ہمارے مسائل اور فکرِ اقبال کے چھ موتی
اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں، اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی۔
علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر، پیش گوئی کرنے والے، دانشور، مصلح قوم اور احیائے اسلام کی تڑپ رکھنے والے ممتاز مفکر تھے۔ آپ کی شاعری میں فن کےعروج کے ساتھ ساتھ مقصدیت، سوز، درد، مسائل کا حل اور بیمار اقوام کے لیے امید کا سامان سبھی کچھ موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے پوری دنیا کے مظلوم اور محکوم اقوام کو جینے کی ایک امنگ دی ہے اور ان کے اشعار کی بدولت پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ اقبال کا پورا کلام پڑھنے اور سمجھنے اور عمل کے قابل ہے لیکن ایک حقیر طالب علم کی حیثیت سے میں نے ان کے 6 اشعار یا اشعار کے مجموعے منتخب کئے ہیں جو آج ہمارے قریباً تمام مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
1911 میں اقبال نے عاجزی اور دل کی گہرائیوں سے اللہ رب العزت کے حضور بعض گذارشات کی تھیں جنہیں شکایات بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ 'شکوہ' نامی اس نظم میں بعض ایسے سوالات تھے جو ہر حساس مسلمان کے دل و دماغ میں جنم لیتے ہیں لیکن اس نظم کے بعض اشعار کو گستاخانہ قرار دیا گیا، اس کے بعد 1913 میں انہوں نے 'جوابِ شکوہ' تحریر کی جو عین اسلام اور قرآن کی روشنی میں وہ احکامات و ہدایات ہیں جو اللہ رب العزت ہم سے چاہتا ہے اور یہ شعر بھی اسی معرکتہ الآرا نظم کا ہے جس کے بعد نہ صرف علا مہ اقبال کی مخالفت دم توڑ گئی بلکہ ان کی عزت و وقار میں گراں قدر اضافہ ہوا۔
آج ہمارے معاشرے میں نگاہ دوڑائیے کہ اسلام کے نام پر کیسی رسوم ایجاد ہوگئی ہیں۔ فرقہ بندی نے امت کا شیرازہ تار تار کردیا ہے۔ آج کا مذہبی طبقہ بھی قرآن کے بجائے اپنے مشاہیر کی کتابوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہے، ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ امت قرآن کی جانب لوٹے اور اس پر غوروفکر کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارے۔
اسی طرح اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
اقبالیات کے ممتاز ماہر جناب خرم علی شفیق کی ادارت میں شائع ہونے والی ایک کتاب 'اسرار و رموز' (جو دراصل اسرارِ خودی) کی شرح ہے، میں اقبال کی فکرِ قرآن کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں،
''قوم کی تنظیم صرف آئین کے ذریعے ہی ممکن ہے، مسلم قوم کا آئین قرآن ہے۔ پتیاں ایک آئین کے تحت جڑ کر گلاب بناتی ہیں۔ کئی گلاب اکٹھے ہو کر گلدستہ بناتے ہیں۔ آواز کو ضبط میں لائیں تو نغمہ بن جاتا ہے اور اگر وہ ضبط میں نہ ہوں تو محض شور وغل ہے۔ اسی طرح قرآن مسلم اُمت کا آئین ہے اور اس کی قوت کا راز بھی، قرآن ہمیشہ رہنے والا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں کہ ہر چیز اس میں کھول کر بیان کردی گئی ہے اور یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ خدا کا آخری پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ذریعے ظاہر کیا گیا، جنہیں تمام انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا، اسی طرح قرآن تمام زنجیروں کو توڑ دیتا ہے اور آزاد انسانوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے مگر ظالموں کو بے بس کردیتا ہے۔
