جب گواہ ہی منحرف ہو جائیں
اور تو اور جن چودہ افراد نے ملزم کے خلاف پہلے حلفیہ گواہی دی تھی اور اُسے پہچاننے کا اعتراف بھی کیا
2007ء سے ہم سب اِس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ اب کسی بھی با اثر اور با اختیار شخص کی حیثیت و مرتبے کا خیال کیے بغیر ہر اُس شخص کو انصاف ملیگا جس کا صحیح معنوں میں وہ حق دار ہو۔ ایک خوش فہمی جس کے سحر میں ہم گزشتہ کئی سالوں سے مگن تھے آج اچانک دم توڑ گئی جب لاہور میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے زین نامی سولہ سالہ نوجوان کے قتل کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو اِس بنا پر بری کر دیا کہ استغاثہ نے اُس کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے اور مدعی بذاتِ خود پیروی سے منکر ہو گیا۔
اور تو اور جن چودہ افراد نے ملزم کے خلاف پہلے حلفیہ گواہی دی تھی اور اُسے پہچاننے کا اعتراف بھی کیا تھا وہ بھی سب کے سب اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہو گئے۔ ملزم کا تعلق جس طبقے سے ہے اُس طبقے کے لوگوں کو ہمارے یہاں بہت کم ہی کوئی سزا ملا کرتی ہے۔ وہ جب چاہیں جسے چاہیں اشتعال میں آ کر قتل کر دیں۔ پھر اپنے جر م کا اعتراف بھی کر لیں اور کچھ لو گ اُنہیں جائے وقوع پر پہچان بھی لیں لیکن وہ اگر اپنے خلاف تمام ثبوت و شواہد غائب کر دیں، دھونس اور دھمکی دیکر یا مدعی کو ڈرا دھمکا کر مقدمے کی پیروی سے انکار کروا لیں تو اُنہیں ہماری کوئی عدالت قرار واقعی سزا نہیں دے سکتی۔ تعزیرات ِ پاکستان کی کوئی شق اُن پر لاگو نہیں ہوتی اور وہ باعزت و احترام مبینہ جرم کے الزام سے بری ہو جاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز ہی نہیں کیا بلکہ زمانہ قدیم میں بسنے والی پسماندہ قوموں کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمارا اجتماعی شعور تشدد، عدم برداشت اشتعال انگیزی اور الزام تراشیوں یا پھر مفاہمت اور مصلحت کوشی سے لبریز ہے۔
ہم نے اپنے معاشرے کو جامد، ساکت اور بنجر بنا ڈالا ہے۔ اِس مقدمے میں ایک حیران کن دلچسپ پہلو یہ ہے وہ سارے کے سارے چودہ گواہ خود بخود ایسے اچانک منحرف ہو جاتے ہیں جیسے اُنہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔ جو کچھ وہ پہلے کہہ چکے ہیں سب جھوٹ اور فریب تھا۔ اُن کا نیا بیان ہی صحیح اور مصدقہ ہے۔
پھر عدالت کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اُس ملزم کو باعزت طور پر بری کر دے جس نے گرچہ خود اپنی زبان سے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہو۔ یہ قانونی سقم یا سرے سے عدالتی اختیار ہی نہیں کہ ملزم سے یہ سوال کر سکے کہ پہلے تو تم نے اِس جرم کا اعتراف کر لیا تھا اب کیسے انکار کر رہے ہو اور نہ وہ اُن گواہوں کو اپنے حلفیہ بیان سے منحرف ہو جانے پر کوئی سر زنش کر سکتی ہے۔ وہ اُن گواہوں سے یہ پوچھنے کی بھی مجاز نہیں کہ تم اپنے سابقہ بیان سے کیونکر منحرف ہو گئے ہو۔
نجانے قصور کس کا ہے نظام انصاف کی کمزوری یا پھر ہمارے اُس نظام کا سقم اور خرابی جس میں ہم گزشتہ 67 سالوں سے باامر مجبوری رہ رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک ایسا قانون تشکیل ہی نہیں دیا جس میں جھوٹے گواہوں کو بھی سزا دی جا سکے یا مدعی اور ملزم کو اپنے بیانوں سے انحراف کرنے پر پابندِ سلاسل کیا جا سکے۔
