چھلگری دھماکے کی مبادیات
معمولی پھوڑے کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں ناسور میں بدلنے کا عملی مظاہرہ ہم جلد یہاں دیکھیں گے۔
چاکر' اپنی تمام تر سرداری چالبازی اور برادرکشی کی خصلت کے باوجود بلوچوں میں نہایت قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے۔بلوچ اسے تعظیم سے 'چاکراعظم' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
چاکر مکران کے پہاڑوں سے نکل کر، جھالاوان اور ساراوان کو روندتا ہوا کچھی کے میدانوں میں آکر آباد ہوا تھا۔ یوں اس نے بلوچوں کو پہلی بار میدانی علاقوں سے آشنا کروایا' ایک میدانی پایہ تخت کی بنیاد رکھی۔ پانی کو ترسے ' خشکابے کے مارے بلوچوں نے کچھی کے سرسبزمیدانوں کو دیکھا تو گویا اس پہ لٹو ہو گئے اور اسی کے ہو رہے۔
کچ۔گنداواہ کے نام سے آباد یہ سرسبز میدانی علاقہ چاکر رند اور اس کے چچا زاد گوہرام لاشاری کی آماج گاہ بنا۔ میدانی علاقے کی خاصیت اس کی مدنیت ہوتی ہے۔ محصور پہاڑی علاقے سے آئے بلوچ، کچھی میں پہلی باراس مدنیت سے آشنا ہوئے۔ لیکن چوں کہ مدنی شعور سے نابلد تھے، سو یہی بے شعوری ان کی تباہی کا سبب بن گئی۔ بہ ظاہر گوہر جتنڑیں سے ہونے والی ناانصافی کے سبب بھائیوں میں پڑنے والی پھوٹ سے قبائلی اَنا کی وہ آگ بھڑکی کہ جس نے تیس سال تک کئی نسلوں کواس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ نتیجے میں بالآخر 'چاکرِاعظم' کو دربدرہوکر ملتان کی اَور ہجرت کرنا پڑی، اور وہیں ست گڑھ میں دفن ہوا، لاشاری نڈھال ہوکر رہ گئے۔
چاکرکی زبردست ریاست بھی بلوچوں کو شہری مزاج سے آشنا نہ کروا سکی۔ وسائل کی بہتات اورآبادی کے قحط کا مارا بلوچستان شہراور شہریت کے لطف سے محروم رہا ، کہ شہر تو آبادی کا تقاضا کرتے ہیں، بلکہ آبادی کا تقاضا ہی شہر کی بنیاد بنتا ہے۔ اور بلوچستان اپنے جغرافیائی تناظر میں آبادی کو ترسا ہوا ہے۔ پھر خانہ بدوشانہ فطرت بھی اس کی مدنیت میں رکاوٹ رہی ہے۔ جہاں چراگاہ ملی، وہاں بسیرا کر لیا۔
اسی کچھی کے وسیع میدانوں میں بلوچستان میں سرائیکی بولنے والوں کا ایک قدیم مسکن و مرکز بھاگ ناڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچستان میں آپ کو سرائیکی بولنے والے قبائل جہاں کہیں بھی ملیں، ان کی آبائی جڑیں کسی نہ کسی پشت میں اسی ناڑی میں جاکر ملیں گی۔ ان قبائل کی بلوچ علاقے میں سکونت کی تاریخ سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، ماسوائے اس ایک حوالے کہ ممکنہ طور پر ان کی آباد کاری چاکر رند کی ملتان آشنائی کے بعد ہوئی ہو، کہ آج بھی یہاں رہائش پذیرسرائیکی بولنے والے مختلف قبائل خود کو رند کی رعیت بتاتے ہیں۔
قطع نظر ان تاریخی موشگافیوں کے ، برسوں سے یہاں آباد یہ قبائل نہایت پُر امن رہے ہیں۔ بلوچستان کے ماتھے پہ سجا قبائلی جنگوں کا کلنک گوکہ یہاں بھی اپنا رنگ دکھاتا رہا ہے، لیکن یہ کبھی بھی ایسا مضبوط نہیں رہا کہ یہاں کے مجموعی امن و محبت کے رنگوں پر حاوی رہا ہو۔ مذہبی فرقہ واریت تو مجموعی بلوچ سماج کی مانند یہاں بھی ناپید رہی ہے۔ ملا، اس سماج کا لازمی مگر بے ضرر جزو رہا ہے۔ ناڑی ایک زمانے میں ہندو اکثریتی علاقہ بھی رہا ہے۔ ہندو گو کہ آج بھی مقامی آبادی کا خاصا حصہ ہیں، لیکن اقلیت میں ہیں۔ یہاں کا ہندو، مقامی آبادی کے ساتھ اس قدر گھل مل کر رہا ہے، کہ جب تک نام کا پتہ نہ چلے، اس کے عقیدے کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