تمہارا ایمان رسومات کا غلام بن گیا ہے۔ اپنی زندگی کا مقصد براہِ راست قرآن میں تلاش کرو۔ اپنے آپ کو اس دورِ زوال کے رہنماؤں کے تخیلات کے حوالے نہ کرو بلکہ اپنے اسلاف کی پیروی کرو۔ یہاں تک کہ تمہارے چمن میں بہار آجائے۔ یہودیوں کو دیکھو کہ صدیوں سے غلامی اور نااُمیدی کا شکار ہیں مگر پھر بھی وہ آج تک ایک قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں کیونکہ وہ اپنے اسلاف کی راہ پر ثابت قدم رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جب ان کی قومیت کے لباس کو تار تار کردیا گیا تو اس وقت بھی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی یاد ان کے سینوں میں زندہ رہی۔ امام جعفرصادق رضی اللہ عنہہ کا ذوق و شوق اور رازی کا سا مجاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ تمہارے باغ میں اب خزاں چھا گئی ہے لیکن بہار کو کہیں اور تلاش کرنے کی کوشش میں شجر سے اپنا تعلق مت توڑو۔ ایک ٹوٹی ہوئی شاخ بہار کے آنے سے دوبارہ ہری نہیں ہوسکتی اور اختلافات زندگی کی رگ کاٹ دیتے ہیں۔ قومی زندگی خدا کے دیے ہوئے آئین سے ہی تکمیل پاتی ہے۔ چنانچہ قرآن سے کوئی اور مطلب نکالنے کی کوشش مت کرو۔ ۔
موتی کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح چکمدار ہوتا ہے اور قرآن وہ موتی ہے جسے خود خدا نے بنایا ہے۔ اسلام کا راز اس کا آئین ہے جس میں ہر چیز کی ابتدا اور انتہا ہے اور عشق ہی اس کی بنیاد ہے۔ آئین تمہارے سامنے مشکلات کھڑی کرکے تمہاری قوت آزماتا ہے تاکہ تم اپنی روح میں چراغ روشن کرلو اور مشکلات کو ریزہ ریزہ کردو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم جو ہر جائز اور نا جائز اور صحیح اور غلط کاعلم رکھتے تھے تمہیں قوت کا یہی نسخہ بتایا ہے۔ اسے حاصل کرو اور اپنے گوشہ عزلت سے نکل آؤ۔ آئینِ خداوندی کا پاک چشمہ اب ہند، ایران اور دوسرے ملکوں کے بیمار نظریات سے آلودہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تمہارا دل اپنی ہی دھڑکن سے ڈر جاتا ہے۔ خدا کے طریقوں کی پاکیزگی کی طرف لوٹ جاؤ اور سچے مسلمان بن جاؤ''۔
یہاں ایک دلچسپ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ بیرونی موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ ایک جلسے میں 'جواب شکوہ' پہلی مرتبہ سنائی گئی تو حاضرین جھوم اُٹھے اور اس کے ایک ایک شعر کی بولی لگی اور ایک خطیر رقم جمع ہوئی جو بلقان کی جنگ کے لئے ترکی بھیجی گئی۔
کی محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے رہنمائی اور ہدایات کا عملی سرچشمہ ہے۔ اقبال نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر لاتعداد اشعار کہے جو آج بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دنیا میں جہاں کہیں خیر اور بھلائی کا نور ہے وہ اسوہ محمدی اپنانے کی وجہ سے ہے۔ اقبال ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم تھے اور ان کی شاعری اس کا ثبوت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم اسلامی معاشرے کی روح ہیں، اسی لئے اقبال امت سے کہتے ہیں کہ کچھ دیر اپنے دل کے غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرو، خودی کا چراغ جلاؤ اور ہَوس کے بت توڑ ڈالو کہ تم خدا کے نائب ہو اور یہی سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے
علامہ محمد اقبال کی فکر درجہ بہ درجہ آگے بڑھتی رہی اور اس کی وجہ ان کے یورپ اور امریکہ میں 3 سال تھے جہاں 1905 سے 1908 تک دورانِ تعلیم ان کی قلبی ماہیت تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد ان کی زندگی کے 30 برس انہوں نے نہایت بامقصد، پاکیزہ اور انقلابی شاعری کی، اس کی گواہی خود ان کے ایک شعر سے ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
اس سے قبل اقبال نے ترانہ ہندی کے عنوان سے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا' کی نظم کہی لیکن فکری نہج تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے وطن کو شناخت تو کہا لیکن وطن پرستی کو ایک خوفناک اور تباہ کن شے قرار دیا۔
