وہ ایک سجدہ……
خالق اور اس کی ہدایات کو انسانوں کے ذہنوں میں تروتازہ رکھنے کے لیے دن میں پانچ اوقات ایسے مقرّرکیے گئے ہیں
بِل گیٹس ہو اس جیسا کوئی دوسرا بزنس ٹائیکون یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا مالک جس کے ماتحت ہزاروں نہیں لاکھوں ملازمین ہوں اُن سب کی مونیٹرنگ (نگرانی) کا ایک موثر نظام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اُن کی evaluationکی جاتی ہے۔
اپنے طرزِ عمل یعنی محنت، قابلیّت اور ادارے سے وفاداری کے باعث ملازمین میں سے کچھ مالک کے پسندیدہ بن جاتے ہیں اِسی طرح دنیاؤں اور کائناتوں کے مالک (جس کے ماتحت یا غلام تمام انسان ہیں) کی پسندیدگی یا خوشنودی انسانوں میں سے کچھ کو ان کے عمل یا طرزِ عمل کی بناء پر حاصل ہوتی ہے ۔ جوبیس گھنٹوں کے عمل کے لیے گائیڈلائینز مقرر کردی گئی ہیں جن کے مطابق انسان اپنے دفتری یا کاروباری امور انجام دیتا ہے تو مالک اس کو بھی عبادت قرار دیتا ہے اور اس کا انعام یا اجر عطا کرتا ہے۔
خالق اور اس کی ہدایات کو انسانوں کے ذہنوں میں تروتازہ رکھنے کے لیے دن میں پانچ اوقات ایسے مقرّرکیے گئے ہیں جب انسانوں پر لازم ہو تا ہے کہ وہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر اس کے حضور حاضر ہوں اور اپنی بندگی اور غلامی کا اقرار اور اظہار کریں۔ اظہارِ بندگی کے لیے صرف جھکنا نہیں سر بسجود ہونا ضروری ہے، انسان کے قلب وروح میں یہ احساس جاگزیں ہوکہ میں ربّ العالمین کے دربار میں حاضر ہوں اور معافی کا طلب گار یا التجا گزار ہوں۔ وہ سجدہ ریز ہوکر ہی ہوسکتا ہے۔
کمر کے درر کے باعث راقم کوڈاکٹر صاحبان نے کرسی پر نماز پڑھنے کی ہدایت کی تو دل بہت افسردہ ہوا، اُس وقت دل سے دعا کی تھی کہ "اے رحمان ورحیم اپنے اس گناہگار بندے کو سجدے کی لذّت سے محروم نہ کرنا" اس کیفیّت کا اظہار تحریرمیں ہواتو بہت سے قارئین اور دوستوں نے دعائیں کیں اور شفاء کے نسخے تجویز کیے، میں ان سب کا بہت مشکور ہوں۔ ربّ کریم نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دعا قبول فرمائی اور اب ایکسرسائیزاورتھَیریپی سے خاصہ افاقہ ہے۔
سجدہ ماتھا ٹیکنے کا نہیں ایک کیفیّت کا نام ہے ، قلب میں سوز اور روح میں احساس نہ ہو تو سجدہ بے کیف اور بے جان سی ایکسر سائز ہے۔کائنات کے خالق اور مالک نے بتایا ہے کہ''زمین و آسمان کی ہر چیز اﷲ کو سجدہ کررہی ہے''۔ ایک اور جگہ انسانوں کوحکم دیاہے، ''اس کی جناب میںسجدہ کرو اور آخری گھڑی تک اپنے ربّ کی بندگی کرتے رہو''۔
نبی کریمﷺ جب مجمعے کے سامنے قرآن پڑھ رہے ہوتے اور اس میں آیت ِسجدہ آتی تو آپﷺ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا۔ آقائے ؐدوجہاں کا فرمان ہے، ''انسانوں کااپنے خالق کے حضور سر بسجود ہونا اﷲکو بے حد پسند ہے اور شیطان کو سخت ناپسند...''
