بنگلہ دیشی عدالتوں کا انصاف
بنگلہ دیش پر خوف و دہشت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
SUKKUR:
بنگلہ دیش پر خوف و دہشت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم حسینہ واجد انتقام انتقام پکار رہی ہے۔ نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتوں میں انصاف کا قتل عام جاری ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد کا تازہ شکار صلاح الدین قادر چوہدری ہے، بیگم خالدہ ضیاء کی (BNP) کا ممتاز رہنما، سات بار لگاتار بنگلا دیشی پارلیمان کا منتخب ہونے والا صلاح الدین قادر چوہدری ۔ دراصل اپنے والد کے ناکردہ 'گناہوں' کی سزا بھگت رہا ہے۔
فضل قادر چوہدری، چٹاگانگ کے سر سید احمد خاں جنہوں نے اپنے ضلع میں 60 کی دہائی میں عالمی معیار کی سات درس گاہیں قائم کیں جو ایوب خاں کی کابینہ میں وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے، وہی فضل قادر چوہدری جنہوں نے تحفظ پاکستان کی قسم کھائی تھی اور دفاع وطن کے لیے سیاسی میدان میں شیخ مجیب الرحمن کا مقابلہ کیا تھا۔ چٹاگانگ میں ان کا گھر متحدہ پاکستان کا قلعہ تھا۔ انھیں 1973ء میں بنگلا دیش کی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج سے ساز باز اور سازشیں کرنے کے 'جرم' میں گرفتار کیا گیا اور پھر موت نے ہی انھیں جیل سے رہائی دلائی۔
دفاع پاکستان کا جرم آج فضل قادر چوہدری کی دوسری نسل بھگت رہی ہے۔ 5 سال سے صلاح الدین چوہدری موت کی کال کوٹھری میں بند ہے، اس پر 43 الزامات پر مشتمل فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جب کہ 1971ء کے اس پر آشوب دور میںوہ مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ 26 مارچ کو مغربی پاکستان آ گئے تھے۔
دوران پرواز ان کے شریک سفر ڈھاکا ہائی کورٹ کے جج جسٹس حسنین اور امریکی شہریت حاصل کر کے فجی میں امریکی سفیر بن جانے والے مسٹر صدیقی اس سفر کی روداد اور گواہی دے چکے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیشی عدالتوں کو حقائق سے کوئی غرض نہیں ہے۔صلاح الدین قادر چوہدری مارچ اور اپریل 1971ء کے دوران اپنے والد کے دوست معروف سیاستدان اور صنعتکار محمود اے ہارون کے گھر مہمان رہے تھے۔ بعد ازاں لاہور منتقل ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کراچی میں ان کے قیام کی شہادت امبر سہگل نے دی۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی زندگی بچانے کے لیے انھوں نے بنگلہ دیشی عدالت میں تحریری بیان اور دیگر شواہد جمع کرائے کہ انصاف کا قتل روکا جا سکے۔
اب وہ بنگلا دیشی سپریم کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہو کر گواہی دینے کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں کہ ان کے بنگلہ دیش داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ شیخ مجیب الرحمن 16 دسمبر 1971ء تک ہارون خاندان کے ملازم رہے۔ وہ انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے۔ آج تاریخ کا جبر دیکھئے کہ ملازم شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد مالک محمود ہارون کی صاحبزادی امبر سہگل کے بنگلا دیش داخلے پر پابندی لگا رہی ہے۔
بنگلا دیشی حکومت نے معروف سیاستدان اسحق خاکوانی، سابق نگران وزیر اعظم میاں محمد سومرو، امبر سہگل اور کے ایس ای کے ریٹائرڈ انجینئر منیب ارجمند خاں کے بنگلا دیش داخلے پر پابند ی عائد کرتے ہوئے پی آئی اے حکام کو تنبیہ کی ہے کہ صلاح الدین قادر چوہدری کی برات کے لیے بنگلا دیش سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے خواہشمند ان خواتین و حضرات کو ٹکٹ جاری نہ کیے جائیں بصورت دیگر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسحق خاکوانی بھی اس کہانی کا ایک کردار ہیں جو اپنے بچپن کے دوست صلاح الدین قادر چوہدری کی جان بچانے کے لیے گزشتہ 5 سالوں سے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اسحق خاکوانی بتا رہے تھے کہ صلاح الدین قادر چوہدری بچپن کے ساتھی ہیں ہم صادق پبلک اسکول بہاولپور میں اکٹھے تھے، میں ایک سال سینئر تھا۔
اسحق خاکوانی بتاتے ہیں کہ فضل قادر چوہدری نے نواب آف کالا باغ کے مشورے پر اپنے تینوں بچوں کو صادق پبلک اسکول بہاولپور داخل کرنا تھا۔ صلاح الدین قادر چوہدری پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل جانے سے پہلے اپریل 1971ء کے دوران لاہور میں ہمارے گھر رہے تھے۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے آنرز کیا ۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے صلاح الدین کا سارا تعلیمی ریکارڈ نکلوایا ۔ اس سارے ریکارڈ کو قواعد و ضوابط کے مطابق دفتر خارجہ سے تصدیق کروا کے جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت میں پیش کیا گیا لیکن کسی جج نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