اس کے لیے صرف گذشتہ 25 سال کے واقعات پر غور کیجئے، بوسنیا تاراج ہوا لیکن ہم اپنے وطن کی فکر کرتے رہے۔ افغانستان اورعراق تباہ ہوگئے لیکن تمام اسلامی ممالک لمبی تان کر سوتے رہے، اب شام، لیبیا اور عراق کے لاکھوں افراد دربدر ہیں لیکن ہمارے پاس ان مسائل پر غور کرنے کے لئے وقت نہیں۔ اسلامی ممالک نہ ہی متحد ہیں اور نہ ہی کوئی مشترکہ فکر و سوچ رکھتے ہیں بس سب اپنے اپنے وطن کے خول میں بند ہیں لیکن اس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی صٓورت میں یہ آگ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی لیکن اب بھی اسلامی ممالک کی مشترکہ حکمتِ عملی نظر نہیں آتی کیونکہ ہم نے اسلام کی ڈور کو کمزور کر دیا ہے۔ دوسری جانب یورپ کے درجن سے اوپر ممالک ہزاروں اختلافات کے باوجود مشترکہ ایجنڈے اور کرنسی پر متحد ہوچکے ہیں۔
اقبال قومیت اور وطنیت کے بجائے پوری انسانیت کے علمبردار تھے جس کا اظہار اس شعر سے بھی ہوتا ہے، ذرا غور فرمائیے۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم!
تفریقِ ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم!
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم!
اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تقدیر پرستی ہماری رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔ روزانہ ہم یہ الفاظ سنتے ہیں 'تقدیر میں یہی لکھا تھا' یا 'یہی نصیب میں تھا' وغیرہ۔ علامہ اقبال تقدیر پرستی کے سخت مخالف نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور ایک عام آدمی بھی اپنے معاشرے کی تقدیر سنوار سکتا ہے کیونکہ اقوام کی تقدیر عام افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس لئے علامہ محمد اقبال عمل پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمل ہر کامیابی کی کنجی ہے اور یہ شعر بہت حد تک نصیب اور تقدیر پرستی کو رد کرتا ہے ملاحظہ فرمایئے۔
اقبال نے فارسی ''مثنوی اسرارورموز'' میں بیان کیا،
ہر معاملے میں تقدیر پر بات کرنے والوں کے لئے اقبال کا ایک اور شعر،
موجودہ عہد میں مینجمنٹ، کیریئر اور مائنڈ سائنسز کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی چیز کی شدید آرزو اور اس کے حصول کا یقین تمام مشکلات کو کم کرکے ہمیں اس راہ پر لے جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ہر مشکل میں یقین کامیابی کی نوید ہے اور یقین سے عمل اور کامیابی کے راستے نکلتے ہیں۔
ایک مقام پر اقبال کہتے ہیں کہ دل میں آرزو نہ ہو تو یہ مردہ دل کی علامت ہے اور آرزو ہی دراصل امنگ اور امید کا نام ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ سائنسی ایجادات ہوں، انسانیت کی فلاح کے راستے ہوں، معاشرتی رسوم و رواج ہوں یا تعمیرات، وہ آرزو سے ہی پھوٹتی ہیں۔ اس لئے عزم اور آرزو رکھنا ضروری ہے اور اس کے حٓصول کے لیے یقین لازم ہے کیونکہ بے یقینی موت ہے۔
مینجمنٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ جب آپ کسی معاملے اور مقصد کا یقین کرلیتے ہیں تو خود بخود اس کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔
علامہ اقبال جوانوں کو اپنی امید قرار دیتے ہیں اور آج ہماری نوجوان نسل اپنے مقصد اور منزل کو بھلا کر بھٹک چکی ہے۔ اقبال اپنی فکر جوانوں کو دے کر انہیں بزرگوں کا بھی رہنما بنانا چاہتے تھے۔ علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی روشن مثالوں پر چلنے کی تلقین کرتے رہے اور ایک جگہ فرماتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ ملت کے جوان مایوسی، بےعملی اور کاہلی کو چھوڑ کر اپنا مقام پہچانیں اور عمل کو اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ وہ خودی کو اپنا کر فقیری میں بھی عزتِ نفس کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں اور اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں، اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی۔
[poll id="753"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
