چودہ سالہ معصوم لڑکے احمد محمد کا ’’گھڑی بم‘‘
خوف کا شکار امریکی اب گھڑیوں اور بموں میں تمیز کرنے کی عقلی صلاحیت کھو بیٹھے …خصوصی رپورٹ
لاہور:
مایا انجیلو امریکا کی مشہور ادیبہ گزری ہیں۔ ان کا قول ہے: ''تعصب ایسا بوجھ ہے جو ماضی کو کنفیوز کرتا، مستقبل خطرے میں ڈالتا اور حال کو مصیبت بنادیتا ہے۔'' آج کا امریکی معاشرہ اپنے اسلاموفوبیا کی وجہ سے کچھ ایسی ہی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔
اس امر کا مظاہرہ پچھلے دنوں عجب طور پر دیکھنے کو ملا۔چودہ سالہ احمد محمد امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر، ارونگ کا باسی ہے۔ اس کے والد محمد الحسان محمد تیس برس قبل سوڈان سے امریکا آئے تھے۔انھوں نے ہوٹلوں میں برتن دھوئے، ٹیکسی چلائی اور پھر رقم جمع کر کے ٹیکسیوں کا اپنا کاروبار کرنے لگے۔ اب ان کے خاندان کا شمار ارونگ کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتا ہے۔ محمدالحسان سوڈان کے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لے چکے۔ احمد امریکا میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔
احمد بچپن سے مشینوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ گھنٹوں بیٹھا مشینی کھلونوں کے مکینزم کا مطالعہ کرتا اور پرزہ پرزہ الگ کرکے انہیں پھر جوڑتا۔ انجینئرنگ میں بے پناہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے وہ لڑکپن میں اس قابل ہوگیا کہ خراب الیکٹرونکس اشیاء کی چھوٹی موٹی خرابیاں خود دور کرسکے۔ حتیٰ کہ سکول میں کئی طلبہ اپنی گھڑیوں، کیلکولیٹر حتیٰ کہ موبائل فون اور کمپیوٹر تک کی مرمت تک اسی سے کراتے۔
دو ماہ پہلے تک وہ سام ہوسٹن مڈل سکول نامی درس گاہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہاں اساتذہ سے لے کر طلبہ تک سبھی اسے ایسے لڑکے کے طور پر جانتے تھے جسے نت نئی مشینیں بنانے کا خبط ہے۔ مگر وہ اس کی کاوشوں کو سراہتے۔ بعض طلبہ تو اس کی ایجادات خرید بھی لیتے۔ غرض اس سکول میں احمد محمد کی ایک شناخت تھی... وہ ''موجد لڑکے'' کی حیثیت سے مشہور تھا۔
کچھ عرصہ قبل احمد میک آرتھر ہائی سکول میں داخل ہوا۔ وہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا، استاد ہو یا ہم جماعت!وہ اس عینک لگائے دبلے پتلے سیاہ فام لڑکے کی طرف کم ہی توجہ دیتے۔ احمد نے سوچا کہ کوئی نئی چیز ایجاد کرکے نئے سکول میں بھی اساتدہ اور ہم جماعتوں کو متاثر کیا جائے۔احمد محمد کی ایجادات پہلی نظر میں پرزہ جات اور تاروں کا فضول ڈھیر دکھائی دیتی ہیں... مگر ہیں وہ کارآمد۔ مثال کے طور پر اس نے جب پہلی ریموٹ کنٹرول کار خریدی تو اسے آب روک (واٹرپروف) بنانے کے لیے خصوصی میٹریل تیار کیا۔ یوں وہ کار زیر آب بھی چلنے کے قابل ہوگئی۔اسی طرح ایک بار مختلف استعمال شدہ پرزے جوڑ کر اس نے موبائل فون چارجر تخلیق کرلیا۔ احمد اس چارجر کو ساتھ رکھتا اور وقت ضرورت اپنے موبائل کو چارج کرلیتا۔ دوسری طرف اس کے دوست اپنے موبائل ''ڈیڈ'' ہونے کا رونا روتے رہتے۔
13 ستمبر بروز اتوار شام کو اس نے نئی ایجاد،ایک ڈیجیٹل گھڑی تخلیق کر لی۔یہ بھی تاروں اور پرزوں کا ملغوبہ تھی...مگر درست وقت ضرور بتاتی۔احمد نے گھڑی کو ایک چھوٹے سے بریف کیس میں فٹ کیا اور اگلی صبح سکول لے گیا۔ نویں جماعت کا یہ طالب علم انجینئرنگ کے اپنے استاد کو اپنی ایجاد دکھا کر تعریف و ستائش چاہتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ گھڑی اسے سنگین مسئلے میں گرفتار کرا دے گی۔
