پانی کی قلت پر واپڈا چیف کی تشویش
پانی کی قلت پر قابو پانا اس لیے ضروری ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا وجود ہی برقرار نہیں رہ سکتا
واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سربراہ ظفر محمود نے ملک میں پانی کی قلت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی دستیابی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے۔
واٹر سیکیورٹی ایشوز پر مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے شرکاء کو بتایا کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی دستیابی گھمبیر صورت حال اختیار کر گئی ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
پانی کی قلت پر قابو پانا اس لیے ضروری ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا وجود ہی برقرار نہیں رہ سکتا۔ ویسے تو قدرت نے خشکی سے تین گنا زیادہ رقبے کو پانی سے بھر رکھا ہے لیکن انتظامی کوتاہیوں کے باعث بعض اوقات پانی کی فراہمی میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس قلت کو دور کرنے کی ذمے داری بظاہر تو اس محکمے کی ہے جو قائم ہی پانی اور توانائی کی ڈویلپمنٹ کے لیے کیا گیا مگر جب ہمارے دریاؤں کا پانی ایک سازش کے تحت روک لیا جائے تو ہمیں متبادل انتظامات کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اگر بوجوہ دریاؤں پر بڑے ڈیم بنانے میں رکاوٹیں موجود ہوں تو کیا بنجر علاقوں میں بڑے بڑے تالاب اور مصنوعی جھیلیں نہیں بنائی جا سکتیں جہاں سیلابی پانیوں کو اکٹھا کیا جا سکے جو خشک سالی کے موسموں میں کام آئے۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کے علاوہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ پانی کا ضیاع ہے۔ پاکستان کے بہت سے شہروں میں جہاں پانی کی قلت ہے ان میں کراچی سر فہرست ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پانی کسی ایک صوبے یا شہر کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو پانی جیسی نعمت کو محفوظ رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
واٹر سیکیورٹی ایشوز پر مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے شرکاء کو بتایا کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی دستیابی گھمبیر صورت حال اختیار کر گئی ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
پانی کی قلت پر قابو پانا اس لیے ضروری ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا وجود ہی برقرار نہیں رہ سکتا۔ ویسے تو قدرت نے خشکی سے تین گنا زیادہ رقبے کو پانی سے بھر رکھا ہے لیکن انتظامی کوتاہیوں کے باعث بعض اوقات پانی کی فراہمی میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس قلت کو دور کرنے کی ذمے داری بظاہر تو اس محکمے کی ہے جو قائم ہی پانی اور توانائی کی ڈویلپمنٹ کے لیے کیا گیا مگر جب ہمارے دریاؤں کا پانی ایک سازش کے تحت روک لیا جائے تو ہمیں متبادل انتظامات کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اگر بوجوہ دریاؤں پر بڑے ڈیم بنانے میں رکاوٹیں موجود ہوں تو کیا بنجر علاقوں میں بڑے بڑے تالاب اور مصنوعی جھیلیں نہیں بنائی جا سکتیں جہاں سیلابی پانیوں کو اکٹھا کیا جا سکے جو خشک سالی کے موسموں میں کام آئے۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کے علاوہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ پانی کا ضیاع ہے۔ پاکستان کے بہت سے شہروں میں جہاں پانی کی قلت ہے ان میں کراچی سر فہرست ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پانی کسی ایک صوبے یا شہر کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو پانی جیسی نعمت کو محفوظ رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