عمران خان کی نرالی عادت
عمران خان لیڈر ہو نہ ہو، اس کی پارٹی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن ان میں ’’پنگا‘‘ لینے کی عادت بڑی پکی ہے
ISLAMABAD:
ہم دل ول، پیار ویار وغیرہ کی طرح یہ تو نہیں جانتے کہ سیاست ویاست کیا ہوتی ہے۔
لیڈر ویڈر کن چڑیوں یا کوؤں کے نام ہیں بلکہ ساری پارٹیوں اور تمام لیڈروں میں سے بھی کسی کے طرف دار ہیں نہ مخالف، یہ بھی نہیں جانتے کہ کون اچھا ہے کون برا ۔۔۔ یوں کہیے، ہمارا معاملہ اس شخص کا سا ہے جس کی دو بیویاں تھیں۔ ایک کا نام آشہ اور دوسری کا نام گلہ تھا۔ وہ دونوں ھمہ وقت لڑتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے شوہر سے پوچھا کہ دونوں میں سے کون زیادہ بری ہے۔ اس پر وہ بولا،
بیخ دے اوزی یو تربلہ
نہ آشہ خہ دہ نہ گلہ
یعنی خدا دونوں کو غارت کرے ، آشہ اچھی ہے نہ گلہ، چنانچہ ہمارے لیے سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بھی آشہ اور گلہ ہیں لیکن ایک بات جو ماننا پڑے گی، وہ یہ ہے کہ عمران خان لیڈر ہو نہ ہو، اس کی پارٹی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن عمران خان میں ''پنگا'' لینے کی عادت بڑی پکی ہے۔ ہم جب بھی دیکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی سے ''پنگا'' لیتے ہوئے ملتے ہیں، حکومت سے تو ان کا ''چھتیس کا آکڑہ'' ابتدا ہی سے چلا آرہا ہے لیکن ادھر ادھر منہ مارنے سے بھی باز نہیں آتے، کافی عرصہ ہوا، انھوں نے ایم کیو ایم سے پنگا لیا تھا، بعد میں نواز شریف کے ساتھ تو تو میں میں ہو گئی اور آج کل ہمارے ممدوح حضرت مدظلہ العالیٰ برسر ''توتکار'' ہیں۔
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
سنا ہے ان کے پاس ایک عدد ''تھنک ٹینک'' بھی موجود ہے اور اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ انھیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں، یہی اپنا تھنک ٹینک ہی ان کو ڈبونے کے لیے کافی ہے اور یہ کوئی اندازہ یا مفروضہ نہیں ہے بلکہ تاریخی روایت ہے کہ جب بھی کسی کو ڈبویا ہے تو اپنے ہی تھنک ٹینک نے ڈبویا ہے۔ ہرن کو بھی اپنے خوب صورت سینگوں پر ناز تھا لیکن پھسنایا تو انھی سینگوں نے اور طاؤس کو بھی اس کے خوب صورت پروں اور دم ہی نے پکڑوایا تھا ۔گھر کو جب بھی آگ لگتی ہے تو گھر ہی کے چراغ یا شارٹ سرکٹ سے لگتی ہے، تاریخ کا لمبا چوڑا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے اپنے اس ملک کے اندر ایسا ہی ہوتا ہے چنانچہ ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان کو ''پنگا'' لینے پر اکسانے کا ذمے دار شاید ان کا تھنک ٹینک ہی ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہے اور ''پنگا'' لینے کی یہ بری عادت ان کی ''اپنی'' ہے تو پھر اور بھی تشویش کی بات ہے۔ اس بیوہ کے بیٹے کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جو روزانہ باہر سے پٹ کر آتا تھا کہ آج مجھے فلاں نے مارا اور آج فلاں نے پیٹا۔ آخر کار ایک روز ماں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ روز کوئی نہ کوئی تمہیں پیٹ ڈالتا ہے۔ اس پر بیٹا بولا ، ماں میں سچ بولتا ہوں اس لیے ۔۔۔ اس پر ماں حیران ہوئی، بیٹا، یہ کیا بات ہوئی کہ لوگ تمہیں سچ کہنے پر پیٹتے ہیں۔