انجینئرنگ کے استاد نے احمد کی ایجاد دیکھی، اسے سراہا اور کہا کہ کسی اور کو یہ گھڑی نہ دکھانا۔ یہ سن کر احمد حیران ہوا پھر اپنی ایجاد بستے میں رکھ لی۔ جب وہ انگریزی کی کلاس لے رہا تھا، تو اچانک گھڑی کا الارم بج اٹھا۔ استانی چونک گئی اور اس نے اصرار کیا کہ احمد بستہ کھول کر اسے گھڑی دکھائے۔
احمد نے استانی کو اپنی ایجاد دکھائی، تو وہ خاصی خوفزدہ ہوگئی...اسے لگا کہ یہ ٹائم بم ہے۔ٹیچر نے اپنی میز پر جاکر کسی کو فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد عملہِ سکول آیا اور بستے سمیت احمد کو دفتر لے گیا۔ وہاں پرنسپل ڈینیل کمنگز موجود تھا۔ وہ بھی ڈیجیٹل گھڑی کو بہت غور سے دیکھنے لگا۔
اسی دوران آفس میں چار پولیس والے آپہنچے۔ انہیں دیکھ کر احمد کا ماتھا ٹھنکا اور اسے احساس ہوا کہ دال میں کافی کچھ کالا ہے۔ اب تک کے حالات نے اسے متوحش کر رکھا تھا۔ پولیس دیکھ کر اس کا دل ڈوبنے لگا۔احمد بتاتا ہے، جب ایک پولیس افسر نے مجھے دیکھا، تو فوراً بولا ''مجھے علم تھا کہ یہی ہوگا۔''
پولیس پھر اس سے پوچھ گچھ کرنے لگی کہ یہ بم کس نے بنایا، کہاں سے آیا؟ تب احمد کو معلوم ہوا کہ سبھی لوگ اس کی ایجاد کو ''ٹائم بم'' سمجھ رہے ہیں۔ احمد انہیں بار بار کہتا رہا کہ یہ ایک گھڑی ہے، مگر پرنسپل سے لے کر پولیس والوں تک، سبھی اسے ''خودکش بمبار'' سمجھ رہے تھے۔ چناںچہ پولیس نے اسے ہتھکڑی لگائی اور بیچارے لڑکے کو تھانے لے گئی۔ جلد ہی امریکی میڈیا یہ ''بریکنگ نیوز'' چلانے لگا :''ایک ''مسلمان'' لڑکا بم سمیت پکڑا گیا۔''
تھانے میں دوران تفتیش احمد یہی کہتا رہا کہ اس نے بم نہیں گھڑی بنائی ہے ۔جبکہ پولیس والوں کا اصرار تھا کہ وہ بم بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کی پوری سعی تھی کہ لڑکا ''اقبال جرم'' کرلے۔ اسی دوران انجینئرنگ کا استاد تھانے آپہنچا۔ اس نے گواہی دی کہ احمد نے بم نہیں ڈیجیٹل کلاک بنایا ہے تاکہ مجھے دکھا کر متاثر کرسکے۔ آخر پولیس والوں کو احساس ہوگیا کہ لڑکا سچ بول رہا ہے۔ پھر بھی وہ ''جعلی بم'' بنانے کا الزام احمدپر تھوپنا چاہتی تھی۔
ریاست ٹیکساس میں جعلی ہتھیار بنا کر اس سے لوگوں کو ڈرانا بھی جرم ہے۔ اُدھر سکول والوں نے احمد کو تین دن کے لیے آنے سے روک دیا۔خدا خدا کرکے احمد کے پریشان والدین تھانے پہنچے اور بیٹے کو گھر لے آئے۔ لڑکا خوفزدہ تھا اور گھبرایا ہوا بھی!اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بے ضرر سی گھڑی بنانے پر اسے ہتھکڑی لگ جائے گی اور ہم جماعتوں کے سامنے اسے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ احمد کی خود اعتمادی اور عزت نفس بری طرح گھائل تھی۔ حتیٰ کہ وہ خود کو مجرم سمجھنے لگا ۔لیکن کبھی کبھی شر کے بطن ہی سے خیر کی کلیاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔
احمد خوش قسمت ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں جی رہا ہے۔ اگر وہ فیس بک، ٹویٹر، وٹس اپ، وائبر وغیرہ کے دور سے پہلے جنم لیتا تو ممکن تھا ، ارونگ کا مقامی اخبار احمدکے کیس کی خبر چھاپ دیتا۔ شاید انسانی حقوق کا کوئی وکیل اس کا مقدمہ بھی لڑلیتا اور پھرمعاملہ بھلا دیا جاتا۔ مگر سوشل میڈیا کے موجودہ زمانے میں اچھا کام ہو یا برا، وہ نمایاں ہوکر رہتا ہے۔ہوا یہ کہ اوی سیلک نامی رپورٹر ریاست ٹیکساس کے سب سے بڑے اخبار، ڈیلاس مارننگ نیوز میں کام کرتا تھا۔
