غازی علم دین شہید کی یاد میں
کسی بھی سماج میں ہر ایک شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ جس مذہب کی چاہے پیروی کرے
COLOMBO:
کسی بھی سماج میں ہر ایک شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ جس مذہب کی چاہے پیروی کرے اور اگر کوئی شہری کسی بھی مذہب کی پیروی نہ کرنا چاہے پھر بھی اس شہری کو پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی مخصوص مذہب کی لازمی پیروی کرے کیونکہ مذہب خالصتاً خالق و بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔
یوں بھی اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بڑی واضح ہیں کہ دین کے معاملے میں کسی پرکوئی جبر نہیں کیا جاسکتا جب کہ کسی بھی سماج میں مذہبی رواداری قائم رکھنے کے لیے یہ بھی لازمی شرط ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکار کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنے والوں کے عقائد پر تنقید کی شکل میں حملہ آور نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگرکوئی اس قسم کی شرپسندی کرے گا تو وہ شخص یا جماعت گویا یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اس سماج میں فساد برپا ہو، چنانچہ اسی قسم کی شرپسندی کی کوشش 1929 میں کتابوں کے ایک تاجر راج پال جس کا اسپتال روڈ لاہور میں کتابوں کا اپنا پرنٹنگ پریس تھا، نے کی۔
ایک دل آزارکتاب چھاپی اور تقسیم کروادی۔ اس کتاب میں راج پال نے نبی برحق رسول عربی آقائے دو جہاںؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد چھاپا۔ اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں راج پال کو برٹش سرکار کی مکمل سرپرستی حاصل تھی کیونکہ برٹش سرکارکی یہ حکمت عملی تھی کہ لڑاؤ اور حکومت کرو، کیونکہ اگر برصغیر کے لوگ اپنے اندر یکجہتی برقرار رکھتے تو پھر انگریز سرکار کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ایک طویل عرصے تک برصغیر پر اپنا تسلط برقرار رکھ پاتی۔ چنانچہ لازم تھا کہ برصغیر میں آباد قومیتوں کے درمیان فسادات ہوتے رہتے تاکہ انگریز سرکار کا اقتدار طوالت پکڑتا رہے یہ کتاب بھی ہندو مسلم فسادات کروانے کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
یہ کتاب جس کا نام لکھنا سو فیصد نامناسب ہوگا کی اشاعت کے بعد گویا مسلمان تڑپ اٹھے اور پورے ہندوستان میں سراپا احتجاج بن گئے۔ مسلمانوں نے دو مطالبات برٹش سرکار کے سامنے رکھے کہ اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی عائد کی جائے، اس کتاب کی تمام کاپیاں ضبط کی جائیں اور ملعون راج پال کو ایسی دل آزار کتاب کی اشاعت پر قرار واقعی سزا دی جائے۔ البتہ برٹش سرکار نے مسلمانوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنا اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ورزی ہے، چنانچہ مسلمانوں کے دونوں مطالبات جوکہ سو فیصد جائز تھے مسترد کردیے گئے۔
برٹش سرکارکے ان اقدامات نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا اور اب کیفیت یہ تھی کہ برصغیر کا ایک ایک مسلمان ناموس رسالتؐ پر کٹ مرنے کو آمادہ نظر آتا تھا۔ چند مسلم نوجوانوں کی یہ انفرادی کوشش تھی کہ راج پال کو واصل جہنم کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاہور کے ایک نوجوان خدابخش کا نام بھی سامنے آتا ہے جس نے راج پال کو قتل کرنے کی بھرپورکوشش کی مگر راج پال کے گرد انگریزکا عطا کردہ حفاظتی حصار نہ توڑ سکا اور شناخت نہ ہونے کے باعث راج پال کی بجائے اس کے پاس بیٹھے ایک اور شخص کو قتل کرکے گرفتار ہوگیا اور اس امر پرکف افسوس ملتا رہا کہ راج پال اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔
