بہار میں بھارتی مستقبل کا ریفرنڈم
برسرِ اقتدار آنے کے صرف ڈیڑھ برس کے دوران گائے کی حفاظت ، مخالفین کو پاکستان بھیجنے
ڈیڑھ برس پہلے مودی لہر نے دیگر ریاستوں کی طرح بہار میں بھی وزیرِاعلی نتیش کمار کی جماعت یونائٹڈ جنتا دل اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کا صفایا کردیا۔ بہار کی چالیس لوک سبھا سیٹوں میں سے بتیس بھارتیہ جنتا پارٹی لے اڑی۔کانگریس کا حال سب سے برا تھا۔پھر مہاراشٹر ، ہریانہ اور راجھستان میں ریاستی انتخابات ہوئے اور بی جے پی نے سب کو رگڑ کے رکھ دیا۔لگتا تھا کہ بھارت نے بلاآخر سیکولر سیاست کا ترنگی صافہ اتار کر گیروی چادر اوڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نریندر مودی اپنے بنیادی انتخابی وعدے پر توجہ دیتے کہ '' اچھے دن آنے والے ہیں ''۔جس کے تحت ترقی کے ثمرات گھر گھر پہنچانے کے لیے معاشی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں گی۔اگلے عام انتخابات تک پورا بھارت ڈجیٹل ہو جائے گا۔گاؤں گاؤں بجلی ، صاف پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت پہنچائی جائے گی اور بڑے شہروں کو صفائی ستھرائی اور سہولتوں کے اعتبار سے '' اسمارٹ سٹی'' کا روپ مل جائے گا۔
مگر ہوا یوں کہ '' برانڈ مودی '' کے پیچھے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ماں راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) نے اپنا گھونگٹ پورا اٹھا دیا اور '' اچھے دن '' لانے کے لیے پلان اے یعنی اقتصادی ترقی کے بجائے پلان بی یعنی ہندو سماج کو آبِ جنون سے پوتر کرنا شروع کردیا۔
برسرِ اقتدار آنے کے صرف ڈیڑھ برس کے دوران گائے کی حفاظت ، مخالفین کو پاکستان بھیجنے ، ہندوتوا کے غدار لکھاریوں ، فنکاروں ، مورخوں ، دانشوروں کے گھیراؤ جیسے نان ایشوز آگے بڑھا دیے گئے۔سائنس میں قدیم بھارت کی ترقی کے محیرالعقول دعوے شروع ہوگئے۔تعلیمی نصاب میں آر ایس ایس کے نظریات کی روشنی میں بنیادی تبدیلیاں ہونے لگیں۔پونا فلم انسٹی ٹیوٹ سے فلم سنسر بورڈ تک اور ہسٹری کمیشن سے لے کے سائنس کمیشن تک آر ایس ایس کے نظریاتی کارکنوں کے حوالے ہوتے چلے گئے۔میڈیا پر ہندوتوا کا کنٹرول تقریباً مکمل ہوگیا۔
گھٹن اتنی بڑھ گئی کہ رام جیٹھ ملانی جیسے بی جے پی کے حامی بھی چیخ پڑے کہ بھارت تیزی سے فسطائیت کے راستے پر جا رہا ہے جہاں ہندوتوا سے اختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ مودی نے اچھے دن کا جھوٹا وعدہ کرکے جنتا کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پیش گوئی کی کہ حالات کی رفتار یہی رہی تو اگلے ڈیڑھ برس میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوجائے گی اور بنیادی حقوق سلب ہوجائیں گے۔گلزار صاحب نے کہا کہ میں نے پچھلے اڑسٹھ برس میں اتنا برا دور نہیں دیکھا۔
پچھلے چھ ماہ کے دوران نامعلوم ہندوتوا جوشیلوں کے ہاتھوںتین ہندو ادیبوں کے قتل اور بڑی عید کے دوسرے دن دلی کے قریب دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں اخلاق احمد کے قتل نے گویا رواداری اور کھلے پن کے اونٹ کی کمر کا آخری تنکہ بھی توڑ دیا اور پھر اس جبر اور گھٹن کے خلاف اعزازات واپس کرنے کی لہر چل پڑی۔
اب تک سو سے زائد ادیب ، دانشور ، فن کار ، مورخ ، صحافی سرکاری ایوارڈز واپس کرچکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنے اور اپنے جوشیلوں کو لگام دینے کے بجائے ان تمام اقدامات اور وارداتوں کا دفاع کرنا شروع کردیا۔بی جے پی کے جس رکنِ پارلیمان کے منہ میں جو آیا بکتا چلا گیا اور میڈیا کے مزے آتے گئے۔