بیٹا بولا، ماں یہ سچ ہے ہی ایسی چیز ۔۔۔ اگر آج میں آپ سے بھی سچ کہہ دوں تو آپ بھی مجھے پیٹ ڈالیں گی۔ ماں بولی، میرے ہاتھ ٹوٹ جائیں جو میں تمہیں سچ کہنے پر پیٹوں بلکہ میں تو خوش ہو جاؤں گی، بو لوکیا سچ بولنا چاہتے ہو۔ اس پر وہ سچائی کا مارا بولا ۔۔۔ ایک بات بتاؤ، میرا باپ تو مر چکا ہے، پھر یہ تم روزانہ ہار سنگار اور سرمہ دنداسہ کس لیے کرتی ہو اور کیوں کرتی ہو؟ بات ماں کی ایڑی میں لگی اور چوٹی سے نکلی، ڈنڈا اٹھا کر بولی، ذرا ٹھہر تو سہی بدزبان ۔۔۔ لیکن بیٹے کو سچ کے انجام کا پتہ تھا، اس لیے وہ پہلے ہی بھاگ اٹھا۔
ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان میں بھی کچھ ایسا ہی مینو فیکچرنگ فالٹ ہے کہ جہاں جاتے ہیں داستان چھوڑ آتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ تو جنوبی وزیرستان پر ڈرون حملہ کرنے والے تھے، بیچ میں یہ حضرت مدظلہ العالیٰ سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی، اور کہا بھی تو کیا ۔۔۔ وہ جو ساری دنیا جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے بلکہ اگر سیدھے ہموار لہجے میں بات کی جاتی تو حضرت کو اس سے خود بھی انکار نہیں ہو گا اگر وہ ہر حکومت کے خاص بااعتماد اور ساتھی سنگی بنتے ہیں تو اس میں عیب کی کیا بات ہے، یہ تو ہنر ہے حافظ نے بھی کہا ہے کہ
حسد چہ مے بری اے ست نظم برحافظ
کہ قبول خاطر و لطف سخن خداداد است
بلکہ اسے ہم ہر دل عزیزی اور محبوب و خاص و عام کرنے کی صفت میں گردان سکتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کے لیے یہ پلس پوائنٹ ہے نہ کہ عیب۔ ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی، پورے گاؤں کے ہر گھر میں ہر مرد و عورت، بوڑھا جوان اس کا قدر دان تھا۔ جس طرف نکل جاتی، لوگ اہلاً و سہلاً کہہ کر استقبال کرنے لگتے۔ سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ہر شادی غمی میں بلاتے ۔۔۔ ہم نے ایک مرتبہ اس سے پوچھ ہی لیا کہ خالہ آخر تمہاری ہر دل عزیری کا راز کیا ہے؟ بولی، بس ایک ہی راز ہے کہ میں برا نہیں مانتی ۔۔۔ چاہے کوئی کچھ بھی کہے یا کرے، شاید مدظلہ العالیٰ میں بھی یہ یہی خوبی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔
وہ کسی بات کا برا بھی نہیں مانتے، کسی کو برا بھی نہیں مانتے اور کسی کی بات کو بھی برا نہیں کہتے، یوں کہیے کہ ان مشہور و معروف تین بندوں کا عملی نمونہ ہیں کہ برا مت دیکھو، برا مت سنو اور برا مت کہو۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر عمران خان کو حضرت کی اس بے مثل خوبی میں کیا خامی نظر آئی لیکن شاید خامی خود انھی کے اندر ہے، وہی جو ہم نے پہلے بتائی یعنی پنگا لینے کی بری عادت، ہم نہ تو کوئی تھنک ٹینک ہیں نہ مفکر و دانشور، لیکن جتنا کچھ تجربہ اپنے پاس ہے، اس کی بناء پر ہم ایک ''شبھ چنتک'' کے طور پر عمران خان کو مشورہ دیں گے کہ اپنی یہ پنگا لینے کی عادت اگر چھوڑ نہیں سکتے تو اسے تھوڑا سا مدھم کر لیں کیوں کہ ابھی ان کو بہت آگے جانا ہے، بہت زیادہ کام کرنا ہے۔
ان کا اپنا کہنا ہے کہ وہ نوے دن میں پاکستان کی تمام ''بری لتیں'' چھڑا دیں گے اور یہاں وہاں جو بھی گند نظر آتا ہے سب کو صاف کر کے پورے ملک کو، اس کے نظام کو اور عوام کو چمکا کر رکھ دیں گے۔ ایسے میں اگر وہ یوں قدم قدم پر لوگوں سے الجھتے رہیں گے اور پنگا لیتے رہیں گے تو ظاہر ہے کہ سفر کھوئی تو ہو گی ہی۔ اپنے راستوں کو بھی کانٹوں سے بھر دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنا دامن بھی تار تار کر کے رکھ دیں، لیکن ہمیں کچھ زیادہ یقین نہیں ہے کہ وہ یہ بات مان لیں گے، پہلے تو اس بات کا ان تک پہنچنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ مخصوص ''حصار'' ان کے گرد بھی قائم ہو چکا ہے جس سے ''سچ'' کا پرندہ بھی پر مار کر نہیں گزر سکتا۔
