میں ایک بزدل آدمی
میں تو سمجھ رہا تھا کہ تمام مذہبی جماعتیں سڑکوں پر ہوں گی کہ کیسے لڑکیوں کی پٹائی کی گئی۔
میں تو سمجھ رہا تھا کہ تمام مذہبی جماعتیں سڑکوں پر ہوں گی کہ کیسے لڑکیوں کی پٹائی کی گئی۔ لیکن شاید اس لیے کہ ان لڑکیوں کی پٹائی ممبئی کے بجائے کراچی میں ہوئی تھی، اس لیے مظاہرہ ہو نہیں سکتا تھا۔ اگر یہ پٹائی انڈیا میں ہوئی ہوتی تو تمام مذہبی جماعتیں سڑکوں پر ہوتیں اور کہہ رہی ہوتیں کہ ہندو انتہاپسندوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اگر یہ ہی پٹائی امریکا میں ہوئی ہوتی تو فوراً ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو جاتا کہ کافروں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ لیکن کیونکہ یہ معمولی سا واقعہ مسلمان لڑکیوں کے ساتھ ہوا ہے اور اسے کرنے والے بھی مذہب کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں، اس لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں۔ اس پٹائی کے پیچھے بھی ہندوؤں، یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش لگتی ہے۔ اور اس کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ ملوث ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ یہ لڑکیاں کرکٹ کے بلے سے مار کھاتے ہوئے یہ بھی اقرار کر چکی ہوں کہ یہ ''را'' کی ایجنٹ ہیں۔ اسی لیے انھیں یہ سبق سکھایا گیا ہو۔
ویسے کراچی یونیورسٹی میں کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں نے یقیناً بہت بڑا گناہ کیا تھا۔ ایک تو وہ لڑکیاں اور پھر اوپر سے انگریزوں کا کھیل کھیلنا؟ یقیناً ان سب لڑکیوں کو اس کی سزا ملنی چاہیے جو انگیزوں کا کھیل کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ مگر ان لوگوں کا کیا کیا جائے جنھوں نے انگریزوں کا کھیل کھیلتے ہوئے ہمیں دہشت گردی کا تحفہ دیا ہے۔ یہ تو ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں بلے تھے جنھوں نے ہمیں سکھایا تھا کہ کس طرح ڈالر کی جھنکار پر رقص ہو سکتا ہے، اور کیسے اپنے معاشرے کو تشدد کا نشان بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں ان کی مرضی کے بغیر کوئی پر بھی نہیں مار سکتا ہو۔ مگر انھیں اب چاہیے کہ یہ لوگ گھر گھر تلاشی لیں اور جتنی بھی لڑکیوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے اسے توڑ دیں۔ کیوں کہ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کے ہاتھوں سے انگریز کا کھلونا چھن جائے گا۔ میرا خیال ہے انھیں اس عظیم کام کی پہل اپنے گھروں سے کرنی چاہیے۔ تا کہ محرم خواتین کی باتیں کوئی انگریز نہ سن سکے۔
دیکھئے کتنا بڑا واقعہ ہو گیا تھا اور اس سے فحاشی پھیلنے کے بہت زیادہ چانس تھے۔ یونیورسٹی میں آخر لڑکیوں نے کرکٹ کیوں کھیلی؟ نہ وہ کرکٹ کھیلتیں نہ ہی دکانداروں کو جوش آتا کہ کہیں ہماری دکان بند نہ ہو جائے۔ اس لیے سارے کا سارا قصور ان لڑکیوں کا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کا ایجنٹ بنتے ہوئے چند لوگوں کی دکانوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ ان لڑکیوں کو بلے سے بس چھوا گیا اور اتنی چوٹ ماری گئی کہ انھیں یونیورسٹی کے کلینک سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ پولیس اتنی مہربان ہے کہ فوراً سمجھ گئی سارا قصور لڑکیوں کا ہے اور انھوں نے دکانداروں کو اکسایا۔ اسی لیے تو اس مہذب شہر کی شریف پولیس نے فوراً ہی دکانداروں کو رہا کر دیا۔ ان کے گریبان تک ہاتھ ہی نہیں ڈالے گئے۔ کراچی یونیورسٹی میں تو بڑے بڑے لوگ چوکیداری کرتے ہیں۔ انھیں بھی معلوم تھا کہ کون ''را'' کا ایجنٹ ہے اسی لیے تو ان کے سامنے سب کچھ ہوتا رہا اور انھوں نے بھی ملک دشمنوں کو سزا دیتے وقت اپنی آنکھیں بند رکھیں۔