دربارِ الٰہی میں حاضری کے وقت مختلف انسانوں کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی کے نردیک ملاّ اور مجاہد کی اذان بھی یکساںنہیںاسی طرح مردِ آزاد اوربندۂ غلام کی نماز مختلف ہے۔ اقبالؒ نے 'غلاموں کی نماز کے عنوان سے پوری نظم لکھ دی۔
ہزار کام ہیںمردانِ حُر کو دنیا میں
انھی کے ذوقِ عمل سے ہیں اُمّتوں کے نظام
خدا نصیب کرے ھند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیام
اسلام مسکینی اور غلامی کا نہیں، قوّت و شوکت اور عظمت کا نام ہے۔ غلامانہ ذہنیّت کے حامل، علیحدہ وطن کے مخالف، کم نظر مولویوں کے بارے میں تحریکِ پاکستان کے نظریاتی مرُشد نے 1940سے بہت پہلے لکھ دیا تھا،
مسکینی و محکومی و نومیدیٔ جاوید
جس کا یہ تصوّف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّاکو جوہے جو ھند میں سجدے کی اجازت
ناداںیہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
سجدہ ماتھا رگڑنے کا نہیں، قلب و دماغ کی حضوری کا نام ہے۔ اگر ربّ اَلعالمین سے زیادہ دنیاوی حکمرانوں کا ڈر ہو اور اُمید اور لالچ بھی انھی سے وابستہ ہو تو پھر نماز ٹکرو ں کے سوا کچھ نہیں ایسی ہی ٹکریں ہم جیسے کروڑوں مسلمان ہر روز مسجدوں میں مارتے رہتے ہیں ۔ اقبالؒ نے اپنے نہیں ہمارے بارے میں کہا تھا۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
دانائے راز نے ہمارے سینوں میں ایستادہ بُتوں کا راز فاش کردیا مگر ساتھ یہ بھی بتایا کہ بت شکنوں کے امام ابراہیم(علیہ السلاّم) کے راستے پر چلنے والوں کو ایسی غیر معمولی قوّت عطا کی جاتی ہے کہ ان کی ایک نظر سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
براہیمی نظر پیدا مگرمشکل سے ہوتی ہے
ھوس چھپ چھپ کے سینوںمیں بنالیتی ہے تصویریں
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
پوچھا گیا کہ مومن کون ہے؟ کہا ،''جو حلقہء یاراں میں ریشم کی طرح نرم ہو... مگر رَزمِ حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن'' پوچھا گیا کہ کافر اور مومن کی پہچان کیا ہے ؟ کہا کہ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے ۔ مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
مومن تیغ و تفنگ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنی تقدیر کی لکیریں خود کھینجتا ہے ۔
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیرِالٰہی
مومن ہے تو وہ آ پ ہے تقدیرِ الٰہی
اورمومن کی صدائے تکبیر بلند ہو تو ہر چیز پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔
یہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
حکیم ا لاُمّتؒ اسی اذان کی تلاش میں نکلے اور تاریخ کے قدموں پر چلتے چلتے قرطبہ جا پہنچے ۔ قافلہء حجاز کے سرفروشوں کے عزم وعشق کی علامت مسجدِ قرطبہ میں داخل ہوئے تو انھیں بتایا گیا کہ اب یہ مسجد نہیں کلیسا ہے یہاں نماز کی اجازت نہیں ۔ قدیم و جدید علوم پر دسترس رکھنے والے صاحبِ عقل و دانش نے کہا ''ربّ العالمین تمام انسانوں کا ہے اور ہر جگہ موجود ہے اس کی بارگاہ میں سجدے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں''۔ علاّمہ اقبالؒ نے مسجدِ قرطبہ میں نماز ادا کی اور کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر ھمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔کئی دھائیوں بعد 2001 میں راقم کو غرناطہ اور قرطبہ جانے کا موقع ملا ، مسجد ِ قرطبہ کے مرکزی دروازے پر ایسی ہی ہدایات راقم نے بھی سنیں جنھیں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اصل محراب کوتلاش کیا گیا اور وہیں سر بسجود ہوکر اﷲ کی عظمتوں کا اعتراف کیا گیا۔ اُس نماز کا سرور برسوںتک قائم رہا۔
اُمّتِ مسلمہ کے فکری راہنما کو جس اذان کی خواہش اور تڑپ قرطبہ اور فلسطین لے گئی تھی۔ وہاں صرف اس کی بازگشت تھی وہ اذان نہیں تھی ۔ بندۂ مومن کاوہ سجدہ جس سے زمین کانپ اٹھتی تھی اور پہاڑلرزجاتے تھے کہیں نظرنہ آیا۔ اُمّت ِمسلمہ ان سجدوں سے محروم ہوگئی تو شاعرنے دل گرفتہ ہوکر کہا۔
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشئہ سیماب
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبرو محراب
مگر وہ سجدہ پیشانی رگڑنے سے نہیں ہوتا وہ سجدہ تو جسم و روح میں انقلاب برپا کردیتا ہے ،اس سجدے کے فیضان سے انسان کی گردن خالق کے سواکسی اور بادشاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتی ہے اور پیشانی کسی اور چوکھٹ پر زمین بوسی اپنے اوپر حرام کرلیتی ہے۔
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پہ حرام
مگروہ ایک سجدہ۔۔۔۔محض سجدہ نہیں
عہد ہے، مالکِ کائنات کی مکمل اطاعت قبول کرنے کا!