البتہ لاہور ہی کے ایک اور نوجوان علم دین کے حصے میں یہ سعادت آئی کہ اس نے 6 اپریل 1929 کو بدبخت راج پال کو قتل کر کے واصل جہنم کیا اورگرفتار ہوگیا۔ یہ علم دین کون تھا تھوڑی اس بارے میں بھی جان کاری حاصل کرتے ہیں۔ علم دین چار دسمبر 1908 کو سریانوالہ بازارکوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوا۔ علم دین کا بچپن عام بچوں سے قدرے مختلف تھا، کیونکہ نہ تو وہ عام بچوں کی طرح شرارتیں کرتا اور نہ ہی اسے کھیل کود سے کوئی خاص لگاؤ تھا بلکہ ہمہ وقت اس پر ایک روحانی وجد کی کیفیت طاری رہتی گویا قدرت کا یہ اٹل فیصلہ ہوچکا تھا کہ علم دین سے کوئی بہت ہی اہم کام لیا جائے گا۔
اس کا باپ بڑھئی کا کام کرتا تھا چنانچہ عہد شباب میں قدم رکھتے ہی علم دین نے کام کے سلسلے میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ بڑھئی کا کام کرنے والوں کو پنجاب میں ترکھان کہا جاتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ جب علم دین نے راج کو قتل کیا تو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ''اسی سوچدے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا ساڈے کولوں بازی لے گیا'' مطلب یہ کہ ہم سوچتے ہی رہے مگر ترکھانوں کا لڑکا ہم پر بازی لے گیا۔
راج پال کے قتل نے انتہا پسند ہندوؤں پر جنونی کیفیت طاری کردی چنانچہ ان انتہا پسند ہندوؤں نے دولت کے انبار لگا دیے کہ علم دین کو ہر صورت سزائے موت ہونی چاہیے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تمام ہندو شر پسند یا انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ اکثریت میں ہندو ایسے ہوتے ہیں جوکہ دوسرے کے مذہبی عقائدکا سو فیصد احترام کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان میں آباد ہندو برادری ہے جوکہ ہندوستان میں ہندوؤں کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت پر جوکہ مسلمانوں پر روا رکھی جاتی ہے، سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔
بہرکیف گرفتاری کے بعد علم دین کے گھر والوں نے اس مقدمے کی پیروی کرنے سے دو ٹوک الفاظ میں منع کردیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ ایسا کرناعلم دین کو مقام شہادت پر فائز ہونے سے گویا روکنا ہوگا، یہ مقدمہ لاہور میں سیشن کورٹ میں چلا اور لاہور کے نامور وکیل فرخ حسین نے علم دین کی پیروی کی، مگر 22 مئی 1929 کو سیشن کورٹ کی جانب سے علم دین کو سزائے موت سنا دی گئی۔
سیشن کورٹ کے بعد یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا جہاں اس وقت کے محمد علی جناح تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کا لقب پانیوالے بانی پاکستان نے علم دین کی جانب سے مقدمے کی پیروی کی مگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرشادی لال نے تمام تر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اور تمام گواہان کی گواہی کو نظرانداز کرتے ہوئے سیشن کورٹ کے فیصلے کر برقرار رکھا۔
چنانچہ 31 اکتوبر 1929 کو علم دین کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سر شادی لال کے ایک متنازعہ فیصلے کی روشنی میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ مگر کیا علم دین مرگیا؟ یہ تصورکرنا بھی غلط ہوگا کیونکہ پھانسی کی سزا پانے کے بعد علم دین شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگیا اور آج 86 برس بعد بھی دنیا علم دین کو غازی علم دین شہید کے نام سے جانتی ہے ۔
شہادت کے وقت غازی علم دین شہید کی عمر مبارک فقط 20 برس 10 ماہ 26 یوم تھی تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں مذہبی رواداری کا پاس کرتے ہوئے کسی دوسرے کے مذہبی نظریات پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ جس طرح ہمیں اپنے مذہبی نظریات عزیز ہیں اسی طرح دوسروں کو بھی اپنے مذہبی نظریات عزیز ہیں۔ مطلب یہ کہ بقول علامہ اشرف علی تھانوی کہ اپنا عقیدہ چھوڑو مت دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت۔
