جیکب آباد یا وزیرستان

جب چارلس نیپیئر نے 1843 کو سندھ فتح کیا، 1848 کے لگ بھگ سر جان جیکب کو نارتھ سندھ کا سربراہ مقرر کر کے بھیجا گیا۔

Jvqazi@gmail.com

جب چارلس نیپیئر نے 1843 کو سندھ فتح کیا، 1848 کے لگ بھگ سر جان جیکب کو نارتھ سندھ کا سربراہ مقرر کر کے بھیجا گیا۔ یہ علاقہ بہت مشکل تھا، آپ نے اس علاقے میں آ کر اس نئے شہر کی بنیاد ڈالی۔ یوں کہیے بریگیڈیئر جان جیکب سے پہلے یہ خان گڑھ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ قبائلی طرز کے رہن سہن والے لوگوں میں کاری کی رسم جوبن پر تھی۔

بریگیڈیئر نے ایک دو باپ یا ان کے بھائی پھانسی پر لٹکا دیے اور یہ اعلان عام کردیا کہ اب اگر کوئی کاری کرکے کسی عورت کو مارے گا تو اس کا باپ یا بھائی پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ پھر کیا ہوا؟ دہائیوں تک کسی کو کاری کرکے مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔ موصوف 1858 میں انتقال کرگئے تو کلکتہ تک کیسے ان کی میت کو جیکب آباد سے بھیجا جائے، تو یہ ٹیلیکس کے پہلے زمانے تھے، جس کے ریکارڈ میں ان پہلے پیغامات میں یہ بھی درج ہے کہ ''جان جیکب کو جیکب آباد ہی میں دفنا دیا جائے۔'' اور اس طرح ان کی قبر پر اب لوگ اپنی مرادیں و منتیں پوری کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

اب سر جان جیکب کا جیکب آباد تیزی سے وزیرستان بنتا جا رہا ہے۔ سرداروں، قبیلوں کے اس جیکب آباد میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے اور پھر اس طرح اب کچھ لوگوں نے اپنے قبائلی قرض چکتا کرنے کے لیے مذہب کی آڑ لے لی ہے۔

یوں نہیں کہ وہاں جو مدرسوں کی بھرمار ہوئی ہے ان میں سب ذات پات کے لوگ جاتے ہیں، اس کے برعکس جس طرح وزیر اور محسود قبیلے نے وزیرستان کو اپنے چنگل میں لیا تھا، اسی طرح شکارپور سے جیکب آباد کے مدرسوں پر بھی ایک دو قبائلی ذاتوں کا اثر ہے۔

پرانے زمانوں میں یہ جیکب آباد اور شکارپور تھے جو قندھار کو لگتے تھے، اس زمانے میں وسطی ایشیا، ثمرقند، بخارا کے ساتھ سندھ و گجرات ممبئی کی رسد شکارپور سے ہوا کرتی تھی۔ شکارپور کو تو کارل مارکس بھی اپنے ذکر میں لاتے ہیں۔ جب وہ انگریزوں کی کالونی والے ہندوستان پر لکھتے ہیں۔

اس زمانے میں اس رسد سے کرنسی کا کاروبار ہوتا تھا۔ شکارپور کی پرانی عمارات کا مزاج ثمرقند و بخارا کی عمارتوں کے مزاج سے ملتا جلتا ہے اور پھر اب رسد ویسے ہے قندھار کے لیے لیکن اب کرنسی و جنس (Commodities) کالے کاروبار نہیں بلکہ مذہب کا کاروبار ہوتا ہے۔ بس یہ فتویٰ جاری کردو کہ فلاں کافر ہے اور واجب القتل ہے۔ جیسے جیسے سرکاری اسکولوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسپتال مفلوج ہوگئے تھے۔

1918 کے سیلاب نے یہاں تباہی برپا کردی تھی اور اس طرح غربت نے اور جڑیں پکڑلیں، اب لوگ اپنے بچے کو ان مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں جہاں ان بچوں کو رہنے کے لیے ایک بستر اور دو وقت کھانے کو مل جاتا ہے۔ اس پر اگر وہ نصاب پڑھائیں جو غیر ملکی خطیب کا بنایا ہوا ہے تو پھر آپ کو غیر فنڈ بھی ملتے ہیں اور اندر سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی پڑھائیں کہ فلاں مسلک کافر ہے۔ چھ مہینے پہلے جب میں شکارپور گیا جب امام بارگاہ میں واقعہ ہوا، لگ بھگ سو لوگ مارے گئے۔ میں نے بہت ہی مختلف شکار پور دیکھا، پاکستان بننے سے پہلے والا شکار پور جو کراچی سے بھی زیادہ تجارت کرتا تھا اور شرح خواندگی رکھتا تھا وہ تو کب کا بھسم ہو چکا تھا لیکن اب کی بار مجھے وہ شیخ ایاز والا شکارپور بھی کہیں نظر نہیں آیا۔


