ترقی کی ضامن اردو زبان

سپریم کورٹ آف پاکستان نے (اردو زبان) کو دفتری زبان رائج کرنے کا حکم دے دیا۔

shabbirarman@yahoo.com

سپریم کورٹ آف پاکستان نے (اردو زبان) کو دفتری زبان رائج کرنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح اردو کو بظاہر آزادی مل گئی، لیکن ان ذہنوں سے انگریزی کو کیسے نکالا جائے جو انگریزی لکھنے اور پڑھنے سے اپنی برتری ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔

جب کہ انگریزی بدیسی زبان ہے اور ہر ملک کی عوام کو اپنی قومی زبان پر فخر ہے جب کہ پاکستانی قوم اور ہر ملک کی عوام کو اپنی قومی زبان پر فخر ہے جب کہ پاکستانی قوم کو اسے اپنانے پر شرمندگی ہوتی ہے، شاید اسی کا نام ذہنی غلامی ہے۔

مجھ جیسے اور لوگ بھی ہیں جو اہل زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی انتہائی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو انگریزی سے باہر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے انگریزوں کے ذہنی غلاموں نے اردو کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔ واضح رہے کہ اردو کسی قبیلہ یا کسی کی خاص مادری یا پدری زبان نہیں ہے۔ بلکہ پاک و ہند کی وہ زبان ہے جو مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ اس لیے اسے لشکری زبان کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی اور پاک و ہند میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔

آپ دنیا پر نظر دوڑائیں جن قوموں نے اپنی قومی زبان کو فروغ دیا وہ قومیں آج ترقی یافتہ ہیں۔ ہم کیسے اپنے ان نام نہاد دانشوروں کی اس بات پر یقین کریں کہ انگریزی تعلیم ہی ترقی کا زینہ ہے؟ بات یہ ہے کہ زبان کوئی بھی ہو اسے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اس طرح علم میں اضافہ ہوا ہے، خرابی یہ ہے کہ جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اسے ہم وہاں استعمال کررہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر کسی محفل میں اردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ ہیں تو وہاں ہم انگریزی بولنا شروع کردیتے ہیں یہ غیر ضروری عمل ہے۔ ہاں سامنے والے کے لیے اردو اجنبی زبان ہو اور وہ انگریزی ہی سمجھ اور بول سکتا ہے تو مناسب ہے، در اصل ہم احساس محرومی کا بھی شکار ہیں۔ آپ دیکھیں جب ہمارے ملک میں کوئی غیر ملکی شخصیت آتی ہے تو وہ اپنی قومی زبان میں خطاب کرتا ہے یا کرتی ہے ساتھ ہی اس کا ایک مترجم (ترجمہ کرنے والا) بھی ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخصیت کو انگریزی نہیں آتی ہے بلکہ وہ اپنی قومی زبان کو فروغ دے رہا ہوتا ہے۔

یہی بات پاکستانی قوم کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عطا الحق قاسمی نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ میں اردو کا استاد ہوں لیکن جس وقت مجھے کسی پنجابی بولنے والے سے اردو بولنا پڑ جائے تو میری طبیعت الجھنے لگتی ہے۔ مقصد یہ کہ ہر فرد فطری طور پر اپنی زبان سے ہی زیادہ مانوس رہتا ہے اور اسی فطری اصول کے تحت چین کی مثال ہمارے لیے روشن ہے۔

اور جب ہمارے یہاں اسکولوں کی سطح پر مادری زبان کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اسے قومی زبان اردو کے خلاف سازش کہا جاتا ہے جوکہ غلط ہے ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے سے تعلیمی معیار میں بہتری آسکتی ہے کیوں کہ بچے اپنی مادری زبان سے آشنا ہوتے ہیں وہ فوری طور پر سمجھ جائیںگے کہ انھیں کیا پڑھایا جارہاہے۔ خیر! بات ہورہی تھی قومی زبان اردو کی۔ پھر اسی طرف آتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر فوری رائج کرنے کا حکم دیتے ہوئے 3 ماہ میں عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی ہے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بنچ نے 12 سال پرانی پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 251 کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلہ 26 اگست کو محفوظ کیا گیا تھا جو منگل 8 ستمبر 2015 کو چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا، عدالت نے اپنے فیصلے میں 9 نکات پر مبنی ہدایات جاری کی ہیں۔ جس کی تفصیلات میڈیا پر آچکے ہیں اور اس پر تجزیے اور تبصرے ابھی بھی جاری ہیں۔ اس عدالتی حکم کے بعد وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں کو اردو زبان میں خط و کتابت کے لیے احکامات جاری کردیے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اردو کو دفتری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کے موقع پر اردو لغت بورڈ کی زبوں حالی کا انوکھا واقعہ سامنے آیا ہے۔


