزہ خاندان آج بھی موجود ہیں، جن کے اکثر افراد جلیل القدر اور صاحب عمل حضرات ہیں۔جن کے گھروں کی پاکیزگی اور طہارت کی گواہی خود ان کے محلے دار بھی دیتے ہیں ۔
اس لیے ملک کے موجودہ حالات پر''نظریہ پاکستان ''سے روحانی تعلق رکھنے والے خاندانوں کے افرادکی اضطرابی کیفیت ونظریاتی بے چینی کوحقیقی معنوں میں سمجھنا تو بہت ہی مشکل ہے، لیکن اس سے بھی مشکل کام ہے، ہمار ے موجودہ مسائل کے حل کے لیے مقتدرحلقوں کی جانب سے ملی تقاضوں سے ہم آہنگ مؤثر ومخلصانہ اقدامات کی امید رکھنا ہے ۔
اس امید کے معدوم ہوتے ہوئے امکانات پر ہمارے بعض اہلِ دانش حضرات تو یہاں تک فرماتے آئے ہیں کہ ہمیں''کسی اورکے مسائل'' میں پریشان رہنے اوراس کے نتیجے میں مسلسل (مادی طور پر)نقصان اٹھاتے رہنے کی پالیسی ترک کردینی چاہیے اور صرف اپنی ''قومی ترقی'' پر توجہ دینی چاہیے، جس سے ''پاکستانیت ''کا اقوامِ عالم کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شمارکیا جانا نہ صرف ممکن بن سکے بلکہ اس طرز عمل سے اقوام عالم میں عملی طور پر پاکستان کو جمہوریت پسند،لبرل اور وسیع النظر ملک قراردلوایا جاسکے۔
المختصر ان دانشورحضرات کا'' مملکتِ خداداد'' سے محبت اور روحانی تعلق کا پیمانہ تو خود ان کے اپنے پاس ہی ہے اور ہمیں ان کی عقل کی طرح ان کے اس پیمانے پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔کیونکہ انھوں نے آج تک تصویرکو اس کے الٹے اور ادھورے رخ سے دیکھا ہے،جس کے نتیجے کے طور پر ان کے دلائل کی روشنی میں یہ نکتہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ان حضرات کے دلوں میں وطن عزیزسے محبت کا جو جذبہ مؤجزن ہے بس وہ ''مملکتِ خداداد'' کے تصورکی بجائے مغربی جمہوریت اور'' مغربی نیشنلزم کے رنگ میں رنگے پاکستان ''کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، جب کہ اپنی بات کی صداقت اور استدلال میں یہ قابل صد احترام حضرات ریاست مدینہ کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کی حکمت عملی کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں۔اپنی اس سوچ کے حق میں وہ ٹھوس مادی و معروضی حالات کو جواز بناتے ہیں۔
یہ حضرات صلح حدیبیہ کا حوالہ دیکر استعماری قوتوں کے بیجا مطالبات ماننے پر زور دیتے آئے ہیں اور اسے ''استحکامِ جدید نیشنلسٹ پاکستان ''کی ضمانت قرار دیتے رہتے ہیں۔حالانکہ یہ حضرات جانتے ہیں کہ :1مکہ میں رسول اللہ ﷺ کا مشن تھا''فلیعبدورب ھٰذا البیت'' جس پر حضورﷺ نے کوئی کمٹمنٹ نہیں کی۔
اس دعوت کو نہ کوئی خوف تھا نہ کسی انسان کی حمایت کی محتاجی لاحق تھی ۔اسی لیے پہلے پہل پیغام ہی سرداران قریش کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔حضور ﷺ نے برملا طور پر ایک ہاتھ پر شمس اور دوسرے پر قمر ملنے کے عوض بھی اس دعوت پر کوئی کمٹمنٹ گوارا نہیں کیا۔
جنگ بدر سے قبل حضور اکرم ﷺ نے مدینہ کے اوس وخزرج قبائل کے خونی جھگڑے کا تصفیہ کرواکے انھیں بھائی بھائی بنایا تو یہودیوں نے خود ہی سات نکاتی معاہدے کے ساتویں نکتے میں حضوراکرم ﷺ کو مسلم و یہود کا ''مشترکہ منصف ''بھی تسلیم کیا تھا۔:2جنگ بدرکے بعد تین مراحل میں یہودیوں کے تین قبیلوں بنوقینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ۔اس کے بعد فتح مبین یعنی صلح حدیبیہ ہوئی۔آپ اس صلح کے کتنے ہی سیاسی فائدے گنواسکتے ہیں۔
اس کا انحصار آپ کی دانش پر ہے،لیکن یہ تو بالکل سامنے کی روشن حقیقت ہے کہ'' فلیعبدو رب ھٰذاالبیت'' کی دعوت دینے والے اپنے پیش کردہ نظریے سے متصادم بتوں سے بھرے کعبہ کاکس طرح طواف کرتے؟ یہ تو ربِ کعبہ کو بھی گوارا نہ ہوتا اس لیے قدرت نے قریش کے دماغ پلٹ دیے ۔
اگر قریش مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے نہ روکتے اور مسلمانوں کو بتوں سے بھرے کعبے کا طواف کرنے دیتے تو یہ دعوت کی روح کے خلاف تھا ۔ کعبتہ اللہ سے بت نکالنے کا کوئی جوازنہ رہتا۔''نیشنلسٹ پاکستان''بھی لات، منات اور عزہ (سیکولرنیشنلزم،کمیونزم اور جمہوریت) سے''کمپرومائیز '' جیسا ہی ہے۔
استعماری قوتیں چاہے کتنے ہی سخت مطالبات منوالیں،معاہدے کروالیں لیکن ''لاینال عہد الظالمین''اور ''فلیعبدو رب ھٰذا البیت'' کی دعوت(یعنی بیت المقدس اور خانہ کعبہ کی مشترکہ تہذیب کی وارثی) لے کراللہ عزوجل کی راہ میں ہجرت کرنے والے کبھی معاشی، سیاسی وافرادی ناتوانی کی وجہ سے ناکام نہیں رہتے۔چاہے وہ ہجرت کعبہ سے بت نکالنے کے مطالبے کی وجہ سے کی جانیوالی ہجرت ہو، یزید کی بیعت نہ کرنے کے مسئلے پرکربلا کی جانب گامزن قافلے کی ہجرت ہو یا پھر''مملکت خداداد'' کی جانب کی جانیوالی ہجرت ہی کیوں نہ ہو۔ (جاری ہے)