بجلی صارفین پر نیا عذاب اور معاشی سیانے
ہم نے عرصہ دراز سے یہ راگ سن رکھا ہے کہ ملک معاشی طور پر بہت ترقی کر رہا ہے
ہم نے عرصہ دراز سے یہ راگ سن رکھا ہے کہ ملک معاشی طور پر بہت ترقی کر رہا ہے اور ''ہمارے معاشی سیانے'' سب اچھا کا نعرہ مستانہ بھی لگا لگا کر اپنے گلے بٹھا چکے ہیں۔ حال ہی میں ''آئی ایم ایف'' سے قرضہ لینے کے باوجود ہمارے معاشی سیانوں یا اقتصادی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ ہمیں ''آئی ایم ایف'' سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ملکی خزانہ لبالب بھرا ہوا ہے، ہمارے خزانے میں اتنی دولت جمع ہوگئی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں خرچ کریں؟ اس کے باوجود ''ہمارے ناشکرے عوام'' کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
وہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ پانی کا نام و نشان نہیں لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں لیکن پانی کے بل دروازہ ناک کرکے محکمہ آب بھجوا رہا ہے لوگوں کو۔ غربت، بے کاری اور بے روزگاری نے عوام الناس کی پہلے سے کمر توڑ رکھی ہے، ستم بالائے ستم بجلی کے اوور بلوں کے نئے بم نے ان کی معاشی بدحالی کے وجود کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔
عوام کی غالب اکثریت کا تنخواہ میں گزارا ممکن نہیں رہا، کنٹریکٹ یا روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کی بھاری تعداد کم تنخواہ پاتی ہے وہ اس میں یا توکرائے کا مکان لے سکتے ہیں یا کھانے پینے کی اشیا خرید سکتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے جو ''جی مار'' ہیں وہ ان بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے ایک پستول خریدتے ہیں اور پھر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں اور یوں عوام بیک وقت منافع خوروں اور ڈاکوؤں کی زد میں ہیں۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق کے الیکٹرک نے صارفین کو بجلی کے بل نئے فارمولے کے تحت ترسیل کرنے شروع کردیے ہیں اور 200 سے زائد ماہانہ یونٹ استعمال کرنے والے رہائشی صارفین کو 20 فیصد زائد رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے اور ماضی کے پانچ سلیب ختم کر کے اب صرف دو سلیب فارمولے پر بل بھیجا جا رہا ہے۔ یوں کراچی میں بجلی کے بلوں کے نئے فارمولے کے تحت ترسیل پر صارفین چیخ اٹھے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پہلے ایک سے 50 یونٹ تک دو روپے ایک سے 100یونٹ تک 5.79 روپے یونٹ اور 101 سے 200 یونٹ تک 8.11 روپے فی یونٹ چارج کیے جاتے تھے۔
اس ریٹ کو برقرار رکھا گیا ہے تاہم 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے اب 8.11 کے بجائے 10.20 روپے یونٹ، 301 سے 700 یونٹ تک 16 روپے اور 700 یونٹ سے اوپر 18 روپے فی یونٹ ٹیرف ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی صارف کا بل 995 یونٹ ہے تو پہلے 700 یونٹ 16 روپے اور بقیہ 295 یونٹ 18 روپے کے حساب سے ہوں گے۔ اس لیے فارمولے نے شہریوں کو شدید پریشان اور مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔
کے الیکٹرک نے صارفین کے نام بھیجے گئے سرکلر میں کہا ہے کہ ٹیرف میں اضافہ اور بل کیلکولیشن میتھ میں ترمیم کا نوٹیفکیشن حکومت پاکستان نے ایس آر او 2015/(1)677 میں کیا ہے اور اس کا اطلاق 14 جولائی 2015 سے ہے، کے الیکٹرک کو ٹیرف ریٹ یا اسٹرکچر کی تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن صارفین کے مطابق اس نئے فارمولے کی نیپرا سے اجازت نہیں لی گئی کیونکہ نیپرا قوانین کے تحت کسی قسم کی مالیاتی کمی بیشی کرنے سے پہلے صارفین کے اعتراضات جاننا ضروری ہیں جس کی کوئی کارروائی اس سلسلے میں نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے ''آئی ایم ایف'' کی ہدایت پر سبسڈی میں کمی کردی ہے اور اس کے عوض ٹیرف میں 30 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ 2013 میں کے الیکٹرک کو 70 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی جو 2014 میں 54 ارب اور 2015 میں 41 ارب روپے رہ گئی ہے صارفین کو شکایت ہے کہ جب سبسڈی کم کی جاتی ہے تو ٹیرف میں اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن جب سبسڈی میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ٹیرف میں کمی نہیں کی جاتی اس طرح کے الیکٹرک کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ صارفین سے بھی زائد رقم وصول کرے اور حکومت سے بھی فائدہ حاصل کرتی ہے۔ قابل توجہ ایک بات یہ بھی ہے کہ 2005 میں جب ''کے ای ایس سی'' کی نجکاری کی گئی تھی اس وقت کے ای ایس سی کو صرف پانچ ارب روپے بطور سبسڈی ملتے تھے جو نجکاری کے بعد بڑھتے بڑھتے 2013 میں 70 ارب ہوگئے۔ کیا ان آٹھ سالوں کے دوران بجلی کے نرخوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
کے الیکٹرک کراچی کے صارفین اوور بلنگ اور ظالمانہ لوڈ شیڈنگ سے سخت پریشان ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہائش پذیر لوگوں کو 8 ہزار، 10 ہزار اور 12 ہزار ماہوار کے بل بھیجے جا رہے ہیں۔ اورنگی ٹاؤن کراچی میں رحمت چوک کے علاقے کے لوگوں کے احتجاج پر تمام گھروں کی بجلی بند کردی گئی۔ واضح رہے رحمت چوک اورنگی ٹاؤن میں انتہائی غریب طبقہ آباد ہے جہاں گھروں میں 10 یا 12 ہزار روپے کی بجلی استعمال کرنے کا تصور ہی محال ہے۔
لیاری میں کہرام برپا ہے، وہ پہلے ہی گینگ وار کے ہاتھوں ظلم سہتے آرہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ کسی بھی علاقے میں اگر کوئی بجلی چوری کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ بجلی چوری ثابت کیے بغیر اوور بلنگ کی صورت میں بے قصور اور بے نوا لوگوں کو اذیت یا سزا دینا خلاف انسانیت و قانون ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت کا کہنا ہے کہ کراچی کے صارفین کو K-Eکے مظالم سے نجات دلانے کے لیے اسے سرکاری تحویل میں لیا جائے، تاہم اگر حکومت، وزارت بجلی و پانی اور نیپرا نے K-E کی زیادتیوں کا نوٹس نہیں لیا تو شہریوں میں اشتعال پیدا ہونا قدرتی امر ہوگا اور اس سے گرد و پیش متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے گا۔
ہمیں یاد پڑتا ہے ایک زمانے میں کسی درد مند نے پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی بنائی تھی جس کا نام ''غریب مٹاؤ پارٹی'' تھا۔ غریبی تو اس پارٹی سے نہ مٹ سکی وہ پارٹی البتہ مٹ گئی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر وہ دردمند پاکستانی غریبی مٹاؤ پارٹی بنانے کی بجائے ''امیری مٹاؤ پارٹی'' بنالیتا تو شاید اسے کامیابی حاصل ہوجاتی۔
اس لیے کہ اب اس ملک میں صرف ایک ہی پارٹی کی گنجائش باقی بچی ہے۔ اور وہ ہے ''امیری مٹاؤ پارٹی'' اس لیے کہ اگر ملک سے امیری مٹ گئی تو سمجھ لیں غریبی خود بخود مٹ جائے گی۔کون نہیں جانتا کہ ہمارے غریب ملک کے فیڈرل جوائنٹ سیکریٹری سطح کے لوگ چھ چھ گاڑیوں کا اصطبل رکھتے ہیں وسیع و عریض لگژری گھر انھیں مہیا ہوتے ہیں اس کے برعکس بھارت جیسے بڑے ملک کے بڑے محکمے کے جوائنٹ سیکریٹری چھوٹی سی ماروتی میں پھرتے ہیں اور دو کمرے کے سرکاری مکان میں رہتے ہیں۔
