نصف ایمان خطرے میں
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے،
ISLAMABAD:
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، ان شہریوں میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف زبانیں بولنے والے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اس کے باوجود اس شہر کے مسائل کوئی بھی درست طریقے سے حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جب کہ اس شہر سے ہر کوئی کمانے کے چکر میں نظر آتا ہے۔ گویا یہ شہر درحقیقت ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ تو ہر کوئی حاصل کر رہا ہے مگر اسے چارہ ڈالنے کو کوئی تیار نہیں۔
کمشنر کراچی کی جانب سے اکثر اخبارات کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس شہر کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں، لیکن شاید ابھی بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا جو ہونا چاہیے، مثلاً ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ عید قرباں پر شہر کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے صفائی کا کام اچھے طریقے سے کیا گیا یعنی جانوروں کی آلائشیں فوراً اٹھائی جاتی رہیں مگر دیکھنے میں آیا کہ شہر کا دیگر کوڑا کرکٹ گلیوں اور سڑکوں کے کنارے جمع رہا اور اس میں ابھی تک اضافہ ہی ہوا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کوڑا کرکٹ کو اٹھانے کے بجائے شہر کی گلیوں اور سڑکوں کے کنارے آگ لگا کر چھوڑ دیا گیا، جس سے شہر دھوئیں کی لپٹ میں آ گیا، راقم نے جب یہ منظر دیکھا تو سخت ذہنی کوفت ہوئی اور سوچا کہ اگر اس پر کالم لکھ کر توجہ دلائی تو کافی وقت لگے گا، چنانچہ اپنے ایک طالب علم کو فون کر کے کہا کہ آپ اپنے ٹی وی چینل پر اس خبر کو جگہ دیں، اس نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف فوراً ہی یہ خبر بنائے گا بلکہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار سے ان کا موقف بھی لے گا۔
افسوس کہ ایک ماہ گزر نے کے باوجود اب بھی مجھے سہراب گوٹھ، ناگن چورنگی اور سخی حسن وغیرہ سے گزرتے ہوئے وہی جلتے ہوئے کچرے سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مناظر نظر آتے ہیں۔ ایک پلازہ (ارم ایونیو، بفرزون) کے عقب میں ایسا ہی منظر دیکھا تو قریبی دکاندار سے پوچھا کہ جناب یہ کچرے میں کون لوگ آگ لگا رہے ہیں؟ کیا ان کو اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ دھواں ان کے گھروں میں پہنچ کر مشکلات پیدا کر دے گا، یہ تو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ راقم کی بات سن کر دکاندار نے کہا کہ وہ تو خود پریشان ہیں، کیونکہ دھوئیں کے باعث دکان پر بیٹھنا بھی مشکل ہو رہا ہے، یہ کام ہم نے نہیں کیا بلکہ انتظامیہ کے لوگ خود آگ لگا کر گئے ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ جس شہری انتظامیہ کو اپنے شہریوں کو یہ شعور دینا چاہیے تھا کہ دھواں نہ صرف آلودگی پھیلاتا ہے بلکہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ کچرے میں خطرناک کیمیکل والی اشیاء مثلاً پلاسٹک کے بیگ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں یعنی وہ انتظامیہ جو کچرے کے ڈھیر میں آگ لگانے سے لوگوں کو منع کرتی اور اس کے نقصانات سے شہریوں کو آگاہ کرتی، وہ خود یہ کام کر رہی ہے۔
مین شاہراہوں پر جلائے جانے والے کچرے کے دھوئیں سے نہ صرف گاڑیوں میں گزرنے والوں کو سخت پریشانی ہو رہی ہے بلکہ یہ دھواں براہ راست فلیٹس کے مکینوں کا جینا بھی دوبھر کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں تو فلیٹس اور دیگر بلند و بالا عمارتوں میں روشنی اور ہوا کے گزر کا مناسب انتظام ہی نہیں ہوتا، ایسے میں یہ دھواں کس قدر پریشانی کا باعث بن رہا ہو گا؟ اس کا احساس شاید انتظامیہ کو نہیں ہے، نہ ہی وہ کرنا چاہتی ہے۔