ناڑی کی آبادی روایتی انداز میں ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ جس قبیلے کے چار گھرانوں کو جہاں وافر زمین، ذرا سا پانی اور چراگاہ ملی، وہیں آباد ہو گئے۔ سچو نامی شخص نے جس ویرانے کو آباد کیا، اس کا نام سچو کہلایا۔ جہاں لہڑی قبائل بیٹھ گئے، اس علاقے کا نام لہڑی پڑ گیا۔ جہاں چھلگریوں نے چار گھر بسائے، وہ چھلگری ہو گیا۔ وہی چھلگری جہاں سے بلوچستان کی سیاست میں پہلا عوامی سیاسی ورکر ڈاکٹر حئی کے نام سے ابھر کر سامنے آیا۔
جسے اس خطے کے سب سے بڑے سیاسی رہنماؤں کی تربیت کی چھاؤں نصیب ہوئی۔ مگر اپنے سیاسی پیش روؤں کے افکار و عمل سے مراجعت اختیار کرنے کے باوصف ان کا ایک عمر کا سیاسی سفر بے نتیجہ رہا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے معمولی قصبے میں سیاسی شعور کی اتنی روشنی تک نہ دے سکے کہ جو عوام کو مقامی جاگیرداروں سے متنفر ہی کر سکتی۔ اور اس سیاسی ناکامی کا نتیجہ اس محرم الحرام کی آٹھویں تاریخ کو، ایک خون آلود خود کش دھماکے کی صورت دیکھا گیا۔
ناڑی کے قرب وجوار میں واقع چھلگری نامی معمولی سے قصبے میں خود کش دھماکہ ، اپنی نوعیت کی غیر معمولی خبر ہے۔یہاں کے باسیوں نے خودکش کا ذکر محض پاکستان میں ہونے والے خود دھماکوں کی خبروں میں ہی سن رکھا ہے۔ اکثریت اس کے معنی و مفہوم سے ہی آشنا نہیں۔ اور پھر امام بارگاہ میں دھماکہ، کبھی یہاں کے باسیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا...کہ غمِ حسین کا نوحہ پڑھنے والے یہاں کے سبھی باسی، شبِ برأت پہ عین اسی طرح نعتیں بھی پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ یہ دیگر شہید اماموں کا یومِ شہادت بھی اسی غم کے ساتھ مناتے ہیں۔
سو' یہ دھماکہ محض یہاں کے چند باسیوں کے لیے جان لیوا ہی نہیں بلکہ بچ جانے والے سبھی رہائشیوں کے لیے سوہانِ روح بھی ہے۔ یہ غم انگیز سہی، مگر ایسا حیران کن نہیں، اس لیے کہ اس کے بیج عرصہ ہوا یہاں بوئے جا چکے ہیں، یہ تو محض اس غفلت کی فصل ہے، جو یہاں کے باسی اب اپنے سروں کی صورت کاٹ رہے ہیں۔
ابھی کچھ برس اُدھر، بلوچستان کے سرحدی شہر سے کوئٹہ آتے ہوئے نواح سے بارہ سے چودہ برس کے کچھ بچے وین میں بیٹھے، ان کی غیر مقامی وضع قطع کے باعث کسی نے ان سے شناخت پوچھی تو کہا،'ہم طالبان ہیں!' سواریوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ تب انھوں نے وضاحت دی کہ 'یہاں ایک دینی مدرسے کے طالب ہیں، پشین سے تعلق ہے، چھٹیوں میں گھر جا رہے ہیں۔' پھر ابھی گزشتہ برس جب لاڑکانہ میں مبینہ طور پر کسی ہندو کی جانب سے پاک اوراق کی بے حرمتی کی افواہ اڑی تو اس سرحدی شہر میں ہندو تاجروں کی دکانیں آگ کی نذر ہو گئیں۔ تب شواہد سے پتہ چلا کہ آگ لگانے والے منظم، مسلح مگر غیر مقامی دِکھتے تھے۔ ان کے قدموں کے نشان ان نواحی مدرسوں تک پائے گئے جن کو آباد کرنے والے بھی یہاں کے مقامی نہ تھے۔