- (قرآن)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
1911 میں اقبال نے عاجزی اور دل کی گہرائیوں سے اللہ رب العزت کے حضور بعض گذارشات کی تھیں جنہیں شکایات بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ 'شکوہ' نامی اس نظم میں بعض ایسے سوالات تھے جو ہر حساس مسلمان کے دل و دماغ میں جنم لیتے ہیں لیکن اس نظم کے بعض اشعار کو گستاخانہ قرار دیا گیا، اس کے بعد 1913 میں انہوں نے 'جوابِ شکوہ' تحریر کی جو عین اسلام اور قرآن کی روشنی میں وہ احکامات و ہدایات ہیں جو اللہ رب العزت ہم سے چاہتا ہے اور یہ شعر بھی اسی معرکتہ الآرا نظم کا ہے جس کے بعد نہ صرف علا مہ اقبال کی مخالفت دم توڑ گئی بلکہ ان کی عزت و وقار میں گراں قدر اضافہ ہوا۔
آج ہمارے معاشرے میں نگاہ دوڑائیے کہ اسلام کے نام پر کیسی رسوم ایجاد ہوگئی ہیں۔ فرقہ بندی نے امت کا شیرازہ تار تار کردیا ہے۔ آج کا مذہبی طبقہ بھی قرآن کے بجائے اپنے مشاہیر کی کتابوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہے، ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ امت قرآن کی جانب لوٹے اور اس پر غوروفکر کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارے۔
اسی طرح اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق
اقبالیات کے ممتاز ماہر جناب خرم علی شفیق کی ادارت میں شائع ہونے والی ایک کتاب 'اسرار و رموز' (جو دراصل اسرارِ خودی) کی شرح ہے، میں اقبال کی فکرِ قرآن کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں،
''قوم کی تنظیم صرف آئین کے ذریعے ہی ممکن ہے، مسلم قوم کا آئین قرآن ہے۔ پتیاں ایک آئین کے تحت جڑ کر گلاب بناتی ہیں۔ کئی گلاب اکٹھے ہو کر گلدستہ بناتے ہیں۔ آواز کو ضبط میں لائیں تو نغمہ بن جاتا ہے اور اگر وہ ضبط میں نہ ہوں تو محض شور وغل ہے۔ اسی طرح قرآن مسلم اُمت کا آئین ہے اور اس کی قوت کا راز بھی، قرآن ہمیشہ رہنے والا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں کہ ہر چیز اس میں کھول کر بیان کردی گئی ہے اور یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ خدا کا آخری پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ذریعے ظاہر کیا گیا، جنہیں تمام انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا، اسی طرح قرآن تمام زنجیروں کو توڑ دیتا ہے اور آزاد انسانوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے مگر ظالموں کو بے بس کردیتا ہے۔
تمہارا ایمان رسومات کا غلام بن گیا ہے۔ اپنی زندگی کا مقصد براہِ راست قرآن میں تلاش کرو۔ اپنے آپ کو اس دورِ زوال کے رہنماؤں کے تخیلات کے حوالے نہ کرو بلکہ اپنے اسلاف کی پیروی کرو۔ یہاں تک کہ تمہارے چمن میں بہار آجائے۔ یہودیوں کو دیکھو کہ صدیوں سے غلامی اور نااُمیدی کا شکار ہیں مگر پھر بھی وہ آج تک ایک قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں کیونکہ وہ اپنے اسلاف کی راہ پر ثابت قدم رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جب ان کی قومیت کے لباس کو تار تار کردیا گیا تو اس وقت بھی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی یاد ان کے سینوں میں زندہ رہی۔ امام جعفرصادق رضی اللہ عنہہ کا ذوق و شوق اور رازی کا سا مجاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ تمہارے باغ میں اب خزاں چھا گئی ہے لیکن بہار کو کہیں اور تلاش کرنے کی کوشش میں شجر سے اپنا تعلق مت توڑو۔ ایک ٹوٹی ہوئی شاخ بہار کے آنے سے دوبارہ ہری نہیں ہوسکتی اور اختلافات زندگی کی رگ کاٹ دیتے ہیں۔ قومی زندگی خدا کے دیے ہوئے آئین سے ہی تکمیل پاتی ہے۔ چنانچہ قرآن سے کوئی اور مطلب نکالنے کی کوشش مت کرو۔ ۔