وہ احمد سے جاکر ملا اور سارے حقائق معلوم کیے۔ اس نے پھر کیس سے متعلق ایک مضمون لکھا جو اخبار میں 15 ستمبر کی شام شائع ہوا۔اس جاندار اور چشم کشا مضمون کو آن لائن پڑھنے والے مردو زن شیئر کرنے لگے۔ یوں احمد محمد کے ساتھ جو ناگوار واقعہ پیش آیا تھا، وہ جنگل کی آگ کے مانند سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگا۔ 15 ستمبر کی شام ہی احمد کی حمایت کے واسطے ٹیکساس میں مقیم ایک 23 سالہ فلسطینی لڑکی، آمنہ جعفری نے ٹویٹر پر پیش ٹیگ ''IStandWithAhmed'' شروع کردیا۔
جلد ہی سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ احمد محمد کے کیس پر رائے دینے لگے۔ دراصل کئی حساس اور اہم پہلوؤں کے باعث یہ کیس بہت اچھوتا اورمنفرد بن گیا۔ اسی انفرادیت نے ایک غیر معروف امریکی علاقے کے عام سے مسلمان بچے کو پوری دنیا میں مشہور کردیا۔اس معاملے نے سب سے پہلے یہ بات اجاگر کی کہ تجربے کار اور جہاں دیدہ ٹیچر، پرنسپل حتیٰ کہ پولیس والے بھی ایک گھڑی اور بم میں تمیز نہیں کرپائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے احمد کے والدین کو بلانے کی زحمت نہ کی اور بچے سے تنہائی میں تفتیش کرنے لگے جو قانونی و اخلاقی لحاظ سے غلط اقدام تھا۔
سوال یہ ہے کہ امریکی ٹیچر و سپاہی گھڑی اور بم میں فرق کیوں نہیں کرسکے؟ وجہ یہی کہ بیشتر امریکیوں کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ واقعہ نائن الیون کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنا زبردست پروپیگنڈا کیا کہ اب کئی امریکی نادانستہ طور پر بھی ہر مسلمان کو جھگڑالو، لڑاکا اور ''ٹربل میکر'' سمجھنے لگے ہیں۔بیچارا احمد تو سیاہ فام بھی ہے۔ امریکی سیاہ فاموں کو بھی جرائم پیشہ سمجھتے ہیں۔
میک آرتھر سکول کی انتظامیہ اور ارونگ پولیس کا یہی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل گھڑی ایک عیسائی اور سفید فام بچے کے پاس سے نکلتی، تو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے امریکی اسلامو فوبیا (اسلام سے خوف) کا شکار ہیں۔اب ارونگ شہر ہی کو لیجیے۔ اس کی میئر،بیتھ وان ڈیونی کھلے عام اسلام اور مسلمانوں کی مخالف ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکی مسلمان امریکا میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی واسطے وہ مغربی (عیسائی) تہذیب و ثقافت اور اقتدار کی حفاظت کیلئے ایک جنگجو کا روپ دھار چکی ہے۔
ماہ مارچ میں اسے پتا چلا کہ ارونگ کی ایک مسلم تنظیم گھریلو و نجی جھگڑے حل کرنے میں مسلمانوں کی مدد کررہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، عیسائیوں اور یہود میں بھی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو فریقین کے مابین ثالثی کراتی ہیں۔ مگر بیتھ وان نے شور مچا دیا کہ مسلمان امریکی عدالتوں کو ''بائی پاس'' کرتے ہوئے اپنے جھگڑے خود حل کررہے ہیں۔اس نے پھر بلدیہ ارونگ کا اجلاس بلا لیا۔بیتھ وان کی لابنگ کے باعث بلدیہ کے بیشتر ارکان نے شریعت کے خلاف پیش کردہ قرارداد منظور کرلی۔ مسلمانانِ ارونگ نے اس اقدام کوغیر اہم اور اسلاموفوبیا کانتیجہ قرار دیا۔
