الیکشن اور عشق و عاشقی
ایک زمانہ تھا شعروں کے انتخاب کا، بات بات پر شعر یاد آ جاتے تھے
QUETTA:
ایک زمانہ تھا شعروں کے انتخاب کا، بات بات پر شعر یاد آ جاتے تھے اور ایسے شعر کہ پورے جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی تھی۔ اب بھی کبھی کبھی شعر و شاعری کو یاد کرنے کا دورہ پڑتا ہے اور ان دنوں میں سیاست پر ہی لکھتا ہوں اس لیے سیاسی حالات پر شعر کم ہی یاد آتے ہیں البتہ بعض سیاسی حالات اتنے زبردست ہوتے ہیں کہ شعر کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔
حالات حاضرہ جن پر کالم لکھا جاتا ہے اب ایسے بعض حالات حاضرہ پر کچھ شعر بھی یاد آ جاتے ہیں جو نثر کی کمی پوری کر دیتے ہیں اور قارئین بھی سیاست کی جگہ شعر پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے ایک مشہور سیاست دان جن کا شاعری سے تو کوئی خاص تعلق نہیں لیکن وہ بے خبری میں ہی شاعرانہ قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں۔
ان کا دل گداز ہے اور ان کے چہرے مہرے اور حالات میں رقت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں شاعر جس کا کلام میں نقل کر رہا ہوں غالباً محسن نقوی ہیں۔ اگر میں غلطی پر ہوں اور کسی شاعر کی حق تلفی کر رہا ہوں تو معذرت خواہ ہوں۔ اب تازہ ترین سیاسی حالات پر شعر ملاحظہ کیجیے اور اپنے کسی دکھی سیاست دان کو یاد کیجیے۔ ویسے عین ممکن ہے اس سیاست دان میں اس قدر شعری ذوق نہ موجود ہو اور میں یہ شعر اس پر ٹھونس رہا ہوں بہرکیف یہ شعر ہیں:
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے
کسی کو بھول جانے سے
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کو چھوڑ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
اس سیاست دان کے دکھی دل سے چند شعر یاد آئے ہیں اور ان شعروں میں چھپی کیفیت کو بہت محسوس کیا گیا ہے لیکن ہر زخم کا مرہم بھی ہوا کرتا ہے اور ہر دکھ اور غم کی دوا بھی۔ اب ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے اور اس سیاست دان کا حوصلہ بڑھایئے:
چھوڑا تو ہے اسے مگر چھوڑا ہے اس طرح
دیتا پھرے گا میرے حوالے تمام عمر
یہ شعر و شاعری کسی کے تازہ حالات کی ترجمان ہے اور حالات بھی ایسے کہ ذرا محنت کریں تو یہ سب شعروں میں بیان ہو جائے مگر قارئین صرف شعروں پر راضی نہیں ہوتے۔
کافی دن ہو گئے کہ ایک صحافی عزیزم عارف نظامی نے اپنے ایک ٹاک شو میں اشارہ دیا کہ جناب عمران خان کی یہ شادی بھی جانے والی ہے۔ عارف کو کہیں سے صحیح بھنک پڑی اور حالات نے اس کی تائید کی تو چند دن بعد یہ 'بھنک' شہر بہ شہر اور ملک ملک میں پھیل گئی۔ تفصیلات آنی شروع ہو گئیں۔ دولہا میاں اور دلہن دونوں کی طرف سے خصوصاً ان دنوں میں جب کہ ملک بلدیاتی الیکشن کی بھٹی سے گزر رہا تھا، شروع میں بہت مبالغہ کیا گیا کہ حق مہر کتنے کروڑ ہے اور لندن میں ایک مکان بھی ہے جو دلہن کو ملا ہے لیکن جلد ہی ان کی وضاحت ہو گئی اور ابھی تک یہ وضاحتیں جاری ہیں جو بڑھتی گھٹتی رہتی ہیں۔ اصل خرابی یہ ہے کہ دلہا میاں ماشاء اللہ رئیس ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی مبالغہ کیا جا سکتا ہے۔
پھر اتفاق سے دلہا کے ایک دولت مند دوست کو بھی اس سلسلے میں ملوث کر دیا گیا جس نے بڑی مشکل سے تردید کر کے جان چھڑائی ہے لیکن میاں بیوی تو ابھی تک ہر مسئلے میں موجود ہیں اور اب نوبت چونکہ طلاق تک پہنچ گئی ہے اس لیے یہ مسئلہ خاصا اہم ہو چکا ہے اور قیاس آرائیوں کی وجہ سے مزید اہم ہوتا جا رہا ہے۔
طلاق کے ان ہی دنوں میں ملک بھر میں الیکشن ہوا جس میں دولہا میاں کی پارٹی کے امیدوار بھی شامل تھے جو سخت تشویش کے عالم میں یا بے دلی کی کیفیت میں الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔ ان کے لیڈر نے ایک ذاتی مسئلے کو غلط وقت پر ظاہر کر کے اپنے امیدواروں کے الیکشن کو بے جان اور بدنام کر دیا۔ اب اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ لیڈر کی پارٹی جو عروج پر تھی یکایک زوال میں آ جائے گی۔
بدقسمتی سے گرے ہوئے اخبار اور گری ہوئی سیاسی پارٹی کو زندہ کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے دو بار کے مطلقہ سیاست دان نے اپنے لیے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ اس سیاسی حادثے کی تفصیلات آتی رہیں گی لیکن الیکشن اور عاشق و عاشقی کی یہ مثال یاد رہے گی۔