عزم ہے، اﷲکے احکامات کے آگے سر تسلیمِ خم کرنے کا!
اور اعلان ہے، دنیا کے تمام جھوٹے ، جعلی اور عارضی خداؤں کی نفی کا اور ان کے احکامات سے انکار کا!
اسی سجدے نے بندوں کو نمرودوں، فرعونوں، ابو لہبوں اور یزیدوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا۔
حیف ہے !کہ ُاس سے انکار کرنے والا کم نظر انسان اُس سجدے کے نتائج اور اثرات سے بے خبر ہے۔ وہ ایک سجدہ انسان کو احساسِ کمتری کی دلدل سے نکال کر خودی اور خودداری کی دولت سے مالامال کردیتا ہے ۔ وہ ایک سجدہ نحیف و نزار بندے کو بڑے سے بڑے جابر شہنشاہوں کے خوف سے آزاد کردیتا ہے اوریہ اسی سجدے کی شان ہے کہ وہ انسان کو امریکا ، یورپ اور چین جیسی طاقتوں اور کروڑوں ،اربوں روپے سے انسانی ضمیر خریدنے والے آج کے ''داتاؤں'' کی اطاعت اور خوشنودی سے بے نیاز کردیتا ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اپنے طرزِ عمل یعنی محنت، قابلیّت اور ادارے سے وفاداری کے باعث ملازمین میں سے کچھ مالک کے پسندیدہ بن جاتے ہیں اِسی طرح دنیاؤں اور کائناتوں کے مالک (جس کے ماتحت یا غلام تمام انسان ہیں) کی پسندیدگی یا خوشنودی انسانوں میں سے کچھ کو ان کے عمل یا طرزِ عمل کی بناء پر حاصل ہوتی ہے ۔ جوبیس گھنٹوں کے عمل کے لیے گائیڈلائینز مقرر کردی گئی ہیں جن کے مطابق انسان اپنے دفتری یا کاروباری امور انجام دیتا ہے تو مالک اس کو بھی عبادت قرار دیتا ہے اور اس کا انعام یا اجر عطا کرتا ہے۔
خالق اور اس کی ہدایات کو انسانوں کے ذہنوں میں تروتازہ رکھنے کے لیے دن میں پانچ اوقات ایسے مقرّرکیے گئے ہیں جب انسانوں پر لازم ہو تا ہے کہ وہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر اس کے حضور حاضر ہوں اور اپنی بندگی اور غلامی کا اقرار اور اظہار کریں۔ اظہارِ بندگی کے لیے صرف جھکنا نہیں سر بسجود ہونا ضروری ہے، انسان کے قلب وروح میں یہ احساس جاگزیں ہوکہ میں ربّ العالمین کے دربار میں حاضر ہوں اور معافی کا طلب گار یا التجا گزار ہوں۔ وہ سجدہ ریز ہوکر ہی ہوسکتا ہے۔
کمر کے درر کے باعث راقم کوڈاکٹر صاحبان نے کرسی پر نماز پڑھنے کی ہدایت کی تو دل بہت افسردہ ہوا، اُس وقت دل سے دعا کی تھی کہ "اے رحمان ورحیم اپنے اس گناہگار بندے کو سجدے کی لذّت سے محروم نہ کرنا" اس کیفیّت کا اظہار تحریرمیں ہواتو بہت سے قارئین اور دوستوں نے دعائیں کیں اور شفاء کے نسخے تجویز کیے، میں ان سب کا بہت مشکور ہوں۔ ربّ کریم نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دعا قبول فرمائی اور اب ایکسرسائیزاورتھَیریپی سے خاصہ افاقہ ہے۔
سجدہ ماتھا ٹیکنے کا نہیں ایک کیفیّت کا نام ہے ، قلب میں سوز اور روح میں احساس نہ ہو تو سجدہ بے کیف اور بے جان سی ایکسر سائز ہے۔کائنات کے خالق اور مالک نے بتایا ہے کہ''زمین و آسمان کی ہر چیز اﷲ کو سجدہ کررہی ہے''۔ ایک اور جگہ انسانوں کوحکم دیاہے، ''اس کی جناب میںسجدہ کرو اور آخری گھڑی تک اپنے ربّ کی بندگی کرتے رہو''۔
