بے داغ دہلوی

مرسلین نے کہیں پڑھا کہ شاعروں کو کسی نہ کسی سے اصلاح بھی لینا پڑتی ہے اور نام بھی دھانسو رکھنا پڑتا ہے

اسے شعر کہنے کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ آڑے ترچھے اور بے معنی شعر کہہ لیا کرتا تھا۔ اس لیے کہ اس کے چچا جو خود بھی تیسرے درجے کے شاعر تھے اسے مشاعروں میں لے جایا کرتے تھے۔ انھیں قطعی احساس نہیں تھا کہ صاحبزادے کسی خربوزے کی مانند بار آور ہو رہے ہیں اور دوسرے خربوزوں کا رنگ پکڑتے جا رہے ہیں۔ لینا ایک نہ دینا دو۔ صاحبزادے مرسلین نے درخت تلے مشاعرے گرم کرنا شروع کر دیے۔ وہ جانتا تھا کہ لڑکے اسے گھاس نہیں ڈالیں گے اور اس کے شعر سننے کے لیے برگد کے درخت تلے نہیں آئیں گے، لہٰذا اس نے چنا پارٹی بھی شروع کر دی، یعنی جب مشاعرہ ختم ہو گا تو اس کی طرف سے بھنے چنے بانٹیں جائیں گے۔

شعر کہنے کا شوق اسے یا اس کے دو دوستوں ہی کو پیدا ہوا تھا، ورنہ باقی سب داد دیا کرتے تھے یا حیرت کا اظہار کیا کرتے تھے کہ وہ غالبؔ کے انداز میں شعر کیسے کہہ لیتا ہے۔ اس انداز سے شعر کہنا مرسلین کی مجبوری تھی، اس لیے کہ ایک ردی فروش کے ہاں سے اسے غالبؔ کا کلام مل گیا تھا، چنانچہ اس کی غزلوں میں غالبؔ کا ''گہرا'' اثر آ گیا۔

یہ سلسلہ آٹھویں کلاس سے شروع ہوا تھا۔ دسویں کلاس تک اس نے مشاعروں میں شریک ہونے کی کوشش کی تو مار کر بھگا دیا گیا۔ منتظمین نے اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا اور تنبیہہ کی کہ آیندہ اپنی غزلوں کے ساتھ ادھر نہ آئے ورنہ ایک کے دو کر دیں گے۔

مرسلین نے کہیں پڑھا کہ شاعروں کو کسی نہ کسی سے اصلاح بھی لینا پڑتی ہے اور نام بھی دھانسو رکھنا پڑتا ہے جب جا کر شہرت اور عزت ملتی ہے۔ وہ اس چکر میں تھا کہ اس کا دیوان بھی شایع ہو جائے تا کہ دولت اس پر نچھاور ہوتی رہے۔ اس نے بکسٹالوں پر دیکھا تھا کہ بڑے شاعروں کے دیوان بھی فروخت ہوتے ہیں اور انھیں جب مشاعروں میں بلایا جاتا ہے تو لفافے دیے جاتے ہیں۔ وہ ''بادیوان'' اور ''بالفافہ'' شاعر بننا چاہتا تھا۔

اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا تو ایک نے کہا کہ وہ اپنا ادبی نام ایم اود بلاؤ رکھ لے، دوسرا بولا کہ ایم اے جنجالی مناسب رہے گا۔ سب نام سننے کے بعد مرسلین کو ''سرپٹ ریگستانی'' پسند آ گیا۔ جہاں تک اصلاح لینے کا مسئلہ تھا اسے بھی ساتھیوں نے حل کر ڈالا۔ ایک صاحب جو دو گلی کے فاصلے پر رہتے تھے اور انڈیا سے مستقل طور یہاں آ گئے تھے اور اپنا سلسلہ داغ دہلویؔ سے بتاتے تھے، شاعری کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے۔ نئے مشق کرنے والوں کی پیسے لے کر اصلاح کیا کرتے تھے اور جو مشاعروں میں کلام پڑھنا چاہے ان سے غزل لے کر (یعنی خرید کر) پڑھ سکتا تھا۔

مرسلین نے جب گریجویشن کر لیا تو اس کے والد نے بھاگ دوڑ کر کے اسے محکمہ آب رسانی میں کلرک رکھوا دیا۔ انھیں معلوم تھا کہ جب کسی نوجوان کا دماغ چل جاتا ہے تو وہ شاعر بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا۔ آفس میں کام کم اور شاعری زیادہ ہونے لگی۔ سب اسے مشغول رکھنے کے لیے واہ واہ کر دیتے تھے۔ اس کی شاعری بہرحال کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

وہ ایک دوست کے ساتھ بے داغ دہلوی ؔکے کیبن میں پہنچ گیا۔ وہ مکان کے بجائے کیبن میں رہتے تھے۔ اس لیے کہ کیبن کا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کیبن کے ابتدائی حصے میں ہاکر انھیں تازہ اخبارات دے جایا کرتا تھا اور جتنے اخبارات وہ فروخت کر دیتے تھے اس کا کمیشن ان کے حوالے کر دیتا تھا۔ اس سے بے داغ دہلویؔ کی دال روٹی چل جاتی تھی۔

مرسلین کے دوست نے گھبراہٹ میں اس کا الٹا سیدھا تعارف کرایا کیونکہ اسے کرکٹ کھیلنے جانا تھا۔ ''میں انھیں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ یہ غالبؔ کی ٹکر کے شاعر ہیں، غالبؔ جونیئر سمجھ لیں۔ شعر کہنے پر آتے ہیں تو کہتے چلے جاتے ہیں۔ بچپن سے عادت پڑی ہوئی ہے۔ سرکاری محکمے میں کام کرتے ہیں، چنانچہ ان کی جیب ہلکی نہیں ہے، بری طرح سے آپ کا خیال رکھیں گے۔ (غالباً وہ پوری طرح سے کہنا چاہتا تھا، لیکن جلدی میں گڑبڑ ہو گئی) غزلیں خریدنا چاہتے ہیں اور اپنی غزلوں پر اصلاح بھی کرانا ہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ میچ میں اوپننگ مجھے ہی کرنا ہے۔''

وہ اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اڑن چھو ہو گیا اور مرسلین کو وہاں چھوڑ گیا۔ مرسلین نروس ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے اور کیسے کہے؟ ''میں دیوان چھپوانا چاہتا ہوں۔'' اس نے بالآخر کہا، جو اس کی دلی خواہش تھی۔


''لاؤ نمونہ دکھاؤ۔'' انھوں نے کہا۔ ''ویسے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں اتنی غزلیں تمہیں دے دوں گا کہ دیوان تیار ہو جائے گا۔''

مرسلین نے ڈرتے ڈرتے پلاسٹک کی تھیلی سے کاغذات نکال کر ان کی طرف بڑھا دیے۔ انھوں نے دو چار کاغذات پر سرسری نگاہ ڈالی اور بولے۔ ''معلوم ہوتا ہے کہ دیوان غالبؔ کو سامنے رکھ کر غزلیں کہی ہیں۔ بہرحال ابتدا میں یہی ہوتا ہے۔ کچھ دن مشق کرو گے تو بڑے شاعر بن جاؤ گے۔ شادی ہوگئی ہے تمہاری؟''

مرسلین لجا کر رہ گیا۔ بے داغ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ گھامڑ سا لڑکا ہے۔ جھانسے میں آ جائے گا۔ ان کی ایک دور پار کی بھتیجی تھی جو کہیں سوارت نہیں ہو پا رہی تھی۔ انھوں نے سوچا سرکاری محکمے میں ملازم ہے۔ اس کا خرچہ تو اٹھا ہی لے گا۔ ان کا کیا جائے گا۔ سو پچاس غزلیں لے جائے گا، پھر دیوان بھی چھپوانا چاہتا ہے۔ ''دیوان چھپوانے پر کافی خرچہ آتا ہے۔ تقریباً چالیس پچاس ہزار روپے۔ اتنی رقم ہے جیب میں؟''

مرسلین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اتنی رقم جمع کرنے کے لیے تو اس کی والدہ نے کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اتنی رقم جمع کر لے گا تو اس کی شادی کر دی جائے گی۔

شادی یا دیوان؟ مرسلین تذبذب میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے دماغ میں کھچڑی پکنے لگی۔ دونوں ہی چیزیں اس کے لیے اہم تھیں۔ ''پچاس ہزار تو نہیں ہیں۔'' اس نے مردنی آواز میں کہا۔

''اخراجات کم بھی ہو سکتے ہیں، لیکن مزہ نہیں آئے گا۔'' انھوں نے حتمی لہجے میں کہا۔

مرسلین کو گومگو کیفیت میں دیکھ کر انھوں نے اپنے تکیے کے نیچے سے کاغذ کا ایک پلندہ نکالا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔ ''تم اچھے لڑکے معلوم ہوتے ہو۔ یہ میرا دیوان ہے۔ اسے تم اپنے نام سے چھپوا سکتے ہو۔'' مرسلین سکتے میں رہ گیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ تو ایسا تھا کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکل آئے۔ ''بس دس ہزار روپے دے دینا۔''

مرسلین کا سانس رکنے لگا۔ دس ہزار روپے خرچ کر کے وہ بادیوان شاعر بن سکتا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے پر نکل آئیں اور وہ پرواز کرتا ہوا گھر جائے اور دس ہزار روپے نکال کر لائے اور بے داغ دہلوی کی خدمت میں پیش کر دے۔ اس نے پلندہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ''میں رقم کا بندوبست کر لوں گا تو اسے لے جاؤں گا۔''

وہ پلندہ بزرگ صورت نے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔ مرسلین وہاں سے چلا آیا۔ اس نے رقم کا بندوبست کر لیا تو بزرگ سے وہ دیوان لے آیا۔ چونکہ وہ نوجوان، جلد باز اور جوشیلا تھا، لہٰذا اس نے کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ کم پیسوں میں دیوان شایع ہو گیا۔ اس کی رونمائی بھی ہو گئی۔ اخبارات میں تبصرے بھی شایع ہو گئے، منفی قسم کے۔ دراصل بے داغ دہلوی کوئی شاعر تو تھے نہیں۔ داغ انھیں پسند تھے، اس لیے انھوں نے داغ ؔپر طبع آزمائی کر ڈالی۔ جب دیوان شایع ہو گیا تو ان کی چالاکی کام نہ آئی لوگوں نے سرپٹ ریگستانی کو آڑے ہاتھ لیا۔ اس لیے کہ مرسلین نے داغؔ کے مطلع میں اپنا نام سجا دیا تھا۔ وہ عزت، شہرت اور دولت کا خواہاں تھا۔ عزت خاک میں مل گئی، مشہور وہ پہلے ہی نہیں تھا مگر منفی قسم کی شہرت اسے خوب ملی۔ وہ جدھر سے جاتا لوگ انگلیاں اٹھاتے کہ وہ شاعر اعظم جا رہے ہیں جن کے آگے داغؔ جیسے شاعر بھی پناہ مانگتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کا تبصرہ اخبارات نے بھی کیا تھا۔ ایک نے لکھا تھا، داغ ؔتو بے داغ تھے، لیکن ریگستانی نے انھیں داغ دار کر کے رکھ دیا۔
Load Next Story