ایک زمانہ تھا شعروں کے انتخاب کا، بات بات پر شعر یاد آ جاتے تھے اور ایسے شعر کہ پورے جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی تھی۔ اب بھی کبھی کبھی شعر و شاعری کو یاد کرنے کا دورہ پڑتا ہے اور ان دنوں میں سیاست پر ہی لکھتا ہوں اس لیے سیاسی حالات پر شعر کم ہی یاد آتے ہیں البتہ بعض سیاسی حالات اتنے زبردست ہوتے ہیں کہ شعر کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔
حالات حاضرہ جن پر کالم لکھا جاتا ہے اب ایسے بعض حالات حاضرہ پر کچھ شعر بھی یاد آ جاتے ہیں جو نثر کی کمی پوری کر دیتے ہیں اور قارئین بھی سیاست کی جگہ شعر پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے ایک مشہور سیاست دان جن کا شاعری سے تو کوئی خاص تعلق نہیں لیکن وہ بے خبری میں ہی شاعرانہ قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں۔
ان کا دل گداز ہے اور ان کے چہرے مہرے اور حالات میں رقت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں شاعر جس کا کلام میں نقل کر رہا ہوں غالباً محسن نقوی ہیں۔ اگر میں غلطی پر ہوں اور کسی شاعر کی حق تلفی کر رہا ہوں تو معذرت خواہ ہوں۔ اب تازہ ترین سیاسی حالات پر شعر ملاحظہ کیجیے اور اپنے کسی دکھی سیاست دان کو یاد کیجیے۔ ویسے عین ممکن ہے اس سیاست دان میں اس قدر شعری ذوق نہ موجود ہو اور میں یہ شعر اس پر ٹھونس رہا ہوں بہرکیف یہ شعر ہیں:
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے
کسی کو بھول جانے سے
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کو چھوڑ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
اس سیاست دان کے دکھی دل سے چند شعر یاد آئے ہیں اور ان شعروں میں چھپی کیفیت کو بہت محسوس کیا گیا ہے لیکن ہر زخم کا مرہم بھی ہوا کرتا ہے اور ہر دکھ اور غم کی دوا بھی۔ اب ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے اور اس سیاست دان کا حوصلہ بڑھایئے:
چھوڑا تو ہے اسے مگر چھوڑا ہے اس طرح
دیتا پھرے گا میرے حوالے تمام عمر
یہ شعر و شاعری کسی کے تازہ حالات کی ترجمان ہے اور حالات بھی ایسے کہ ذرا محنت کریں تو یہ سب شعروں میں بیان ہو جائے مگر قارئین صرف شعروں پر راضی نہیں ہوتے۔
کافی دن ہو گئے کہ ایک صحافی عزیزم عارف نظامی نے اپنے ایک ٹاک شو میں اشارہ دیا کہ جناب عمران خان کی یہ شادی بھی جانے والی ہے۔ عارف کو کہیں سے صحیح بھنک پڑی اور حالات نے اس کی تائید کی تو چند دن بعد یہ 'بھنک' شہر بہ شہر اور ملک ملک میں پھیل گئی۔ تفصیلات آنی شروع ہو گئیں۔ دولہا میاں اور دلہن دونوں کی طرف سے خصوصاً ان دنوں میں جب کہ ملک بلدیاتی الیکشن کی بھٹی سے گزر رہا تھا، شروع میں بہت مبالغہ کیا گیا کہ حق مہر کتنے کروڑ ہے اور لندن میں ایک مکان بھی ہے جو دلہن کو ملا ہے لیکن جلد ہی ان کی وضاحت ہو گئی اور ابھی تک یہ وضاحتیں جاری ہیں جو بڑھتی گھٹتی رہتی ہیں۔ اصل خرابی یہ ہے کہ دلہا میاں ماشاء اللہ رئیس ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی مبالغہ کیا جا سکتا ہے۔
پھر اتفاق سے دلہا کے ایک دولت مند دوست کو بھی اس سلسلے میں ملوث کر دیا گیا جس نے بڑی مشکل سے تردید کر کے جان چھڑائی ہے لیکن میاں بیوی تو ابھی تک ہر مسئلے میں موجود ہیں اور اب نوبت چونکہ طلاق تک پہنچ گئی ہے اس لیے یہ مسئلہ خاصا اہم ہو چکا ہے اور قیاس آرائیوں کی وجہ سے مزید اہم ہوتا جا رہا ہے۔
طلاق کے ان ہی دنوں میں ملک بھر میں الیکشن ہوا جس میں دولہا میاں کی پارٹی کے امیدوار بھی شامل تھے جو سخت تشویش کے عالم میں یا بے دلی کی کیفیت میں الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔ ان کے لیڈر نے ایک ذاتی مسئلے کو غلط وقت پر ظاہر کر کے اپنے امیدواروں کے الیکشن کو بے جان اور بدنام کر دیا۔ اب اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ لیڈر کی پارٹی جو عروج پر تھی یکایک زوال میں آ جائے گی۔
بدقسمتی سے گرے ہوئے اخبار اور گری ہوئی سیاسی پارٹی کو زندہ کرنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے دو بار کے مطلقہ سیاست دان نے اپنے لیے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ اس سیاسی حادثے کی تفصیلات آتی رہیں گی لیکن الیکشن اور عاشق و عاشقی کی یہ مثال یاد رہے گی۔