کسی بھی سماج میں ہر ایک شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ جس مذہب کی چاہے پیروی کرے اور اگر کوئی شہری کسی بھی مذہب کی پیروی نہ کرنا چاہے پھر بھی اس شہری کو پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی مخصوص مذہب کی لازمی پیروی کرے کیونکہ مذہب خالصتاً خالق و بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔
یوں بھی اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بڑی واضح ہیں کہ دین کے معاملے میں کسی پرکوئی جبر نہیں کیا جاسکتا جب کہ کسی بھی سماج میں مذہبی رواداری قائم رکھنے کے لیے یہ بھی لازمی شرط ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکار کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنے والوں کے عقائد پر تنقید کی شکل میں حملہ آور نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگرکوئی اس قسم کی شرپسندی کرے گا تو وہ شخص یا جماعت گویا یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اس سماج میں فساد برپا ہو، چنانچہ اسی قسم کی شرپسندی کی کوشش 1929 میں کتابوں کے ایک تاجر راج پال جس کا اسپتال روڈ لاہور میں کتابوں کا اپنا پرنٹنگ پریس تھا، نے کی۔
ایک دل آزارکتاب چھاپی اور تقسیم کروادی۔ اس کتاب میں راج پال نے نبی برحق رسول عربی آقائے دو جہاںؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد چھاپا۔ اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں راج پال کو برٹش سرکار کی مکمل سرپرستی حاصل تھی کیونکہ برٹش سرکارکی یہ حکمت عملی تھی کہ لڑاؤ اور حکومت کرو، کیونکہ اگر برصغیر کے لوگ اپنے اندر یکجہتی برقرار رکھتے تو پھر انگریز سرکار کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ایک طویل عرصے تک برصغیر پر اپنا تسلط برقرار رکھ پاتی۔ چنانچہ لازم تھا کہ برصغیر میں آباد قومیتوں کے درمیان فسادات ہوتے رہتے تاکہ انگریز سرکار کا اقتدار طوالت پکڑتا رہے یہ کتاب بھی ہندو مسلم فسادات کروانے کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
یہ کتاب جس کا نام لکھنا سو فیصد نامناسب ہوگا کی اشاعت کے بعد گویا مسلمان تڑپ اٹھے اور پورے ہندوستان میں سراپا احتجاج بن گئے۔ مسلمانوں نے دو مطالبات برٹش سرکار کے سامنے رکھے کہ اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی عائد کی جائے، اس کتاب کی تمام کاپیاں ضبط کی جائیں اور ملعون راج پال کو ایسی دل آزار کتاب کی اشاعت پر قرار واقعی سزا دی جائے۔ البتہ برٹش سرکار نے مسلمانوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنا اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ورزی ہے، چنانچہ مسلمانوں کے دونوں مطالبات جوکہ سو فیصد جائز تھے مسترد کردیے گئے۔
برٹش سرکارکے ان اقدامات نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا اور اب کیفیت یہ تھی کہ برصغیر کا ایک ایک مسلمان ناموس رسالتؐ پر کٹ مرنے کو آمادہ نظر آتا تھا۔ چند مسلم نوجوانوں کی یہ انفرادی کوشش تھی کہ راج پال کو واصل جہنم کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاہور کے ایک نوجوان خدابخش کا نام بھی سامنے آتا ہے جس نے راج پال کو قتل کرنے کی بھرپورکوشش کی مگر راج پال کے گرد انگریزکا عطا کردہ حفاظتی حصار نہ توڑ سکا اور شناخت نہ ہونے کے باعث راج پال کی بجائے اس کے پاس بیٹھے ایک اور شخص کو قتل کرکے گرفتار ہوگیا اور اس امر پرکف افسوس ملتا رہا کہ راج پال اس کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔
البتہ لاہور ہی کے ایک اور نوجوان علم دین کے حصے میں یہ سعادت آئی کہ اس نے 6 اپریل 1929 کو بدبخت راج پال کو قتل کر کے واصل جہنم کیا اورگرفتار ہوگیا۔ یہ علم دین کون تھا تھوڑی اس بارے میں بھی جان کاری حاصل کرتے ہیں۔ علم دین چار دسمبر 1908 کو سریانوالہ بازارکوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوا۔ علم دین کا بچپن عام بچوں سے قدرے مختلف تھا، کیونکہ نہ تو وہ عام بچوں کی طرح شرارتیں کرتا اور نہ ہی اسے کھیل کود سے کوئی خاص لگاؤ تھا بلکہ ہمہ وقت اس پر ایک روحانی وجد کی کیفیت طاری رہتی گویا قدرت کا یہ اٹل فیصلہ ہوچکا تھا کہ علم دین سے کوئی بہت ہی اہم کام لیا جائے گا۔
اس کا باپ بڑھئی کا کام کرتا تھا چنانچہ عہد شباب میں قدم رکھتے ہی علم دین نے کام کے سلسلے میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ بڑھئی کا کام کرنے والوں کو پنجاب میں ترکھان کہا جاتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ جب علم دین نے راج کو قتل کیا تو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ''اسی سوچدے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا ساڈے کولوں بازی لے گیا'' مطلب یہ کہ ہم سوچتے ہی رہے مگر ترکھانوں کا لڑکا ہم پر بازی لے گیا۔
راج پال کے قتل نے انتہا پسند ہندوؤں پر جنونی کیفیت طاری کردی چنانچہ ان انتہا پسند ہندوؤں نے دولت کے انبار لگا دیے کہ علم دین کو ہر صورت سزائے موت ہونی چاہیے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تمام ہندو شر پسند یا انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ اکثریت میں ہندو ایسے ہوتے ہیں جوکہ دوسرے کے مذہبی عقائدکا سو فیصد احترام کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان میں آباد ہندو برادری ہے جوکہ ہندوستان میں ہندوؤں کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت پر جوکہ مسلمانوں پر روا رکھی جاتی ہے، سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔
بہرکیف گرفتاری کے بعد علم دین کے گھر والوں نے اس مقدمے کی پیروی کرنے سے دو ٹوک الفاظ میں منع کردیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ ایسا کرناعلم دین کو مقام شہادت پر فائز ہونے سے گویا روکنا ہوگا، یہ مقدمہ لاہور میں سیشن کورٹ میں چلا اور لاہور کے نامور وکیل فرخ حسین نے علم دین کی پیروی کی، مگر 22 مئی 1929 کو سیشن کورٹ کی جانب سے علم دین کو سزائے موت سنا دی گئی۔
سیشن کورٹ کے بعد یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا جہاں اس وقت کے محمد علی جناح تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کا لقب پانیوالے بانی پاکستان نے علم دین کی جانب سے مقدمے کی پیروی کی مگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرشادی لال نے تمام تر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اور تمام گواہان کی گواہی کو نظرانداز کرتے ہوئے سیشن کورٹ کے فیصلے کر برقرار رکھا۔
چنانچہ 31 اکتوبر 1929 کو علم دین کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سر شادی لال کے ایک متنازعہ فیصلے کی روشنی میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ مگر کیا علم دین مرگیا؟ یہ تصورکرنا بھی غلط ہوگا کیونکہ پھانسی کی سزا پانے کے بعد علم دین شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگیا اور آج 86 برس بعد بھی دنیا علم دین کو غازی علم دین شہید کے نام سے جانتی ہے ۔
شہادت کے وقت غازی علم دین شہید کی عمر مبارک فقط 20 برس 10 ماہ 26 یوم تھی تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں مذہبی رواداری کا پاس کرتے ہوئے کسی دوسرے کے مذہبی نظریات پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ جس طرح ہمیں اپنے مذہبی نظریات عزیز ہیں اسی طرح دوسروں کو بھی اپنے مذہبی نظریات عزیز ہیں۔ مطلب یہ کہ بقول علامہ اشرف علی تھانوی کہ اپنا عقیدہ چھوڑو مت دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت۔