قانون سازی کرنے والوں نے زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور مالداروں کو بے لگام آزادی دی ہوئی ہے کیونکہ وہ خود اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور غریب اور بے کس عوام کو اپنی زندگی اور آبرو بچانے کے لیے مفاہمت پر مجبوراً آمادگی اور رضامندی جن کو وہ صرف حشراتِ الارض خیال کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقدمہ کراچی میں دو تین سال قبل شاہ زیب نامی نوجوان کے قتل کا بھی تھا جس میں نامزد ملزم کو پہلے ہی دن سے یہ یقین اور اعتماد تھا کہ اِس ملک کا کوئی قانون اور کوئی عدالت اُسے سزا نہیں دلوا سکتی۔ اِسی لیے وہ سب کے سامنے اپنی اُنگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر اُس قوت و جبروت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا تھا جس کے آگے نسبتاً کمزور اور کم تر شخص کی کوئی حیثیت و بساط نہیں ہوا کرتی اور اُسے دیت کے قانون کے تحت خاموش اور چپ کرا دیا جاتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس والے کیس میں بھی ہم نے ایسا ہی دیکھا تھا کہ مقتولین کے تمام ورثاء جو پہلے اپنے موقف پر سختی کے ساتھ ڈٹے ہوئے اچانک راتوں رات دیت کے قانون کا سہارا لے کر چند کروڑ لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ خون بہا کے اِس فیصلے میں جرمانے کی رقم بھی مبینہ طور پر ملزم نے ادا نہیں کی تھی بلکہ امریکا کی حکومتِ وقت نے ادا کی تھی اور تو اور ورثاء کو رقم کے ادائیگی سے قبل ہی ملزم پاکستا ن سے باعزت طور پر رخصت بھی کر دیا جا تا ہے۔
مفلسانِ فہم ذکاء حیران و پریشان ہیں کہ ہم کس عہد اور کس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں غریب اور نادارکے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ وہ جب چاہے مار دیا جائے یا قتل کر دیا جائے، کوئی اُس کا پرسانِ حال نہیں۔ وہ چاہے کتنی بڑھکیں مار لے لیکن اُسے بہرحال اپنی خفگی اور آزردگی کو قانو ن ہی کے تحت بدلنا ہو گا۔ اِس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ اگر ڈٹ گیا تو خون بہا کے چند کروڑ لینے سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اِس پر آمادہ ہو جائے اور عدلیہ کو بھی مشکل میں ڈالنے سے بچالے۔
بے لاگ اور سستے انصاف کے حصول کی ساری اُمیدیں اب تارِ نفس توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ نویں جماعت کا طالبِ علم سولہ سالہ زین کیونکر اور کیسے مارا گیا۔ اُسے مارنے والا مبینہ ملزم مصطفیٰ کانجو نہیں تھا تو پھر اور کون تھا۔ کوئی تو ہے جس کی گولی سے وہ مارا گیا۔ اِس سوال کا جواب کون تلاش کرے گا۔
کس نے اُس کی ماں کی گود اُجاڑی ہے۔ دیگر مقدمات کی طرح یہ مقدمہ بھی یونہی ادھورا اور بے نتیجہ چھوڑ دیا گیا کہ شاید آنے والی نسلیں اِس کا فیصلہ کریں گی۔ کچھ روز قبل ملتان کی ایک لڑکی زندہ جلا دی گئی، اِن ہی حقائق اور وجوہات کے سبب یہ سارا نظام ہی آج ہمیں فرسودہ، بودا اور کِرم خوردہ معلوم ہو رہا ہے۔ جس میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ قتل کے اصل مجرموں کی گرفت کر سکے یا پھر مدعی اور گواہوں سے یہ پوچھ پائے کہ وہ اگر اُنہیں اپنے سابقہ موقف سے منحرف ہی ہونا تھا تو اُنہوں نے عدلیہ کا قیمتی وقت کیوں ضایع کیا۔ ہم کب تک کوتاہیوں اور فروگزاشتیوں کے اِس نظام زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