احمد محمد کے ساتھ پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے بھی بیتھ وان کی اسلام دشمنی آشکارا کردی۔ موصوفہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں ''جعلی بم'' برآمد کرنے پر سکول انتظامیہ اور پولیس کو خراج تحسین پیش کیا۔ پوسٹ میں احمد کی بے گناہی کا کہیں ذکر نہیں تھا اور نہ ہی ذہنی و جسمانی اذیت ملنے پر لڑکے سے معذرت کی گئی۔
سوشل میڈیا پر ہزارہا مردو زن نے بیتھ وان کی پوسٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تب اس نے پوسٹ میں ترمیم کرتے ہوئے لکھا ''اگر ایسا واقعہ میرے بچے کے ساتھ پیش آتا تو یقیناً میں بہت پریشان ہوجاتی۔'' تنگ دل اور معتصب میئر ارونگ بہت دیر بعد اس درست نتیجے پر پہنچی۔
احمد محمد کی انجینئرنگ سے دلچسپی نے بھی اس واقعے کو بین الاقوامی شہرت بخش دی۔ گزشتہ ایک عشرے سے امریکی ماہرین اس امر پر اظہار تشویش کررہے ہیں کہ اب امریکا میں طلبہ و طالبات کی اکثریت ریاضی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ اس رجحان سے امریکا کی ہائی ٹیک کمپنیاں بہت پریشان ہیں کیونکہ مستقبل میں انہیں ہنرمندوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
اسی لیے گوگل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ہائی ٹیک کمپنیاں امریکی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے طلبہ و طالبات ریاضی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ ہوسکیں۔یہ مہم جاری تھی کہ احمد محمد کا واقعہ رونما ہوگیا۔ کئی امریکی دانش وروں نے اپنی تحریروں میں لکھا کہ جب اساتذہ سائنس سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں جیل بھجوانے لگیں گے، تو نیا خون کہاں سے آئے گا؟ غرض گھڑی کو بم قرار دینے کی احمقانہ حرکت پر میک آرتھر سکول کے پرنسپل اور استانی کو سخت باتیں سننا پڑیں۔
تھانے سے واپسی پر احمد محمد قدرتاً افسردہ اور رنجیدہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے آپ پر اعتماد کھو بیٹھا۔ مگر جب سوشل میڈیا میں اس کے حمایتی زبردست انداز میں سرگرم ہوئے، تو بیچارے لڑکے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ اس نے پھر ٹویٹس کے ذریعے حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔خاص بات یہ کہ اس نے معاملے کو مذہبی رنگ نہیں دیا اور کہا ''مجھے یقین ہے، میری جگہ اور کوئی بے گناہ لڑکا ہوتا، تو سوشل میڈیا تب بھی اسی زور و شور سے اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور ہمت بندھاتا۔ حمایتیوں کی وجہ سے انسانیت پر میرا اعتماد بحال ہوگیا۔''
واضح رہے، سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات کے ذریعے احمد کی حمایت کرنے والوں میں امریکی صدر اوباما، مسقبل کی صدر،ہیلری کلنٹن، مارک زکربرگ (سربراہ فیس بک)، گوگل، ٹویٹر، بوبی جندل (سیاست داں) وغیرہ شامل ہیں۔ امریکی صدر احمد کو ملاقات کی دعوت بھی دے چکے۔
اس واقعے سے عیاں ہے،امریکا میں معتصب لوگ بستے ہیں،مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اعلی انسانی اقدار پہ یقین رکھتے اور مصیبت زدہ کی مدد کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔امید ہے،احمد محمد والے المناک واقعے کے مثبت انجام سے امریکا میں اسلاموفوبیا کا زہر ختم ہونے میں مدد ملے گی۔