تاریخ کے سبق میں دلچسپی رکھنے اور اسے یاد رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہمارے سفارتکار کو ایک تاریخی بات کہی تھی ان کا کہنا تھا کہ ''ہمارے عوام غریب ہیں مگر ہمارا ملک امیر ہے۔ آپ کے ہاں صرف ایک طبقہ امیر اور ملک غریب ہے۔ اور دونوں میں سے صرف ایک امیر ہو سکتا ہے، چوائس آپ کی ہے۔''
وہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ پانی کا نام و نشان نہیں لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں لیکن پانی کے بل دروازہ ناک کرکے محکمہ آب بھجوا رہا ہے لوگوں کو۔ غربت، بے کاری اور بے روزگاری نے عوام الناس کی پہلے سے کمر توڑ رکھی ہے، ستم بالائے ستم بجلی کے اوور بلوں کے نئے بم نے ان کی معاشی بدحالی کے وجود کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔
عوام کی غالب اکثریت کا تنخواہ میں گزارا ممکن نہیں رہا، کنٹریکٹ یا روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کی بھاری تعداد کم تنخواہ پاتی ہے وہ اس میں یا توکرائے کا مکان لے سکتے ہیں یا کھانے پینے کی اشیا خرید سکتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے جو ''جی مار'' ہیں وہ ان بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے ایک پستول خریدتے ہیں اور پھر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں اور یوں عوام بیک وقت منافع خوروں اور ڈاکوؤں کی زد میں ہیں۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق کے الیکٹرک نے صارفین کو بجلی کے بل نئے فارمولے کے تحت ترسیل کرنے شروع کردیے ہیں اور 200 سے زائد ماہانہ یونٹ استعمال کرنے والے رہائشی صارفین کو 20 فیصد زائد رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے اور ماضی کے پانچ سلیب ختم کر کے اب صرف دو سلیب فارمولے پر بل بھیجا جا رہا ہے۔ یوں کراچی میں بجلی کے بلوں کے نئے فارمولے کے تحت ترسیل پر صارفین چیخ اٹھے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پہلے ایک سے 50 یونٹ تک دو روپے ایک سے 100یونٹ تک 5.79 روپے یونٹ اور 101 سے 200 یونٹ تک 8.11 روپے فی یونٹ چارج کیے جاتے تھے۔
اس ریٹ کو برقرار رکھا گیا ہے تاہم 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے اب 8.11 کے بجائے 10.20 روپے یونٹ، 301 سے 700 یونٹ تک 16 روپے اور 700 یونٹ سے اوپر 18 روپے فی یونٹ ٹیرف ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی صارف کا بل 995 یونٹ ہے تو پہلے 700 یونٹ 16 روپے اور بقیہ 295 یونٹ 18 روپے کے حساب سے ہوں گے۔ اس لیے فارمولے نے شہریوں کو شدید پریشان اور مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔
کے الیکٹرک نے صارفین کے نام بھیجے گئے سرکلر میں کہا ہے کہ ٹیرف میں اضافہ اور بل کیلکولیشن میتھ میں ترمیم کا نوٹیفکیشن حکومت پاکستان نے ایس آر او 2015/(1)677 میں کیا ہے اور اس کا اطلاق 14 جولائی 2015 سے ہے، کے الیکٹرک کو ٹیرف ریٹ یا اسٹرکچر کی تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن صارفین کے مطابق اس نئے فارمولے کی نیپرا سے اجازت نہیں لی گئی کیونکہ نیپرا قوانین کے تحت کسی قسم کی مالیاتی کمی بیشی کرنے سے پہلے صارفین کے اعتراضات جاننا ضروری ہیں جس کی کوئی کارروائی اس سلسلے میں نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے ''آئی ایم ایف'' کی ہدایت پر سبسڈی میں کمی کردی ہے اور اس کے عوض ٹیرف میں 30 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ 2013 میں کے