جب ہم دوستوں نے ذاتی طور پر ڈھاکا جا کر گواہی دینے کے لیے تیاریاں کر لیں تو ہمیں بتایا گیا کہ ان عدالتوں میں بن بلائے پیش نہیں ہوا جا سکتا اور ہمیں سفری دستاویزات اور ویزے دینے سے انکار کر دیا گیا۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی سزائے موت کے خلاف بنگلا دیش سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو ہم نے از سر نو انصاف کی سب سے بڑی اس عدالت سے رجوع کیا تو ہمارے بنگلا دیش داخلے پر پابند عائد کر دی گئی ہے۔
بنگلا دیش سپریم کورٹ نے 17 نومبر 2015ء تک مقدمے کی سماعت ملتوی کی ہے لیکن بیگم حسینہ واجد نے بنگلا دیش سپریم کورٹ تک ہماری رسائی کو روکنے کے لیے، ڈھاکا داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ ہم انصاف کے عالمی اداروں، تنظیموں سے رابطے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ان نام نہاد عدالتوں پر اپنا عدم اعتماد کر دیا ہے لیکن ہم غیر جانبدار رہتے ہوئے پاکستان کی حکومت، روشن خیال دانشور، انسانی حقوق کمیشن اور سیاستدان سب سے ناانصافی پر خاموش اور گم سم ہیں۔
'ہم ویڈیولنک کے ذریعے بنگلادیشی ہائی کمیشن اسلام آباد سے مقدمے میں شامل ہونے کے لیے بھی آمادہ ہیں، بنگلا دیش سپریم کورٹ چیف جسٹس کو باضابطہ درخواست دی ہے کہ بنگلادیشی حکومت ہمارے داخلے پر پابندی کی وجہ سے ہم مسلم بین الاقوامی طریق کار کے مطابق Skype یا ویڈیو لنک کے ذریعے شواہد پیش کرنے اور گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔
17 نومبر 2015ء کو ہماری اس درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔ بنگلادیشی سپریم کورٹ قبل ازیں اسی طرح کے مقدمات میں جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں کی اپیلوں کے ساتھ جس قسم کا انصاف کر چکی ہے اس روشنی میں انصاف کی توقع رکھنا پاگل پن ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سلام صد سلام اسحق خاکوانی، امبر سہگل، میاں محمد سومرو اور منیب ارجمند خان پر کہ 20 کروڑ بے حسوں میں وہ وفا شعاری کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ سلام صد سلام ! وہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک بن کر پاکستان کی پیشانی پر جگمگائیں گے۔
بنگلہ دیش پر خوف و دہشت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم حسینہ واجد انتقام انتقام پکار رہی ہے۔ نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتوں میں انصاف کا قتل عام جاری ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد کا تازہ شکار صلاح الدین قادر چوہدری ہے، بیگم خالدہ ضیاء کی (BNP) کا ممتاز رہنما، سات بار لگاتار بنگلا دیشی پارلیمان کا منتخب ہونے والا صلاح الدین قادر چوہدری ۔ دراصل اپنے والد کے ناکردہ 'گناہوں' کی سزا بھگت رہا ہے۔
فضل قادر چوہدری، چٹاگانگ کے سر سید احمد خاں جنہوں نے اپنے ضلع میں 60 کی دہائی میں عالمی معیار کی سات درس گاہیں قائم کیں جو ایوب خاں کی کابینہ میں وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے، وہی فضل قادر چوہدری جنہوں نے تحفظ پاکستان کی قسم کھائی تھی اور دفاع وطن کے لیے سیاسی میدان میں شیخ مجیب الرحمن کا مقابلہ کیا تھا۔ چٹاگانگ میں ان کا گھر متحدہ پاکستان کا قلعہ تھا۔ انھیں 1973ء میں بنگلا دیش کی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج سے ساز باز اور سازشیں کرنے کے 'جرم' میں گرفتار کیا گیا اور پھر موت نے ہی انھیں جیل سے رہائی دلائی۔
دفاع پاکستان کا جرم آج فضل قادر چوہدری کی دوسری نسل بھگت رہی ہے۔ 5 سال سے صلاح الدین چوہدری موت کی کال کوٹھری میں بند ہے، اس پر 43 الزامات پر مشتمل فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جب کہ 1971ء کے اس پر آشوب دور میںوہ مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ 26 مارچ کو مغربی پاکستان آ گئے تھے۔
دوران پرواز ان کے شریک سفر ڈھاکا ہائی کورٹ کے جج جسٹس حسنین اور امریکی شہریت حاصل کر کے فجی میں امریکی سفیر بن جانے والے مسٹر صدیقی اس سفر کی روداد اور گواہی دے چکے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیشی عدالتوں کو حقائق سے کوئی غرض نہیں ہے۔صلاح الدین قادر چوہدری مارچ اور اپریل 1971ء کے دوران اپنے والد کے دوست معروف سیاستدان اور صنعتکار محمود اے ہارون کے گھر مہمان رہے تھے۔ بعد ازاں لاہور منتقل ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کراچی میں ان کے قیام کی شہادت امبر سہگل نے دی۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی زندگی بچانے کے لیے انھوں نے بنگلہ دیشی عدالت میں تحریری بیان اور دیگر شواہد جمع کرائے کہ انصاف کا قتل روکا جا سکے۔