نبی کریمﷺ جب مجمعے کے سامنے قرآن پڑھ رہے ہوتے اور اس میں آیت ِسجدہ آتی تو آپﷺ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا۔ آقائے ؐدوجہاں کا فرمان ہے، ''انسانوں کااپنے خالق کے حضور سر بسجود ہونا اﷲکو بے حد پسند ہے اور شیطان کو سخت ناپسند...''
دربارِ الٰہی میں حاضری کے وقت مختلف انسانوں کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی کے نردیک ملاّ اور مجاہد کی اذان بھی یکساںنہیںاسی طرح مردِ آزاد اوربندۂ غلام کی نماز مختلف ہے۔ اقبالؒ نے 'غلاموں کی نماز کے عنوان سے پوری نظم لکھ دی۔
ہزار کام ہیںمردانِ حُر کو دنیا میں
انھی کے ذوقِ عمل سے ہیں اُمّتوں کے نظام
خدا نصیب کرے ھند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیام
اسلام مسکینی اور غلامی کا نہیں، قوّت و شوکت اور عظمت کا نام ہے۔ غلامانہ ذہنیّت کے حامل، علیحدہ وطن کے مخالف، کم نظر مولویوں کے بارے میں تحریکِ پاکستان کے نظریاتی مرُشد نے 1940سے بہت پہلے لکھ دیا تھا،
مسکینی و محکومی و نومیدیٔ جاوید
جس کا یہ تصوّف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّاکو جوہے جو ھند میں سجدے کی اجازت
ناداںیہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
سجدہ ماتھا رگڑنے کا نہیں، قلب و دماغ کی حضوری کا نام ہے۔ اگر ربّ اَلعالمین سے زیادہ دنیاوی حکمرانوں کا ڈر ہو اور اُمید اور لالچ بھی انھی سے وابستہ ہو تو پھر نماز ٹکرو ں کے سوا کچھ نہیں ایسی ہی ٹکریں ہم جیسے کروڑوں مسلمان ہر روز مسجدوں میں مارتے رہتے ہیں ۔ اقبالؒ نے اپنے نہیں ہمارے بارے میں کہا تھا۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
دانائے راز نے ہمارے سینوں میں ایستادہ بُتوں کا راز فاش کردیا مگر ساتھ یہ بھی بتایا کہ بت شکنوں کے امام ابراہیم(علیہ السلاّم) کے راستے پر چلنے والوں کو ایسی غیر معمولی قوّت عطا کی جاتی ہے کہ ان کی ایک نظر سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
براہیمی نظر پیدا مگرمشکل سے ہوتی ہے
ھوس چھپ چھپ کے سینوںمیں بنالیتی ہے تصویریں
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
پوچھا گیا کہ مومن کون ہے؟ کہا ،''جو حلقہء یاراں میں ریشم کی طرح نرم ہو... مگر رَزمِ حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن'' پوچھا گیا کہ کافر اور مومن کی پہچان کیا ہے ؟ کہا کہ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے ۔ مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
مومن تیغ و تفنگ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنی تقدیر کی لکیریں خود کھینجتا ہے ۔
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیرِالٰہی
مومن ہے تو وہ آ پ ہے تقدیرِ الٰہی
اورمومن کی صدائے تکبیر بلند ہو تو ہر چیز پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔
یہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
