غم ِ اکتوبرپہلا حصہ
اکتوبر کا مہینہ جاتے جاتے بہت سے غم دے گیا، لگاتار خودکش دھماکوں نے بہت سے لوگوں کی جان لے لی
اکتوبر کا مہینہ جاتے جاتے بہت سے غم دے گیا، لگاتار خودکش دھماکوں نے بہت سے لوگوں کی جان لے لی، حالانکہ آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردی اور دہشتگردوں کا خاتمہ کردیا ہے اور جہاں سروں کی فصل اگائی جاتی تھی اور معصومین کا خون بہایا جاتا تھا اور لہو کی بارش برسا کرتی تھی لاشوں کا کاروبار عروج پر تھا۔
شناختی کارڈ دیکھ کر انسانوں کو قطار میں اس طرح لگایا جاتا تھا جس طرح لوگ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوٹیلٹی کے بل بھرتے ہیں لیکن یہاں بل بھرنے کی قطار نہیں لگتی تھی بلکہ راستوں کو لہو سے سرخ کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی لیکن آج ان ہی جگہوں پر ننھے بچوں کی مسکراہٹ ہے، کلکاریاں ہیں چھوٹے بڑے سب خوش ہیں، کاروبار زندگی رواں دواں ہے خوف کی چادر تار تار کردی گئی ہے، اسکول کھل گئے ہیں، طلبہ کے چہروں پر مسکان ہے اور لبوں پر ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' کی صدائیں اسکولوں کے در و دیوار میں گونج رہی ہیں پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد کا ترانہ درسگاہوں کی آزاد فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم کے ساتھ بلند ہورہاہے۔
اونچی آواز میں جوش و خروش سے پڑھا جارہاہے، اسکولوں و کالجوں کے چپے چپے سے عقیدت میں ڈوبی ہوئی سحر زدہ آوازیں تعلیمی عمارتوں کے اندر اور باہر گشت کررہی ہیں۔ ننھی بچیاں رنگ برنگ فراک اور طالبعلم یونیفارم پہنے، بستے لٹکائے کلاسوں کا رخ کررہے ہیں۔ چہروں پر عزم ہے آگے بڑھنے کا، جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کا، ہر چہرے پر مسکان ہے کہ اس نے علم کے دیے دوبارہ جلائے ہیں، اپنے حصے میں آنیوالی تاریکی کو الوداع کہا ہے۔
یہ سب کچھ ہمارے فوجی جرنیل، جنرل راحیل شریف کے مرہون منت ہے، فوجی جوانوں کی جانوں کا نذرانہ ہے، ہر سو شہادت کا نور اور بہشت کی مہک ہے، فوجیوں نے تن من کی بازی لگائی ہے، اﷲ کی راہ میں اپنی زندگی کو قربان کردیا ہے، اس لیے کہ اس رب کریم مالک دو جہاں کی رضا در کار تھی، ہمیشہ زندہ رہنے کی آرزو تھی، روز محشر اعلیٰ مقام پانے کی تمنا تھی۔ شہید کی موت کی خواہش تھی، یقینا شہادت کا مرتبہ بہت بلند ہے۔
آج پورے پاکستان میں امن ہے، سکون ہے، خوف و ہراس کا خاتمہ ہوچکا ہے، عزت بھی محفوظ ہے اور جان بھی، لیکن کیا کیا جائے دشمن ہمیشہ تاک میں رہتا ہے، اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لیے مزید خون بہاتا ہے محرم کا مہینہ عظیم شہادتوں اور حق کی فتح کا مہینہ ہے، مسلمان اپنے اپنے عقائد کو مد نظر رکھتے ہوئے محرم کے دنوں میں امام عالی مقام اور شہیدان کربلا کو اپنے اپنے انداز میں یاد کرتے ہیں لیکن افسوس 8 محرم الحرام کو امام بارگاہ بولان میں خودکش دھماکا کیا گیا۔