البتہ دین کے نام پر سادہ لوح کسانوں ہاریوں پر مشتمل مقامی آبادی کی ہمدردیاں کما چکے ہیں۔ ابھی کچھ برس پہلے تک دیہات میں ایک مسجد اور ایک مولوی ہماری معمول کی زندگی کاحصہ ہوتا تھا۔قصبے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم گویا اس کے فرائض میں شامل ہوتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے باہر سے آئے کرخت چہروں اور سخت لہجے والے مذہبی افراد نے ہمارے سادہ لوح اور سب کے لیے خیر کی دعا کرنے والے اس مولوی کی جگہ لے لی۔ کچی مٹی کی سوندھی خوشبو والی مسجد کی جگہ عالی شان مدرسے آباد ہو گئے۔ سن دوہزار سات میں یہاں کے مقامی اولیا کے مزار پر ہونے والا اولین خود کش دھماکہ یہاں کے باسیوں کے لیے پہلا' کلچرل شاک' تھا۔
چھلگری میں ہونے والا دھماکہ شدت پسند مذہبی رجحانات رکھنے والوں کی اس علاقائی میں بڑھتی ہوئی قوت کا تسلسل ہے۔ جس سے یہاں کے مقامی جاگیرداروں، عوام اور سیاسی کارکنوں نے بوجہ اغماض برتا ہے۔حیرت ہے کہ ریاست کا ضربِ عضب ،ان علاقوں میں موجود مزاحمتی تنظیموں کے ٹھکانوں کو تو ڈھونڈ لیتا ہے، مگر شدت پسند مذہبی تنظیموں کی آرام گاہوں پر اب تک اس کی نظریں نہیں پہنچیں۔ سندھ، بلوچستان کی یہ سرحدی پٹی مذہبی شدت پسندوں کا ایسا محفوظ ٹھکانہ بنتی چلی جا رہی ہے، جو کسی بھی وقت ٹائم بم کی طرح پھٹ سکتی ہے۔ اس کا فوری تدارک نہ ہوا تو، معمولی پھوڑے کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں ناسور میں بدلنے کا عملی مظاہرہ ہم جلد یہاں دیکھیں گے۔
چاکر مکران کے پہاڑوں سے نکل کر، جھالاوان اور ساراوان کو روندتا ہوا کچھی کے میدانوں میں آکر آباد ہوا تھا۔ یوں اس نے بلوچوں کو پہلی بار میدانی علاقوں سے آشنا کروایا' ایک میدانی پایہ تخت کی بنیاد رکھی۔ پانی کو ترسے ' خشکابے کے مارے بلوچوں نے کچھی کے سرسبزمیدانوں کو دیکھا تو گویا اس پہ لٹو ہو گئے اور اسی کے ہو رہے۔
کچ۔گنداواہ کے نام سے آباد یہ سرسبز میدانی علاقہ چاکر رند اور اس کے چچا زاد گوہرام لاشاری کی آماج گاہ بنا۔ میدانی علاقے کی خاصیت اس کی مدنیت ہوتی ہے۔ محصور پہاڑی علاقے سے آئے بلوچ، کچھی میں پہلی باراس مدنیت سے آشنا ہوئے۔ لیکن چوں کہ مدنی شعور سے نابلد تھے، سو یہی بے شعوری ان کی تباہی کا سبب بن گئی۔ بہ ظاہر گوہر جتنڑیں سے ہونے والی ناانصافی کے سبب بھائیوں میں پڑنے والی پھوٹ سے قبائلی اَنا کی وہ آگ بھڑکی کہ جس نے تیس سال تک کئی نسلوں کواس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ نتیجے میں بالآخر 'چاکرِاعظم' کو دربدرہوکر ملتان کی اَور ہجرت کرنا پڑی، اور وہیں ست گڑھ میں دفن ہوا، لاشاری نڈھال ہوکر رہ گئے۔
