کیسی لڑکی تجھے پسند آئے گی
فلم کے سیٹ پر غلام محی الدین پیانو بجارہا تھا، میں نے قریب جا کر اس سے کہا۔
فلم کے سیٹ پر غلام محی الدین پیانو بجارہا تھا، میں نے قریب جا کر اس سے کہا۔ گلو بھائی! یہ پیانو ہے۔ اس نے بھی بے ساختہ جواب دیا۔ ہاں مجھے پتا ہے یہ پیانو ہے، کوئی گنے کا جوس نکالنے والی مشین نہیں۔ پھر ایک ساتھ ہم دونوں ہنس پڑے۔اب میں پیانو گیت کے بارے میں بتاتا چلوں کہ ایک دور آیا تھا جب ہر فلم میں ایک پیانو گیت کی سچویشن ضرور ہوتی تھی۔
ہیرو پیانو بجاتا ہے اور پس منظر میں کوئی اداکارہ رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اب تک کئی ہزار فلموں میں پیانو گیت کی ایسی سچویشنز آتی رہی ہیں اور اب بھی پیانو نے فلموں کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اور ننانوے فیصد پیانو گیت پسندیدگی کی سند بنتے رہے ہیں ۔ پیانو کے گیتوں کی بھی ایک تاریخ ہے، نئی نسل کے فلم بینوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ پیانو گیت کی سچویشن کا آغاز 1949 میں ریلیز ہونے والی فلمساز و ہدایت کار محبوب کی مایہ ناز فلم ''انداز'' سے ہوا تھا جس میں نامور اداکار دلیپ کمار نے پیانو پر ایک گیت گایا تھا، وہ سنگر مکیش کی آواز میں تھا جسے موسیقار نوشاد نے مدھر موسیقی سے نوازا تھا اور شاعر مجروح سلطان پوری تھے جب کہ گیت کے بول تھے:
جھوم جھوم کے ناچو ، گاؤ خوشی کے گیت
آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت
اور اس گیت کے پس منظر میں رقاصہ نینا کا رقص فلمایا گیا تھا۔ پیانو کے اس گیت نے ہندوستان اور پاکستان میں دھوم مچا دی تھی اور بعض فلمی ناقدوں کا تو خیال تھا کہ فلم ''انداز'' اپنے اس خوبصورت گیت کی وجہ سے ہٹ ہوئی تھی۔ بات یہ ہے کہ میں غلام محی الدین کو پیانو بجاتے دیکھ کر ماضی میں گم ہوگیا تھا اور کہاں سے کہاں بات نکل گئی جب کہ مجھے ''کس نام سے پکاروں'' کے اس گیت کی فلم بندی کا تذکرہ کرنا تھا جو مذکورہ فلم کے سیٹ پر فلمایا جارہا تھا اس وقت فلم کے سیٹ پر بابرہ شریف کچھ سہیلیوں کے ساتھ موجود تھی اور نوین تاجک پیانو بجاتے ہوئے غلام محی الدین پر اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے خواجہ پرویز کا لکھا ہوا ایک گیت گارہی تھی جس کے بول تھے:
میرے لبوں پہ گیت ہیں تیرے تُو میرا جانِ وفا
کوئی نہیں تھا کوئی نہ ہوگا دل میں تیرے سوا
نوین تاجک کے ساتھ پس منظر میں چند لڑکیاں بھی کورس کی شکل میں نوین تاجک کا اس رقص میں ساتھ دے رہی تھیں اور کیمرہ اس دوران بابرہ شریف کے تاثرات بھی دکھاتا جارہا تھا اور غلام محی الدین کسی ماہر پیانسٹ کی طرح پیانو بجانے کا مظاہرہ کررہا تھا۔ ہدایت کار ایس اے بخاری اس گیت کو جو ایک روایتی قسم کا پیانو سانگ تھا خوب سے خوب تر عکس بند کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اسی دوران فلم کے موسیقار نذیر علی بھی اپنے گیت کی فلم بندی دیکھنے کی غرض سے سیٹ پر آگئے تھے۔
