عاجزی

پھٹے پُرانے کپڑے، بوسیدہ کھانا اور بڑھے ہوئے بال۔ داڑھی نہیں جھاڑی ہوگئی، اگر یہ عاجزی ہے تو بھکاری کسے کہتے ہیں؟

مے کا نشہ ایک رات میں اتر جاتا ہے، ’’میں‘‘ کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔ تربیت تو وہاں ہو جہاں نفس پر چوٹ لگے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
عاجزی پتہ نہیں کسے کہتے ہیں؟ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنہیں ملتی ہے، جن کے ساتھ رہتی ہے، جن سے نباہ کرتی ہے، پتہ نہیں اب ایسے لوگ پائے بھی جاتے ہیں یا مفقود ہوگئے؟ ہماری سمجھ میں تو یہ آج تک نہ آئی، نہ ہی کوئی ایسی خوش فہمی یا اُمید ہے کہ زندگی میں کبھی آسکے گی، لوگوں کو طلب ہوتی ہے، کیوں جھوٹ بولیں، یہاں تو وہ بھی نہیں۔

جی حضرت کہنے سے اگر عاجزی آسکتی تو آدھا پاکستان ولی الله ہوتا، پتہ تو اس دن چلتا ہے جب یہ ''حضرت جی'' آپکی مرضی و منشا کے خلاف کچھ بول دیں، اگلے دن حضرت جی کی چھٹی، ان کے عقائد سے لے کر ظاہر و پوشیدہ حالات پہ وہ تنقید کہ الله کی پناہ، ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں، جس فلٹر سے لوگوں کی شخصیت کو چھانتے ہیں اس میں سے تو شاید نبوت ہی باہر نکلے، کسی سے عقیدت کریں تو ابدال ثابت کرکے چھوڑیں اور تنقید پر آئیں تو ملحد و کافر کے درجات تو معمولی باتیں ہیں۔

نام نہاد عاجزوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو زمین پر جھک جھک کے چلتا ہے۔ آواز اتنی ضعیف نکالتا ہے کہ ایڈز کے مریض کا گمان ہو اور ہر بات پہ کہتا ہے کہ بھائی میں تو عاجز بندہ ہوں، پتہ نہیں یہ عاجزی کا مریض و بیمار لوگوں سے کیا تعلق ہے؟ اور زبانی تکرار سے اپنے عاجز ہونے کا یقین کیسے دلاتے ہیں؟

اور کچھ ایسے بھی کہ جوتوں کو سیدھا کردیں تو عاجزی کے علمبردار ٹہریں، کیا پتہ کون عاجزی میں کرے، تو کوئی میرے جیسا کہ میں اتنا بڑا آدمی اور مسجد میں لوگوں کے جوتے سیدھے کر رہا ہوں۔ کیا بات ہے، واہ بھئی واہ، لوگوں کا تریاق، میرے لئے زہر۔ جس کا نفس عاجزی سے موٹا ہوجائے، جس کا کبر عاجزی پر پلے، وہ کہاں جا کے دہائی دے؟ مے کا نشہ ایک رات میں اتر جاتا ہے، ''میں'' کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔ تربیت تو وہاں ہو جہاں نفس پر چوٹ لگے، بابا صاحبا، میاں جی، پیر صاحب کے نعروں میں تو بندہ عاجزی سے عاجز ہو جائے۔

میرے دوست طارق بلوچ صحرائی صاحب کہتے ہیں کہ ''خدا جب کسی کو عاجز کرنا چاہے تو اس سے عاجزی چھین لیتے ہیں''۔ عمر بھر میں یہ جملہ سمجھ آجائے تو بہت ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے ملے گی یہ عاجزی؟ پھٹے پُرانے کپڑے، بوسیدہ کھانا اور بڑھے ہوئے بال۔ داڑھی نہیں جھاڑی ہوگئی، اگر یہ عاجزی ہے تو بھکاری کسے کہتے ہیں؟


کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ بندہ عاجزی رکھتا ہو اور فقیر ناں ہو؟ دے سکتا ہو مانگے ناں؟ حق رکھتا ہو اور چھوڑ دے؟ اختیار رکھتا ہو اور سہہ جائے؟ سچ بولے اور کاذب ٹھہرے؟ عاجز ہو اور مغرور کہلائے ہونا تو ایسا ہی چاہئیے۔ بات عاجزی کی ہو رہی ہے تو چلیں آئیں سرنڈر کر دیتے ہیں۔

اے اللہ سائیں میں عاجز آگیا ہوں تیرے عاجز لوگوں سے، ربِ کریم اُمت میں ہر شخص ریڈی میڈ شہادت چاہتا ہے، ایمان پر مرنا چاہتا ہے، میں ایمان پر جینا چاہتا ہوں، کوئی لوگ دِکھا جو جینے کی بات کریں۔ اُمید دلائیں، زندگی کی بات کریں۔ آسمانوں کو مسخر کریں، زمیں کی قناطیں کھینچیں، مجھے سمجھ کچھ نہیں آتا، کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میرا ہاتھ پکڑ، مجھے پار لگا۔ غلط سمت دوڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی صحیح سمت منہ کرکے کھڑا ہوجائے، سو میں تیری طرف دیکھ رہا ہوں، میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاجز ہوں اپنے آپ کو گناہوں سے روکنے میں، عاجز ہوں کہ جھوٹ سے باز آؤں، عاجز ہوں کہ ظلم نہ کروں، اپنے آپ پر روز ظلم کرتا ہوں، اپنے آپ سے روز جھوٹ بولتا ہوں، اے ربِ ذوالجلال میں عاجز ہوں اِس بات سے کہ غرور نہ کروں۔ میں روز آئینہ دیکھتا ہوں اور اپنی پوشاک اور جسم پر ناز کرتا ہوں۔ میں عاجز ہوں اس بات سے کہ تیری مان کر چلوں، اور میں عاجز رہا اس بات سے کہ عاجز بن کے رہوں، عاجزی اختیار کروں۔

اے اختیار والے اللہ، ایسا اختیار جس پر عجز کوئی نہیں، معاف کر دے مجھے کہ میری عاجزی لٹ گئی، میرے اپنے نفس کے ہاتھوں، اے دیکھنے اور سننے والے سمیع و بصیر اللہ رحم فرما ان پر جن کی اُمید مرگئی، آرزو تمام ہوئی، اور ہمت جواب دے گئی۔ اے اختیار والے اللہ! تو چاہے تو مسل دے، چاہے تو بچا لے، تیری راہ میں منتظر، عجز کی روح کو سمجھنے سے قاصر، نالائق و نافرمان، خاک کے پتلے، عاجزی کا ڈھونگ رچائیں تو بھی کس بات کا ۔
''بس تو بخش دے''۔

[poll id="751"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story