فل ٹائم وزیر اعظم
پاکستان کی رگ رگ سے اس کی معیشت سے پیسہ نچوڑ نچوڑ کر نکالا جا رہا ہے
اس خطے میں پاکستان سے بڑے ملک بھارت، چین، ایران بھی موجود ہیں اور چھوٹے ملک سری لنکا، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش کو ہم بڑے ملکوں میں ہی شمار کریں گے مگر اب وہ بھارت کے دوسری طرف شمار ہوتا ہے ہر طرح۔ وہ ایک اسلامی اخوت کا رشتہ بھی اسے ہم سے قریب نہیں لاسکے گا کبھی بھی۔ خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
ہم بات کچھ اور کرنے جا رہے ہیں۔ افغانستان ہر چند کہ حالات حوصلہ افزا نہیں وہاں کے مگر ایک ملک ہے۔ اب آتے ہیں ان ممالک کی جانب جو ترقی کے جائز دعویدار اور حقدار ہیں کہ وہ ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روس، جرمنی، فرانس، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ اور دیگر ممالک۔ ان ملکوں میں باقاعدہ پارلیمنٹ ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبران ہیں۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں ہیں۔ ان کے اجلاس ہوتے ہیں۔ قوانین پاس کیے جاتے ہیں۔ آئینی مباحث ہوتے ہیں۔
ملک و قوم کی ترقی کے بارے میں غور و خوض ہوتا ہے۔ سب اقوام نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جو بین الاقوامی سازش کی تھی اس کا پھل مل گیا ہے وہ ساری دہشت گردی اسلامی ملکوں میں ''اسلامی کارکنوں'' کے ہاتھوں انجام پا رہی ہے۔ اب مغرب اس میں اپنے سپاہی بھی شامل نہیں کر رہا اور اسرائیل اور بھارت محفوظ ہیں ان کے ساتھ ساتھ جو عرب اور ایشیا میں مغرب کے دفاتر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
امریکا نے آخری پلٹا کھا کر پاکستان کو کشمیر اور دہشت گردی کے مسائل میں گردن تک پھنسا کر بھارت سے دوستی کرلی۔ دو بنیے ایک دوسرے کے دوست ہوگئے ہیں۔ سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ خیر بات کسی اور طرف نہ چلی جائے کہ ہم تو بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیتے دیتے رہ گئے۔ جو شاید خدا کو منظور نہ تھا تیاری تو ہماری طرف سے پوری تھی۔ ہمارے حکمرانوں نے تو سرحدی لائن کو بھی اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا تھا کہا تھا کہ ''ہم آپ ایک ہی تو ہیں''۔ وہ تو شاید بھارتی وزیر اعظم نے نہیں مانا ورنہ اس دن ہی اعلان ہوجاتا۔
ہم عرض یہ کر رہے تھے ان ملکوں کی سیر کرانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ ملکوں میں جہاں جہاں جیسی جیسی جمہوریت ہے یا صدارتی نظام ہے۔ یا کوئی اور نظام ہے اگر وزیر اعظم ہے تو اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ بھارت پانچ گنا بڑا ملک ہے! اس کا وزیر اعظم شاذو نادر ہی ملک سے باہر جاتا ہے ورنہ اس کے بھارت میں رہنے کی اور سرگرم رہنے کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی بھی ضرورتیں ہم سے کچھ کم تو نہیں مگر ان کی وزیر اعظم کیونکہ اب تک انھیں ''ان کا'' وزیر اعظم ایک طویل عرصے سے نصیب نہیں ہوسکا۔ تو وہ بھی زیادہ تر اپنے ملک میں پائی جاتی ہیں۔
