شاہینوں کی اونچی اُڑان ٹیسٹ سیریز میں فتح نمبر 2 پوزیشن کا حصول شاباش پاکستان
اسپن جادوگری سے انگلش بیٹسمین بے بس، یاسر شاہ نے سعید اجمل کی کمی محسوس نہ ہونے دی
پاکستانی شاہینوں نے انگلش حریفوں کو بھی دبوچ لیا، سیریز سے قبل یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ایشز میں آسٹریلیا کو ٹھکانے لگانے والی مہمان سائیڈ گرین کیپس کو بھی پریشان کرے گی،گوکہ بعض سیشنز میں ایسا ضرور ہوا مگر مجموعی طور پر وہ اچھا کھیل پیش نہ کر سکی۔
صرف پہلے ٹیسٹ کے آخری دن انگلینڈ حاوی دکھائی دیا تھا مگرکم روشنی نے پاکستان کو غیر متوقع شکست سے محفوظ رکھا، میزبان ٹیم نے اسپن پچز بنا کر یہ سیریز جیتی، انگلش سائیڈکے پاس کوئی ورلڈکلاس اسپنر نہ تھا اس لیے وہ ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکی، میزبان کو یاسر شاہ، ذوالفقار بابر اور شعیب ملک کا ساتھ حاصل تھا، شارجہ ٹیسٹ میں127 رنز کی شاندار فتح نے سیریز میں پاکستان کو2-0 سے فتح دلائی، آخری دن جب مہمان سائیڈ نے اننگز کا آغاز کیا تو سب بخوبی جانتے تھے کہ سلو بولرز کا سامنا کرنا ان کیلیے آسان نہ ہو گا۔
شارجہ کی وکٹ پرپانچویں دن238رنز بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، پھر سب کچھ توقعات کے عین مطابق ہوا انگلینڈ نے ابتدا میں ہی چند وکٹیں گنوا دیں جس سے پاکستانی جیت یقینی ہو گئی، کپتان الیسٹر کک ایک اینڈ پر کھڑے رہے مگر سپورٹ نہ ملنے پر آخرکار ہمت ہار گئے، شعیب ملک، یاسرشاہ اور ذوالفقار بابر تینوں اسپنرز نے حریف بیٹسمینوں کے اوسان خطا کر دیے، ان کے پاس چکمہ دیتی ہوئی گیندوں کا کوئی جواب نہ تھا،اس فتح کا کریڈٹ بلاشبہ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔
ہر کھلاڑی نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا،خصوصاً محمد حفیظ نے دوسری اننگز میں151 کی اننگز کھیل کر بولرز کو ایسا مجموعہ فراہم کیا جس کا وہ باآسانی دفاع کر سکیں، بولنگ پر پابندی کے سبب سیریز سے پہلے حفیظ خاصے دباؤ کا شکار تھے، خراب کارکردگی ان کے کیریئر کو متاثر کر سکتی تھی مگر انھوں نے آل راؤنڈر کا اسٹیٹس کھونے کے بعد بطور اوپنر دلکش کھیل سے سب کے دل موہ لیے،حفیظ نے پہلے ٹیسٹ میں98 اور پھر دوسرے میں51 کی بھی اننگز کھیلی تھیں۔
ان کی بیٹنگ میں سب سے خاص بات مثبت انداز نظر آیا، وہ کسی بھی لمحے بولر کو خود پر حاوی ہونے کا موقع دینے کو تیار نہ ہوئے اور اسی لیے بڑی اننگز کھیلیں، ساتھ بعض اوقات انھیں قسمت کی بھی مہربانی حاصل رہی،اظہر علی بطور اوپنر واحد میچ میں متاثر نہ کر سکے مگر اس وقت صرف اسی حیثیت میں ان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنتی ہے، ابھی اظہر کووقت دینا چاہیے مزید چند مواقع پا کر یقیناً وہ اس نئے کردار میں بھی سیٹ ہو جائیں گے۔
پاکستانی ٹیم کو اس سیریز میں شعیب ملک کی شاندار آل راؤنڈ کارکردگی سے خاصی مدد ملی، انھوں نے پہلے ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنائی جبکہ بعد میں بطور بولر بھی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہے،اب وہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے اور اتنی خوشگوار یادوں کے ساتھ کھیل سے علیحدگی انھیں ہمیشہ یاد رہے گی، مصباح الحق اس سیریز میں بھی اچھی بیٹنگ و کپتانی کرتے دکھائی دیے، بڑھتی عمر کا اثر ان کے کھیل پر بالکل نہیں پڑا، ان کے ساتھ یونس خان کیلیے بھی یہ سیریز یادگار رہی اور وہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے بیٹسمین بن گئے۔