الیکٹرک کو 70 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی جو 2014 میں 54 ارب اور 2015 میں 41 ارب روپے رہ گئی ہے صارفین کو شکایت ہے کہ جب سبسڈی کم کی جاتی ہے تو ٹیرف میں اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن جب سبسڈی میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ٹیرف میں کمی نہیں کی جاتی اس طرح کے الیکٹرک کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ صارفین سے بھی زائد رقم وصول کرے اور حکومت سے بھی فائدہ حاصل کرتی ہے۔ قابل توجہ ایک بات یہ بھی ہے کہ 2005 میں جب ''کے ای ایس سی'' کی نجکاری کی گئی تھی اس وقت کے ای ایس سی کو صرف پانچ ارب روپے بطور سبسڈی ملتے تھے جو نجکاری کے بعد بڑھتے بڑھتے 2013 میں 70 ارب ہوگئے۔ کیا ان آٹھ سالوں کے دوران بجلی کے نرخوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
کے الیکٹرک کراچی کے صارفین اوور بلنگ اور ظالمانہ لوڈ شیڈنگ سے سخت پریشان ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہائش پذیر لوگوں کو 8 ہزار، 10 ہزار اور 12 ہزار ماہوار کے بل بھیجے جا رہے ہیں۔ اورنگی ٹاؤن کراچی میں رحمت چوک کے علاقے کے لوگوں کے احتجاج پر تمام گھروں کی بجلی بند کردی گئی۔ واضح رہے رحمت چوک اورنگی ٹاؤن میں انتہائی غریب طبقہ آباد ہے جہاں گھروں میں 10 یا 12 ہزار روپے کی بجلی استعمال کرنے کا تصور ہی محال ہے۔
لیاری میں کہرام برپا ہے، وہ پہلے ہی گینگ وار کے ہاتھوں ظلم سہتے آرہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ کسی بھی علاقے میں اگر کوئی بجلی چوری کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ بجلی چوری ثابت کیے بغیر اوور بلنگ کی صورت میں بے قصور اور بے نوا لوگوں کو اذیت یا سزا دینا خلاف انسانیت و قانون ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت کا کہنا ہے کہ کراچی کے صارفین کو K-Eکے مظالم سے نجات دلانے کے لیے اسے سرکاری تحویل میں لیا جائے، تاہم اگر حکومت، وزارت بجلی و پانی اور نیپرا نے K-E کی زیادتیوں کا نوٹس نہیں لیا تو شہریوں میں اشتعال پیدا ہونا قدرتی امر ہوگا اور اس سے گرد و پیش متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے گا۔
ہمیں یاد پڑتا ہے ایک زمانے میں کسی درد مند نے پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی بنائی تھی جس کا نام ''غریب مٹاؤ پارٹی'' تھا۔ غریبی تو اس پارٹی سے نہ مٹ سکی وہ پارٹی البتہ مٹ گئی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر وہ دردمند پاکستانی غریبی مٹاؤ پارٹی بنانے کی بجائے ''امیری مٹاؤ پارٹی'' بنالیتا تو شاید اسے کامیابی حاصل ہوجاتی۔
اس لیے کہ اب اس ملک میں صرف ایک ہی پارٹی کی گنجائش باقی بچی ہے۔ اور وہ ہے ''امیری مٹاؤ پارٹی'' اس لیے کہ اگر ملک سے امیری مٹ گئی تو سمجھ لیں غریبی خود بخود مٹ جائے گی۔کون نہیں جانتا کہ ہمارے غریب ملک کے فیڈرل جوائنٹ سیکریٹری سطح کے لوگ چھ چھ گاڑیوں کا اصطبل رکھتے ہیں وسیع و عریض لگژری گھر انھیں مہیا ہوتے ہیں اس کے برعکس بھارت جیسے بڑے ملک کے بڑے محکمے کے جوائنٹ سیکریٹری چھوٹی سی ماروتی میں پھرتے ہیں اور دو کمرے کے سرکاری مکان میں رہتے ہیں۔
تاریخ کے سبق میں دلچسپی رکھنے اور اسے یاد رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہمارے سفارتکار کو ایک تاریخی بات کہی تھی ان کا کہنا تھا کہ ''ہمارے عوام غریب ہیں مگر ہمارا ملک امیر ہے۔ آپ کے ہاں صرف ایک طبقہ امیر اور ملک غریب ہے۔ اور دونوں میں سے صرف ایک امیر ہو سکتا ہے، چوائس آپ کی ہے۔''