چاکرکی زبردست ریاست بھی بلوچوں کو شہری مزاج سے آشنا نہ کروا سکی۔ وسائل کی بہتات اورآبادی کے قحط کا مارا بلوچستان شہراور شہریت کے لطف سے محروم رہا ، کہ شہر تو آبادی کا تقاضا کرتے ہیں، بلکہ آبادی کا تقاضا ہی شہر کی بنیاد بنتا ہے۔ اور بلوچستان اپنے جغرافیائی تناظر میں آبادی کو ترسا ہوا ہے۔ پھر خانہ بدوشانہ فطرت بھی اس کی مدنیت میں رکاوٹ رہی ہے۔ جہاں چراگاہ ملی، وہاں بسیرا کر لیا۔
اسی کچھی کے وسیع میدانوں میں بلوچستان میں سرائیکی بولنے والوں کا ایک قدیم مسکن و مرکز بھاگ ناڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچستان میں آپ کو سرائیکی بولنے والے قبائل جہاں کہیں بھی ملیں، ان کی آبائی جڑیں کسی نہ کسی پشت میں اسی ناڑی میں جاکر ملیں گی۔ ان قبائل کی بلوچ علاقے میں سکونت کی تاریخ سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، ماسوائے اس ایک حوالے کہ ممکنہ طور پر ان کی آباد کاری چاکر رند کی ملتان آشنائی کے بعد ہوئی ہو، کہ آج بھی یہاں رہائش پذیرسرائیکی بولنے والے مختلف قبائل خود کو رند کی رعیت بتاتے ہیں۔
قطع نظر ان تاریخی موشگافیوں کے ، برسوں سے یہاں آباد یہ قبائل نہایت پُر امن رہے ہیں۔ بلوچستان کے ماتھے پہ سجا قبائلی جنگوں کا کلنک گوکہ یہاں بھی اپنا رنگ دکھاتا رہا ہے، لیکن یہ کبھی بھی ایسا مضبوط نہیں رہا کہ یہاں کے مجموعی امن و محبت کے رنگوں پر حاوی رہا ہو۔ مذہبی فرقہ واریت تو مجموعی بلوچ سماج کی مانند یہاں بھی ناپید رہی ہے۔ ملا، اس سماج کا لازمی مگر بے ضرر جزو رہا ہے۔ ناڑی ایک زمانے میں ہندو اکثریتی علاقہ بھی رہا ہے۔ ہندو گو کہ آج بھی مقامی آبادی کا خاصا حصہ ہیں، لیکن اقلیت میں ہیں۔ یہاں کا ہندو، مقامی آبادی کے ساتھ اس قدر گھل مل کر رہا ہے، کہ جب تک نام کا پتہ نہ چلے، اس کے عقیدے کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
ناڑی کی آبادی روایتی انداز میں ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ جس قبیلے کے چار گھرانوں کو جہاں وافر زمین، ذرا سا پانی اور چراگاہ ملی، وہیں آباد ہو گئے۔ سچو نامی شخص نے جس ویرانے کو آباد کیا، اس کا نام سچو کہلایا۔ جہاں لہڑی قبائل بیٹھ گئے، اس علاقے کا نام لہڑی پڑ گیا۔ جہاں چھلگریوں نے چار گھر بسائے، وہ چھلگری ہو گیا۔ وہی چھلگری جہاں سے بلوچستان کی سیاست میں پہلا عوامی سیاسی ورکر ڈاکٹر حئی کے نام سے ابھر کر سامنے آیا۔
جسے اس خطے کے سب سے بڑے سیاسی رہنماؤں کی تربیت کی چھاؤں نصیب ہوئی۔ مگر اپنے سیاسی پیش روؤں کے افکار و عمل سے مراجعت اختیار کرنے کے باوصف ان کا ایک عمر کا سیاسی سفر بے نتیجہ رہا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے معمولی قصبے میں سیاسی شعور کی اتنی روشنی تک نہ دے سکے کہ جو عوام کو مقامی جاگیرداروں سے متنفر ہی کر سکتی۔ اور اس سیاسی ناکامی کا نتیجہ اس محرم الحرام کی آٹھویں تاریخ کو، ایک خون آلود خود کش دھماکے کی صورت دیکھا گیا۔