یہ دونوں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی بیٹنگ کے مضبوط ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ اسد شفیق جیسے باصلاحیت نوجوان بھی اعتماد سے کھیل رہے ہیں، اس سیریز میں بھی انھوں نے دلکش بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، یہ پاکستان کیلیے خوش آئند ہے، مصباح اور یونس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس مضبوط بیک اپ موجود ہوگا،حفیظ، مصباح، یونس اور اسد چاروں سیریز میں 300 سے زائد رنز بنانے میں کامیاب رہے۔
البتہ سرفراز احمد کچھ بجھے بجھے دکھائی دیے، دیگر بیٹسمینوں کے اچھے کھیل کی وجہ سے یہ بات نمایاں نہیں ہو سکی کہ پوری سیریز میں وہ کوئی ففٹی نہیں بنا سکے، شان مسعود فاسٹ بولرز کیخلاف کسی تکنیکی خامی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اسی لیے زیادہ تر جیمز اینڈرسن کا شکار بنے، انھیں جلد اس مسئلے سے چھٹکارہ پانا ہو گا ورنہ کئی دیگر پلیئرز لائن میں موجود ہیں۔
انگلینڈ کیخلاف گذشتہ سیریز میں پاکستان کو سعید اجمل اور عبدالرحمان کی عمدہ بولنگ نے فتح دلائی تھی، ایکشن کی تبدیلی کے بعد سعید کی بولنگ کا جادو ختم ہو گیا، ہماری سرزمین اسپن بولنگ کا کس قدر ٹیلنٹ رکھتی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یاسر شاہ نے بہت جلد عمدہ بولنگ سے ٹیم میں جگہ مستحکم کر لی۔
اب کسی بھی موقع پر پاکستانی سائیڈ کو سعید اجمل کی کمی محسوس نہیں ہوتی، یاسر کی صلاحیتوں کے سابق عظیم لیگ اسپنر شین وارن بھی معترف ہیں، وہ خاص طورپر انھیں مشورے دینے ٹیم کے نیٹ سیشن میں آئے، یاسر نے فیصلہ کن اننگز میں چار اور میچ میں7 وکٹیں لے کر گرین کیپس کو شارجہ میں فتح دلائی، مجموعی طور پر وہ سیریز میں15پلیئرز کو پویلین بھیجنے میں کامیاب رہے، ان کی بولنگ میں بہتری لانے میں اسپن کوچ مشتاق احمد کا بھی خاصا عمل و دخل ہے۔
سیریز میں شعیب ملک نے11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جب کبھی کپتان نے انھیں گیند تھمائی کبھی مایوس نہ کیا،ذوالفقار بابر غیرمعمولی کامیابیاں تو نہ سمیٹ سکے البتہ انھوں نے9 وکٹیں ضرور حاصل کیں، ڈیڈ پچز پر فاسٹ بولرز کیلیے کچھ موجود نہ تھا، اس کے باوجود وہاب ریاض جان لڑاتے دکھائی دیے، ان کے بعض اسپیل بڑے شاندار تھے، راحت علی اور عمران خان کی بولنگ کو بھی خراب نہیں کہا جا سکتا، مجموعی طور پر یہ ایک ٹیم ورک ہی تھا جس نے گرین کیپس کو فاتح ٹرافی دلائی، ٹیسٹ میں دوسری پوزیشن کا حصول کوئی معمولی بات نہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم تیزی سے بہتری حاصل کر رہی ہے۔
اس میں مصباح الحق کی قیادت کا بھی خاصا عمل و دخل ہے، چیئرمین پی سی بی شہریارخان نے انھیں ریٹائرمنٹ سے روک کر اچھا قدم اٹھایا، کم ازکم دورئہ انگلینڈ تک تو انھیں ٹیم کے ساتھ رہنا چاہیے، اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کو یونس خان کے تجربے کی بھی خاصی ضرورت ہے، شعیب ملک کئی برس بعد واپس آئے اور چھا گئے، مگر انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر کے سب کو حیران کر دیا، بہرحال آل راؤنڈر نے سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہو گا۔
ان کے جانے سے ایک نوجوان کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ بنانے کا موقع مل جائے گا، ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم متواتر اچھے کھیل کا مظاہرہ کر رہی ہے مگر بدقسمتی سے اسے بہت کم میچز کھیلنے کو ملتے ہیں، کپتان مصباح الحق اور کوچ وقار یونس بھی اس کا شکوہ کر چکے، اب اگلا ٹیسٹ بھی کئی ماہ بعد انگلینڈ میں ہونا ہے۔