راقم نے اس سے قبل بھی اپنے کئی کالموں میں یہ بات کہی تھی کہ اس شہر میں اب آلودگی بہت بڑھ گئی ہے، جب کہ دوسری جانب پر فضا مقام دانستہ طور پر محض چند پیسے کمانے کے لیے ختم کیے جا رہے ہیں۔ چائنا کٹنگ نے اس شہر کے کھلے میدان بھی ختم کر دیے، پارک کمرشل مقاصد سے نتھی کر دیے گئے ہیں، اب محلوں میں دور تک کہیں کھلی فضا، میدان یا خالی زمین نظر نہیں آتی۔ کھیل کے میدان ناپید ہو گئے ہیں۔
بچے نوجوان کہاں جا کر کھیلیں؟ اب تو اسکولوں میں بھی میدان نظر نہیں آتے، بچوں اور نوجوانوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے ماحول ہی نہیں رہا، چنانچہ اب ان کی اکثریت یا تو کسی کیرم بورڈ، ویڈیو گیم یا پھر موبائل وغیرہ کے ساتھ دن رات مصروف نظر آتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا شہری مسئلہ بن چکا ہے، مگر افسوس ہمارے نمایندوں اور شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے کچھ نظر نہیں آتا۔ اخبارات میں تجاوزات کو ختم کرنے سے متعلق بہت خبریں آئیں، مگر کہیں یہ خبر نہیں آئی کہ ان تجاوزات کو ختم کر کے پھر سے کھیل کے میدان آباد کیے جائیں گے۔
اس وقت شہر میں ایسے پارک یا میدان دستیاب نہیں کہ جہاں پر بچے سائیکل چلا سکیں کیونکہ شہری انتظامیہ کی جانب سے پارک کی چار دیواری کرنے اور ان کے ایک حصے میں کمرشل جھولے اور بعض پارکوں میں تو باقاعدہ ٹکٹ کا نظام قائم کر دیا گیا ہے، ایسے پارک میں بچوں کو سائیکلیں لے جانے پر پابندی عائد ہے، سائیکل چلانے والے بچے اب گلی محلوں میں اپنا شوق پورا کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ خطرناک عمل ہے مگر ان بچوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
غور کیجیے ہم اپنے شہریوں کو کس قدر آلودہ ماحول دے رہے ہیں؟ شہر کی ایک بڑی آبادی تنگ گلیوں اور چھوٹی چھوٹی بلند عمارتوں والی رہائش گاہوں میں شب و روز بسر کر رہی ہے یا بلند و بالا پلازہ میں جو زیادہ بر تر لب سڑک واقع ہیں، جہاں تازہ ہوا ان کی رہائش گاہوں تک نہیں پہنچتی اور جن فلیٹس میں ہوا آتی ہے وہ انتہائی آلودہ اور مضر صحت ہوتی ہے کیونکہ سڑ ک کے کنارے ہونے کے باعث دن رات شاہراہوں سے گزرنے والی ٹریفک کا دھواں اس ہوا میں شامل ہوتا ہے۔
اس قسم کی تحقیق بھی برسوں پہلے اس شہر کے صدر اور ٹاور جیسی مصروف شاہراہوں کی آ چکی ہے کہ یہاں ڈیوٹی کرنے والے ٹریفک سپاہیوں کے خون میں سیسہ وغیرہ کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے، اور اب تو صدر اور ٹاور کیا نارتھ کراچی (جو کہ کراچی کا ایک کونا قرار دیا جا سکتا ہے) کا رات دس بجے کا منظر بھی ٹریفک کے اژدھام سے کم نہیں ہوتا۔ گویا اب تمام ہی شہر میں ٹریفک کی آلودگی بھی اپنا کام دکھا رہی ہے اور شہریوں کی صحت ان سے متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے ماحول میں شہری حکومت کی جانب سے کچرا جلا کر شہر کو مزید آلودہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
شہری انتظامیہ کو اس طرف غور کرنا چاہیے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ان کا عملہ کچرا ٹھکانے لگانے کے عمل میں مال بنانے میں تو مصروف نہیں ہے؟ کہیں صرف کاغذات یا فائلوں میں تو اندراج نہیں ہو رہا ہے کہ روزانہ اتنے ٹرک کچرا اٹھا رہے ہیں اور کچرا اٹھانے کے بجائے اسے جلا کر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو؟ آخر اس کا محرک کیا ہے؟ بفر زون کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کچرا اٹھانے والا نہیں آ رہا ہے۔
اس کچرے والے کا کہنا ہے کہ ڈی سی آفس والوں نے کچرا وہاں ڈالنے سے منع کر دیا ہے جہاں برسوں سے وہ کچرا ڈال رہا تھا، لہٰذا جب کچرا ڈالنے کی کوئی جگہ ہی دستیاب نہیں تو وہ کچرا اٹھا کر کہاں لے جائے؟ چنانچہ بفر زون سیکٹر پندرہ بی ون اور ٹو کے رہائشی خود ہی رات کو اپنے گھر کا کچرا کہیں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ یہ ہمارے شہری اداروں کی کس قدر ناکامی ہے کہ آج دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم زمین پر کچرا پھینکنے کی جگہ تلاش نہ کر سکے۔ افسوس صد افسوس!