مایا انجیلو امریکا کی مشہور ادیبہ گزری ہیں۔ ان کا قول ہے: ''تعصب ایسا بوجھ ہے جو ماضی کو کنفیوز کرتا، مستقبل خطرے میں ڈالتا اور حال کو مصیبت بنادیتا ہے۔'' آج کا امریکی معاشرہ اپنے اسلاموفوبیا کی وجہ سے کچھ ایسی ہی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہے۔
اس امر کا مظاہرہ پچھلے دنوں عجب طور پر دیکھنے کو ملا۔چودہ سالہ احمد محمد امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر، ارونگ کا باسی ہے۔ اس کے والد محمد الحسان محمد تیس برس قبل سوڈان سے امریکا آئے تھے۔انھوں نے ہوٹلوں میں برتن دھوئے، ٹیکسی چلائی اور پھر رقم جمع کر کے ٹیکسیوں کا اپنا کاروبار کرنے لگے۔ اب ان کے خاندان کا شمار ارونگ کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتا ہے۔ محمدالحسان سوڈان کے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لے چکے۔ احمد امریکا میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔
احمد بچپن سے مشینوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ گھنٹوں بیٹھا مشینی کھلونوں کے مکینزم کا مطالعہ کرتا اور پرزہ پرزہ الگ کرکے انہیں پھر جوڑتا۔ انجینئرنگ میں بے پناہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے وہ لڑکپن میں اس قابل ہوگیا کہ خراب الیکٹرونکس اشیاء کی چھوٹی موٹی خرابیاں خود دور کرسکے۔ حتیٰ کہ سکول میں کئی طلبہ اپنی گھڑیوں، کیلکولیٹر حتیٰ کہ موبائل فون اور کمپیوٹر تک کی مرمت تک اسی سے کراتے۔
دو ماہ پہلے تک وہ سام ہوسٹن مڈل سکول نامی درس گاہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہاں اساتذہ سے لے کر طلبہ تک سبھی اسے ایسے لڑکے کے طور پر جانتے تھے جسے نت نئی مشینیں بنانے کا خبط ہے۔ مگر وہ اس کی کاوشوں کو سراہتے۔ بعض طلبہ تو اس کی ایجادات خرید بھی لیتے۔ غرض اس سکول میں احمد محمد کی ایک شناخت تھی... وہ ''موجد لڑکے'' کی حیثیت سے مشہور تھا۔
کچھ عرصہ قبل احمد میک آرتھر ہائی سکول میں داخل ہوا۔ وہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا، استاد ہو یا ہم جماعت!وہ اس عینک لگائے دبلے پتلے سیاہ فام لڑکے کی طرف کم ہی توجہ دیتے۔ احمد نے سوچا کہ کوئی نئی چیز ایجاد کرکے نئے سکول میں بھی اساتدہ اور ہم جماعتوں کو متاثر کیا جائے۔احمد محمد کی ایجادات پہلی نظر میں پرزہ جات اور تاروں کا فضول ڈھیر دکھائی دیتی ہیں... مگر ہیں وہ کارآمد۔ مثال کے طور پر اس نے جب پہلی ریموٹ کنٹرول کار خریدی تو اسے آب روک (واٹرپروف) بنانے کے لیے خصوصی میٹریل تیار کیا۔ یوں وہ کار زیر آب بھی چلنے کے قابل ہوگئی۔اسی طرح ایک بار مختلف استعمال شدہ پرزے جوڑ کر اس نے موبائل فون چارجر تخلیق کرلیا۔ احمد اس چارجر کو ساتھ رکھتا اور وقت ضرورت اپنے موبائل کو چارج کرلیتا۔ دوسری طرف اس کے دوست اپنے موبائل ''ڈیڈ'' ہونے کا رونا روتے رہتے۔
13 ستمبر بروز اتوار شام کو اس نے نئی ایجاد،ایک ڈیجیٹل گھڑی تخلیق کر لی۔یہ بھی تاروں اور پرزوں کا ملغوبہ تھی...مگر درست وقت ضرور بتاتی۔احمد نے گھڑی کو ایک چھوٹے سے بریف کیس میں فٹ کیا اور اگلی صبح سکول لے گیا۔ نویں جماعت کا یہ طالب علم انجینئرنگ کے اپنے استاد کو اپنی ایجاد دکھا کر تعریف و ستائش چاہتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ گھڑی اسے سنگین مسئلے میں گرفتار کرا دے گی۔