آپ جس فارمیٹ میں مہارت رکھتے ہیں اس کے زیادہ میچز کھیلنے چاہئیں، ہمارے بورڈ کو اس جانب توجہ دینا ہوگی، اس فتح سے کھلاڑیوں کو مورال خاصا بلند ہوا ہو گا، کئی ون ڈے اسکواڈ کا بھی حصہ ہیں، امید ہے کہ ٹیم ان میچز میں بھی اچھا کھیل پیش کر کے اپنی رینکنگ بہتر بنانے کے سفر کا آغاز کرے گی۔
صرف پہلے ٹیسٹ کے آخری دن انگلینڈ حاوی دکھائی دیا تھا مگرکم روشنی نے پاکستان کو غیر متوقع شکست سے محفوظ رکھا، میزبان ٹیم نے اسپن پچز بنا کر یہ سیریز جیتی، انگلش سائیڈکے پاس کوئی ورلڈکلاس اسپنر نہ تھا اس لیے وہ ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکی، میزبان کو یاسر شاہ، ذوالفقار بابر اور شعیب ملک کا ساتھ حاصل تھا، شارجہ ٹیسٹ میں127 رنز کی شاندار فتح نے سیریز میں پاکستان کو2-0 سے فتح دلائی، آخری دن جب مہمان سائیڈ نے اننگز کا آغاز کیا تو سب بخوبی جانتے تھے کہ سلو بولرز کا سامنا کرنا ان کیلیے آسان نہ ہو گا۔
شارجہ کی وکٹ پرپانچویں دن238رنز بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، پھر سب کچھ توقعات کے عین مطابق ہوا انگلینڈ نے ابتدا میں ہی چند وکٹیں گنوا دیں جس سے پاکستانی جیت یقینی ہو گئی، کپتان الیسٹر کک ایک اینڈ پر کھڑے رہے مگر سپورٹ نہ ملنے پر آخرکار ہمت ہار گئے، شعیب ملک، یاسرشاہ اور ذوالفقار بابر تینوں اسپنرز نے حریف بیٹسمینوں کے اوسان خطا کر دیے، ان کے پاس چکمہ دیتی ہوئی گیندوں کا کوئی جواب نہ تھا،اس فتح کا کریڈٹ بلاشبہ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔
ہر کھلاڑی نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا،خصوصاً محمد حفیظ نے دوسری اننگز میں151 کی اننگز کھیل کر بولرز کو ایسا مجموعہ فراہم کیا جس کا وہ باآسانی دفاع کر سکیں، بولنگ پر پابندی کے سبب سیریز سے پہلے حفیظ خاصے دباؤ کا شکار تھے، خراب کارکردگی ان کے کیریئر کو متاثر کر سکتی تھی مگر انھوں نے آل راؤنڈر کا اسٹیٹس کھونے کے بعد بطور اوپنر دلکش کھیل سے سب کے دل موہ لیے،حفیظ نے پہلے ٹیسٹ میں98 اور پھر دوسرے میں51 کی بھی اننگز کھیلی تھیں۔
ان کی بیٹنگ میں سب سے خاص بات مثبت انداز نظر آیا، وہ کسی بھی لمحے بولر کو خود پر حاوی ہونے کا موقع دینے کو تیار نہ ہوئے اور اسی لیے بڑی اننگز کھیلیں، ساتھ بعض اوقات انھیں قسمت کی بھی مہربانی حاصل رہی،اظہر علی بطور اوپنر واحد میچ میں متاثر نہ کر سکے مگر اس وقت صرف اسی حیثیت میں ان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنتی ہے، ابھی اظہر کووقت دینا چاہیے مزید چند مواقع پا کر یقیناً وہ اس نئے کردار میں بھی سیٹ ہو جائیں گے۔
پاکستانی ٹیم کو اس سیریز میں شعیب ملک کی شاندار آل راؤنڈ کارکردگی سے خاصی مدد ملی، انھوں نے پہلے ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنائی جبکہ بعد میں بطور بولر بھی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہے،اب وہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے اور اتنی خوشگوار یادوں کے ساتھ کھیل سے علیحدگی انھیں ہمیشہ یاد رہے گی، مصباح الحق اس سیریز میں بھی اچھی بیٹنگ و کپتانی کرتے دکھائی دیے، بڑھتی عمر کا اثر ان کے کھیل پر بالکل نہیں پڑا، ان کے ساتھ یونس خان کیلیے بھی یہ سیریز یادگار رہی اور وہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے بیٹسمین بن گئے۔
یہ دونوں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی بیٹنگ کے مضبوط ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ اسد شفیق جیسے باصلاحیت نوجوان بھی اعتماد سے کھیل رہے ہیں، اس سیریز میں بھی انھوں نے دلکش بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، یہ پاکستان کیلیے خوش آئند ہے، مصباح اور یونس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس مضبوط بیک اپ موجود ہوگا،حفیظ، مصباح، یونس اور اسد چاروں سیریز میں 300 سے زائد رنز بنانے میں کامیاب رہے۔