مڈل ایسٹ کو دیکھ لیجیے وہاں کے سربراہان ''ذاتی مشاغل'' کے علاوہ ملک میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور چھوٹے چھوٹے ملکوں کے وزیر اعظم جوکہ بہت مسائل کا شکار ملک ہیں اپنے ملک میں ہی رہتے ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ 365 میں سے صرف 165 دن ملک میں ہوں اور پورے سال میں دس دن پارلیمنٹ میں، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ملک اور پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں سربراہ کا ہونا ضروری ہے۔ ناکہ سربراہ یوں وہاں رہے کہ کسی دوسرے ملک کے دورے پر آیا ہوا وزیر اعظم محسوس ہو۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر بچوں سے اگر سوال کیا جائے چھوٹے بچوں سے کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہے تو وہ کہہ دیں عمران خان۔ کیونکہ وہ عمران خان کو زیادہ دیکھتے اور جانتے ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو ایک باقاعدہ وزیر اعظم مل ہی نہیں سکا وجہ یہ ہے کہ تمام وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہوکر آئے اور جب تک ان کی ضرورت رہے تو رہے پھر فارغ کردیے گئے۔ یہ نادیدہ قوت سیاستدان سمجھ رہے ہیں کہ ختم ہوگئی مگر ایسا نہیں ہے جس طرح ''ڈینگی'' کا پتہ دیر سے چلتا ہے اس قوت کا پتہ بھی اس وقت چلتا ہے جب حکومت ''فارغ'' ہوجاتی ہے۔
ایوب خان کے دور سے پہلے اسکندر مرزا کا دور تھا اور اس سے پہلے بھی ملک میں طوائف الملوکی تھی اور دو دو ماہ تک کے وزیر اعظم تاریخ میں رپورٹ ہیں۔ اور ہر کابینہ میں سازشوں کے جال کے بعد وزیر اعظم تبدیل ہوجاتا تھا۔ ایوب خان نے دس سال اسے روکے رکھا باقاعدہ حکومت قائم ہوئی اچھی بری دونوں رائے ہیں۔ عوام اچھی حکومت کہتے ہیں کہ ساری ترقی ملک نے اس دور میں کی۔ فاطمہ جناح کی قیمت پر پاکستان نے ترقی کی۔ کمال ہے بھائی کی بدولت پاکستان ملا اور بہن کی بدولت (قربانی جو ان سے لی گئی) ملک نے ترقی کی۔ بھٹو صاحب کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ''اپنا گریباں چاک'' میں لکھا ہے کہ وہ گورنر تک رسائی کے لیے اسکندر مرزا کے ذریعے گورنر کے کچن کو مرغیاں بھجوایا کرتے تھے تو پھر ان مرغیوں نے انڈے دے دیے اور وہ اسکندر مرزا کے وزیر بن گئے۔ تاریخ بہت ظالم ہے اس کے سینے میں سب کچھ محفوظ ہے۔
نظر تو ان کی دوسرے اونچے منصب کی طرف تھی لہٰذا ایوب خان اور پھر بھٹو تاریخ کا سبق سب کو یاد ہے ملک دولخت ہوا اور آدھے پاکستان کی قربانی دے کر بھٹو صاحب نے اس پاکستان کی عنان سنبھالی اور پھر جو ''لوٹ مچی'' تو آج تک برقرار ہے اسے نہ بے نظیر روک سکیں نہ کوئی اور بلکہ ان کے زیرسایہ ہی سب کچھ لوٹا جاتا رہا اور پھر ضیا الحق کے سیاسی جانشین جو کسی زمانے میں سنا ہے کہ اسکوٹر پر ہی گھوما کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم پاکستان کو مخلص وزیر اعظم نہیں ملا۔ تجزیہ یہی کہتا ہے ملک کے حالات ہر جانے اور آنے والے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ہی بدتر ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کی تمام تر توجہ صرف ایک صوبے پر ہے، یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں اور اس ایک صوبے کے بھی ایک مخصوص حصے پر، ہر جگہ میرٹ کا خون ہے، رشتے داریاں، دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں۔ سابقہ حکومت نے بھی یہی کیا موجودہ حکومت بھی یہی کر رہی ہے کسی محکمے میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا شاید تگڑی سفارش ہو تو ہوجائے۔ اب سفارش برائی نہیں رشوت جرم نہیں، ویڈیو وزیر کی موجود ہے رشوت کا اقرار کرتے ہوئے کیا ہوا کچھ بھی نہیں بلکہ جو ضرب ملک کے دوسرے حصوں میں لگائی جا رہی ہے اس کا کچھ حصہ بھی یہاں تادم تحریر نظر نہیں آرہا۔