10 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد زخمی ہوئے، دوسرے روز 9 محرم کو جیکب آباد میں ماتمی جلوس میں دھماکا ہوا، دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس میں 22 افراد شہید اور چالیس زخمی ہوئے۔ اس قدر حفاظتی انتظام کے باوجود تخریب کاروں نے اپنا کام کر دکھایا۔ یقینا دھماکا کرنیوالا بھی زندہ سلامت نہ بچا ہوگا۔ یہ تو آتے ہی ہیں جان کی بازی لگانے۔دھماکے میں مرنے والوں کا افسوس کرتے ہیں، زخمیوں کا دکھ ہوتا ہے، ننھے معصوم بچوں کی شہادت پر آنکھیں آنسوؤں سے نم ہوجاتی ہیں اور ہمارے منہ سے دہشتگرد کے لیے بد دعائیں نکلتی ہیں۔
خودکش بمبار سے نفرت کا احساس شدت سے پروان چڑھتا ہے، ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ اچھا ہوا بدبخت اپنے انجام کو پہنچا۔ کسی کا سر اور کسی کے جسم کے دوسرے اعضا ملتے ہیں، جلے ہوئے مسخ شدہ، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بمبار کی عبرتناک موت پر خون کے آنسو روتے ہیں، دل تڑپتا ہے، روح سسکتی ہے، خالی بستر، چھوٹے چھوٹے کپڑوں کا ڈھیر، چھوٹی سی سائیکل، لکڑی کا بیٹ اور ربڑ کی گیند، کانچ کی گولیاں (کنچے)، لٹو، لٹو کی ڈور، بوسیدہ سیپاروں کے ورق اور ملگجا سا پھٹا پرانا بستہ، سلور کا ناشتے دان اور دوسری بہت سی چیزیں جنھیں دیکھ دیکھ کر دل و جان قربان کرنے والے تڑپتے ہیں۔
بین کرتے ہیں لیکن ہاتھ کچھ نہیں آتا ہے۔ یہ تڑپنے والے وہی والدین ہیں جنھوں نے بھوک اور افلاس سے بچنے کے لیے اپنے لخت گجر کو مدرسے میں پڑھنے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے بھیجا تھا ان کی نگاہ میں دو فائدے تھے ایک تو یہ کہ ان کا بچہ غربت و افلاس کی مارے سے بچے گا اور دوسرا یہ کہ قرآن پاک پڑھ کر ایک اچھا انسان بنے گا۔ موذن بن سکتا ہے، معلم کے فرائض انجام دے سکتا ہے اور ہوسکتا ہے مفتی بن جائے تو بیڑہ پار ہوجائے گا۔ لیکن بنا سوچے سمجھے بنا تحقیق کیے جو کام کیے جاتے ہیں ان کے کرنے سے بیڑہ پار نہیں ہوتا بلکہ ڈوب جاتا ہے۔خودکش بمبار بنانے میں جہاں دہشت گردوں کی تربیت کا کمال ہے وہاں والدین کی غفلت، حماقت اور اپنے فرائض سے چشم پوشی ان کے بچے کی جان لے لیتی ہے، وہ معصوم بچہ جس کی کوئی خطا نہیں، کوئی قصور نہیں، محض غلط ہاتھوں میں آکر موت کے سفر پر دیدہ دلیری سے روانہ ہوجاتا ہے۔
حوروں کی طلب، جنت کی نعمتیں، سفید شہد جیسا میٹھا دودھ، رس بھرے پھل، بے خود کرنیوالی مسکت ہوائیں اسے مست کردیتی ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ بھلا بچوں کو حوروں کی کیا ضرورت؟ اور جنت کا حصول لوگوں کی جان لینا اور اپنی جان دیناہے کیا؟ کاش کہ ہمارے علما، مولوی، استاد اپنے فرائض کو سمجھیں اور اپنی مساجد و مدارس میں قرآن پاک کو پڑھانے کے ساتھ تفسیر و تشریح اور ترجمہ پڑھانے پر توجہ دیں، جھوٹی جنت کی حقیقت سے آگاہ کریں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درس کی محافل سجائیں تو کوئی معصوم بچہ خودکش بمبار نہیں بن سکتا ہے۔
خودکش بمبار پیدا کرنے میں حکومت کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے کہ اس نے ملک میں غربت کا جال بن دیا ہے جس میں غربا و مساکین پھنس چکے ہیں، کوئی جائے پناہ نہیں، کہاں جائیں؟ کسانوں، دہقانوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی اگر اجرت، ماہانہ آمدنی زیادہ ہوگی تب کوئی بچہ اپنے شہر اور دیہات سے دور جا کر علم کے حصول اور بھوکے شکم کو بھرنے کے لیے سفر نہیں کرے گا۔ معاشی مجبوریاں اور افلاس اچھے اچھوں کو زندگی کے امتحان میں ناکام کردیتا ہے، اور مثبت سوچ کو منفی سوچ میں بدل دیتا ہے۔ (جاری ہے)
