ترقی کابحری جہاز
زلزلہ آیااورچلاگیا۔چندسو لوگ خاموشی سے جان سے گزرگئے۔سیکڑوں گھر اجڑگئے۔
KARACHI:
زلزلہ آیااورچلاگیا۔چندسو لوگ خاموشی سے جان سے گزرگئے۔سیکڑوں گھر اجڑگئے۔مگروہی روایت، ادنیٰ درجہ کے بیانات،کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے، زخموں پرنمک چھڑکنے والے پُرتعیش دورے اور بازاری نعرے۔ 1947ء سے لے کرآج تک کے اخباری تراشے اکھٹے کرلیجئے۔ ہرقدرتی آفت کے بعد ایک ہی طرح کے بیانات کاسلسلہ جاری ہے اور رہے گا۔
سکے کا دوسرارخ یہ ہے کہ کوئی بھی ان خوشنما بیانات پرغورنہیں کرتا۔ان میں سچ تلاش نہیں کرتا۔ سب کو اصلیت کا پتہ ہے۔ایسی ہی ایک قدرتی آفت ماضی کے مشرقی پاکستان میں آئی تھی۔ایک سمندری طوفان جس میں تین لاکھ پاکستانی مارے گئے۔حکومت توخیرکیاکرسکتی تھی۔ مگر اس آبی آفت نے ایک نوجوان کو تبدیل کردیا۔ اس نے سیاسی،سماجی یااقتصادی عصبیت سے بالاتر ہوکر ایساکام شروع کیا کہ آج وہ اپنے ملک یعنی بنگلہ دیش کے لیے عزت کانشان ہے۔
فضل حسن عابد تقسیمِ برصغیرسے قبل،سلہٹ میں پیدا ہوا۔پاکستان کے وجودمیں آتے وقت،پبنا ضلع اسکول میں تھا۔عام سے کالج میں زیرِتعلیم رہا۔اٹھارہ برس کی عمر میں برطانیہ چلاگیا۔یونیورسٹی آف گلاسکومیں بحری جہاز بنانے کا مضمون پڑھنا شروع کردیا۔تھوڑے عرصے کے بعد اندازہ ہواکہ مضمون کے پڑھنے کاکوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔
لندن میں چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس میں داخلہ لے لیا۔ کورس بھی مکمل کرڈالا۔مگر اندرسے ایک عجیب آوازآرہی تھی کہ بحری جہازبنانے کی مانند، یہ ڈگری بھی اس کی منزل نہیں ہے۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیاکرے۔مشرقی پاکستان واپس آنے کے بعد،اس نے شیل(Shell Oil Company) میں کام کرناشروع کردیا۔محنت،دیانت داری اورخلوص نے ترقی کے تمام زینے،کھول دیے۔ کمپنی میں اپنے شعبہ کاسربراہ بن گیا۔اس کے اندرکی آواز اب بھی چین سے سونے نہیں دیتی تھی۔
اس اثناء یعنی1970ء میں مشرقی پاکستان میں بدترین سیلاب آیا۔لاکھوں لوگ مارے گئے۔کروڑوں لوگ بے گھرہوگئے۔مالی نقصان کاکوئی حساب ہی نہیں تھا۔ہرطرف بربادی ہی بربادی تھی۔اس سائیکلون سے عابد کوکوئی نقصان نہیں پہنچا۔مگربے یارومددگار،مجبوراوربے بس لوگوں کودیکھ کر عابد مکمل طورپرتبدیل ہوگیا۔ عابد نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر "ہیلپ" (Help)نام کی ایک تنظیم بنائی۔ سرمایہ اکھٹاکرنے کے لیے اس نے کسی سے مددنہیں مانگی۔عابدکے پاس لندن میں ایک چھوٹاسافلیٹ تھا۔ والدنے اسے خرید کر دیا تھا۔یہ واحدجمع پونجی یاجائیداد تھی۔عابدنے لندن کافلیٹ فروخت کردیا۔جتنے پیسے وصول ہوئے ہیلپ تنظیم کودے ڈالے۔اس معمولی سرمایہ سے لوگوں کی مددکرنی شروع کردی۔
اس تگ ودو میں، عابد کو احساس ہواکہ وقتی وجزوی امداد سے لوگوں کوکچھ عرصے کے لیے تومطمئن رکھاجاسکتاہے مگراصل مسئلہ،غریب اوربے سہارالوگوں کواپنے پیروں پرکھڑا کرنا ہے۔ان کووہ تعلیم اور ہنر دیناہے،جس سے وہ غربت کے چنگل سے نکل سکیں۔ عابد پر یہ عقدہ کھل چکاتھاکہ اصل جرم "غربت" ہے۔ جب تک کوئی بھی مردوزن اس جرم کے آسیب میں سانس لے رہاہے،وہ کسی نہ کسی عفریب کاغلام بنا رہے گا۔
اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حکومتیں تمام وسائل ہونے کے باوجوداتنامشکل مگراہم کام نہیں کرسکیں۔ عابد نے یہ بوجھ اٹھانے کافیصلہ کرلیا۔اس کام کی ابتداء "سلا" نامی علاقے سے کی گئی۔یہ مشرقی پاکستان کا غریب ترین علاقہ تھا۔ 1972ء میں،عابدنے اپنی این جی او براک (BRAC) بنائی۔تنظیم بہت قلیل سرمایہ سے قائم کی گئی۔اس ننھی منی تنظیم نے غریب کی حالت بہترکرنے کے لیے ہرکام کرنے کاعزم کر ڈالا۔ تعلیم، صحت، زراعت کے نئے طریقے،انسانی حقوق، قانونی مدد، چھوٹے چھوٹے قرضہ جات،یعنی ہردکھ کی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کی گئی۔چندافرادسے شروع ہونے والی این جی اوآج دنیا کی سب سے بڑی اورتواناتنظیم ہے۔یہ وہ فلاحی کام کررہی ہے جوہماری جیسی حکومتیں سوچ نہیں سکتیں۔
فضل حسن عابدنے ہر نئی ذہنی جہت تلاش کی جو غیرروائتی ہو۔سب سے اہم بات،سرمایہ کارکی فراہمی اور حصول تھا۔ایک مروجہ طریقہ توسہل تھا کہ کشکول لے کر کسی وزیراعلیٰ یاوزیراعظم کے درپرحاضری دیتااوران سے بھلائی کے نام پرسرکاری پیسہ وصول کرتا۔مگراس کی سوچ اورکردارنے یہ گوارانھیں کیا۔"براک"کے نام سے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کردیے۔جیسے شروع میں،کم مالیت کے چھاپہ خانے لگا دیے۔ان کی تمام آمدنی غریب لوگوں پرصَرف کی جاتی تھی۔
اپنے استعمال کے لیے کوئی لینڈکروزریابڑی گاڑی نہیں لی۔وہ عام لوگوں کی طرح سفرکرتارہا۔چھوٹے چھوٹے کاروبار اس کی ساکھ اورایمانداری کی بدولت پھلنے پھولنے لگے۔ عابد نے "براک"کے نام سے کارخانے، ہوٹل،پرائیویٹ یونیورسٹی، خریدوفروخت کے اسٹور، دکانیں اور متعدد کاروبارشروع کردیے۔
بنگلہ دیش کے ہرانسان کویقین تھاکہ تجارتی کارروائی کاواحدمقصد غریب لوگوں کی زندگی بدلناہے۔لہذا تمام کاروبار ترقی کرنے لگے۔خداکی رحمت بھی شامل حال ہوگئی۔ یونیورسٹی میں ہزاروں بچے اوربچیوں نے داخلہ لے لیا۔ان کی فیسوں سے ایک فنڈبھی قائم کردیاگیاجو طالبعلموں کی مددکرتاتھا۔ہوٹل کی یہ حالت ہوگئی کہ خالی کمرہ نہیں ملتا تھا۔ لوگ قطاروں میں لگ کر وہاں ٹھہرنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کرواتے تھے۔ کارخانوں سے بنی ہوئی مصنوعات پر "براک" کا مونوگرام ہوتا تھا اورہے۔وہ بھی ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ اس تنظیم کی ساکھ اور فضل حسن عابدکی دیانت کی بدولت،سرمایہ کی فراہمی کامسئلہ کافی حدتک ختم ہوگیا۔
عابدہرچیزسے بے نیازہوتاگیا۔اس کو پوری دنیا میں ہر سطح پرانعامات سے نوازاگیا۔مگروہ خودعام لوگوں کے لیے انعام بن گیا۔2010ء میں ملکہ برطانیہ نے اپنے محل میں آنے کی درخواست کی اور اسے "سر" کا خطاب دیا۔اس درویش شخص نے"سر"کاخطاب اپنی تنظیم میں کام کرنے والے تمام لوگوں سے منسوب کردیا۔2015ء یعنی،اسی سال،عابدکو"World Food Prize"سے نوازا گیا۔ یہ عزت،اس مردِعجیب نے اپنے ملک سے منسوب کر دی۔