تو بات ہم نے شروع کی تھی کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا کتنا وقت پاکستان میں گزرتا ہے تو آپ خود حساب لگا لیجیے ابھی ایک طویل دورے سے واپس آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی ایک نیم دلانہ تقریر کی ہے وہ بھی انگریزی میں اور بھارت میں اپنے مفادات (اگر ہیں) کو شاید کچھ نقصان پہنچایا ہے یا اگر کچھ پائپ لائن میں تھا جس کے لیے گورنر پنجاب اور رشتے داروں کو لے گئے تھے تو وہ ابھی پائپ لائن میں ہی رہے گا ۔ پھر امریکا یاترا کا پروگرام بنا ، وہاں جاکر صدر اوباما کو شاید پرچے سے پڑھ کر بتایا، کہ پاکستان کے کیا مسائل ہیں اور امریکا کیا کرسکتا ہے۔ حسب سابق امریکا نے تھپکی دے کر کہا DO MORE۔
اگر صرف ان کے ادوار کے دوروں کا خرچہ ہی جمع کرلیا جائے تو شاید پاکستان کے ایک بجٹ نہیں تو چوتھائی بجٹ کے برابر تو اخراجات ہوں گے۔ پاکستان کو ایک فل ٹائم وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو اپنی سیٹ پر بیٹھ سکے۔ جو ملک و قوم کے بارے میں حقیقی درد رکھتا ہو۔ بینک بیلنس کا درد نہ رکھتا ہو۔
جو پاکستان کے عوام سے کاروبار نہ کرتا ہو۔ پاکستان کے عوام کے لیے ملکی سطح پر ملکی کاروبار کرتا ہو۔ جو نندی پور پراجیکٹ جیسے منصوبوں میں دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور ایسے دوسرے بڑے منصوبوں کی تکمیل کی خواہش رکھتا ہو۔ جو عوام کو روٹی سستی کرکے دے، کپڑا مہیا کرے، مکان کا بندوبست کرے، غریبوں کا رکھوالا بنے۔ صرف تقریروں میں ایسا نظر نہ آئے حقیقت میں ایسا ہی ہو۔
پاکستان کی رگ رگ سے اس کی معیشت سے پیسہ نچوڑ نچوڑ کر نکالا جا رہا ہے اور ذاتی خزانے بھرے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا وزیراعظم چاہیے جو اپنا بھی احتساب کرے اور دوسروں کا بھی اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کردے یہ ملک اس کے لوگ بڑے سچے ہیں۔ انھیں دھوکے ہی ملے، سچا راہ نما نہیں ملا اب تک۔
ہم بات کچھ اور کرنے جا رہے ہیں۔ افغانستان ہر چند کہ حالات حوصلہ افزا نہیں وہاں کے مگر ایک ملک ہے۔ اب آتے ہیں ان ممالک کی جانب جو ترقی کے جائز دعویدار اور حقدار ہیں کہ وہ ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روس، جرمنی، فرانس، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ اور دیگر ممالک۔ ان ملکوں میں باقاعدہ پارلیمنٹ ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبران ہیں۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں ہیں۔ ان کے اجلاس ہوتے ہیں۔ قوانین پاس کیے جاتے ہیں۔ آئینی مباحث ہوتے ہیں۔
ملک و قوم کی ترقی کے بارے میں غور و خوض ہوتا ہے۔ سب اقوام نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جو بین الاقوامی سازش کی تھی اس کا پھل مل گیا ہے وہ ساری دہشت گردی اسلامی ملکوں میں ''اسلامی کارکنوں'' کے ہاتھوں انجام پا رہی ہے۔ اب مغرب اس میں اپنے سپاہی بھی شامل نہیں کر رہا اور اسرائیل اور بھارت محفوظ ہیں ان کے ساتھ ساتھ جو عرب اور ایشیا میں مغرب کے دفاتر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