البتہ سرفراز احمد کچھ بجھے بجھے دکھائی دیے، دیگر بیٹسمینوں کے اچھے کھیل کی وجہ سے یہ بات نمایاں نہیں ہو سکی کہ پوری سیریز میں وہ کوئی ففٹی نہیں بنا سکے، شان مسعود فاسٹ بولرز کیخلاف کسی تکنیکی خامی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اسی لیے زیادہ تر جیمز اینڈرسن کا شکار بنے، انھیں جلد اس مسئلے سے چھٹکارہ پانا ہو گا ورنہ کئی دیگر پلیئرز لائن میں موجود ہیں۔
انگلینڈ کیخلاف گذشتہ سیریز میں پاکستان کو سعید اجمل اور عبدالرحمان کی عمدہ بولنگ نے فتح دلائی تھی، ایکشن کی تبدیلی کے بعد سعید کی بولنگ کا جادو ختم ہو گیا، ہماری سرزمین اسپن بولنگ کا کس قدر ٹیلنٹ رکھتی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یاسر شاہ نے بہت جلد عمدہ بولنگ سے ٹیم میں جگہ مستحکم کر لی۔
اب کسی بھی موقع پر پاکستانی سائیڈ کو سعید اجمل کی کمی محسوس نہیں ہوتی، یاسر کی صلاحیتوں کے سابق عظیم لیگ اسپنر شین وارن بھی معترف ہیں، وہ خاص طورپر انھیں مشورے دینے ٹیم کے نیٹ سیشن میں آئے، یاسر نے فیصلہ کن اننگز میں چار اور میچ میں7 وکٹیں لے کر گرین کیپس کو شارجہ میں فتح دلائی، مجموعی طور پر وہ سیریز میں15پلیئرز کو پویلین بھیجنے میں کامیاب رہے، ان کی بولنگ میں بہتری لانے میں اسپن کوچ مشتاق احمد کا بھی خاصا عمل و دخل ہے۔
سیریز میں شعیب ملک نے11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جب کبھی کپتان نے انھیں گیند تھمائی کبھی مایوس نہ کیا،ذوالفقار بابر غیرمعمولی کامیابیاں تو نہ سمیٹ سکے البتہ انھوں نے9 وکٹیں ضرور حاصل کیں، ڈیڈ پچز پر فاسٹ بولرز کیلیے کچھ موجود نہ تھا، اس کے باوجود وہاب ریاض جان لڑاتے دکھائی دیے، ان کے بعض اسپیل بڑے شاندار تھے، راحت علی اور عمران خان کی بولنگ کو بھی خراب نہیں کہا جا سکتا، مجموعی طور پر یہ ایک ٹیم ورک ہی تھا جس نے گرین کیپس کو فاتح ٹرافی دلائی، ٹیسٹ میں دوسری پوزیشن کا حصول کوئی معمولی بات نہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم تیزی سے بہتری حاصل کر رہی ہے۔
اس میں مصباح الحق کی قیادت کا بھی خاصا عمل و دخل ہے، چیئرمین پی سی بی شہریارخان نے انھیں ریٹائرمنٹ سے روک کر اچھا قدم اٹھایا، کم ازکم دورئہ انگلینڈ تک تو انھیں ٹیم کے ساتھ رہنا چاہیے، اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کو یونس خان کے تجربے کی بھی خاصی ضرورت ہے، شعیب ملک کئی برس بعد واپس آئے اور چھا گئے، مگر انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر کے سب کو حیران کر دیا، بہرحال آل راؤنڈر نے سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہو گا۔
ان کے جانے سے ایک نوجوان کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ بنانے کا موقع مل جائے گا، ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم متواتر اچھے کھیل کا مظاہرہ کر رہی ہے مگر بدقسمتی سے اسے بہت کم میچز کھیلنے کو ملتے ہیں، کپتان مصباح الحق اور کوچ وقار یونس بھی اس کا شکوہ کر چکے، اب اگلا ٹیسٹ بھی کئی ماہ بعد انگلینڈ میں ہونا ہے۔
آپ جس فارمیٹ میں مہارت رکھتے ہیں اس کے زیادہ میچز کھیلنے چاہئیں، ہمارے بورڈ کو اس جانب توجہ دینا ہوگی، اس فتح سے کھلاڑیوں کو مورال خاصا بلند ہوا ہو گا، کئی ون ڈے اسکواڈ کا بھی حصہ ہیں، امید ہے کہ ٹیم ان میچز میں بھی اچھا کھیل پیش کر کے اپنی رینکنگ بہتر بنانے کے سفر کا آغاز کرے گی۔