آج تک عابدکواَن گنت انعامات اوراعزازی ڈگریاں مل چکی ہیں۔مگراب وہ ان تمام اعزازات کی سرحد کو عبور کر چکا ہے۔اس کی تنظیم"براک"میں ڈیڑھ لاکھ مرد اور خواتین کام کرتے ہیں۔صرف بارہ ماہ کی قلیل مدت میںاس تنظیم نے سلہٹ میں دوہزاراسکول قائم کیے ہیں۔ان تمام درسگاہوں میں صرف ایک کمرہ ہے۔اس میں انتہائی کم قیمت والامیڑیل استعمال کیاگیا ہے۔ ہر اسکول میں استاد بھی"براک"نے مہیاکیے ہیں۔یہ تمام اسکول،کچی آبادیوں میں کھولے گئے ہیں۔یہ سہولت، غریب کے بچوں تک علم کاوہ نورپہنچانے کاذریعہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی کو روشن کرسکیں اورآنے والے دنوں میں اپنے پیروں پرکھڑے ہوسکیں۔
آپ ان معجزات پرغورکیجیے،جواس بے لوث تنظیم نے برپاکیے ہیں۔1980ء میں بنگلہ دیش میں نومولود بچوں کے مرنے کی شرح دنیامیں سب سے زیادہ تھی۔ صرف دس برس کی قلیل مدت میں،وہ1980ء کے مقابلے میں صرف نصف رہ گئی ہے اوراس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔اسی طرح80ء کی دہائی میں بچوں میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح صرف دو فیصد تھی۔آج ملکی شرح سترفیصدپرجاچکی ہے۔جن علاقوں میں براک کام کرتی ہے،وہاں یہ شرح حکومتی اعدادوشمارسے بہت زیادہ ہے۔ان علاقوں میں یہ 97 فیصد ہے۔ عابد کہتا ہے کہ "ہم غریب لوگوں کومفلسی کی قیدسے آزادکروانا چاہتے ہیں،"۔
آج دنیاکا ہر ادارہ، فخر محسوس کرتاہے کہ فضل عابد،ان کے ادارے سے گرانٹ وصول کرلے۔ قرضے کاتوخیر،کوئی نام بھی نہیں لے سکتا۔کوفی عنان سے لے کربانکی مون عابد کے ساتھ دل جمعی سے کھڑے ہوئے ہیں۔دنیاکے حکمران، وزراء اعظم اور صدر، اس درویش شخص سے ہاتھ ملانا اعزازکی بات سمجھتے ہیں۔
براک اب دنیاکے کئی ممالک میں کام کررہی ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔مگرفضل حسین عابداب بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہے۔اب وہ پوری دنیاکی سطح پر تعلیم کے لیے ایک گلوبل فنڈقائم کررہاہے۔اس کی ایک اپیل پر پوری دنیا کے متمول افرادنے23بلین ڈالردینے کااعلان کر دیا ہے۔تھوڑے عرصے میں یہ سوبلین ڈالرسے بھی آگے چلا جائے گا۔اب وہ صحت کے شعبہ میں غریب لوگوں کی مددکررہا ہے۔ٹی بی، ملیریا اوردیگربیماریوں کے علاج میں مشغول ہے۔ اب تک صرف ٹی بی کے ایک کروڑ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔
ساٹھ سال پہلے فضل حسن عابد لندن میں آبی جہاز بنانے کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔اسے یہ مضمون ترک کرنا پڑا تھا۔مگرصرف چار دہائیوں کی قلیل مدت میں،اس ستترسالہ درویش نے انسانی ترقی کاوہ بحری جہاز بنا ڈالاہے،جسکی بدولت بنگلہ دیش کاغریب آدمی،قدرتی آفات کامقابلہ کرنے کے لیے مکمل طورپر تیار ہوچکا ہے۔ یہ پانی کا جہازایساہے،جسے کوئی طوفان نہیں ڈبو سکتا۔ مجھے اپنے ملک میں اسطرح کے جادوئی جہازکاشدت سے انتظارہے!