انجینئرنگ کے استاد نے احمد کی ایجاد دیکھی، اسے سراہا اور کہا کہ کسی اور کو یہ گھڑی نہ دکھانا۔ یہ سن کر احمد حیران ہوا پھر اپنی ایجاد بستے میں رکھ لی۔ جب وہ انگریزی کی کلاس لے رہا تھا، تو اچانک گھڑی کا الارم بج اٹھا۔ استانی چونک گئی اور اس نے اصرار کیا کہ احمد بستہ کھول کر اسے گھڑی دکھائے۔
احمد نے استانی کو اپنی ایجاد دکھائی، تو وہ خاصی خوفزدہ ہوگئی...اسے لگا کہ یہ ٹائم بم ہے۔ٹیچر نے اپنی میز پر جاکر کسی کو فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد عملہِ سکول آیا اور بستے سمیت احمد کو دفتر لے گیا۔ وہاں پرنسپل ڈینیل کمنگز موجود تھا۔ وہ بھی ڈیجیٹل گھڑی کو بہت غور سے دیکھنے لگا۔
اسی دوران آفس میں چار پولیس والے آپہنچے۔ انہیں دیکھ کر احمد کا ماتھا ٹھنکا اور اسے احساس ہوا کہ دال میں کافی کچھ کالا ہے۔ اب تک کے حالات نے اسے متوحش کر رکھا تھا۔ پولیس دیکھ کر اس کا دل ڈوبنے لگا۔احمد بتاتا ہے، جب ایک پولیس افسر نے مجھے دیکھا، تو فوراً بولا ''مجھے علم تھا کہ یہی ہوگا۔''
پولیس پھر اس سے پوچھ گچھ کرنے لگی کہ یہ بم کس نے بنایا، کہاں سے آیا؟ تب احمد کو معلوم ہوا کہ سبھی لوگ اس کی ایجاد کو ''ٹائم بم'' سمجھ رہے ہیں۔ احمد انہیں بار بار کہتا رہا کہ یہ ایک گھڑی ہے، مگر پرنسپل سے لے کر پولیس والوں تک، سبھی اسے ''خودکش بمبار'' سمجھ رہے تھے۔ چناںچہ پولیس نے اسے ہتھکڑی لگائی اور بیچارے لڑکے کو تھانے لے گئی۔ جلد ہی امریکی میڈیا یہ ''بریکنگ نیوز'' چلانے لگا :''ایک ''مسلمان'' لڑکا بم سمیت پکڑا گیا۔''
تھانے میں دوران تفتیش احمد یہی کہتا رہا کہ اس نے بم نہیں گھڑی بنائی ہے ۔جبکہ پولیس والوں کا اصرار تھا کہ وہ بم بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کی پوری سعی تھی کہ لڑکا ''اقبال جرم'' کرلے۔ اسی دوران انجینئرنگ کا استاد تھانے آپہنچا۔ اس نے گواہی دی کہ احمد نے بم نہیں ڈیجیٹل کلاک بنایا ہے تاکہ مجھے دکھا کر متاثر کرسکے۔ آخر پولیس والوں کو احساس ہوگیا کہ لڑکا سچ بول رہا ہے۔ پھر بھی وہ ''جعلی بم'' بنانے کا الزام احمدپر تھوپنا چاہتی تھی۔
ریاست ٹیکساس میں جعلی ہتھیار بنا کر اس سے لوگوں کو ڈرانا بھی جرم ہے۔ اُدھر سکول والوں نے احمد کو تین دن کے لیے آنے سے روک دیا۔خدا خدا کرکے احمد کے پریشان والدین تھانے پہنچے اور بیٹے کو گھر لے آئے۔ لڑکا خوفزدہ تھا اور گھبرایا ہوا بھی!اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بے ضرر سی گھڑی بنانے پر اسے ہتھکڑی لگ جائے گی اور ہم جماعتوں کے سامنے اسے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ احمد کی خود اعتمادی اور عزت نفس بری طرح گھائل تھی۔ حتیٰ کہ وہ خود کو مجرم سمجھنے لگا ۔لیکن کبھی کبھی شر کے بطن ہی سے خیر کی کلیاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔
احمد خوش قسمت ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں جی رہا ہے۔ اگر وہ فیس بک، ٹویٹر، وٹس اپ، وائبر وغیرہ کے دور سے پہلے جنم لیتا تو ممکن تھا ، ارونگ کا مقامی اخبار احمدکے کیس کی خبر چھاپ دیتا۔ شاید انسانی حقوق کا کوئی وکیل اس کا مقدمہ بھی لڑلیتا اور پھرمعاملہ بھلا دیا جاتا۔ مگر سوشل میڈیا کے موجودہ زمانے میں اچھا کام ہو یا برا، وہ نمایاں ہوکر رہتا ہے۔ہوا یہ کہ اوی سیلک نامی رپورٹر ریاست ٹیکساس کے سب سے بڑے اخبار، ڈیلاس مارننگ نیوز میں کام کرتا تھا۔