شناختی کارڈ دیکھ کر انسانوں کو قطار میں اس طرح لگایا جاتا تھا جس طرح لوگ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوٹیلٹی کے بل بھرتے ہیں لیکن یہاں بل بھرنے کی قطار نہیں لگتی تھی بلکہ راستوں کو لہو سے سرخ کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی لیکن آج ان ہی جگہوں پر ننھے بچوں کی مسکراہٹ ہے، کلکاریاں ہیں چھوٹے بڑے سب خوش ہیں، کاروبار زندگی رواں دواں ہے خوف کی چادر تار تار کردی گئی ہے، اسکول کھل گئے ہیں، طلبہ کے چہروں پر مسکان ہے اور لبوں پر ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' کی صدائیں اسکولوں کے در و دیوار میں گونج رہی ہیں پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد کا ترانہ درسگاہوں کی آزاد فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم کے ساتھ بلند ہورہاہے۔
اونچی آواز میں جوش و خروش سے پڑھا جارہاہے، اسکولوں و کالجوں کے چپے چپے سے عقیدت میں ڈوبی ہوئی سحر زدہ آوازیں تعلیمی عمارتوں کے اندر اور باہر گشت کررہی ہیں۔ ننھی بچیاں رنگ برنگ فراک اور طالبعلم یونیفارم پہنے، بستے لٹکائے کلاسوں کا رخ کررہے ہیں۔ چہروں پر عزم ہے آگے بڑھنے کا، جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کا، ہر چہرے پر مسکان ہے کہ اس نے علم کے دیے دوبارہ جلائے ہیں، اپنے حصے میں آنیوالی تاریکی کو الوداع کہا ہے۔
یہ سب کچھ ہمارے فوجی جرنیل، جنرل راحیل شریف کے مرہون منت ہے، فوجی جوانوں کی جانوں کا نذرانہ ہے، ہر سو شہادت کا نور اور بہشت کی مہک ہے، فوجیوں نے تن من کی بازی لگائی ہے، اﷲ کی راہ میں اپنی زندگی کو قربان کردیا ہے، اس لیے کہ اس رب کریم مالک دو جہاں کی رضا در کار تھی، ہمیشہ زندہ رہنے کی آرزو تھی، روز محشر اعلیٰ مقام پانے کی تمنا تھی۔ شہید کی موت کی خواہش تھی، یقینا شہادت کا مرتبہ بہت بلند ہے۔
آج پورے پاکستان میں امن ہے، سکون ہے، خوف و ہراس کا خاتمہ ہوچکا ہے، عزت بھی محفوظ ہے اور جان بھی، لیکن کیا کیا جائے دشمن ہمیشہ تاک میں رہتا ہے، اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لیے مزید خون بہاتا ہے محرم کا مہینہ عظیم شہادتوں اور حق کی فتح کا مہینہ ہے، مسلمان اپنے اپنے عقائد کو مد نظر رکھتے ہوئے محرم کے دنوں میں امام عالی مقام اور شہیدان کربلا کو اپنے اپنے انداز میں یاد کرتے ہیں لیکن افسوس 8 محرم الحرام کو امام بارگاہ بولان میں خودکش دھماکا کیا گیا۔
10 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد زخمی ہوئے، دوسرے روز 9 محرم کو جیکب آباد میں ماتمی جلوس میں دھماکا ہوا، دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس میں 22 افراد شہید اور چالیس زخمی ہوئے۔ اس قدر حفاظتی انتظام کے باوجود تخریب کاروں نے اپنا کام کر دکھایا۔ یقینا دھماکا کرنیوالا بھی زندہ سلامت نہ بچا ہوگا۔ یہ تو آتے ہی ہیں جان کی بازی لگانے۔دھماکے میں مرنے والوں کا افسوس کرتے ہیں، زخمیوں کا دکھ ہوتا ہے، ننھے معصوم بچوں کی شہادت پر آنکھیں آنسوؤں سے نم ہوجاتی ہیں اور ہمارے منہ سے دہشتگرد کے لیے بد دعائیں نکلتی ہیں۔