زلزلہ آیااورچلاگیا۔چندسو لوگ خاموشی سے جان سے گزرگئے۔سیکڑوں گھر اجڑگئے۔مگروہی روایت، ادنیٰ درجہ کے بیانات،کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے، زخموں پرنمک چھڑکنے والے پُرتعیش دورے اور بازاری نعرے۔ 1947ء سے لے کرآج تک کے اخباری تراشے اکھٹے کرلیجئے۔ ہرقدرتی آفت کے بعد ایک ہی طرح کے بیانات کاسلسلہ جاری ہے اور رہے گا۔
سکے کا دوسرارخ یہ ہے کہ کوئی بھی ان خوشنما بیانات پرغورنہیں کرتا۔ان میں سچ تلاش نہیں کرتا۔ سب کو اصلیت کا پتہ ہے۔ایسی ہی ایک قدرتی آفت ماضی کے مشرقی پاکستان میں آئی تھی۔ایک سمندری طوفان جس میں تین لاکھ پاکستانی مارے گئے۔حکومت توخیرکیاکرسکتی تھی۔ مگر اس آبی آفت نے ایک نوجوان کو تبدیل کردیا۔ اس نے سیاسی،سماجی یااقتصادی عصبیت سے بالاتر ہوکر ایساکام شروع کیا کہ آج وہ اپنے ملک یعنی بنگلہ دیش کے لیے عزت کانشان ہے۔
فضل حسن عابد تقسیمِ برصغیرسے قبل،سلہٹ میں پیدا ہوا۔پاکستان کے وجودمیں آتے وقت،پبنا ضلع اسکول میں تھا۔عام سے کالج میں زیرِتعلیم رہا۔اٹھارہ برس کی عمر میں برطانیہ چلاگیا۔یونیورسٹی آف گلاسکومیں بحری جہاز بنانے کا مضمون پڑھنا شروع کردیا۔تھوڑے عرصے کے بعد اندازہ ہواکہ مضمون کے پڑھنے کاکوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔
لندن میں چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس میں داخلہ لے لیا۔ کورس بھی مکمل کرڈالا۔مگر اندرسے ایک عجیب آوازآرہی تھی کہ بحری جہازبنانے کی مانند، یہ ڈگری بھی اس کی منزل نہیں ہے۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیاکرے۔مشرقی پاکستان واپس آنے کے بعد،اس نے شیل(Shell Oil Company) میں کام کرناشروع کردیا۔محنت،دیانت داری اورخلوص نے ترقی کے تمام زینے،کھول دیے۔ کمپنی میں اپنے شعبہ کاسربراہ بن گیا۔اس کے اندرکی آواز اب بھی چین سے سونے نہیں دیتی تھی۔
اس اثناء یعنی1970ء میں مشرقی پاکستان میں بدترین سیلاب آیا۔لاکھوں لوگ مارے گئے۔کروڑوں لوگ بے گھرہوگئے۔مالی نقصان کاکوئی حساب ہی نہیں تھا۔ہرطرف بربادی ہی بربادی تھی۔اس سائیکلون سے عابد کوکوئی نقصان نہیں پہنچا۔مگربے یارومددگار،مجبوراوربے بس لوگوں کودیکھ کر عابد مکمل طورپرتبدیل ہوگیا۔ عابد نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر "ہیلپ" (Help)نام کی ایک تنظیم بنائی۔ سرمایہ اکھٹاکرنے کے لیے اس نے کسی سے مددنہیں مانگی۔عابدکے پاس لندن میں ایک چھوٹاسافلیٹ تھا۔ والدنے اسے خرید کر دیا تھا۔یہ واحدجمع پونجی یاجائیداد تھی۔عابدنے لندن کافلیٹ فروخت کردیا۔جتنے پیسے وصول ہوئے ہیلپ تنظیم کودے ڈالے۔اس معمولی سرمایہ سے لوگوں کی مددکرنی شروع کردی۔
اس تگ ودو میں، عابد کو احساس ہواکہ وقتی وجزوی امداد سے لوگوں کوکچھ عرصے کے لیے تومطمئن رکھاجاسکتاہے مگراصل مسئلہ،غریب اوربے سہارالوگوں کواپنے پیروں پرکھڑا کرنا ہے۔ان کووہ تعلیم اور ہنر دیناہے،جس سے وہ غربت کے چنگل سے نکل سکیں۔ عابد پر یہ عقدہ کھل چکاتھاکہ اصل جرم "غربت" ہے۔ جب تک کوئی بھی مردوزن اس جرم کے آسیب میں سانس لے رہاہے،وہ کسی نہ کسی عفریب کاغلام بنا رہے گا۔
اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حکومتیں تمام وسائل ہونے کے باوجوداتنامشکل مگراہم کام نہیں کرسکیں۔ عابد نے یہ بوجھ اٹھانے کافیصلہ کرلیا۔اس کام کی ابتداء "سلا" نامی علاقے سے کی گئی۔یہ مشرقی پاکستان کا غریب ترین علاقہ تھا۔ 1972ء میں،عابدنے اپنی این جی او براک (BRAC) بنائی۔تنظیم بہت قلیل سرمایہ سے قائم کی گئی۔اس ننھی منی تنظیم نے غریب کی حالت بہترکرنے کے لیے ہرکام کرنے کاعزم کر ڈالا۔ تعلیم، صحت، زراعت کے نئے طریقے،انسانی حقوق، قانونی مدد، چھوٹے چھوٹے قرضہ جات،یعنی ہردکھ کی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کی گئی۔چندافرادسے شروع ہونے والی این جی اوآج دنیا کی سب سے بڑی اورتواناتنظیم ہے۔یہ وہ فلاحی کام کررہی ہے جوہماری جیسی حکومتیں سوچ نہیں سکتیں۔
فضل حسن عابدنے ہر نئی ذہنی جہت تلاش کی جو غیرروائتی ہو۔سب سے اہم بات،سرمایہ کارکی فراہمی اور حصول تھا۔ایک مروجہ طریقہ توسہل تھا کہ کشکول لے کر کسی وزیراعلیٰ یاوزیراعظم کے درپرحاضری دیتااوران سے بھلائی کے نام پرسرکاری پیسہ وصول کرتا۔مگراس کی سوچ اورکردارنے یہ گوارانھیں کیا۔"براک"کے نام سے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کردیے۔جیسے شروع میں،کم مالیت کے چھاپہ خانے لگا دیے۔ان کی تمام آمدنی غریب لوگوں پرصَرف کی جاتی تھی۔
اپنے استعمال کے لیے کوئی لینڈکروزریابڑی گاڑی نہیں لی۔وہ عام لوگوں کی طرح سفرکرتارہا۔چھوٹے چھوٹے کاروبار اس کی ساکھ اورایمانداری کی بدولت پھلنے پھولنے لگے۔ عابد نے "براک"کے نام سے کارخانے، ہوٹل،پرائیویٹ یونیورسٹی، خریدوفروخت کے اسٹور، دکانیں اور متعدد کاروبارشروع کردیے۔
بنگلہ دیش کے ہرانسان کویقین تھاکہ تجارتی کارروائی کاواحدمقصد غریب لوگوں کی زندگی بدلناہے۔لہذا تمام کاروبار ترقی کرنے لگے۔خداکی رحمت بھی شامل حال ہوگئی۔ یونیورسٹی میں ہزاروں بچے اوربچیوں نے داخلہ لے لیا۔ان کی فیسوں سے ایک فنڈبھی قائم کردیاگیاجو طالبعلموں کی مددکرتاتھا۔ہوٹل کی یہ حالت ہوگئی کہ خالی کمرہ نہیں ملتا تھا۔ لوگ قطاروں میں لگ کر وہاں ٹھہرنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کرواتے تھے۔ کارخانوں سے بنی ہوئی مصنوعات پر "براک" کا مونوگرام ہوتا تھا اورہے۔وہ بھی ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ اس تنظیم کی ساکھ اور فضل حسن عابدکی دیانت کی بدولت،سرمایہ کی فراہمی کامسئلہ کافی حدتک ختم ہوگیا۔
عابدہرچیزسے بے نیازہوتاگیا۔اس کو پوری دنیا میں ہر سطح پرانعامات سے نوازاگیا۔مگروہ خودعام لوگوں کے لیے انعام بن گیا۔2010ء میں ملکہ برطانیہ نے اپنے محل میں آنے کی درخواست کی اور اسے "سر" کا خطاب دیا۔اس درویش شخص نے"سر"کاخطاب اپنی تنظیم میں کام کرنے والے تمام لوگوں سے منسوب کردیا۔2015ء یعنی،اسی سال،عابدکو"World Food Prize"سے نوازا گیا۔ یہ عزت،اس مردِعجیب نے اپنے ملک سے منسوب کر دی۔
آج تک عابدکواَن گنت انعامات اوراعزازی ڈگریاں مل چکی ہیں۔مگراب وہ ان تمام اعزازات کی سرحد کو عبور کر چکا ہے۔اس کی تنظیم"براک"میں ڈیڑھ لاکھ مرد اور خواتین کام کرتے ہیں۔صرف بارہ ماہ کی قلیل مدت میںاس تنظیم نے سلہٹ میں دوہزاراسکول قائم کیے ہیں۔ان تمام درسگاہوں میں صرف ایک کمرہ ہے۔اس میں انتہائی کم قیمت والامیڑیل استعمال کیاگیا ہے۔ ہر اسکول میں استاد بھی"براک"نے مہیاکیے ہیں۔یہ تمام اسکول،کچی آبادیوں میں کھولے گئے ہیں۔یہ سہولت، غریب کے بچوں تک علم کاوہ نورپہنچانے کاذریعہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی کو روشن کرسکیں اورآنے والے دنوں میں اپنے پیروں پرکھڑے ہوسکیں۔
آپ ان معجزات پرغورکیجیے،جواس بے لوث تنظیم نے برپاکیے ہیں۔1980ء میں بنگلہ دیش میں نومولود بچوں کے مرنے کی شرح دنیامیں سب سے زیادہ تھی۔ صرف دس برس کی قلیل مدت میں،وہ1980ء کے مقابلے میں صرف نصف رہ گئی ہے اوراس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔اسی طرح80ء کی دہائی میں بچوں میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح صرف دو فیصد تھی۔آج ملکی شرح سترفیصدپرجاچکی ہے۔جن علاقوں میں براک کام کرتی ہے،وہاں یہ شرح حکومتی اعدادوشمارسے بہت زیادہ ہے۔ان علاقوں میں یہ 97 فیصد ہے۔ عابد کہتا ہے کہ "ہم غریب لوگوں کومفلسی کی قیدسے آزادکروانا چاہتے ہیں،"۔
آج دنیاکا ہر ادارہ، فخر محسوس کرتاہے کہ فضل عابد،ان کے ادارے سے گرانٹ وصول کرلے۔ قرضے کاتوخیر،کوئی نام بھی نہیں لے سکتا۔کوفی عنان سے لے کربانکی مون عابد کے ساتھ دل جمعی سے کھڑے ہوئے ہیں۔دنیاکے حکمران، وزراء اعظم اور صدر، اس درویش شخص سے ہاتھ ملانا اعزازکی بات سمجھتے ہیں۔
براک اب دنیاکے کئی ممالک میں کام کررہی ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔مگرفضل حسین عابداب بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہے۔اب وہ پوری دنیاکی سطح پر تعلیم کے لیے ایک گلوبل فنڈقائم کررہاہے۔اس کی ایک اپیل پر پوری دنیا کے متمول افرادنے23بلین ڈالردینے کااعلان کر دیا ہے۔تھوڑے عرصے میں یہ سوبلین ڈالرسے بھی آگے چلا جائے گا۔اب وہ صحت کے شعبہ میں غریب لوگوں کی مددکررہا ہے۔ٹی بی، ملیریا اوردیگربیماریوں کے علاج میں مشغول ہے۔ اب تک صرف ٹی بی کے ایک کروڑ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔
ساٹھ سال پہلے فضل حسن عابد لندن میں آبی جہاز بنانے کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔اسے یہ مضمون ترک کرنا پڑا تھا۔مگرصرف چار دہائیوں کی قلیل مدت میں،اس ستترسالہ درویش نے انسانی ترقی کاوہ بحری جہاز بنا ڈالاہے،جسکی بدولت بنگلہ دیش کاغریب آدمی،قدرتی آفات کامقابلہ کرنے کے لیے مکمل طورپر تیار ہوچکا ہے۔ یہ پانی کا جہازایساہے،جسے کوئی طوفان نہیں ڈبو سکتا۔ مجھے اپنے ملک میں اسطرح کے جادوئی جہازکاشدت سے انتظارہے!