آپ بے شک غیر ملکی دورے کریں مگر
معلوم ہوا ہے کہ ملک کی کئی اہم شخصیتوں نے جن میں ماضی، حال اور مستقبل کے حکمراں شامل ہیں یہ تہیہ کیا ہے
معلوم ہوا ہے کہ ملک کی کئی اہم شخصیتوں نے جن میں ماضی، حال اور مستقبل کے حکمراں شامل ہیں یہ تہیہ کیا ہے کہ جب تک ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں کسی ماس ٹرانزٹ منصوبے پر عمل درآمد شروع نہیں ہو جاتا وہ کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے۔ ان قومی رہنماؤں کو قدرتی طور پر اس بات کا بے حد دکھ بلکہ شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ وہ خود تو رات دن ہوائی جہازوں میں پرواز کرتے رہتے ہیں لیکن کراچی کے بہت سے شہریوں کو آمد و رفت کے لیے بسیں اور ویگنیں تک میسر نہیں ہیں، وہ گھنٹوں گاڑی کے انتظار میں بس اسٹاپوں پر کھڑے رہتے ہیں، یا بسوں اور ویگنوں میں لٹک کر یا چھتوں پر سفر کرتے ہیں اور انھیں صبح شام اپنے اس تکلیف دہ سفر پر اوسطاً دو گھنٹے یومیہ صرف کرنے پڑتے ہیں۔
باخبر ذریعوں کے مطابق پاکستان کے ایک رہنما کو جب وہ ہوائی جہاز میں بیٹھے کھڑکی سے سیلاب زدہ علاقوں اور سیلاب زدگان کا جائزہ لے رہے تھے تو انھیں کراچی شہر میں لوگ فٹ پاتھ پر کھڑے اور کھچا کھچ بھری بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتے نظر آئے، انھوں نے اسی وقت گورنر سندھ کو فون کیا اور ہدایت دی کہ وہ فوراً اجلاس بلا کر ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع کروائیں، دل ہی دل میں انھوں نے یہ بھی طے کیا کہ جب تک کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا یا کم از کم اس کے لیے کام نہیں شروع ہو گا وہ کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے۔
اب ان کی بھی مجبوری ہے غیر ملکی دورے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بے حد ضروری ہیں بلکہ ان دوروں کے بغیر کسی ملک کی ترقی اور خوش حالی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے ہمارے ملک میں جس کسی لیڈر کو بھی خدا نے تھوڑی سی توفیق دی ہے وہ غیر ملکی دورے کرتا نظر آتا ہے، اب عام لوگوں کو کس طرح ان دوروں کی افادیت، مقاصد اور نصب العین کا ادراک ہو سکتا ہے۔
صدر وزیر اعظم کے دورے بلا شبہ بے حد اہمیت رکھتے ہیں، ہمارے وزرا اور مشیر بھی اپنی گوناگوں ملکی مصروفیات میں سے ان دوروں کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان دوروں پر قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں کا کم سے کم پیسہ خرچ ہو۔
بعض رہنما تو زیادہ تر بیرون ملک قیام کرتے ہیں اور صرف اتنی دیر کے لیے ہمارے درمیان رہتے ہیں کہ ان کی کافی عرصے بعد آمد سے لگتا ہے کہ وہ خیر سے پاکستان کے دورے پر آئے ہیں۔ شاید یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ ان کا غیر ملکی دورہ کتنا فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور ان کے باہر کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنے سے ہمارے ملک نے کتنی ترقی کی ہے۔
ہم لوگ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اپوزیشن بھی بہت اچھی ملی ہوئی ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح غیر ملکی دوروں میں بھی موجودہ حکمرانوں کو ''ٹف ٹائم'' دے رہی ہے، بات یہ ہے کہ ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ برسر اقتدار گروپ کے لوگ کہیں بیرون ملک جا کر اپوزیشن کی پارٹیوں اور لیڈروں کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ نہ کر آئیں اسی لیے وہ ان کے پیچھے پیچھے باہر جا کر اس پروپیگنڈے کا توڑ کرتے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ملکوں سے باہمی تجارت بڑھانے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات بڑھانے میں یہ دورے بے حد اہمیت رکھتے ہیں، پھر دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو آپ کا کوئی کام نہیں کرتے جب تک آپ ان ملکوں کا دورہ نہ کریں جس سے ان کا ایک مقصد اپنے لے زرمبادلہ بھی کمانا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیڈر جب اپنی سرگرمیوں کی ترجیحات طے کرتے ہیں تو انھیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد غیر ملکی دوروں کو ٹاپ پر رکھنا پڑتا ہے، ان دوروں کی اپنی ایک افادیت ہے مثلاً یہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے علاوہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، پھر خاص طور پر ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو خاصی ٹینشن میں زندگیاں گزارنی پڑتی ہیں اس لیے غیر ملکی دورے ان کے لیے ''لازمی آرام'' کا حصہ بھی ہیں اور اس طرح یہ دورے اچھی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہو جاتے ہیں۔
بہر کیف موجودہ حکمرانوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی جیسے شہر میں ایک اچھے ماس ٹرانزٹ سسٹم کی موجودگی کا نوٹس لیا اور یہ عہد کیا کہ وہ اس وقت تک کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے اور اس مقصد سے ہوائی جہاز میں نہیں بیٹھیں گے جب تک کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ ''آن گراؤنڈ'' نہیں ہو جاتا۔ گورنر سندھ کو بھی بعض ذمے داروں نے حکمرانوں کی اس خواہش بلکہ ضرورت سے آگاہ کر دیا ہے۔