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، ان شہریوں میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف زبانیں بولنے والے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اس کے باوجود اس شہر کے مسائل کوئی بھی درست طریقے سے حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جب کہ اس شہر سے ہر کوئی کمانے کے چکر میں نظر آتا ہے۔ گویا یہ شہر درحقیقت ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ تو ہر کوئی حاصل کر رہا ہے مگر اسے چارہ ڈالنے کو کوئی تیار نہیں۔
کمشنر کراچی کی جانب سے اکثر اخبارات کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس شہر کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں، لیکن شاید ابھی بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا جو ہونا چاہیے، مثلاً ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ عید قرباں پر شہر کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے صفائی کا کام اچھے طریقے سے کیا گیا یعنی جانوروں کی آلائشیں فوراً اٹھائی جاتی رہیں مگر دیکھنے میں آیا کہ شہر کا دیگر کوڑا کرکٹ گلیوں اور سڑکوں کے کنارے جمع رہا اور اس میں ابھی تک اضافہ ہی ہوا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کوڑا کرکٹ کو اٹھانے کے بجائے شہر کی گلیوں اور سڑکوں کے کنارے آگ لگا کر چھوڑ دیا گیا، جس سے شہر دھوئیں کی لپٹ میں آ گیا، راقم نے جب یہ منظر دیکھا تو سخت ذہنی کوفت ہوئی اور سوچا کہ اگر اس پر کالم لکھ کر توجہ دلائی تو کافی وقت لگے گا، چنانچہ اپنے ایک طالب علم کو فون کر کے کہا کہ آپ اپنے ٹی وی چینل پر اس خبر کو جگہ دیں، اس نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف فوراً ہی یہ خبر بنائے گا بلکہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار سے ان کا موقف بھی لے گا۔
افسوس کہ ایک ماہ گزر نے کے باوجود اب بھی مجھے سہراب گوٹھ، ناگن چورنگی اور سخی حسن وغیرہ سے گزرتے ہوئے وہی جلتے ہوئے کچرے سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مناظر نظر آتے ہیں۔ ایک پلازہ (ارم ایونیو، بفرزون) کے عقب میں ایسا ہی منظر دیکھا تو قریبی دکاندار سے پوچھا کہ جناب یہ کچرے میں کون لوگ آگ لگا رہے ہیں؟ کیا ان کو اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ دھواں ان کے گھروں میں پہنچ کر مشکلات پیدا کر دے گا، یہ تو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ راقم کی بات سن کر دکاندار نے کہا کہ وہ تو خود پریشان ہیں، کیونکہ دھوئیں کے باعث دکان پر بیٹھنا بھی مشکل ہو رہا ہے، یہ کام ہم نے نہیں کیا بلکہ انتظامیہ کے لوگ خود آگ لگا کر گئے ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ جس شہری انتظامیہ کو اپنے شہریوں کو یہ شعور دینا چاہیے تھا کہ دھواں نہ صرف آلودگی پھیلاتا ہے بلکہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ کچرے میں خطرناک کیمیکل والی اشیاء مثلاً پلاسٹک کے بیگ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں یعنی وہ انتظامیہ جو کچرے کے ڈھیر میں آگ لگانے سے لوگوں کو منع کرتی اور اس کے نقصانات سے شہریوں کو آگاہ کرتی، وہ خود یہ کام کر رہی ہے۔
مین شاہراہوں پر جلائے جانے والے کچرے کے دھوئیں سے نہ صرف گاڑیوں میں گزرنے والوں کو سخت پریشانی ہو رہی ہے بلکہ یہ دھواں براہ راست فلیٹس کے مکینوں کا جینا بھی دوبھر کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں تو فلیٹس اور دیگر بلند و بالا عمارتوں میں روشنی اور ہوا کے گزر کا مناسب انتظام ہی نہیں ہوتا، ایسے میں یہ دھواں کس قدر پریشانی کا باعث بن رہا ہو گا؟ اس کا احساس شاید انتظامیہ کو نہیں ہے، نہ ہی وہ کرنا چاہتی ہے۔
راقم نے اس سے قبل بھی اپنے کئی کالموں میں یہ بات کہی تھی کہ اس شہر میں اب آلودگی بہت بڑھ گئی ہے، جب کہ دوسری جانب پر فضا مقام دانستہ طور پر محض چند پیسے کمانے کے لیے ختم کیے جا رہے ہیں۔ چائنا کٹنگ نے اس شہر کے کھلے میدان بھی ختم کر دیے، پارک کمرشل مقاصد سے نتھی کر دیے گئے ہیں، اب محلوں میں دور تک کہیں کھلی فضا، میدان یا خالی زمین نظر نہیں آتی۔ کھیل کے میدان ناپید ہو گئے ہیں۔
بچے نوجوان کہاں جا کر کھیلیں؟ اب تو اسکولوں میں بھی میدان نظر نہیں آتے، بچوں اور نوجوانوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے ماحول ہی نہیں رہا، چنانچہ اب ان کی اکثریت یا تو کسی کیرم بورڈ، ویڈیو گیم یا پھر موبائل وغیرہ کے ساتھ دن رات مصروف نظر آتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا شہری مسئلہ بن چکا ہے، مگر افسوس ہمارے نمایندوں اور شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے کچھ نظر نہیں آتا۔ اخبارات میں تجاوزات کو ختم کرنے سے متعلق بہت خبریں آئیں، مگر کہیں یہ خبر نہیں آئی کہ ان تجاوزات کو ختم کر کے پھر سے کھیل کے میدان آباد کیے جائیں گے۔
اس وقت شہر میں ایسے پارک یا میدان دستیاب نہیں کہ جہاں پر بچے سائیکل چلا سکیں کیونکہ شہری انتظامیہ کی جانب سے پارک کی چار دیواری کرنے اور ان کے ایک حصے میں کمرشل جھولے اور بعض پارکوں میں تو باقاعدہ ٹکٹ کا نظام قائم کر دیا گیا ہے، ایسے پارک میں بچوں کو سائیکلیں لے جانے پر پابندی عائد ہے، سائیکل چلانے والے بچے اب گلی محلوں میں اپنا شوق پورا کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ خطرناک عمل ہے مگر ان بچوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
غور کیجیے ہم اپنے شہریوں کو کس قدر آلودہ ماحول دے رہے ہیں؟ شہر کی ایک بڑی آبادی تنگ گلیوں اور چھوٹی چھوٹی بلند عمارتوں والی رہائش گاہوں میں شب و روز بسر کر رہی ہے یا بلند و بالا پلازہ میں جو زیادہ بر تر لب سڑک واقع ہیں، جہاں تازہ ہوا ان کی رہائش گاہوں تک نہیں پہنچتی اور جن فلیٹس میں ہوا آتی ہے وہ انتہائی آلودہ اور مضر صحت ہوتی ہے کیونکہ سڑ ک کے کنارے ہونے کے باعث دن رات شاہراہوں سے گزرنے والی ٹریفک کا دھواں اس ہوا میں شامل ہوتا ہے۔
اس قسم کی تحقیق بھی برسوں پہلے اس شہر کے صدر اور ٹاور جیسی مصروف شاہراہوں کی آ چکی ہے کہ یہاں ڈیوٹی کرنے والے ٹریفک سپاہیوں کے خون میں سیسہ وغیرہ کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے، اور اب تو صدر اور ٹاور کیا نارتھ کراچی (جو کہ کراچی کا ایک کونا قرار دیا جا سکتا ہے) کا رات دس بجے کا منظر بھی ٹریفک کے اژدھام سے کم نہیں ہوتا۔ گویا اب تمام ہی شہر میں ٹریفک کی آلودگی بھی اپنا کام دکھا رہی ہے اور شہریوں کی صحت ان سے متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے ماحول میں شہری حکومت کی جانب سے کچرا جلا کر شہر کو مزید آلودہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
شہری انتظامیہ کو اس طرف غور کرنا چاہیے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ان کا عملہ کچرا ٹھکانے لگانے کے عمل میں مال بنانے میں تو مصروف نہیں ہے؟ کہیں صرف کاغذات یا فائلوں میں تو اندراج نہیں ہو رہا ہے کہ روزانہ اتنے ٹرک کچرا اٹھا رہے ہیں اور کچرا اٹھانے کے بجائے اسے جلا کر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو؟ آخر اس کا محرک کیا ہے؟ بفر زون کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کچرا اٹھانے والا نہیں آ رہا ہے۔
اس کچرے والے کا کہنا ہے کہ ڈی سی آفس والوں نے کچرا وہاں ڈالنے سے منع کر دیا ہے جہاں برسوں سے وہ کچرا ڈال رہا تھا، لہٰذا جب کچرا ڈالنے کی کوئی جگہ ہی دستیاب نہیں تو وہ کچرا اٹھا کر کہاں لے جائے؟ چنانچہ بفر زون سیکٹر پندرہ بی ون اور ٹو کے رہائشی خود ہی رات کو اپنے گھر کا کچرا کہیں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ یہ ہمارے شہری اداروں کی کس قدر ناکامی ہے کہ آج دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم زمین پر کچرا پھینکنے کی جگہ تلاش نہ کر سکے۔ افسوس صد افسوس!