وہ احمد سے جاکر ملا اور سارے حقائق معلوم کیے۔ اس نے پھر کیس سے متعلق ایک مضمون لکھا جو اخبار میں 15 ستمبر کی شام شائع ہوا۔اس جاندار اور چشم کشا مضمون کو آن لائن پڑھنے والے مردو زن شیئر کرنے لگے۔ یوں احمد محمد کے ساتھ جو ناگوار واقعہ پیش آیا تھا، وہ جنگل کی آگ کے مانند سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگا۔ 15 ستمبر کی شام ہی احمد کی حمایت کے واسطے ٹیکساس میں مقیم ایک 23 سالہ فلسطینی لڑکی، آمنہ جعفری نے ٹویٹر پر پیش ٹیگ ''IStandWithAhmed'' شروع کردیا۔
جلد ہی سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ احمد محمد کے کیس پر رائے دینے لگے۔ دراصل کئی حساس اور اہم پہلوؤں کے باعث یہ کیس بہت اچھوتا اورمنفرد بن گیا۔ اسی انفرادیت نے ایک غیر معروف امریکی علاقے کے عام سے مسلمان بچے کو پوری دنیا میں مشہور کردیا۔اس معاملے نے سب سے پہلے یہ بات اجاگر کی کہ تجربے کار اور جہاں دیدہ ٹیچر، پرنسپل حتیٰ کہ پولیس والے بھی ایک گھڑی اور بم میں تمیز نہیں کرپائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے احمد کے والدین کو بلانے کی زحمت نہ کی اور بچے سے تنہائی میں تفتیش کرنے لگے جو قانونی و اخلاقی لحاظ سے غلط اقدام تھا۔
سوال یہ ہے کہ امریکی ٹیچر و سپاہی گھڑی اور بم میں فرق کیوں نہیں کرسکے؟ وجہ یہی کہ بیشتر امریکیوں کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ واقعہ نائن الیون کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنا زبردست پروپیگنڈا کیا کہ اب کئی امریکی نادانستہ طور پر بھی ہر مسلمان کو جھگڑالو، لڑاکا اور ''ٹربل میکر'' سمجھنے لگے ہیں۔بیچارا احمد تو سیاہ فام بھی ہے۔ امریکی سیاہ فاموں کو بھی جرائم پیشہ سمجھتے ہیں۔
میک آرتھر سکول کی انتظامیہ اور ارونگ پولیس کا یہی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل گھڑی ایک عیسائی اور سفید فام بچے کے پاس سے نکلتی، تو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے امریکی اسلامو فوبیا (اسلام سے خوف) کا شکار ہیں۔اب ارونگ شہر ہی کو لیجیے۔ اس کی میئر،بیتھ وان ڈیونی کھلے عام اسلام اور مسلمانوں کی مخالف ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکی مسلمان امریکا میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی واسطے وہ مغربی (عیسائی) تہذیب و ثقافت اور اقتدار کی حفاظت کیلئے ایک جنگجو کا روپ دھار چکی ہے۔
ماہ مارچ میں اسے پتا چلا کہ ارونگ کی ایک مسلم تنظیم گھریلو و نجی جھگڑے حل کرنے میں مسلمانوں کی مدد کررہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، عیسائیوں اور یہود میں بھی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو فریقین کے مابین ثالثی کراتی ہیں۔ مگر بیتھ وان نے شور مچا دیا کہ مسلمان امریکی عدالتوں کو ''بائی پاس'' کرتے ہوئے اپنے جھگڑے خود حل کررہے ہیں۔اس نے پھر بلدیہ ارونگ کا اجلاس بلا لیا۔بیتھ وان کی لابنگ کے باعث بلدیہ کے بیشتر ارکان نے شریعت کے خلاف پیش کردہ قرارداد منظور کرلی۔ مسلمانانِ ارونگ نے اس اقدام کوغیر اہم اور اسلاموفوبیا کانتیجہ قرار دیا۔