ایان علی نے اتنی بری حرکت کی تھی کہ اسے اس یونیورسٹی کے اندر قدم ہی نہیں رکھنا چاہیے تھا، اسی لیے ہماری انتظامیہ اتنی تیزی سے سرگرم ہوئی کہ اس بچے کا مستقبل ہی تاریک کر دیا جس نے ایان علی کو دعوت دی تھی۔ ایان علی کی قسمت اچھی تھی کہ اس وقت وہاں بلے موجود نہیں تھے، ورنہ وہ اس کا بھی یہ ہی حال کرتے جو ان لڑکیوں کا کیا ہے۔ جو انتظامیہ ایک لڑکی کے آنے پر کسی طالب علم کو نکال سکتی ہے، کیا وہ انتظامیہ اتنی نااہل ہو چکی ہے کہ ان کاروباری دکاندروں کو گرفتار اور یونیورسٹی سے نکالنا تو دور کی بات شو کاز تک نہیں بھیج سکتی۔
ہم جو ایان علی کی تاریخ پر اس کے نئے نئے انداز دکھا سکتے ہیں، ہمیں بھی بلے نظر نہیں آئے۔ یہ تو وہ ہی یونیورسٹی ہے جس نے ان ملک کو لیڈر دیے۔ ان سب کی طرف سے کیوں خاموشی ہے۔ وہ اس مادر علمی کو ان ٹھیکیداروں کے حوالے کر چکے ہیں، جو صرف اور صرف اپنی ٹھیکیداری کو مضبوط کر رہے ہیں۔
ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ ہم ان لڑکیوں کے بارے میں آواز اٹھا سکیں جو اب شاید کبھی یونیورسٹی کا دروازہ نہ دیکھ سکیں۔ ہم لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اب کیا ان لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجیں گے؟ انڈیا میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے حالیہ انٹرویو میں یہ بات کہی کہ میری بیٹی بھی پڑھنے جاتی ہے اور مجھے اس کے گھر آنے تک فکر لگی رہتی ہے۔ یہاں کسی سیاسی جماعت کے سورما میں یہ ہمت ہے جو یہ کہہ سکے کہ ان لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور اسے جن ٹھیکیداروں نے نقصان پہنچایا ہے ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔
انڈیا انتہاپسندی کے دلدل میں پھنس چکا ہے، وہاں ہندو انتہاپسندوں نے کھلی دہشت گردی پھیلائی ہوئی ہے۔ لیکن وہاں کچھ لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے قومی اعزاز واپس کر دیے ہیں۔ آپ مجھے کسی ایک کا نام بتا سکتے ہیں جو پاکستان میں کھل کر ان لڑکیوں کی حمایت میں سامنے آیا ہو۔ ہمارے یہاں ان کے خوف کا عالم یہ ہے کہ لوگ لکھتے اور بولتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر بھی الزام نہ داغ دیا جائے۔ انسانی حقوق کے دعویدار شاید ابھی کچھ سوچ رہے ہوں اور اس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر آ کر اس قوم پر احسان عظیم کریں گے۔
بچے بچے کو معلوم ہے ان لڑکیوں کو کس نے مارا۔ لیکن مجبوری اور بے کسی کا یہ عالم ہے کہ وہ لڑکیاں بھی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی ہیں، کیونکہ ان کا گھر یہ سب برداشت نہیں کر سکے گا۔
یہاں تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ چھوڑیں اس پر بات کرتے ہیں کہ ہندو انتہاپسند جماعت نے ہماری کرکٹ کو ذلیل کر دیا ہے اور انھوں نے شہریار خان کے جانے پر جو احتجاج کیا ہے وہ بدترین ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ لیکن ہم لوگ کرکٹ کے فروغ میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور ہمارے یہاں مردوں کی کرکٹ کے ساتھ ساتھ خواتین کی کرکٹ بھی فروغ پا رہی ہے۔ ہمارے یہاں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی نے کرکٹ پر پابندی لگائی ہو۔ یہ سب تو افواہ ہیں۔ ہمارے یہاں تو مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ کرکٹ کو فروغ دیا ہے اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں کھیل کے میدان میں جب دھماکے ہوئے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں اس کے شدید خلاف تھیں اور ہمیشہ ہی رہیں گی۔ یہ سب تو انڈیا کا واویلا ہے۔ آئیے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ملک کا امیج اچھا دکھاتے ہیں۔ ہم بتاتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو ساری فلمیں بغیر کسی دباؤ کے ریلیز ہو جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کی تصاویر پر کالا رنگ نہیں پھیرا جاتا۔ لیکن یہ ہندو انتہاپسند ہے جو شاہ رخ خان کی فلموں پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم تمام لوگوں اور جماعتوں کے متعلق لکھ سکتے ہیں۔