اردو ڈکشنری بورڈ میں اردو لغت کی 7 جلدیں ختم ہوگئی ہیں، جس کے سبب قومی اسمبلی کی جانب سے اردو ڈکشنری بورڈ سے مانگے گئے اردو لغت کی تمام 22 جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ اسمبلی کو فراہم نہیں کیا جاسکا ہے اور 22 میں سے محض 15 جلدیں قومی اسمبلی کو بھجوائی جاسکیں، وفاقی حکومت نے اردو لغت کو کئی برس سے لغت کی دوبارہ اشاعت کے لیے فنڈ ہی فراہم نہیں کیا۔

واضح رہے کہ اردو لغت کے پاس 22 جلدوں پر مشتمل لغت میں سے تیسری، چوتھی، 5 ویں، 14 ویں، 15 ویں، 16 ویں اور 17 ویں جلد ادارے کے ذخیرے میں ختم ہوچکی ہے اور اردو لغت کی جلدوں کی دوبارہ اشاعت نہ ہونے کے سبب لغت کی تصنیف و تالیف کرنے والے ادارے کے پاس ہی اس کی جلدیں موجود نہیں ہیں، یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل صدر مملکت ممنون حسین نے آذر بائیجان کے دورے کے موقع پر مذکورہ ملک کے صدر کو لغت کا مکمل سیٹ پیش کرنے کے لیے بورڈ سے 22 جلدیں منگوائیں تو اردو لغت بورڈ کی انتظامیہ نے مجبوراً اپنی پرانی الماریاں کھول کر اس میں موجود ریکارڈ کی کاپیاں نکال کر سیٹ پورا کیا تھا اور بمشکل 22 جلدیں پوری کرکے صدر مملکت کو بھجوائی گئیں۔

واضح رہے کہ آذر بائیجان کے صدر نے اردو لغت کا مکمل سیٹ پاکستان حکومت سے دینے کی درخواست کی تھی۔ اب تو اس مسئلے کا یہی حل ہے کہ اردو لغت کا مکمل سیٹ حکومت پاکستان، حکومت آذر بائیجان سے ادھار میں لے اور اس کی مکمل اشاعت کو یقینی بنائے۔

توقع ہے کہ آیندہ انگریزی نہیں بلکہ اردو میں صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزرا اور تمام سرکاری نمایندے ملک کے اندر اور باہر تقاریر کریں گے اور تمام ادارے سرکاری و نیم سرکاری ادارے اپنی پالیسیوں کا اردو ترجمہ شایع کریں گے، سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہر طرح کے فارم انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فراہم کریں گے۔

تمام عوامی اہمیت کی جگہوں مثلاً عدالتوں، تھانوں، اسپتالوں، پارکوں، تعلیمی اداروں، بینکوں وغیرہ میں رہنمائی کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بورڈ آویزاں کیے جائیں گے، پاسپورٹ آفس، محکمہ انکم ٹیکس، بی پی آر آڈیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمیشن آف پاکستان، ڈرائیونگ لائسنس اور یوٹیلٹی بلوں سمیت تمام دستاویزات اردو میں فراہم کریں گے، وفاقی حکومت کے زیر انتظام تمام ادارے سرکاری و نیم سرکاری اپنی ویب سائٹ اردو میں منتقل کریں گے، پورے ملک میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر رہنمائی کی غرض سے نصب سائن بورڈ انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی نصب کیے جائیں گے، تمام سرکاری تقاریب و استقبالیے اردو میں کی جائے گی، اردو کے نفاذ و ترویج کے سلسلے میں ادارہ فروغ قومی زبان کو مرکزی حیثیت دی جائے گی۔

معروف دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ قومی زبان کا بطور سرکاری زبان نفاذ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا اور یہ کام حکومت کا تھا، کیوں کہ یہ ہمارے آئین کا حصہ ہے، لیکن اس نے نہیں کیا، اردو ہماری قومی شناخت ہے، جس کا تحفظ اور فروغ ہماری قومی ذمے داری ہے، اردو وہ زبان ہے جو پاکستان کے کسی بھی حصے میں بسنے والے افراد سمجھ سکتے ہیں، لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اس کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے۔

حکومت کا کام جب سپریم کورٹ نے کردیا تو اس کے بعد اب اردو کے نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، جو نہایت قابل مذمت ہیں، میرے خیال میں اردو کے نفاذ کو روک کر طبقاتی نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جس کی ایک مثال مقابلے کے امتحانات ہیں، جس میں صرف اپر کلاس کو ترجیح مل رہی ہے اور وہی مخصوص طبقہ بیوروکریسی کو سنبھالے بیٹھا ہے حالاں کہ اگر ان امتحانات کو اردو میں تبدیل کردیا جائے تو ہمارے پاس اتنا ٹیلنٹ ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے مگر یہ قابل نوجوان صرف انگلش کی وجہ سے مار کھا جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک ہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، میں انگلش کے خلاف نہیں، میں نے 40 سال انگلش لکھی، پڑھی اور پڑھائی ہے لیکن اس کے باوجود بحیثیت ایک استاد میں سمجھتاہوں کہ اردو ہی ہماری سرکاری زبان ہونی چاہیے کیوں کہ یہ پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
Load Next Story