احمد محمد کے ساتھ پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے بھی بیتھ وان کی اسلام دشمنی آشکارا کردی۔ موصوفہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں ''جعلی بم'' برآمد کرنے پر سکول انتظامیہ اور پولیس کو خراج تحسین پیش کیا۔ پوسٹ میں احمد کی بے گناہی کا کہیں ذکر نہیں تھا اور نہ ہی ذہنی و جسمانی اذیت ملنے پر لڑکے سے معذرت کی گئی۔
سوشل میڈیا پر ہزارہا مردو زن نے بیتھ وان کی پوسٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تب اس نے پوسٹ میں ترمیم کرتے ہوئے لکھا ''اگر ایسا واقعہ میرے بچے کے ساتھ پیش آتا تو یقیناً میں بہت پریشان ہوجاتی۔'' تنگ دل اور معتصب میئر ارونگ بہت دیر بعد اس درست نتیجے پر پہنچی۔
احمد محمد کی انجینئرنگ سے دلچسپی نے بھی اس واقعے کو بین الاقوامی شہرت بخش دی۔ گزشتہ ایک عشرے سے امریکی ماہرین اس امر پر اظہار تشویش کررہے ہیں کہ اب امریکا میں طلبہ و طالبات کی اکثریت ریاضی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ اس رجحان سے امریکا کی ہائی ٹیک کمپنیاں بہت پریشان ہیں کیونکہ مستقبل میں انہیں ہنرمندوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
اسی لیے گوگل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ہائی ٹیک کمپنیاں امریکی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے طلبہ و طالبات ریاضی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ ہوسکیں۔یہ مہم جاری تھی کہ احمد محمد کا واقعہ رونما ہوگیا۔ کئی امریکی دانش وروں نے اپنی تحریروں میں لکھا کہ جب اساتذہ سائنس سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں جیل بھجوانے لگیں گے، تو نیا خون کہاں سے آئے گا؟ غرض گھڑی کو بم قرار دینے کی احمقانہ حرکت پر میک آرتھر سکول کے پرنسپل اور استانی کو سخت باتیں سننا پڑیں۔
تھانے سے واپسی پر احمد محمد قدرتاً افسردہ اور رنجیدہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے آپ پر اعتماد کھو بیٹھا۔ مگر جب سوشل میڈیا میں اس کے حمایتی زبردست انداز میں سرگرم ہوئے، تو بیچارے لڑکے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ اس نے پھر ٹویٹس کے ذریعے حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔خاص بات یہ کہ اس نے معاملے کو مذہبی رنگ نہیں دیا اور کہا ''مجھے یقین ہے، میری جگہ اور کوئی بے گناہ لڑکا ہوتا، تو سوشل میڈیا تب بھی اسی زور و شور سے اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور ہمت بندھاتا۔ حمایتیوں کی وجہ سے انسانیت پر میرا اعتماد بحال ہوگیا۔''
واضح رہے، سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات کے ذریعے احمد کی حمایت کرنے والوں میں امریکی صدر اوباما، مسقبل کی صدر،ہیلری کلنٹن، مارک زکربرگ (سربراہ فیس بک)، گوگل، ٹویٹر، بوبی جندل (سیاست داں) وغیرہ شامل ہیں۔ امریکی صدر احمد کو ملاقات کی دعوت بھی دے چکے۔
اس واقعے سے عیاں ہے،امریکا میں معتصب لوگ بستے ہیں،مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اعلی انسانی اقدار پہ یقین رکھتے اور مصیبت زدہ کی مدد کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔امید ہے،احمد محمد والے المناک واقعے کے مثبت انجام سے امریکا میں اسلاموفوبیا کا زہر ختم ہونے میں مدد ملے گی۔