موتی کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح چکمدار ہوتا ہے اور قرآن وہ موتی ہے جسے خود خدا نے بنایا ہے۔ اسلام کا راز اس کا آئین ہے جس میں ہر چیز کی ابتدا اور انتہا ہے اور عشق ہی اس کی بنیاد ہے۔ آئین تمہارے سامنے مشکلات کھڑی کرکے تمہاری قوت آزماتا ہے تاکہ تم اپنی روح میں چراغ روشن کرلو اور مشکلات کو ریزہ ریزہ کردو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم جو ہر جائز اور نا جائز اور صحیح اور غلط کاعلم رکھتے تھے تمہیں قوت کا یہی نسخہ بتایا ہے۔ اسے حاصل کرو اور اپنے گوشہ عزلت سے نکل آؤ۔ آئینِ خداوندی کا پاک چشمہ اب ہند، ایران اور دوسرے ملکوں کے بیمار نظریات سے آلودہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تمہارا دل اپنی ہی دھڑکن سے ڈر جاتا ہے۔ خدا کے طریقوں کی پاکیزگی کی طرف لوٹ جاؤ اور سچے مسلمان بن جاؤ''۔
یہاں ایک دلچسپ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ بیرونی موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ ایک جلسے میں 'جواب شکوہ' پہلی مرتبہ سنائی گئی تو حاضرین جھوم اُٹھے اور اس کے ایک ایک شعر کی بولی لگی اور ایک خطیر رقم جمع ہوئی جو بلقان کی جنگ کے لئے ترکی بھیجی گئی۔
- (اسوہ محمد ﷺ)
کی محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے رہنمائی اور ہدایات کا عملی سرچشمہ ہے۔ اقبال نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر لاتعداد اشعار کہے جو آج بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دنیا میں جہاں کہیں خیر اور بھلائی کا نور ہے وہ اسوہ محمدی اپنانے کی وجہ سے ہے۔ اقبال ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم تھے اور ان کی شاعری اس کا ثبوت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم اسلامی معاشرے کی روح ہیں، اسی لئے اقبال امت سے کہتے ہیں کہ کچھ دیر اپنے دل کے غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرو، خودی کا چراغ جلاؤ اور ہَوس کے بت توڑ ڈالو کہ تم خدا کے نائب ہو اور یہی سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے اجالا کردے
- (وطن پرستی)
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے
علامہ محمد اقبال کی فکر درجہ بہ درجہ آگے بڑھتی رہی اور اس کی وجہ ان کے یورپ اور امریکہ میں 3 سال تھے جہاں 1905 سے 1908 تک دورانِ تعلیم ان کی قلبی ماہیت تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد ان کی زندگی کے 30 برس انہوں نے نہایت بامقصد، پاکیزہ اور انقلابی شاعری کی، اس کی گواہی خود ان کے ایک شعر سے ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
اس سے قبل اقبال نے ترانہ ہندی کے عنوان سے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا' کی نظم کہی لیکن فکری نہج تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے وطن کو شناخت تو کہا لیکن وطن پرستی کو ایک خوفناک اور تباہ کن شے قرار دیا۔
اس کے لیے صرف گذشتہ 25 سال کے واقعات پر غور کیجئے، بوسنیا تاراج ہوا لیکن ہم اپنے وطن کی فکر کرتے رہے۔ افغانستان اورعراق تباہ ہوگئے لیکن تمام اسلامی ممالک لمبی تان کر سوتے رہے، اب شام، لیبیا اور عراق کے لاکھوں افراد دربدر ہیں لیکن ہمارے پاس ان مسائل پر غور کرنے کے لئے وقت نہیں۔ اسلامی ممالک نہ ہی متحد ہیں اور نہ ہی کوئی مشترکہ فکر و سوچ رکھتے ہیں بس سب اپنے اپنے وطن کے خول میں بند ہیں لیکن اس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی صٓورت میں یہ آگ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی لیکن اب بھی اسلامی ممالک کی مشترکہ حکمتِ عملی نظر نہیں آتی کیونکہ ہم نے اسلام کی ڈور کو کمزور کر دیا ہے۔ دوسری جانب یورپ کے درجن سے اوپر ممالک ہزاروں اختلافات کے باوجود مشترکہ ایجنڈے اور کرنسی پر متحد ہوچکے ہیں۔
اقبال قومیت اور وطنیت کے بجائے پوری انسانیت کے علمبردار تھے جس کا اظہار اس شعر سے بھی ہوتا ہے، ذرا غور فرمائیے۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم!