ہاں لیکن ان دونوں شہروں یعنی شکارپور اور جیکب آباد میں آپ کے دو پارٹیوں کے جھنڈے بہت ہی پھڑکتے نظر آئیں گے، ایک ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری ہے جمعیت علمائے اسلام۔ تو کیا یہ جو دو شہر اب سندھ کے وزیرستان بنتے جا رہے ہیں، کچھ ان کا بھی دیا ہوا یہ بھنور ہے؟ پیپلز پارٹی اب کے وہ رہی نہیں جس کے ماضی میں چرچے تھے۔

اور رہ سکتی بھی نہیں، کیونکہ ان کا کامل ایمان اصول یہ ہے کہ انھوں نے اقتدار کی سیاست کرنی ہے۔ اس لیے چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، تو انھوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا ہے۔ مولانا صاحب کی پارٹی کے مدرسے سب سے زیادہ ہیں اس علاقے میں اور آج کل یہ پیپلز پارٹی سے بھی بڑے جلسے کرتے ہوئے نارتھ سندھ میں پائے گئے ہیں۔

حال ہی میں یہاں پر ان کا رہنما سابق سینئر ڈاکٹر خالد سومرو قتل ہوئے تھے۔ جن کا الزام ان کی پارٹی نے دوسرے مسلک پر عائد کیا تو ان کے اوپر بم دھماکے بھی ہوئے۔

اب اس علاقے میں کاری رسم کا عروج ہے۔ ہندوؤں کی جائیدادوں پر قبضے اور ان کی بیٹیوں کو اغوا کرنے، زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا کام بھی عروج پر ہے۔ چوری ڈاکہ زنی کے ساتھ اب ایک نیا کام بھی شروع ہوا ہے اور وہ ہے امام بارگاہوں پر ان کے ماتمی جلسوں پر خودکش حملے۔

تو پھر کہاں گیا NAP یعنی نیشنل ایکشن پروگرام؟ ہمیں یہ تو پتا ہے کہ قائم علی شاہ کو جھولا جھولتے جھولتے نیند آگئی ہے مگر رینجرز کہاں ہے؟ یقیناً پولیس نے ان لوگوں کو بھی پکڑا جنھوں نے سول سوسائٹی کے جلسے پر بھی حملہ کرنا چاہا، جس میں، میں بھی تھا۔ اور اس سے ان کو اس بندے تک پہنچنے میں بھی آسانی ہے جس نے شکارپور کی امام بارگاہ پر حملے کا پلان بنایا تھا۔ مگر اب تک جیکب آباد پر حملہ آور کا سراغ نہیں ملا۔

سندھ کے وڈیروں کا کیا، اب وہ مزاروں اور پیروں سے ناتا توڑ کے مدرسوں سے اپنا سیاسی اتحاد بنا رہا ہے اور اسے کچھ بھی بننے میں کوئی آر محسوس نہیں ہوتی، بس صرف یہ یقین ہو کہ اقتدار اسی راستوں سے گزرتا ہے۔ اب وزیرستان کی طرح جیکب آباد میں بھی شکارپور میں بھی سرداروں اور مدرسوں کا اتحاد ہے۔ یوں کہیے مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کا ساتھ ساتھ یہیں پر اس کا ثمر ہے۔ جو آج یہ علاقہ وزیرستان بنتا جا رہا ہے۔

اور رینجرز بھی یہاں یوں لگتا ہے چپ ہے اور ان کے لیے بھی سب ٹھیک ہے کا الاپ نظر آتا ہے۔ لیکن بھٹائی اور سچل کے سندھ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ تو پھر سندھ کی سول سوسائٹی کو فیض کی ان سطروں ''پابہ جولاں چلو'' کی طرح کل وہاں جیکب آباد میں ان دکھی ماؤں اور والدین کے پاس جانا ہوگا۔ جس میں، میں بھی ہوں گا۔
Load Next Story