اب اس قدر بھی یہاں ظلم کو پناہ نہ دو

دس سال پہلے بھی اسی اکتوبر کے مہینے میں قیامت خیز زلزلہ آیا تھا۔

دس سال پہلے بھی اسی اکتوبر کے مہینے میں قیامت خیز زلزلہ آیا تھا۔ دس سال بعد یہی اکتوبر ہے جس کی 26 تاریخ کو پورا ملک پھر لرز کر رہ گیا۔ دس سال پہلے والے زلزلے کی شدت 7.6 تھی۔ اس بار زیر زمین شدت 8.1تھی، یہ اب تک آنے والے زلزلوں میں سب سے زیادہ شدید کہا جا رہا ہے، اب تک اس زلزلے میں تقریباً تین سو افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔

26 اکتوبر کو دوپہر ایک بجے میں نے لاہور فون کیا، سب کچھ ٹھیک تھا، لوگ اپنے اپنے کام دھندے میں مصروف اور پھر ایک گھنٹے بعد میں پھر لاہور بات کر رہا تھا، ناصر (جالب صاحب کا بڑا بیٹا) بول رہا تھا۔ ''لاہور ایک منٹ تک جھولتا رہا'' میں نے پوچھا ''شہر ٹھیک ہے؟'' ناصر بولا ''ہاں جی! اللہ کا کرم ہوگیا، معجزہ ہوگیا، سب ٹھیک ہے۔''

جب میں نے زلزلے کا سنا تھا تو مجھے اندرون لاہور کا خیال آرہا تھا۔ رنگ محل، شاہ عالمی، لوہاری، بھاٹی گیٹ، موچی گیٹ، دلی گیٹ، یکی دروازہ۔ یا اللہ خیر! وہاں تو بے شمار بوسیدہ عمارتیں ہیں۔ مگر شدید ترین زلزلے کو یہ خستہ حال عمارتیں پتا نہیں کیسے برداشت کرگئیں۔ یہ اللہ کے رنگ ہیں، وہی قادر مطلق ہے، دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرجائے۔ سارے بٹن پھر بھی اسی قادر و کریم کے ہاتھ میں ہی ہیں۔

8.1 شدت کا زلزلہ! یہ بھی عین ممکن تھا کہ ظلم و ستم کے سارے نشانات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے، زمین بوس ہوجاتے، غرق ہوجاتے۔

پھر کیا ہوتا؟

سارے محل، ماڑیاں، فارم ہاؤسز، تجوریاں، سب ختم، جن کے پاس یہ سب نہیں ہیں ان کا کیا جاتا! کچھ بھی نہیں۔ وہ تو روز مرتے ہیں، زلزلے والے دن بھی مرجاتے بس! جانا تو سب کچھ ان ہی کا تھا جن کے پاس ہے۔ اب پھر دس سال بعد لوٹ مار کا ایک اور موقع لٹیروں کے ہاتھ آگیا ہے۔ صابر ظفر کا شعر ہے:

ہُونجا پھیرنڑ آگئے نیں فر چور نویں
حالی گھر وچ پچھلا رولا مکیا نئیں

یعنی سب کچھ لوٹنے کے لیے پھر نئے چور آگئے ہیں، حالانکہ پچھلی لوٹ مار کا رونا پیٹنا ابھی ختم نہیں ہوا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ 2005 کے زلزلے میں ایک لٹیرے نے بیرون ملک زلزلہ زدگان کے لیے چندہ جمع کیا اور پاکستان آکر اپنا بنگلہ بنالیا۔ آج بھی 2005 کے زلزلے میں زمین بوس ہوجانے والے اسکول نہیں بن سکے، آج بھی بچے کھلے آسمان تلے اسکول لگائے بیٹھے ہیں اور حکمران! حکومت کے مزے لے رہے ہیں۔ وزیراعظم اور آنے والے متوقع وزیراعظم اسپتالوں میں چلے گئے، فوٹو اخباروں میں چھپ گئے، ٹیلی ویژن پر فلمیں چلیں اور بس قصہ ختم۔


غریب، مجبور، بے بس لوگوں کے پاس صرف سپنے ہیں اور ادھر بندوقیں ہیں، مقابلہ کیسے ہو؟ جب کبھی مجبور بہت ہی مجبور ہوجاتے ہیں تو بندوقوں کے آگے سینے کر دیتے ہیں اور ڈھیر ہوجاتے ہیں، مگر ایسا بھی ہوا ہے کہ گولیاں ختم ہوگئیں، سینے ختم نہیں ہوئے۔ بس ایسے ہی کسی لمحے کا انتظار ہے، اب یہی ہونا رہ گیا ہے۔ سینے نکلیں گے اور بندوقیں جھک جائیں گی۔ اس کے علاوہ تو یہ وسائل پر قابض، پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔

پورا خیبرپختونخوا اور پورا پنجاب ایک ڈیڑھ منٹ تک جھولتا رہا۔ یقیناً بڑے چھوٹے فارم ہاؤسز ان میں بنے سوئمنگ پول، اعلیٰ نسل کے گھوڑے، بیل، اندر کھڑی کروڑوں کی گاڑیاں، در و دیوار، سب جھول گئے ہوں گے ان کے مکین بھی سب چھوڑ چھاڑ، ننگے پاؤں، عورتیں ننگے سر، کھلی جگہ کی طرف بھاگے ہوں گے، بس دو منٹ شدید خوف اور مزید تین منٹ خوف کے سائے، اور پھر یہ ''نوازے بندے'' اپنے مضبوط در و دیوار میں چلے گئے ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری نے کہا ہے کہ اگر پاکستان امداد مانگے گا تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان نے بھی اگر مگر کہے بغیر امداد کی پیشکش کی ہے۔ مودی صاحب نے فون کرکے نواز شریف سے اظہار افسوس بھی کیا ہے۔ یہ سب بڑا اچھا لگا۔ پڑوسیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ سب سے نزدیک ترین رشتہ پڑوسی کا ہے۔ خونی رشتے دار مصیبت کے وقت بعد میں پہنچتے ہیں، پڑوسی تو موجود ہوتا ہے۔اللہ نے زلزلے کے ذریعے شدید جھٹکا دیا ہے۔ اشارہ کیا ہے کہ باز آجاؤ اور آرام سے، پیار محبت سے رہو۔ اختلافات ہوتے ہیں، بات چیت کرکے مسئلے حل کرو۔ یہ بندوقیں اٹھانا، گولیاں چلانا، دو چار بندے ادھر مر گئے، دو چار ادھر مر گئے، ان حرکتوں کا کیا فائدہ؟ اللہ نے ایک بٹن دبا کر افغانستان، ہندوستان، پاکستان میں سیکڑوں بندے مار دیے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ذرا سوچو! ہندوستان، پاکستان کے پاس قیامت بپا کردینے والے ہتھیار ہیں۔ دونوں میں سے ایک نے بھی ہتھیار چلا دیا تو دونوں ملک ہی بھسم ہوجائیں گے ایسے برباد! جیسے ہیروشیما، ناگاساکی کا حشر ہوا تھا، بلکہ آج کے ہتھیار (ایٹم بم) پہلے سے کہیں زیادہ ہولناک ہوچکے ہیں۔

یہ جو دونوں طرف آگ بھڑکانے والے لوگ ہیں ذرا سمجھیں۔ خیر! ابھی تو ہندوستان میں ہی گاؤ ماتا کے بہانے انسان مارے جا رہے ہیں۔ یہ خون انسان اتنا ارزاں تو نہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی گھوڑا بڑا اہم جانور ہے۔ جالب نے کہا تھا:

ایدھر گھوڑا' اودھر گاں
دَس بندیا! میں کدھر جاں

یعنی ادھر گھوڑا ہے اور ادھر گائے، تو مجھے بتاؤ میں کدھر جاؤں۔ دونوں ہی بڑے خوبصورت، پیارے اور انسانوں کے نہایت کام آنے والے جانور ہیں اور ان معصوم، بے زبان جانوروں کو وجہ بناکے ہم انسان انسانوں کو مار رہے ہیں زندہ جلا رہے ہیں۔ انھیں کتا کہہ رہے ہیں۔ یہ بے چارے معصوم جانور بھی رو رہے ہوں گے کہ ہماری وجہ سے ظلم و بربریت کے کام کیے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں، انسان نے اتنی ترقی کرلی، چاند پر پہنچ گیا، آگے کے سفر بھی جاری ہیں، یونیورسٹیاں، لائبریریاں، کتابوں سے لدی پھندی، مگر نتیجہ! انسان تو وہیں کھڑا ہے! کون سا برا کام جو پہلے تھا اور اب نہیں ہے۔ سارے برے کام اسی طرح جاری ہیں۔ پتا ہے کہ آخر موت آئے گی اور مر جانا ہے، مگر ''لحد میں پاؤں ہیں اور مر رہے ہیں/مگر پھر بھی خوشامد کر رہے ہیں/ہم اللہ سے نہیں ڈرتے' بندوں سے ڈرتے ہیں۔یہ تجوریاں، یہ زمینداریاں، یہ عہدے ، یہ گاڑیوں کے اسکواڈ، ان چیزوں نے بندوں کو بندوں کے سامنے جھکا رکھا ہے۔ اور تخت پر بیٹھے بندے بھی خوش ہیں۔زلزلہ پھر آگیا ہے۔ یہ پھر بھی آسکتا ہے۔ اس سے زیادہ شدید!

ہندوستان، پاکستان جنگ کی طرف مت جاؤ! اب زلزلے ہی فیصلہ کردیں گے۔ آج کے انسان نے مظالم کی انتہا کردی ہے اور ظلم جب حدیں پھلانگ لیتا ہے تو مٹ جانا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔ پنجاب میں زمیندار نے ایک غریب بچے کے دونوں ہاتھ چارہ کاٹنے کی مشین میں رکھ کر کاٹ دیے تھے۔ اس کا کیا فیصلہ ہوا؟ رحیم یار خان کے علاقے میں جاگیردار کے خونخوار پالتو کتوں نے غریب ہاری کے دو چھوٹے بچوں کو چیر پھاڑ دیا تھا اس کا کیا فیصلہ ہوا؟ پنجاب حکومت! خادم اعلیٰ! تم کہاں ہو؟ سڑکیں ہی بنائے جا رہے ہو۔ غریب بچے کے ہاتھ کٹ گئے، کتوں نے بچے مار ڈالے، ان زمینداروں، جاگیرداروں کو سرعام سخت سزائیں دے دی ہوتیں تو ایسی وارداتیں رک جاتیں، مگر نہیں۔ پنجاب ہی کیا پورے ملک میں امیر لوگ، غریبوں کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں۔ زلزلے تو پھر آئیں گے اور بھی شدید آئیں گے۔ صابر ظفر کا شعر اور اجازت:

اب اس قدر بھی یہاں ظلم کو پناہ نہ دو
یہ گھر گرا ہی دے دستِ غائبانہ کوئی
Load Next Story