تفریقِ ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم!
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم!
- (تقدیر پرستی اور بے عملی)
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ
اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تقدیر پرستی ہماری رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔ روزانہ ہم یہ الفاظ سنتے ہیں 'تقدیر میں یہی لکھا تھا' یا 'یہی نصیب میں تھا' وغیرہ۔ علامہ اقبال تقدیر پرستی کے سخت مخالف نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور ایک عام آدمی بھی اپنے معاشرے کی تقدیر سنوار سکتا ہے کیونکہ اقوام کی تقدیر عام افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس لئے علامہ محمد اقبال عمل پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمل ہر کامیابی کی کنجی ہے اور یہ شعر بہت حد تک نصیب اور تقدیر پرستی کو رد کرتا ہے ملاحظہ فرمایئے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال نے فارسی ''مثنوی اسرارورموز'' میں بیان کیا،
''اٹھ اور دوبارہ ایسا قانون لا جو اخوت پر مبنی ہو۔ ایسا جام جس کے اندر محبت کی شراب ہو۔ پست ہمت لوگوں کا ہتھیار صرف کینہ ہے۔ ان کی زندگی کا صرف یہی ایک دستور ہے۔ ذلت کی گہرائی میں پڑا ہوا انسان اپنی ناتوانی کو قناعت کا نام دیتا ہے''۔
ہر معاملے میں تقدیر پر بات کرنے والوں کے لئے اقبال کا ایک اور شعر،
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
- (یقین اور آرزو)
غلامی میں نہ کام آتی ہیں نہ شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
موجودہ عہد میں مینجمنٹ، کیریئر اور مائنڈ سائنسز کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی چیز کی شدید آرزو اور اس کے حصول کا یقین تمام مشکلات کو کم کرکے ہمیں اس راہ پر لے جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ہر مشکل میں یقین کامیابی کی نوید ہے اور یقین سے عمل اور کامیابی کے راستے نکلتے ہیں۔
ایک مقام پر اقبال کہتے ہیں کہ دل میں آرزو نہ ہو تو یہ مردہ دل کی علامت ہے اور آرزو ہی دراصل امنگ اور امید کا نام ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ سائنسی ایجادات ہوں، انسانیت کی فلاح کے راستے ہوں، معاشرتی رسوم و رواج ہوں یا تعمیرات، وہ آرزو سے ہی پھوٹتی ہیں۔ اس لئے عزم اور آرزو رکھنا ضروری ہے اور اس کے حٓصول کے لیے یقین لازم ہے کیونکہ بے یقینی موت ہے۔
مینجمنٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ جب آپ کسی معاملے اور مقصد کا یقین کرلیتے ہیں تو خود بخود اس کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔
- (نوجوانوں سے مخاطب)
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
علامہ اقبال جوانوں کو اپنی امید قرار دیتے ہیں اور آج ہماری نوجوان نسل اپنے مقصد اور منزل کو بھلا کر بھٹک چکی ہے۔ اقبال اپنی فکر جوانوں کو دے کر انہیں بزرگوں کا بھی رہنما بنانا چاہتے تھے۔ علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی روشن مثالوں پر چلنے کی تلقین کرتے رہے اور ایک جگہ فرماتے ہیں۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ ملت کے جوان مایوسی، بےعملی اور کاہلی کو چھوڑ کر اپنا مقام پہچانیں اور عمل کو اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ وہ خودی کو اپنا کر فقیری میں بھی عزتِ نفس کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں اور اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں، اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی۔
[poll id="753"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