خودکش بمبار سے نفرت کا احساس شدت سے پروان چڑھتا ہے، ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ اچھا ہوا بدبخت اپنے انجام کو پہنچا۔ کسی کا سر اور کسی کے جسم کے دوسرے اعضا ملتے ہیں، جلے ہوئے مسخ شدہ، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بمبار کی عبرتناک موت پر خون کے آنسو روتے ہیں، دل تڑپتا ہے، روح سسکتی ہے، خالی بستر، چھوٹے چھوٹے کپڑوں کا ڈھیر، چھوٹی سی سائیکل، لکڑی کا بیٹ اور ربڑ کی گیند، کانچ کی گولیاں (کنچے)، لٹو، لٹو کی ڈور، بوسیدہ سیپاروں کے ورق اور ملگجا سا پھٹا پرانا بستہ، سلور کا ناشتے دان اور دوسری بہت سی چیزیں جنھیں دیکھ دیکھ کر دل و جان قربان کرنے والے تڑپتے ہیں۔
بین کرتے ہیں لیکن ہاتھ کچھ نہیں آتا ہے۔ یہ تڑپنے والے وہی والدین ہیں جنھوں نے بھوک اور افلاس سے بچنے کے لیے اپنے لخت گجر کو مدرسے میں پڑھنے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے بھیجا تھا ان کی نگاہ میں دو فائدے تھے ایک تو یہ کہ ان کا بچہ غربت و افلاس کی مارے سے بچے گا اور دوسرا یہ کہ قرآن پاک پڑھ کر ایک اچھا انسان بنے گا۔ موذن بن سکتا ہے، معلم کے فرائض انجام دے سکتا ہے اور ہوسکتا ہے مفتی بن جائے تو بیڑہ پار ہوجائے گا۔ لیکن بنا سوچے سمجھے بنا تحقیق کیے جو کام کیے جاتے ہیں ان کے کرنے سے بیڑہ پار نہیں ہوتا بلکہ ڈوب جاتا ہے۔خودکش بمبار بنانے میں جہاں دہشت گردوں کی تربیت کا کمال ہے وہاں والدین کی غفلت، حماقت اور اپنے فرائض سے چشم پوشی ان کے بچے کی جان لے لیتی ہے، وہ معصوم بچہ جس کی کوئی خطا نہیں، کوئی قصور نہیں، محض غلط ہاتھوں میں آکر موت کے سفر پر دیدہ دلیری سے روانہ ہوجاتا ہے۔
حوروں کی طلب، جنت کی نعمتیں، سفید شہد جیسا میٹھا دودھ، رس بھرے پھل، بے خود کرنیوالی مسکت ہوائیں اسے مست کردیتی ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ بھلا بچوں کو حوروں کی کیا ضرورت؟ اور جنت کا حصول لوگوں کی جان لینا اور اپنی جان دیناہے کیا؟ کاش کہ ہمارے علما، مولوی، استاد اپنے فرائض کو سمجھیں اور اپنی مساجد و مدارس میں قرآن پاک کو پڑھانے کے ساتھ تفسیر و تشریح اور ترجمہ پڑھانے پر توجہ دیں، جھوٹی جنت کی حقیقت سے آگاہ کریں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درس کی محافل سجائیں تو کوئی معصوم بچہ خودکش بمبار نہیں بن سکتا ہے۔
خودکش بمبار پیدا کرنے میں حکومت کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے کہ اس نے ملک میں غربت کا جال بن دیا ہے جس میں غربا و مساکین پھنس چکے ہیں، کوئی جائے پناہ نہیں، کہاں جائیں؟ کسانوں، دہقانوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی اگر اجرت، ماہانہ آمدنی زیادہ ہوگی تب کوئی بچہ اپنے شہر اور دیہات سے دور جا کر علم کے حصول اور بھوکے شکم کو بھرنے کے لیے سفر نہیں کرے گا۔ معاشی مجبوریاں اور افلاس اچھے اچھوں کو زندگی کے امتحان میں ناکام کردیتا ہے، اور مثبت سوچ کو منفی سوچ میں بدل دیتا ہے۔ (جاری ہے)