دوسری طرف ایسے لیڈروں میں جن کا غیر ملکی دوروں کا استحقاق بجا طور پر بنتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سر فہرست ہیں انھوں نے لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس سروس شروع کروا کے یہ صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اگر وہ ہوائی جہاز میں بیٹھ رہے ہوں تو ان کے صوبے کے شہری کم از کم نئی بسوں میں تو بیٹھ رہے ہوں جیسا کہ لوگ بتاتے ہیں۔ شہباز شریف دور سے بڑی بے بسی سے کراچی کے شہریوں کی بے کسی کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
باخبر ذریعوں کے مطابق پاکستان کے ایک رہنما کو جب وہ ہوائی جہاز میں بیٹھے کھڑکی سے سیلاب زدہ علاقوں اور سیلاب زدگان کا جائزہ لے رہے تھے تو انھیں کراچی شہر میں لوگ فٹ پاتھ پر کھڑے اور کھچا کھچ بھری بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتے نظر آئے، انھوں نے اسی وقت گورنر سندھ کو فون کیا اور ہدایت دی کہ وہ فوراً اجلاس بلا کر ماس ٹرانزٹ سسٹم پر کام شروع کروائیں، دل ہی دل میں انھوں نے یہ بھی طے کیا کہ جب تک کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا یا کم از کم اس کے لیے کام نہیں شروع ہو گا وہ کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے۔
اب ان کی بھی مجبوری ہے غیر ملکی دورے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بے حد ضروری ہیں بلکہ ان دوروں کے بغیر کسی ملک کی ترقی اور خوش حالی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے ہمارے ملک میں جس کسی لیڈر کو بھی خدا نے تھوڑی سی توفیق دی ہے وہ غیر ملکی دورے کرتا نظر آتا ہے، اب عام لوگوں کو کس طرح ان دوروں کی افادیت، مقاصد اور نصب العین کا ادراک ہو سکتا ہے۔
صدر وزیر اعظم کے دورے بلا شبہ بے حد اہمیت رکھتے ہیں، ہمارے وزرا اور مشیر بھی اپنی گوناگوں ملکی مصروفیات میں سے ان دوروں کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان دوروں پر قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں کا کم سے کم پیسہ خرچ ہو۔
بعض رہنما تو زیادہ تر بیرون ملک قیام کرتے ہیں اور صرف اتنی دیر کے لیے ہمارے درمیان رہتے ہیں کہ ان کی کافی عرصے بعد آمد سے لگتا ہے کہ وہ خیر سے پاکستان کے دورے پر آئے ہیں۔ شاید یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ ان کا غیر ملکی دورہ کتنا فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور ان کے باہر کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنے سے ہمارے ملک نے کتنی ترقی کی ہے۔
ہم لوگ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اپوزیشن بھی بہت اچھی ملی ہوئی ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح غیر ملکی دوروں میں بھی موجودہ حکمرانوں کو ''ٹف ٹائم'' دے رہی ہے، بات یہ ہے کہ ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ برسر اقتدار گروپ کے لوگ کہیں بیرون ملک جا کر اپوزیشن کی پارٹیوں اور لیڈروں کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ نہ کر آئیں اسی لیے وہ ان کے پیچھے پیچھے باہر جا کر اس پروپیگنڈے کا توڑ کرتے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ملکوں سے باہمی تجارت بڑھانے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات بڑھانے میں یہ دورے بے حد اہمیت رکھتے ہیں، پھر دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو آپ کا کوئی کام نہیں کرتے جب تک آپ ان ملکوں کا دورہ نہ کریں جس سے ان کا ایک مقصد اپنے لے زرمبادلہ بھی کمانا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیڈر جب اپنی سرگرمیوں کی ترجیحات طے کرتے ہیں تو انھیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد غیر ملکی دوروں کو ٹاپ پر رکھنا پڑتا ہے، ان دوروں کی اپنی ایک افادیت ہے مثلاً یہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے علاوہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، پھر خاص طور پر ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو خاصی ٹینشن میں زندگیاں گزارنی پڑتی ہیں اس لیے غیر ملکی دورے ان کے لیے ''لازمی آرام'' کا حصہ بھی ہیں اور اس طرح یہ دورے اچھی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہو جاتے ہیں۔
بہر کیف موجودہ حکمرانوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کراچی جیسے شہر میں ایک اچھے ماس ٹرانزٹ سسٹم کی موجودگی کا نوٹس لیا اور یہ عہد کیا کہ وہ اس وقت تک کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے اور اس مقصد سے ہوائی جہاز میں نہیں بیٹھیں گے جب تک کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ ''آن گراؤنڈ'' نہیں ہو جاتا۔ گورنر سندھ کو بھی بعض ذمے داروں نے حکمرانوں کی اس خواہش بلکہ ضرورت سے آگاہ کر دیا ہے۔
دوسری طرف ایسے لیڈروں میں جن کا غیر ملکی دوروں کا استحقاق بجا طور پر بنتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سر فہرست ہیں انھوں نے لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس سروس شروع کروا کے یہ صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اگر وہ ہوائی جہاز میں بیٹھ رہے ہوں تو ان کے صوبے کے شہری کم از کم نئی بسوں میں تو بیٹھ رہے ہوں جیسا کہ لوگ بتاتے ہیں۔ شہباز شریف دور سے بڑی بے بسی سے کراچی کے شہریوں کی بے کسی کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