کچھ دیر کے بعد کھانے کے وقفے کے لیے شوٹنگ روک دی گئی اور ایس اے بخاری صاحب نے سیٹ ہی پر موسیقار نذیر علی اور مجھے بلاکر آیندہ ہفتے فلم بند کیے جانے والے دوسرے گیت کی سچویشن بتاتے ہوئے نذیر علی سے کہا کہ اب یہ دوسرا گیت یونس ہمدم لکھیں گے اور مجھے یہ گیت بھی جلد ہی شوٹ کرنا ہے، اب تم دونوں آپس میں طے کرلو کہ کس دن ایک ساتھ بیٹھ رہے ہو، مجھے ایک خوبصورت گیت چاہیے جو میری سچویشن پر ٹھاہ کر کے اترے، پھر انھوں نے فلم کی سچویشن سمجھاتے ہوئے کہا۔ یہ ان ڈور گیت ہے، فلم میں ہیرو شاہد ہے جو بہت ہی سیدھا سادا اور ایک بھولا بھالا آدمی ہے، جسے یہ بھی پتا نہیں ہوتا ہے کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے۔
فلم میں بابرہ شریف اور نوین تاجک دو گہری سہیلیاں ہیں۔ ایک دن دونوں سہیلیاں اس کے دل کی بات جاننے کے لیے ایک گیت کی صورت میں اس سے پوچھتی ہیں کہ تجھے کس قسم کی لڑکی پسند ہے جسے تیری دلہن بنا کر ہم اس گھر میں لائیں گے۔ بخاری صاحب گیت کی سچویشن سمجھا کر دوبارہ اپنی شوٹنگ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران بخاری صاحب نذیر علی سے کہتے ہیں کہ وہ گلوکارہ ناہید اختر اور مہناز کو بھی گیت کی ریکارڈنگ کے لیے بک کرلیں۔
آیندہ ہفتے اسی سیٹ پر تھوڑی سی تبدیلی کرکے دوسرا گیت بھی شوٹ کریں گے۔ نذیر علی نے مجھے دو دن بعد کا بخاری صاحب کے آفس میں شام کا وقت دے دیا، یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات تھی کہ مجھے اب ایک اور مشہور موسیقار کے ساتھ گیت لکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ موسیقار نذیر علی ایم اشرف کے بعد سب سے زیادہ معروف موسیقار تھا، بلکہ اس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ اردو فلموں کے ساتھ پنجابی فلموں کا بھی بڑا کامیاب موسیقار تھا اور میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے بیشتر پنجابی گیتوں کی دھنیں بھی موسیقار نذیر علی کے کریڈٹ پر تھیں۔ میں دو دن بعد بخاری صاحب کے آفس میں پہنچا تو وہاں موسیقار نذیر علی پہلے سے موجود تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اس دوران بخاری صاحب بھی وہاں موجود تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس گیت میں ردھم کے ساتھ ہیرو شاہد کے چند مکالمے بھی ہیں جو گیت کی ریکارڈنگ کے دوران ہی اپنی آواز میں شاہد خود ریکارڈ کرانے آئے گا۔ شاہد نے وعدہ تو کرلیا ہے بس وہ وقت پر آجائے، یہ بڑی بات ہے کیونکہ وہ بڑا موڈی آدمی ہے۔ بخاری صاحب جاتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے میں دو تین گھنٹے کے بعد آؤں تو مجھے یہ گیت تیار ملے۔ بخاری صاحب کے جاتے ہم دونوں گیت کی طرف متوجہ ہوگئے موسیقار نذیر علی نے دو تین دھنیں بنائیں، پھر ایک دھن خود ہی فائنل کرکے مجھ سے کہا چل بھئی یونس ہمدم! اس دھن پر کوئی اچھا سا مکھڑا فٹ کردے۔ میں وہ دھن سنتا رہا اور ذہن میں سچویشن کے اعتبار سے الفاظ سوچتا رہا، چند منٹوں کے بعد ذہن میں ایک مکھڑا آگیا، وہ میں نے نذیر علی کو سنایا جو کچھ یوں تھا:
کیسی لڑکی تجھے پسند آئے گی
کون ہوگی جو تیرے من بھائے گی
پھر اس مکھڑے کو نذیر علی نے ردھم کے ساتھ اپنی آواز میں گایا، اسے بھی وہ پسند آیا اور پھر گیت کا کام آگے بڑھتا رہا، دو تین گھنٹوں کی کاوش کے بعد گیت چند انتروں کے ساتھ مکمل کرلیا گیا۔ اسی دوران بخاری صاحب سیٹ پر شوٹنگ پیک اپ کرکے انھیں بھی میوزک کے ساتھ وہ گیت سنایا گیا۔ دو تین بار وہ گیت سن کر بولے، یونس ہمدم! تم نے سچویشن کے حساب سے اس گیت میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے۔