اقتدار اور اختیار کی ندی میں ڈبکیاں لگانے والے ہمارے پاسدارِ دستور کب اپنا فریضہ اور احساسِ ذمے داری نبھاتے ہوئے ملکی قوانین میں اِن نقائص اور سقم کو دور کر پائیں گے جہاں تمام فوائد اور مراعات کو وصول کنندہ صرف اور صرف بااثر اور طاقتور طبقہ ہی ہے اور غریب اور بے کس لوگوں کی قسمت میں نوحہ خوانی اور گریہ زاری کے سوا کچھ نہیں۔
اور تو اور جن چودہ افراد نے ملزم کے خلاف پہلے حلفیہ گواہی دی تھی اور اُسے پہچاننے کا اعتراف بھی کیا تھا وہ بھی سب کے سب اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہو گئے۔ ملزم کا تعلق جس طبقے سے ہے اُس طبقے کے لوگوں کو ہمارے یہاں بہت کم ہی کوئی سزا ملا کرتی ہے۔ وہ جب چاہیں جسے چاہیں اشتعال میں آ کر قتل کر دیں۔ پھر اپنے جر م کا اعتراف بھی کر لیں اور کچھ لو گ اُنہیں جائے وقوع پر پہچان بھی لیں لیکن وہ اگر اپنے خلاف تمام ثبوت و شواہد غائب کر دیں، دھونس اور دھمکی دیکر یا مدعی کو ڈرا دھمکا کر مقدمے کی پیروی سے انکار کروا لیں تو اُنہیں ہماری کوئی عدالت قرار واقعی سزا نہیں دے سکتی۔ تعزیرات ِ پاکستان کی کوئی شق اُن پر لاگو نہیں ہوتی اور وہ باعزت و احترام مبینہ جرم کے الزام سے بری ہو جاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز ہی نہیں کیا بلکہ زمانہ قدیم میں بسنے والی پسماندہ قوموں کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمارا اجتماعی شعور تشدد، عدم برداشت اشتعال انگیزی اور الزام تراشیوں یا پھر مفاہمت اور مصلحت کوشی سے لبریز ہے۔
ہم نے اپنے معاشرے کو جامد، ساکت اور بنجر بنا ڈالا ہے۔ اِس مقدمے میں ایک حیران کن دلچسپ پہلو یہ ہے وہ سارے کے سارے چودہ گواہ خود بخود ایسے اچانک منحرف ہو جاتے ہیں جیسے اُنہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔ جو کچھ وہ پہلے کہہ چکے ہیں سب جھوٹ اور فریب تھا۔ اُن کا نیا بیان ہی صحیح اور مصدقہ ہے۔
پھر عدالت کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اُس ملزم کو باعزت طور پر بری کر دے جس نے گرچہ خود اپنی زبان سے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہو۔ یہ قانونی سقم یا سرے سے عدالتی اختیار ہی نہیں کہ ملزم سے یہ سوال کر سکے کہ پہلے تو تم نے اِس جرم کا اعتراف کر لیا تھا اب کیسے انکار کر رہے ہو اور نہ وہ اُن گواہوں کو اپنے حلفیہ بیان سے منحرف ہو جانے پر کوئی سر زنش کر سکتی ہے۔ وہ اُن گواہوں سے یہ پوچھنے کی بھی مجاز نہیں کہ تم اپنے سابقہ بیان سے کیونکر منحرف ہو گئے ہو۔
نجانے قصور کس کا ہے نظام انصاف کی کمزوری یا پھر ہمارے اُس نظام کا سقم اور خرابی جس میں ہم گزشتہ 67 سالوں سے باامر مجبوری رہ رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک ایسا قانون تشکیل ہی نہیں دیا جس میں جھوٹے گواہوں کو بھی سزا دی جا سکے یا مدعی اور ملزم کو اپنے بیانوں سے انحراف کرنے پر پابندِ سلاسل کیا جا سکے۔