امریکا نے آخری پلٹا کھا کر پاکستان کو کشمیر اور دہشت گردی کے مسائل میں گردن تک پھنسا کر بھارت سے دوستی کرلی۔ دو بنیے ایک دوسرے کے دوست ہوگئے ہیں۔ سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ خیر بات کسی اور طرف نہ چلی جائے کہ ہم تو بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیتے دیتے رہ گئے۔ جو شاید خدا کو منظور نہ تھا تیاری تو ہماری طرف سے پوری تھی۔ ہمارے حکمرانوں نے تو سرحدی لائن کو بھی اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا تھا کہا تھا کہ ''ہم آپ ایک ہی تو ہیں''۔ وہ تو شاید بھارتی وزیر اعظم نے نہیں مانا ورنہ اس دن ہی اعلان ہوجاتا۔
ہم عرض یہ کر رہے تھے ان ملکوں کی سیر کرانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ ملکوں میں جہاں جہاں جیسی جیسی جمہوریت ہے یا صدارتی نظام ہے۔ یا کوئی اور نظام ہے اگر وزیر اعظم ہے تو اس کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ بھارت پانچ گنا بڑا ملک ہے! اس کا وزیر اعظم شاذو نادر ہی ملک سے باہر جاتا ہے ورنہ اس کے بھارت میں رہنے کی اور سرگرم رہنے کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی بھی ضرورتیں ہم سے کچھ کم تو نہیں مگر ان کی وزیر اعظم کیونکہ اب تک انھیں ''ان کا'' وزیر اعظم ایک طویل عرصے سے نصیب نہیں ہوسکا۔ تو وہ بھی زیادہ تر اپنے ملک میں پائی جاتی ہیں۔
مڈل ایسٹ کو دیکھ لیجیے وہاں کے سربراہان ''ذاتی مشاغل'' کے علاوہ ملک میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور چھوٹے چھوٹے ملکوں کے وزیر اعظم جوکہ بہت مسائل کا شکار ملک ہیں اپنے ملک میں ہی رہتے ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ 365 میں سے صرف 165 دن ملک میں ہوں اور پورے سال میں دس دن پارلیمنٹ میں، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ملک اور پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں سربراہ کا ہونا ضروری ہے۔ ناکہ سربراہ یوں وہاں رہے کہ کسی دوسرے ملک کے دورے پر آیا ہوا وزیر اعظم محسوس ہو۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر بچوں سے اگر سوال کیا جائے چھوٹے بچوں سے کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہے تو وہ کہہ دیں عمران خان۔ کیونکہ وہ عمران خان کو زیادہ دیکھتے اور جانتے ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو ایک باقاعدہ وزیر اعظم مل ہی نہیں سکا وجہ یہ ہے کہ تمام وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہوکر آئے اور جب تک ان کی ضرورت رہے تو رہے پھر فارغ کردیے گئے۔ یہ نادیدہ قوت سیاستدان سمجھ رہے ہیں کہ ختم ہوگئی مگر ایسا نہیں ہے جس طرح ''ڈینگی'' کا پتہ دیر سے چلتا ہے اس قوت کا پتہ بھی اس وقت چلتا ہے جب حکومت ''فارغ'' ہوجاتی ہے۔
ایوب خان کے دور سے پہلے اسکندر مرزا کا دور تھا اور اس سے پہلے بھی ملک میں طوائف الملوکی تھی اور دو دو ماہ تک کے وزیر اعظم تاریخ میں رپورٹ ہیں۔ اور ہر کابینہ میں سازشوں کے جال کے بعد وزیر اعظم تبدیل ہوجاتا تھا۔ ایوب خان نے دس سال اسے روکے رکھا باقاعدہ حکومت قائم ہوئی اچھی بری دونوں رائے ہیں۔ عوام اچھی حکومت کہتے ہیں کہ ساری ترقی ملک نے اس دور میں کی۔ فاطمہ جناح کی قیمت پر پاکستان نے ترقی کی۔ کمال ہے بھائی کی بدولت پاکستان ملا اور بہن کی بدولت (قربانی جو ان سے لی گئی) ملک نے ترقی کی۔ بھٹو صاحب کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ''اپنا گریباں چاک'' میں لکھا ہے کہ وہ گورنر تک رسائی کے لیے اسکندر مرزا کے ذریعے گورنر کے کچن کو مرغیاں بھجوایا کرتے تھے تو پھر ان مرغیوں نے انڈے دے دیے اور وہ اسکندر مرزا کے وزیر بن گئے۔ تاریخ بہت ظالم ہے اس کے سینے میں سب کچھ محفوظ ہے۔