حکیم ا لاُمّتؒ اسی اذان کی تلاش میں نکلے اور تاریخ کے قدموں پر چلتے چلتے قرطبہ جا پہنچے ۔ قافلہء حجاز کے سرفروشوں کے عزم وعشق کی علامت مسجدِ قرطبہ میں داخل ہوئے تو انھیں بتایا گیا کہ اب یہ مسجد نہیں کلیسا ہے یہاں نماز کی اجازت نہیں ۔ قدیم و جدید علوم پر دسترس رکھنے والے صاحبِ عقل و دانش نے کہا ''ربّ العالمین تمام انسانوں کا ہے اور ہر جگہ موجود ہے اس کی بارگاہ میں سجدے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں''۔ علاّمہ اقبالؒ نے مسجدِ قرطبہ میں نماز ادا کی اور کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر ھمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔کئی دھائیوں بعد 2001 میں راقم کو غرناطہ اور قرطبہ جانے کا موقع ملا ، مسجد ِ قرطبہ کے مرکزی دروازے پر ایسی ہی ہدایات راقم نے بھی سنیں جنھیں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اصل محراب کوتلاش کیا گیا اور وہیں سر بسجود ہوکر اﷲ کی عظمتوں کا اعتراف کیا گیا۔ اُس نماز کا سرور برسوںتک قائم رہا۔
اُمّتِ مسلمہ کے فکری راہنما کو جس اذان کی خواہش اور تڑپ قرطبہ اور فلسطین لے گئی تھی۔ وہاں صرف اس کی بازگشت تھی وہ اذان نہیں تھی ۔ بندۂ مومن کاوہ سجدہ جس سے زمین کانپ اٹھتی تھی اور پہاڑلرزجاتے تھے کہیں نظرنہ آیا۔ اُمّت ِمسلمہ ان سجدوں سے محروم ہوگئی تو شاعرنے دل گرفتہ ہوکر کہا۔
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشئہ سیماب
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبرو محراب
مگر وہ سجدہ پیشانی رگڑنے سے نہیں ہوتا وہ سجدہ تو جسم و روح میں انقلاب برپا کردیتا ہے ،اس سجدے کے فیضان سے انسان کی گردن خالق کے سواکسی اور بادشاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتی ہے اور پیشانی کسی اور چوکھٹ پر زمین بوسی اپنے اوپر حرام کرلیتی ہے۔
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پہ حرام
مگروہ ایک سجدہ۔۔۔۔محض سجدہ نہیں
عہد ہے، مالکِ کائنات کی مکمل اطاعت قبول کرنے کا!
عزم ہے، اﷲکے احکامات کے آگے سر تسلیمِ خم کرنے کا!
اور اعلان ہے، دنیا کے تمام جھوٹے ، جعلی اور عارضی خداؤں کی نفی کا اور ان کے احکامات سے انکار کا!
اسی سجدے نے بندوں کو نمرودوں، فرعونوں، ابو لہبوں اور یزیدوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا۔
حیف ہے !کہ ُاس سے انکار کرنے والا کم نظر انسان اُس سجدے کے نتائج اور اثرات سے بے خبر ہے۔ وہ ایک سجدہ انسان کو احساسِ کمتری کی دلدل سے نکال کر خودی اور خودداری کی دولت سے مالامال کردیتا ہے ۔ وہ ایک سجدہ نحیف و نزار بندے کو بڑے سے بڑے جابر شہنشاہوں کے خوف سے آزاد کردیتا ہے اوریہ اسی سجدے کی شان ہے کہ وہ انسان کو امریکا ، یورپ اور چین جیسی طاقتوں اور کروڑوں ،اربوں روپے سے انسانی ضمیر خریدنے والے آج کے ''داتاؤں'' کی اطاعت اور خوشنودی سے بے نیاز کردیتا ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات