زلزلہ زدہ وزیر اعظم

یہ خیبر پختونخوا کا صوبہ تھا جس کی نیک نام حکومت ایک بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہو گئی۔

Abdulqhasan@hotmail.com

مملکت پاکستان کم و بیش چار انتظامی حصوں اور اکائیوں میں بٹی ہوئی ہے ان میں سے تین اگرچہ کسی حد تک محفوظ رہے لیکن ایک حصہ جو زیادہ تر پہاڑوں اور پتھریلے علاقوں پر مشتمل تھا قریب قریب تباہ ہو گیا۔

یہ خیبر پختونخوا کا صوبہ تھا جس کی نیک نام حکومت ایک بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہو گئی۔ گھر ہی نہیں کئی گاؤں تک تباہ ہو گئے اب پتہ نہیں وہ کبھی کہاں تھے اور گھروں کی تباہی تو اس پورے صوبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ خوش قسمت ہیں جن کو خیمہ میسر ہو گیا ہے اور وہ اپنے بچے کھچے گھر اور بال بچوں کو سمیٹ کر مزید تباہی سے چُھپ گئے ہیں۔

جس گھر کی دیواریں اور چھت گر گئے ہوں اس میں بچتا کیا ہے کہ کوئی گھر بار کو سنبھال کر یہاں بیٹھ سکے۔ اس صوبے میں عمران خان اور جماعت اسلامی کی حکومت ہے۔ دونوں جماعتیں تن من دھن سے لوگوں کی بحالی پر لگی ہوئی ہیں لیکن کام اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہے کہ اس کے لیے بے شمار اسباب کی ضرورت ہے۔ میں یہ خوش خبری سننے کے لیے بے چین ہوں کہ اس صوبے کے حکمرانوں نے اپنے گھروں کا ساز و سامان ان زلزلہ زدوں میں تقسیم کر دیا ہو اور ایسی کسی مصیبت اور آزمائش کے وقت اسلامی اخلاق اور روایت کو تازہ کیا ہو۔

میں تاریخ کے مستند صفحات سے خدمت خلق کی مثالوں کو جمع نہیں کرنا چاہتا اور یہی خواہش ہے کہ حکمرانوں کے اندر نیکی کا جو ذرہ ہے وہ سامنے آئے اور خلق خدا کی خدمت میں صرف کیا جائے۔

تاریخ کی مثالیں دے کر شرمندہ کرنے والی بات ہو گی اگرچہ وہ مثالیں بھی مسلمانوں کی ہیں اور کسی آفت کے وقت کی ہیں لیکن بہت زمانے گزر گئے اب ان مثالوں کی برکت سے ہی خدمت خلق میں کامیابی حاصل کی جائے۔ یہ مثالیں صرف عوام کی نہیں حکمرانوں کی اپنی ہیں۔

ہماری ایک خواہش جسے احمقانہ کہیں تو زیادہ بہتر ہے کہ حکمران اپنے محالات سے باہر نکلیں دن رات کے آرام کا سامان بھی ساتھ لے لیں لیکن ان بے گھر بے سہارا اور بے بس پاکستانیوں کے پاس پہنچ جائیں ان کے ہاں ڈیرے ڈال دیں اور اپنے لاؤ لشکر کو ان پاکستانیوں کی خدمت پر لگا دیں جو اس وقت ایک مشکل حالت میں پھنسے ہوئے ہیں اور جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کے ارب پتی حکمران بھی ان کے دکھ درد میں عملاً شریک ہیں ان کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہے ہیں ۔


ان کے ساتھ کھانا کھا رہے اور ان کے بچوں کو پیار کر رہے ہیں تو میرا یونہی سا ایک خیال ہے کہ قدرت یہ سب دیکھ کر ان پر مہربان ہو جائے گی اور انھیں اس مشکل سے نکال دے گی۔ ابتدائے اسلام کی تاریخ کی دو چار مثالیں زلزلے کی موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ مجلس میں تشریف فرما تھے ان کی مجلس زمین پر نشست کی صورت میں ہوا کرتی تھی کہ زمین ہلکے سے زلزلے سے کانپ اٹھی۔ اس حکمران نے قریب رکھے کوڑے کو اٹھایا اور زمین پر مار کر کہا کہ کیا میں تم پر انصاف نہیں کرتا کہ تم یہ گستاخی کر رہی ہو۔ پھر زمین چپ ہو گئی کہ حضرت عمرؓ کو قدرت نے عجیب طاقت عطا کی تھی جو ان کے اعمال کا اجر تھی۔ ہمارے یہ حکمران اپنی مجلس زمین پر آراستہ کرتے تھے کیونکہ حضرت علیؓ کے بقول جو نیچے زمین پر بیٹھتا ہے وہ گرتا نہیں ہے۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور اطمینان بھی کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف باری باری مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچ رہے ہیں نہ صرف نقصان دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کو پورا کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

ایک طرف کسی زلزلہ گھر کا بکھرا ہوا سامان ہے اور اس کے سامنے وزیر اعظم موجود ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں سرکاری رپورٹروں کا انتظار نہیں کر رہے۔ میں ایک گنہ گار قلمکار اپنے دل میں یہ امید کر رہا ہوں کہ ہمارے وزیر اعظم اپنا فرض ادا کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

وزیر اعظم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں تباہی کے سوا انھیں کچھ نہیں ملتا۔ گرے ہوئے گھر بار اور ان میں چھپے ہوئے بچے اور عورتیں جو اپنی جان اور پردہ بچا رہی ہیں۔ آپ یہ سوچ رہے ہیں اور درست سوچ رہے ہیں کہ جس ملک کا صرف ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو اس کو اس ملک کے باقی حصے آباد کر سکتے ہیں خصوصاً اس صورت میں جب حکمران بھی خدمت کرنے والوں میں موجود ہوں کیونکہ حکمرانوں کی موجودگی سے عوام کا حوصلہ بڑھتا ہے۔

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ نقصان کتنا ہوا ہے صرف ایک گھر کا نقصان بھی حساب کتاب سے بالاتر ہوتا ہے اور پھر کسی گھر کے در و دیوار کے ساتھ اس گھر میں مقیم لوگوں کا جو جذباتی تعلق ہوتا ہے اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے لیکن ہمارے گناہ کہ ہم بیٹھے بیٹھے تباہ ہو گئے اور اب ہم دنیا کے لیے مدد کا ایک موقع بن گئے ہیں۔

حکمرانوں کے ذرایع کا مجھے اندازہ نہیں لیکن ہم، میرا خیال ہے کہ، اس قابل ہیں کہ رفتہ رفتہ اس آزمائش پر قابو پا لیں اور ایک پاکستانی زندگی پھر سے شروع ہو سکے۔ انشاء اللہ۔
Load Next Story