اب وہ بنگلا دیشی سپریم کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہو کر گواہی دینے کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں کہ ان کے بنگلہ دیش داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ شیخ مجیب الرحمن 16 دسمبر 1971ء تک ہارون خاندان کے ملازم رہے۔ وہ انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے۔ آج تاریخ کا جبر دیکھئے کہ ملازم شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد مالک محمود ہارون کی صاحبزادی امبر سہگل کے بنگلا دیش داخلے پر پابندی لگا رہی ہے۔
بنگلا دیشی حکومت نے معروف سیاستدان اسحق خاکوانی، سابق نگران وزیر اعظم میاں محمد سومرو، امبر سہگل اور کے ایس ای کے ریٹائرڈ انجینئر منیب ارجمند خاں کے بنگلا دیش داخلے پر پابند ی عائد کرتے ہوئے پی آئی اے حکام کو تنبیہ کی ہے کہ صلاح الدین قادر چوہدری کی برات کے لیے بنگلا دیش سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے خواہشمند ان خواتین و حضرات کو ٹکٹ جاری نہ کیے جائیں بصورت دیگر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسحق خاکوانی بھی اس کہانی کا ایک کردار ہیں جو اپنے بچپن کے دوست صلاح الدین قادر چوہدری کی جان بچانے کے لیے گزشتہ 5 سالوں سے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اسحق خاکوانی بتا رہے تھے کہ صلاح الدین قادر چوہدری بچپن کے ساتھی ہیں ہم صادق پبلک اسکول بہاولپور میں اکٹھے تھے، میں ایک سال سینئر تھا۔
اسحق خاکوانی بتاتے ہیں کہ فضل قادر چوہدری نے نواب آف کالا باغ کے مشورے پر اپنے تینوں بچوں کو صادق پبلک اسکول بہاولپور داخل کرنا تھا۔ صلاح الدین قادر چوہدری پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل جانے سے پہلے اپریل 1971ء کے دوران لاہور میں ہمارے گھر رہے تھے۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے آنرز کیا ۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے صلاح الدین کا سارا تعلیمی ریکارڈ نکلوایا ۔ اس سارے ریکارڈ کو قواعد و ضوابط کے مطابق دفتر خارجہ سے تصدیق کروا کے جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت میں پیش کیا گیا لیکن کسی جج نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
جب ہم دوستوں نے ذاتی طور پر ڈھاکا جا کر گواہی دینے کے لیے تیاریاں کر لیں تو ہمیں بتایا گیا کہ ان عدالتوں میں بن بلائے پیش نہیں ہوا جا سکتا اور ہمیں سفری دستاویزات اور ویزے دینے سے انکار کر دیا گیا۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی سزائے موت کے خلاف بنگلا دیش سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو ہم نے از سر نو انصاف کی سب سے بڑی اس عدالت سے رجوع کیا تو ہمارے بنگلا دیش داخلے پر پابند عائد کر دی گئی ہے۔
بنگلا دیش سپریم کورٹ نے 17 نومبر 2015ء تک مقدمے کی سماعت ملتوی کی ہے لیکن بیگم حسینہ واجد نے بنگلا دیش سپریم کورٹ تک ہماری رسائی کو روکنے کے لیے، ڈھاکا داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ ہم انصاف کے عالمی اداروں، تنظیموں سے رابطے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ان نام نہاد عدالتوں پر اپنا عدم اعتماد کر دیا ہے لیکن ہم غیر جانبدار رہتے ہوئے پاکستان کی حکومت، روشن خیال دانشور، انسانی حقوق کمیشن اور سیاستدان سب سے ناانصافی پر خاموش اور گم سم ہیں۔
'ہم ویڈیولنک کے ذریعے بنگلادیشی ہائی کمیشن اسلام آباد سے مقدمے میں شامل ہونے کے لیے بھی آمادہ ہیں، بنگلا دیش سپریم کورٹ چیف جسٹس کو باضابطہ درخواست دی ہے کہ بنگلادیشی حکومت ہمارے داخلے پر پابندی کی وجہ سے ہم مسلم بین الاقوامی طریق کار کے مطابق Skype یا ویڈیو لنک کے ذریعے شواہد پیش کرنے اور گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔
17 نومبر 2015ء کو ہماری اس درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔ بنگلادیشی سپریم کورٹ قبل ازیں اسی طرح کے مقدمات میں جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں کی اپیلوں کے ساتھ جس قسم کا انصاف کر چکی ہے اس روشنی میں انصاف کی توقع رکھنا پاگل پن ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سلام صد سلام اسحق خاکوانی، امبر سہگل، میاں محمد سومرو اور منیب ارجمند خان پر کہ 20 کروڑ بے حسوں میں وہ وفا شعاری کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ سلام صد سلام ! وہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک بن کر پاکستان کی پیشانی پر جگمگائیں گے۔