یہ انڈیا ہے جہاں ویلنٹائن ڈے پر ہندو انتہاپسند لڑکے اور لڑکیوں کو مارتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو آج تک کسی نے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے اور تمام لوگوں میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے۔ یہ بھارت ہے جہاں پر مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں پر ظلم ڈھایا جاتا ہے اور بھارتی میڈیا ان کے نام بھی نہیں لے سکتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو مکمل آزادی ہے، ہم چور کو چور کہہ سکتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس پورے مضمون میں اس دکاندار کا نام تک نہیں لکھ سکا۔ سیدھی بات ہے بھائی، ہیرو صرف فلموں میں اچھے لگتے ہیں۔ میں ٹھہرا بزدل آدمی۔
ویسے کراچی یونیورسٹی میں کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں نے یقیناً بہت بڑا گناہ کیا تھا۔ ایک تو وہ لڑکیاں اور پھر اوپر سے انگریزوں کا کھیل کھیلنا؟ یقیناً ان سب لڑکیوں کو اس کی سزا ملنی چاہیے جو انگیزوں کا کھیل کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ مگر ان لوگوں کا کیا کیا جائے جنھوں نے انگریزوں کا کھیل کھیلتے ہوئے ہمیں دہشت گردی کا تحفہ دیا ہے۔ یہ تو ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں بلے تھے جنھوں نے ہمیں سکھایا تھا کہ کس طرح ڈالر کی جھنکار پر رقص ہو سکتا ہے، اور کیسے اپنے معاشرے کو تشدد کا نشان بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں ان کی مرضی کے بغیر کوئی پر بھی نہیں مار سکتا ہو۔ مگر انھیں اب چاہیے کہ یہ لوگ گھر گھر تلاشی لیں اور جتنی بھی لڑکیوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے اسے توڑ دیں۔ کیوں کہ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کے ہاتھوں سے انگریز کا کھلونا چھن جائے گا۔ میرا خیال ہے انھیں اس عظیم کام کی پہل اپنے گھروں سے کرنی چاہیے۔ تا کہ محرم خواتین کی باتیں کوئی انگریز نہ سن سکے۔
دیکھئے کتنا بڑا واقعہ ہو گیا تھا اور اس سے فحاشی پھیلنے کے بہت زیادہ چانس تھے۔ یونیورسٹی میں آخر لڑکیوں نے کرکٹ کیوں کھیلی؟ نہ وہ کرکٹ کھیلتیں نہ ہی دکانداروں کو جوش آتا کہ کہیں ہماری دکان بند نہ ہو جائے۔ اس لیے سارے کا سارا قصور ان لڑکیوں کا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کا ایجنٹ بنتے ہوئے چند لوگوں کی دکانوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ ان لڑکیوں کو بلے سے بس چھوا گیا اور اتنی چوٹ ماری گئی کہ انھیں یونیورسٹی کے کلینک سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ پولیس اتنی مہربان ہے کہ فوراً سمجھ گئی سارا قصور لڑکیوں کا ہے اور انھوں نے دکانداروں کو اکسایا۔ اسی لیے تو اس مہذب شہر کی شریف پولیس نے فوراً ہی دکانداروں کو رہا کر دیا۔ ان کے گریبان تک ہاتھ ہی نہیں ڈالے گئے۔ کراچی یونیورسٹی میں تو بڑے بڑے لوگ چوکیداری کرتے ہیں۔ انھیں بھی معلوم تھا کہ کون ''را'' کا ایجنٹ ہے اسی لیے تو ان کے سامنے سب کچھ ہوتا رہا اور انھوں نے بھی ملک دشمنوں کو سزا دیتے وقت اپنی آنکھیں بند رکھیں۔
ایان علی نے اتنی بری حرکت کی تھی کہ اسے اس یونیورسٹی کے اندر قدم ہی نہیں رکھنا چاہیے تھا، اسی لیے ہماری انتظامیہ اتنی تیزی سے سرگرم ہوئی کہ اس بچے کا مستقبل ہی تاریک کر دیا جس نے ایان علی کو دعوت دی تھی۔ ایان علی کی قسمت اچھی تھی کہ اس وقت وہاں بلے موجود نہیں تھے، ورنہ وہ اس کا بھی یہ ہی حال کرتے جو ان لڑکیوں کا کیا ہے۔ جو انتظامیہ ایک لڑکی کے آنے پر کسی طالب علم کو نکال سکتی ہے، کیا وہ انتظامیہ اتنی نااہل ہو چکی ہے کہ ان کاروباری دکاندروں کو گرفتار اور یونیورسٹی سے نکالنا تو دور کی بات شو کاز تک نہیں بھیج سکتی۔
ہم جو ایان علی کی تاریخ پر اس کے نئے نئے انداز دکھا سکتے ہیں، ہمیں بھی بلے نظر نہیں آئے۔ یہ تو وہ ہی یونیورسٹی ہے جس نے ان ملک کو لیڈر دیے۔ ان سب کی طرف سے کیوں خاموشی ہے۔ وہ اس مادر علمی کو ان ٹھیکیداروں کے حوالے کر چکے ہیں، جو صرف اور صرف اپنی ٹھیکیداری کو مضبوط کر رہے ہیں۔
ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت ہے کہ ہم ان لڑکیوں کے بارے میں آواز اٹھا سکیں جو اب شاید کبھی یونیورسٹی کا دروازہ نہ دیکھ سکیں۔ ہم لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اب کیا ان لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجیں گے؟ انڈیا میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے حالیہ انٹرویو میں یہ بات کہی کہ میری بیٹی بھی پڑھنے جاتی ہے اور مجھے اس کے گھر آنے تک فکر لگی رہتی ہے۔ یہاں کسی سیاسی جماعت کے سورما میں یہ ہمت ہے جو یہ کہہ سکے کہ ان لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور اسے جن ٹھیکیداروں نے نقصان پہنچایا ہے ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔
انڈیا انتہاپسندی کے دلدل میں پھنس چکا ہے، وہاں ہندو انتہاپسندوں نے کھلی دہشت گردی پھیلائی ہوئی ہے۔ لیکن وہاں کچھ لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے قومی اعزاز واپس کر دیے ہیں۔ آپ مجھے کسی ایک کا نام بتا سکتے ہیں جو پاکستان میں کھل کر ان لڑکیوں کی حمایت میں سامنے آیا ہو۔ ہمارے یہاں ان کے خوف کا عالم یہ ہے کہ لوگ لکھتے اور بولتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر بھی الزام نہ داغ دیا جائے۔ انسانی حقوق کے دعویدار شاید ابھی کچھ سوچ رہے ہوں اور اس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر آ کر اس قوم پر احسان عظیم کریں گے۔
بچے بچے کو معلوم ہے ان لڑکیوں کو کس نے مارا۔ لیکن مجبوری اور بے کسی کا یہ عالم ہے کہ وہ لڑکیاں بھی اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی ہیں، کیونکہ ان کا گھر یہ سب برداشت نہیں کر سکے گا۔
یہاں تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ چھوڑیں اس پر بات کرتے ہیں کہ ہندو انتہاپسند جماعت نے ہماری کرکٹ کو ذلیل کر دیا ہے اور انھوں نے شہریار خان کے جانے پر جو احتجاج کیا ہے وہ بدترین ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ لیکن ہم لوگ کرکٹ کے فروغ میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور ہمارے یہاں مردوں کی کرکٹ کے ساتھ ساتھ خواتین کی کرکٹ بھی فروغ پا رہی ہے۔ ہمارے یہاں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی نے کرکٹ پر پابندی لگائی ہو۔ یہ سب تو افواہ ہیں۔ ہمارے یہاں تو مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ کرکٹ کو فروغ دیا ہے اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں کھیل کے میدان میں جب دھماکے ہوئے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں اس کے شدید خلاف تھیں اور ہمیشہ ہی رہیں گی۔ یہ سب تو انڈیا کا واویلا ہے۔ آئیے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ملک کا امیج اچھا دکھاتے ہیں۔ ہم بتاتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو ساری فلمیں بغیر کسی دباؤ کے ریلیز ہو جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کی تصاویر پر کالا رنگ نہیں پھیرا جاتا۔ لیکن یہ ہندو انتہاپسند ہے جو شاہ رخ خان کی فلموں پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم تمام لوگوں اور جماعتوں کے متعلق لکھ سکتے ہیں۔
یہ انڈیا ہے جہاں ویلنٹائن ڈے پر ہندو انتہاپسند لڑکے اور لڑکیوں کو مارتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو آج تک کسی نے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے اور تمام لوگوں میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے۔ یہ بھارت ہے جہاں پر مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں پر ظلم ڈھایا جاتا ہے اور بھارتی میڈیا ان کے نام بھی نہیں لے سکتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو مکمل آزادی ہے، ہم چور کو چور کہہ سکتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس پورے مضمون میں اس دکاندار کا نام تک نہیں لکھ سکا۔ سیدھی بات ہے بھائی، ہیرو صرف فلموں میں اچھے لگتے ہیں۔ میں ٹھہرا بزدل آدمی۔