قانون سازی کرنے والوں نے زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور مالداروں کو بے لگام آزادی دی ہوئی ہے کیونکہ وہ خود اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور غریب اور بے کس عوام کو اپنی زندگی اور آبرو بچانے کے لیے مفاہمت پر مجبوراً آمادگی اور رضامندی جن کو وہ صرف حشراتِ الارض خیال کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقدمہ کراچی میں دو تین سال قبل شاہ زیب نامی نوجوان کے قتل کا بھی تھا جس میں نامزد ملزم کو پہلے ہی دن سے یہ یقین اور اعتماد تھا کہ اِس ملک کا کوئی قانون اور کوئی عدالت اُسے سزا نہیں دلوا سکتی۔ اِسی لیے وہ سب کے سامنے اپنی اُنگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر اُس قوت و جبروت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا تھا جس کے آگے نسبتاً کمزور اور کم تر شخص کی کوئی حیثیت و بساط نہیں ہوا کرتی اور اُسے دیت کے قانون کے تحت خاموش اور چپ کرا دیا جاتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس والے کیس میں بھی ہم نے ایسا ہی دیکھا تھا کہ مقتولین کے تمام ورثاء جو پہلے اپنے موقف پر سختی کے ساتھ ڈٹے ہوئے اچانک راتوں رات دیت کے قانون کا سہارا لے کر چند کروڑ لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ خون بہا کے اِس فیصلے میں جرمانے کی رقم بھی مبینہ طور پر ملزم نے ادا نہیں کی تھی بلکہ امریکا کی حکومتِ وقت نے ادا کی تھی اور تو اور ورثاء کو رقم کے ادائیگی سے قبل ہی ملزم پاکستا ن سے باعزت طور پر رخصت بھی کر دیا جا تا ہے۔
مفلسانِ فہم ذکاء حیران و پریشان ہیں کہ ہم کس عہد اور کس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں غریب اور نادارکے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ وہ جب چاہے مار دیا جائے یا قتل کر دیا جائے، کوئی اُس کا پرسانِ حال نہیں۔ وہ چاہے کتنی بڑھکیں مار لے لیکن اُسے بہرحال اپنی خفگی اور آزردگی کو قانو ن ہی کے تحت بدلنا ہو گا۔ اِس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ اگر ڈٹ گیا تو خون بہا کے چند کروڑ لینے سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اِس پر آمادہ ہو جائے اور عدلیہ کو بھی مشکل میں ڈالنے سے بچالے۔
بے لاگ اور سستے انصاف کے حصول کی ساری اُمیدیں اب تارِ نفس توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ نویں جماعت کا طالبِ علم سولہ سالہ زین کیونکر اور کیسے مارا گیا۔ اُسے مارنے والا مبینہ ملزم مصطفیٰ کانجو نہیں تھا تو پھر اور کون تھا۔ کوئی تو ہے جس کی گولی سے وہ مارا گیا۔ اِس سوال کا جواب کون تلاش کرے گا۔
کس نے اُس کی ماں کی گود اُجاڑی ہے۔ دیگر مقدمات کی طرح یہ مقدمہ بھی یونہی ادھورا اور بے نتیجہ چھوڑ دیا گیا کہ شاید آنے والی نسلیں اِس کا فیصلہ کریں گی۔ کچھ روز قبل ملتان کی ایک لڑکی زندہ جلا دی گئی، اِن ہی حقائق اور وجوہات کے سبب یہ سارا نظام ہی آج ہمیں فرسودہ، بودا اور کِرم خوردہ معلوم ہو رہا ہے۔ جس میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ قتل کے اصل مجرموں کی گرفت کر سکے یا پھر مدعی اور گواہوں سے یہ پوچھ پائے کہ وہ اگر اُنہیں اپنے سابقہ موقف سے منحرف ہی ہونا تھا تو اُنہوں نے عدلیہ کا قیمتی وقت کیوں ضایع کیا۔ ہم کب تک کوتاہیوں اور فروگزاشتیوں کے اِس نظام زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
اقتدار اور اختیار کی ندی میں ڈبکیاں لگانے والے ہمارے پاسدارِ دستور کب اپنا فریضہ اور احساسِ ذمے داری نبھاتے ہوئے ملکی قوانین میں اِن نقائص اور سقم کو دور کر پائیں گے جہاں تمام فوائد اور مراعات کو وصول کنندہ صرف اور صرف بااثر اور طاقتور طبقہ ہی ہے اور غریب اور بے کس لوگوں کی قسمت میں نوحہ خوانی اور گریہ زاری کے سوا کچھ نہیں۔