نظر تو ان کی دوسرے اونچے منصب کی طرف تھی لہٰذا ایوب خان اور پھر بھٹو تاریخ کا سبق سب کو یاد ہے ملک دولخت ہوا اور آدھے پاکستان کی قربانی دے کر بھٹو صاحب نے اس پاکستان کی عنان سنبھالی اور پھر جو ''لوٹ مچی'' تو آج تک برقرار ہے اسے نہ بے نظیر روک سکیں نہ کوئی اور بلکہ ان کے زیرسایہ ہی سب کچھ لوٹا جاتا رہا اور پھر ضیا الحق کے سیاسی جانشین جو کسی زمانے میں سنا ہے کہ اسکوٹر پر ہی گھوما کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم پاکستان کو مخلص وزیر اعظم نہیں ملا۔ تجزیہ یہی کہتا ہے ملک کے حالات ہر جانے اور آنے والے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ہی بدتر ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کی تمام تر توجہ صرف ایک صوبے پر ہے، یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں اور اس ایک صوبے کے بھی ایک مخصوص حصے پر، ہر جگہ میرٹ کا خون ہے، رشتے داریاں، دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں۔ سابقہ حکومت نے بھی یہی کیا موجودہ حکومت بھی یہی کر رہی ہے کسی محکمے میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا شاید تگڑی سفارش ہو تو ہوجائے۔ اب سفارش برائی نہیں رشوت جرم نہیں، ویڈیو وزیر کی موجود ہے رشوت کا اقرار کرتے ہوئے کیا ہوا کچھ بھی نہیں بلکہ جو ضرب ملک کے دوسرے حصوں میں لگائی جا رہی ہے اس کا کچھ حصہ بھی یہاں تادم تحریر نظر نہیں آرہا۔
تو بات ہم نے شروع کی تھی کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا کتنا وقت پاکستان میں گزرتا ہے تو آپ خود حساب لگا لیجیے ابھی ایک طویل دورے سے واپس آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی ایک نیم دلانہ تقریر کی ہے وہ بھی انگریزی میں اور بھارت میں اپنے مفادات (اگر ہیں) کو شاید کچھ نقصان پہنچایا ہے یا اگر کچھ پائپ لائن میں تھا جس کے لیے گورنر پنجاب اور رشتے داروں کو لے گئے تھے تو وہ ابھی پائپ لائن میں ہی رہے گا ۔ پھر امریکا یاترا کا پروگرام بنا ، وہاں جاکر صدر اوباما کو شاید پرچے سے پڑھ کر بتایا، کہ پاکستان کے کیا مسائل ہیں اور امریکا کیا کرسکتا ہے۔ حسب سابق امریکا نے تھپکی دے کر کہا DO MORE۔
اگر صرف ان کے ادوار کے دوروں کا خرچہ ہی جمع کرلیا جائے تو شاید پاکستان کے ایک بجٹ نہیں تو چوتھائی بجٹ کے برابر تو اخراجات ہوں گے۔ پاکستان کو ایک فل ٹائم وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو اپنی سیٹ پر بیٹھ سکے۔ جو ملک و قوم کے بارے میں حقیقی درد رکھتا ہو۔ بینک بیلنس کا درد نہ رکھتا ہو۔
جو پاکستان کے عوام سے کاروبار نہ کرتا ہو۔ پاکستان کے عوام کے لیے ملکی سطح پر ملکی کاروبار کرتا ہو۔ جو نندی پور پراجیکٹ جیسے منصوبوں میں دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور ایسے دوسرے بڑے منصوبوں کی تکمیل کی خواہش رکھتا ہو۔ جو عوام کو روٹی سستی کرکے دے، کپڑا مہیا کرے، مکان کا بندوبست کرے، غریبوں کا رکھوالا بنے۔ صرف تقریروں میں ایسا نظر نہ آئے حقیقت میں ایسا ہی ہو۔
پاکستان کی رگ رگ سے اس کی معیشت سے پیسہ نچوڑ نچوڑ کر نکالا جا رہا ہے اور ذاتی خزانے بھرے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا وزیراعظم چاہیے جو اپنا بھی احتساب کرے اور دوسروں کا بھی اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کردے یہ ملک اس کے لوگ بڑے سچے ہیں۔ انھیں دھوکے ہی ملے، سچا راہ نما نہیں ملا اب تک۔