ناڑی کے قرب وجوار میں واقع چھلگری نامی معمولی سے قصبے میں خود کش دھماکہ ، اپنی نوعیت کی غیر معمولی خبر ہے۔یہاں کے باسیوں نے خودکش کا ذکر محض پاکستان میں ہونے والے خود دھماکوں کی خبروں میں ہی سن رکھا ہے۔ اکثریت اس کے معنی و مفہوم سے ہی آشنا نہیں۔ اور پھر امام بارگاہ میں دھماکہ، کبھی یہاں کے باسیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا...کہ غمِ حسین کا نوحہ پڑھنے والے یہاں کے سبھی باسی، شبِ برأت پہ عین اسی طرح نعتیں بھی پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ یہ دیگر شہید اماموں کا یومِ شہادت بھی اسی غم کے ساتھ مناتے ہیں۔
سو' یہ دھماکہ محض یہاں کے چند باسیوں کے لیے جان لیوا ہی نہیں بلکہ بچ جانے والے سبھی رہائشیوں کے لیے سوہانِ روح بھی ہے۔ یہ غم انگیز سہی، مگر ایسا حیران کن نہیں، اس لیے کہ اس کے بیج عرصہ ہوا یہاں بوئے جا چکے ہیں، یہ تو محض اس غفلت کی فصل ہے، جو یہاں کے باسی اب اپنے سروں کی صورت کاٹ رہے ہیں۔
ابھی کچھ برس اُدھر، بلوچستان کے سرحدی شہر سے کوئٹہ آتے ہوئے نواح سے بارہ سے چودہ برس کے کچھ بچے وین میں بیٹھے، ان کی غیر مقامی وضع قطع کے باعث کسی نے ان سے شناخت پوچھی تو کہا،'ہم طالبان ہیں!' سواریوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ تب انھوں نے وضاحت دی کہ 'یہاں ایک دینی مدرسے کے طالب ہیں، پشین سے تعلق ہے، چھٹیوں میں گھر جا رہے ہیں۔' پھر ابھی گزشتہ برس جب لاڑکانہ میں مبینہ طور پر کسی ہندو کی جانب سے پاک اوراق کی بے حرمتی کی افواہ اڑی تو اس سرحدی شہر میں ہندو تاجروں کی دکانیں آگ کی نذر ہو گئیں۔ تب شواہد سے پتہ چلا کہ آگ لگانے والے منظم، مسلح مگر غیر مقامی دِکھتے تھے۔ ان کے قدموں کے نشان ان نواحی مدرسوں تک پائے گئے جن کو آباد کرنے والے بھی یہاں کے مقامی نہ تھے۔
البتہ دین کے نام پر سادہ لوح کسانوں ہاریوں پر مشتمل مقامی آبادی کی ہمدردیاں کما چکے ہیں۔ ابھی کچھ برس پہلے تک دیہات میں ایک مسجد اور ایک مولوی ہماری معمول کی زندگی کاحصہ ہوتا تھا۔قصبے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم گویا اس کے فرائض میں شامل ہوتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے باہر سے آئے کرخت چہروں اور سخت لہجے والے مذہبی افراد نے ہمارے سادہ لوح اور سب کے لیے خیر کی دعا کرنے والے اس مولوی کی جگہ لے لی۔ کچی مٹی کی سوندھی خوشبو والی مسجد کی جگہ عالی شان مدرسے آباد ہو گئے۔ سن دوہزار سات میں یہاں کے مقامی اولیا کے مزار پر ہونے والا اولین خود کش دھماکہ یہاں کے باسیوں کے لیے پہلا' کلچرل شاک' تھا۔
چھلگری میں ہونے والا دھماکہ شدت پسند مذہبی رجحانات رکھنے والوں کی اس علاقائی میں بڑھتی ہوئی قوت کا تسلسل ہے۔ جس سے یہاں کے مقامی جاگیرداروں، عوام اور سیاسی کارکنوں نے بوجہ اغماض برتا ہے۔حیرت ہے کہ ریاست کا ضربِ عضب ،ان علاقوں میں موجود مزاحمتی تنظیموں کے ٹھکانوں کو تو ڈھونڈ لیتا ہے، مگر شدت پسند مذہبی تنظیموں کی آرام گاہوں پر اب تک اس کی نظریں نہیں پہنچیں۔ سندھ، بلوچستان کی یہ سرحدی پٹی مذہبی شدت پسندوں کا ایسا محفوظ ٹھکانہ بنتی چلی جا رہی ہے، جو کسی بھی وقت ٹائم بم کی طرح پھٹ سکتی ہے۔ اس کا فوری تدارک نہ ہوا تو، معمولی پھوڑے کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں ناسور میں بدلنے کا عملی مظاہرہ ہم جلد یہاں دیکھیں گے۔