ہم دل ول، پیار ویار وغیرہ کی طرح یہ تو نہیں جانتے کہ سیاست ویاست کیا ہوتی ہے۔
لیڈر ویڈر کن چڑیوں یا کوؤں کے نام ہیں بلکہ ساری پارٹیوں اور تمام لیڈروں میں سے بھی کسی کے طرف دار ہیں نہ مخالف، یہ بھی نہیں جانتے کہ کون اچھا ہے کون برا ۔۔۔ یوں کہیے، ہمارا معاملہ اس شخص کا سا ہے جس کی دو بیویاں تھیں۔ ایک کا نام آشہ اور دوسری کا نام گلہ تھا۔ وہ دونوں ھمہ وقت لڑتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے شوہر سے پوچھا کہ دونوں میں سے کون زیادہ بری ہے۔ اس پر وہ بولا،
بیخ دے اوزی یو تربلہ
نہ آشہ خہ دہ نہ گلہ
یعنی خدا دونوں کو غارت کرے ، آشہ اچھی ہے نہ گلہ، چنانچہ ہمارے لیے سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بھی آشہ اور گلہ ہیں لیکن ایک بات جو ماننا پڑے گی، وہ یہ ہے کہ عمران خان لیڈر ہو نہ ہو، اس کی پارٹی کیسی بھی کیوں نہ ہو لیکن عمران خان میں ''پنگا'' لینے کی عادت بڑی پکی ہے۔ ہم جب بھی دیکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی سے ''پنگا'' لیتے ہوئے ملتے ہیں، حکومت سے تو ان کا ''چھتیس کا آکڑہ'' ابتدا ہی سے چلا آرہا ہے لیکن ادھر ادھر منہ مارنے سے بھی باز نہیں آتے، کافی عرصہ ہوا، انھوں نے ایم کیو ایم سے پنگا لیا تھا، بعد میں نواز شریف کے ساتھ تو تو میں میں ہو گئی اور آج کل ہمارے ممدوح حضرت مدظلہ العالیٰ برسر ''توتکار'' ہیں۔
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
سنا ہے ان کے پاس ایک عدد ''تھنک ٹینک'' بھی موجود ہے اور اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ انھیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں، یہی اپنا تھنک ٹینک ہی ان کو ڈبونے کے لیے کافی ہے اور یہ کوئی اندازہ یا مفروضہ نہیں ہے بلکہ تاریخی روایت ہے کہ جب بھی کسی کو ڈبویا ہے تو اپنے ہی تھنک ٹینک نے ڈبویا ہے۔ ہرن کو بھی اپنے خوب صورت سینگوں پر ناز تھا لیکن پھسنایا تو انھی سینگوں نے اور طاؤس کو بھی اس کے خوب صورت پروں اور دم ہی نے پکڑوایا تھا ۔گھر کو جب بھی آگ لگتی ہے تو گھر ہی کے چراغ یا شارٹ سرکٹ سے لگتی ہے، تاریخ کا لمبا چوڑا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے اپنے اس ملک کے اندر ایسا ہی ہوتا ہے چنانچہ ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان کو ''پنگا'' لینے پر اکسانے کا ذمے دار شاید ان کا تھنک ٹینک ہی ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہے اور ''پنگا'' لینے کی یہ بری عادت ان کی ''اپنی'' ہے تو پھر اور بھی تشویش کی بات ہے۔ اس بیوہ کے بیٹے کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جو روزانہ باہر سے پٹ کر آتا تھا کہ آج مجھے فلاں نے مارا اور آج فلاں نے پیٹا۔ آخر کار ایک روز ماں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ کیا بات ہے کہ روز کوئی نہ کوئی تمہیں پیٹ ڈالتا ہے۔ اس پر بیٹا بولا ، ماں میں سچ بولتا ہوں اس لیے ۔۔۔ اس پر ماں حیران ہوئی، بیٹا، یہ کیا بات ہوئی کہ لوگ تمہیں سچ کہنے پر پیٹتے ہیں۔
بیٹا بولا، ماں یہ سچ ہے ہی ایسی چیز ۔۔۔ اگر آج میں آپ سے بھی سچ کہہ دوں تو آپ بھی مجھے پیٹ ڈالیں گی۔ ماں بولی، میرے ہاتھ ٹوٹ جائیں جو میں تمہیں سچ کہنے پر پیٹوں بلکہ میں تو خوش ہو جاؤں گی، بو لوکیا سچ بولنا چاہتے ہو۔ اس پر وہ سچائی کا مارا بولا ۔۔۔ ایک بات بتاؤ، میرا باپ تو مر چکا ہے، پھر یہ تم روزانہ ہار سنگار اور سرمہ دنداسہ کس لیے کرتی ہو اور کیوں کرتی ہو؟ بات ماں کی ایڑی میں لگی اور چوٹی سے نکلی، ڈنڈا اٹھا کر بولی، ذرا ٹھہر تو سہی بدزبان ۔۔۔ لیکن بیٹے کو سچ کے انجام کا پتہ تھا، اس لیے وہ پہلے ہی بھاگ اٹھا۔
ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان میں بھی کچھ ایسا ہی مینو فیکچرنگ فالٹ ہے کہ جہاں جاتے ہیں داستان چھوڑ آتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ تو جنوبی وزیرستان پر ڈرون حملہ کرنے والے تھے، بیچ میں یہ حضرت مدظلہ العالیٰ سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی، اور کہا بھی تو کیا ۔۔۔ وہ جو ساری دنیا جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے بلکہ اگر سیدھے ہموار لہجے میں بات کی جاتی تو حضرت کو اس سے خود بھی انکار نہیں ہو گا اگر وہ ہر حکومت کے خاص بااعتماد اور ساتھی سنگی بنتے ہیں تو اس میں عیب کی کیا بات ہے، یہ تو ہنر ہے حافظ نے بھی کہا ہے کہ
حسد چہ مے بری اے ست نظم برحافظ
کہ قبول خاطر و لطف سخن خداداد است
بلکہ اسے ہم ہر دل عزیزی اور محبوب و خاص و عام کرنے کی صفت میں گردان سکتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کے لیے یہ پلس پوائنٹ ہے نہ کہ عیب۔ ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی، پورے گاؤں کے ہر گھر میں ہر مرد و عورت، بوڑھا جوان اس کا قدر دان تھا۔ جس طرف نکل جاتی، لوگ اہلاً و سہلاً کہہ کر استقبال کرنے لگتے۔ سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ہر شادی غمی میں بلاتے ۔۔۔ ہم نے ایک مرتبہ اس سے پوچھ ہی لیا کہ خالہ آخر تمہاری ہر دل عزیری کا راز کیا ہے؟ بولی، بس ایک ہی راز ہے کہ میں برا نہیں مانتی ۔۔۔ چاہے کوئی کچھ بھی کہے یا کرے، شاید مدظلہ العالیٰ میں بھی یہ یہی خوبی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔
وہ کسی بات کا برا بھی نہیں مانتے، کسی کو برا بھی نہیں مانتے اور کسی کی بات کو بھی برا نہیں کہتے، یوں کہیے کہ ان مشہور و معروف تین بندوں کا عملی نمونہ ہیں کہ برا مت دیکھو، برا مت سنو اور برا مت کہو۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر عمران خان کو حضرت کی اس بے مثل خوبی میں کیا خامی نظر آئی لیکن شاید خامی خود انھی کے اندر ہے، وہی جو ہم نے پہلے بتائی یعنی پنگا لینے کی بری عادت، ہم نہ تو کوئی تھنک ٹینک ہیں نہ مفکر و دانشور، لیکن جتنا کچھ تجربہ اپنے پاس ہے، اس کی بناء پر ہم ایک ''شبھ چنتک'' کے طور پر عمران خان کو مشورہ دیں گے کہ اپنی یہ پنگا لینے کی عادت اگر چھوڑ نہیں سکتے تو اسے تھوڑا سا مدھم کر لیں کیوں کہ ابھی ان کو بہت آگے جانا ہے، بہت زیادہ کام کرنا ہے۔
ان کا اپنا کہنا ہے کہ وہ نوے دن میں پاکستان کی تمام ''بری لتیں'' چھڑا دیں گے اور یہاں وہاں جو بھی گند نظر آتا ہے سب کو صاف کر کے پورے ملک کو، اس کے نظام کو اور عوام کو چمکا کر رکھ دیں گے۔ ایسے میں اگر وہ یوں قدم قدم پر لوگوں سے الجھتے رہیں گے اور پنگا لیتے رہیں گے تو ظاہر ہے کہ سفر کھوئی تو ہو گی ہی۔ اپنے راستوں کو بھی کانٹوں سے بھر دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنا دامن بھی تار تار کر کے رکھ دیں، لیکن ہمیں کچھ زیادہ یقین نہیں ہے کہ وہ یہ بات مان لیں گے، پہلے تو اس بات کا ان تک پہنچنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ مخصوص ''حصار'' ان کے گرد بھی قائم ہو چکا ہے جس سے ''سچ'' کا پرندہ بھی پر مار کر نہیں گزر سکتا۔