میری طرف سے یہ گیت اوکے ہے، جب ہدایت کار نے گیت کو پسند کرلیا تو سمجھو موسیقار اور شاعر کو اس کی محنت کا صلہ اسی وقت مل جاتا ہے، پھر وہی گیت دو دن کے بعد ناہید اختر اور مہناز کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ اس دوران جو چند مکالمے شاہد کی آواز میں ریکارڈ کرنے تھے ان کی وجہ سے شاہد کا انتظار کیا جارہا تھا مگر شاہد وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آیا تو بخاری صاحب نے کہا کوئی بات نہیں چند مختصر مکالمے کسی کی بھی آواز میں ریکارڈ کیے جاسکتے ہیں پھر انھوں نے موسیقار نذیر علی سے کہا کہ وہ گانے کے دوران اپنی آواز میں مکالمے بول کر دکھائے۔
نذیر علی نے وہ مکالمے بولے تو سہی مگر اس کی بھاری بھرکم آواز شاہد کے حساب سے سوٹ نہیں ہو رہی تھی، بخاری صاحب نے مجھ سے کہا یونس ہمدم! یہ مکالمے اب تم بول کر سناؤ۔ میں نے ہیڈ فون لگا کر ذہن میں شاہد کی شخصیت کو رکھتے ہوئے وہ مکالمے ریکارڈ کرائے اور یہاں میرا ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزم طلبا میں بولنے کا تجربہ کام آگیا۔
یہ دو گلوکاراؤں کے درمیان ہیڈفون لگا کر کسی گیت کے دوران ردھم میں پہلی بار میں نے یہ چند مکالمے ریکارڈ کرائے تھے اور جب اس فلم کا اسٹوڈیو شو ہوا تو کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہ ہوسکا کہ گیت میں جو آواز شاہد کی ہے وہ شاہد کی اپنی نہیں ہے۔ اور ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب EMI گراموفون کمپنی نے مذکورہ فلم کے ریکارڈز ریلیز کیے تو ایک ریکارڈ پر ناہید اختر، مہناز کے ساتھ یونس ہمدم بھی لکھا تھا اور یہ بات میرے لیے خوشی سے زیادہ حیرت کا باعث تھی۔
ہیرو پیانو بجاتا ہے اور پس منظر میں کوئی اداکارہ رقص کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اب تک کئی ہزار فلموں میں پیانو گیت کی ایسی سچویشنز آتی رہی ہیں اور اب بھی پیانو نے فلموں کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اور ننانوے فیصد پیانو گیت پسندیدگی کی سند بنتے رہے ہیں ۔ پیانو کے گیتوں کی بھی ایک تاریخ ہے، نئی نسل کے فلم بینوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ پیانو گیت کی سچویشن کا آغاز 1949 میں ریلیز ہونے والی فلمساز و ہدایت کار محبوب کی مایہ ناز فلم ''انداز'' سے ہوا تھا جس میں نامور اداکار دلیپ کمار نے پیانو پر ایک گیت گایا تھا، وہ سنگر مکیش کی آواز میں تھا جسے موسیقار نوشاد نے مدھر موسیقی سے نوازا تھا اور شاعر مجروح سلطان پوری تھے جب کہ گیت کے بول تھے:
جھوم جھوم کے ناچو ، گاؤ خوشی کے گیت
آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت
اور اس گیت کے پس منظر میں رقاصہ نینا کا رقص فلمایا گیا تھا۔ پیانو کے اس گیت نے ہندوستان اور پاکستان میں دھوم مچا دی تھی اور بعض فلمی ناقدوں کا تو خیال تھا کہ فلم ''انداز'' اپنے اس خوبصورت گیت کی وجہ سے ہٹ ہوئی تھی۔ بات یہ ہے کہ میں غلام محی الدین کو پیانو بجاتے دیکھ کر ماضی میں گم ہوگیا تھا اور کہاں سے کہاں بات نکل گئی جب کہ مجھے ''کس نام سے پکاروں'' کے اس گیت کی فلم بندی کا تذکرہ کرنا تھا جو مذکورہ فلم کے سیٹ پر فلمایا جارہا تھا اس وقت فلم کے سیٹ پر بابرہ شریف کچھ سہیلیوں کے ساتھ موجود تھی اور نوین تاجک پیانو بجاتے ہوئے غلام محی الدین پر اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے خواجہ پرویز کا لکھا ہوا ایک گیت گارہی تھی جس کے بول تھے:
میرے لبوں پہ گیت ہیں تیرے تُو میرا جانِ وفا
کوئی نہیں تھا کوئی نہ ہوگا دل میں تیرے سوا
نوین تاجک کے ساتھ پس منظر میں چند لڑکیاں بھی کورس کی شکل میں نوین تاجک کا اس رقص میں ساتھ دے رہی تھیں اور کیمرہ اس دوران بابرہ شریف کے تاثرات بھی دکھاتا جارہا تھا اور غلام محی الدین کسی ماہر پیانسٹ کی طرح پیانو بجانے کا مظاہرہ کررہا تھا۔ ہدایت کار ایس اے بخاری اس گیت کو جو ایک روایتی قسم کا پیانو سانگ تھا خوب سے خوب تر عکس بند کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اسی دوران فلم کے موسیقار نذیر علی بھی اپنے گیت کی فلم بندی دیکھنے کی غرض سے سیٹ پر آگئے تھے۔
کچھ دیر کے بعد کھانے کے وقفے کے لیے شوٹنگ روک دی گئی اور ایس اے بخاری صاحب نے سیٹ ہی پر موسیقار نذیر علی اور مجھے بلاکر آیندہ ہفتے فلم بند کیے جانے والے دوسرے گیت کی سچویشن بتاتے ہوئے نذیر علی سے کہا کہ اب یہ دوسرا گیت یونس ہمدم لکھیں گے اور مجھے یہ گیت بھی جلد ہی شوٹ کرنا ہے، اب تم دونوں آپس میں طے کرلو کہ کس دن ایک ساتھ بیٹھ رہے ہو، مجھے ایک خوبصورت گیت چاہیے جو میری سچویشن پر ٹھاہ کر کے اترے، پھر انھوں نے فلم کی سچویشن سمجھاتے ہوئے کہا۔ یہ ان ڈور گیت ہے، فلم میں ہیرو شاہد ہے جو بہت ہی سیدھا سادا اور ایک بھولا بھالا آدمی ہے، جسے یہ بھی پتا نہیں ہوتا ہے کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے۔
فلم میں بابرہ شریف اور نوین تاجک دو گہری سہیلیاں ہیں۔ ایک دن دونوں سہیلیاں اس کے دل کی بات جاننے کے لیے ایک گیت کی صورت میں اس سے پوچھتی ہیں کہ تجھے کس قسم کی لڑکی پسند ہے جسے تیری دلہن بنا کر ہم اس گھر میں لائیں گے۔ بخاری صاحب گیت کی سچویشن سمجھا کر دوبارہ اپنی شوٹنگ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران بخاری صاحب نذیر علی سے کہتے ہیں کہ وہ گلوکارہ ناہید اختر اور مہناز کو بھی گیت کی ریکارڈنگ کے لیے بک کرلیں۔
آیندہ ہفتے اسی سیٹ پر تھوڑی سی تبدیلی کرکے دوسرا گیت بھی شوٹ کریں گے۔ نذیر علی نے مجھے دو دن بعد کا بخاری صاحب کے آفس میں شام کا وقت دے دیا، یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات تھی کہ مجھے اب ایک اور مشہور موسیقار کے ساتھ گیت لکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ موسیقار نذیر علی ایم اشرف کے بعد سب سے زیادہ معروف موسیقار تھا، بلکہ اس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ اردو فلموں کے ساتھ پنجابی فلموں کا بھی بڑا کامیاب موسیقار تھا اور میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے بیشتر پنجابی گیتوں کی دھنیں بھی موسیقار نذیر علی کے کریڈٹ پر تھیں۔ میں دو دن بعد بخاری صاحب کے آفس میں پہنچا تو وہاں موسیقار نذیر علی پہلے سے موجود تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اس دوران بخاری صاحب بھی وہاں موجود تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس گیت میں ردھم کے ساتھ ہیرو شاہد کے چند مکالمے بھی ہیں جو گیت کی ریکارڈنگ کے دوران ہی اپنی آواز میں شاہد خود ریکارڈ کرانے آئے گا۔ شاہد نے وعدہ تو کرلیا ہے بس وہ وقت پر آجائے، یہ بڑی بات ہے کیونکہ وہ بڑا موڈی آدمی ہے۔ بخاری صاحب جاتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے میں دو تین گھنٹے کے بعد آؤں تو مجھے یہ گیت تیار ملے۔ بخاری صاحب کے جاتے ہم دونوں گیت کی طرف متوجہ ہوگئے موسیقار نذیر علی نے دو تین دھنیں بنائیں، پھر ایک دھن خود ہی فائنل کرکے مجھ سے کہا چل بھئی یونس ہمدم! اس دھن پر کوئی اچھا سا مکھڑا فٹ کردے۔ میں وہ دھن سنتا رہا اور ذہن میں سچویشن کے اعتبار سے الفاظ سوچتا رہا، چند منٹوں کے بعد ذہن میں ایک مکھڑا آگیا، وہ میں نے نذیر علی کو سنایا جو کچھ یوں تھا:
کیسی لڑکی تجھے پسند آئے گی
کون ہوگی جو تیرے من بھائے گی
پھر اس مکھڑے کو نذیر علی نے ردھم کے ساتھ اپنی آواز میں گایا، اسے بھی وہ پسند آیا اور پھر گیت کا کام آگے بڑھتا رہا، دو تین گھنٹوں کی کاوش کے بعد گیت چند انتروں کے ساتھ مکمل کرلیا گیا۔ اسی دوران بخاری صاحب سیٹ پر شوٹنگ پیک اپ کرکے انھیں بھی میوزک کے ساتھ وہ گیت سنایا گیا۔ دو تین بار وہ گیت سن کر بولے، یونس ہمدم! تم نے سچویشن کے حساب سے اس گیت میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے۔
میری طرف سے یہ گیت اوکے ہے، جب ہدایت کار نے گیت کو پسند کرلیا تو سمجھو موسیقار اور شاعر کو اس کی محنت کا صلہ اسی وقت مل جاتا ہے، پھر وہی گیت دو دن کے بعد ناہید اختر اور مہناز کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ اس دوران جو چند مکالمے شاہد کی آواز میں ریکارڈ کرنے تھے ان کی وجہ سے شاہد کا انتظار کیا جارہا تھا مگر شاہد وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آیا تو بخاری صاحب نے کہا کوئی بات نہیں چند مختصر مکالمے کسی کی بھی آواز میں ریکارڈ کیے جاسکتے ہیں پھر انھوں نے موسیقار نذیر علی سے کہا کہ وہ گانے کے دوران اپنی آواز میں مکالمے بول کر دکھائے۔
نذیر علی نے وہ مکالمے بولے تو سہی مگر اس کی بھاری بھرکم آواز شاہد کے حساب سے سوٹ نہیں ہو رہی تھی، بخاری صاحب نے مجھ سے کہا یونس ہمدم! یہ مکالمے اب تم بول کر سناؤ۔ میں نے ہیڈ فون لگا کر ذہن میں شاہد کی شخصیت کو رکھتے ہوئے وہ مکالمے ریکارڈ کرائے اور یہاں میرا ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزم طلبا میں بولنے کا تجربہ کام آگیا۔
یہ دو گلوکاراؤں کے درمیان ہیڈفون لگا کر کسی گیت کے دوران ردھم میں پہلی بار میں نے یہ چند مکالمے ریکارڈ کرائے تھے اور جب اس فلم کا اسٹوڈیو شو ہوا تو کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہ ہوسکا کہ گیت میں جو آواز شاہد کی ہے وہ شاہد کی اپنی نہیں ہے۔ اور ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب EMI گراموفون کمپنی نے مذکورہ فلم کے ریکارڈز ریلیز کیے تو ایک ریکارڈ پر ناہید اختر، مہناز کے ساتھ یونس ہمدم بھی لکھا تھا اور یہ بات میرے لیے خوشی سے زیادہ حیرت کا باعث تھی۔