نریندر مودی نے پچھلے ڈیڑھ برس میں دو کام کیے۔ جس ریاست میں گئے اس کے لیے بھاری امدادی پیکیج کا اعلان کیا یا پھر بیرونِ بھارت غیرملکی رہنماؤں کے ساتھ سوٹ بدل بدل کر سیلفیاں کھنچوائیں اور بیرونِ ملک مقیم بھارتیوں کو یہ تاثر دے کر تالیاں پٹوائیں کہ میری قیادت میں بھارت دو ہزار پچاس تک اقتصادی و فوجی سپر پاورز کے کلب میں شامل ہوجائے گا۔
اس پس منظر میں پہلا دھچکا اس سال کے شروع میں دہلی کے مقامی انتخابات میں پہنچا جب عام آدمی پارٹی کے اروند کیجری وال نے بی جے پی کی انتخابی کھٹیا کھڑی کرکے دوسری بار دلی کی وزارتِ اعلی اپنے نام کر لی۔مگر یہ دھچکا بھی بی جے پی کی قیادت کے لیے وارننگ نہ بن سکا۔اس کی ساری توجہ بہار کے ریاستی انتخابات پر مرکوز ہوگئی۔
جہاں حزبِ اختلاف نے آخری مزاحتمی مورچہ لگایا ہوا تھا۔سنگھ پریوار کو پکا یقین تھا کہ اگر بہار فتح ہوگیا تو پھر گجرات سے بنگال اور کشمیر تا تامل ناڈو بی جے پی کو کوئی نہ روک پائے گا۔بہار کا الیکشن ثابت کردے گا کہ عوام کو مودی اور اس کی پالیسیوں پر کس قدر اعتماد ہے۔
چنانچہ بہار پر چاروں طرف سے ہلہ بولا گیا۔آر ایس ایس کے تین لاکھ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ قریہ قریہ پھیل کر ووٹروں سے رابطہ کریں اور انھیں یقین دلائیں کہ بی جے پی کی فتح کے بعد بہار بھارت کی سب سے پسماندہ ریاست نہیں رہے گا۔دو تہائی بہار جو اس وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے وہاں بجلی پہنچائی جائے گی۔اٹھاون فیصد آبادی کہ جس کی عمر پچیس برس سے کم ہے اسے ریاست میں تیزی سے ہونے والی انڈسٹرلائزیشن کے سبب روزگار کے مواقع ملیں گے۔
وزیرِ اعلی نتیش کمار اور اس سے پہلے لالو پرساد نے بہار میں مافیاؤں کی سرپرستی کرکے اور سماج کو ذات برادری میں بانٹ کر جو جنگل راج قائم کیا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔اگر بی جے پی بہار میں ہار گئی تو پاکستان میں خوشی کے پٹاخے پھوٹیں گے۔چین اور پاکستان اس وقت صرف مودی جی سے ڈرتے ہیں۔
اگر بی جے پی کو بہار میں شکست ہو گئی تو دونوں دشمن ملک اور شیر ہوجائیں گے۔چیف منسٹر نتیش کمار نے گائے رکھشا کے لیے کیا کیا ؟ وہ دو ہزار بارہ میں پاکستان تو چلے گئے مگر بہار کے جس گوتم بودھ کو ماننے والے سری لنکا سے جاپان تک بستے ہیں ان سے کبھی ملنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی۔نتیش اور لالو جیت گئے تو پسماندہ طبقات کا مختص تعلیمی و ملازمتی کوٹہ اقلیتوں ( مسلمانوں ) کو بانٹ دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
بی جے پی نے بہار فتح کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔الیکشن مہم کے نگراں خود بی جے پی کے صدر امیت شاہ بنے۔وزیراعظم مودی نے ریاست کے طول و عرض میں اکتیس بڑے جلسوں سے خطاب کیا جو کسی بھی وزیرِ اعظم کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔بہار کے لیے مودی نے انتخابی مہم شروع ہونے سے مہینہ بھر پہلے ہی سوا لاکھ کروڑ روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔
مگر اس چکا چوند میں بی جے پی کے سیاسی جرنیل یہ دیکھنے سے قاصر رہے کہ بہار میں پچھلے دس برس کے دوران نتیش کمار کی وزارتِ اعلی میں جتنی ترقی ہوئی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔بہاریوں کو خزانے کی جھلک دکھانے والے ارہر اور دیگر دالوں کی قیمتیں آسمان سے زمین پر لانے میں ناکام رہے جو پچھلے تین ماہ کے دوران دو سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس سینتیس سالہ بہاری نوجوان پرشانت کشور اور اس کی ٹیم نے دو ہزار بارہ کے گجرات الیکشن میں مودی کو گڈ گورننس کا برانڈ بنایا اور پھر دو ہزار تیرہ کی عام انتخابات کی ڈجیٹل مہم ''چائے پے چرچا'' اور '' اچھے دن آنے والے ہیں '' کے نعرے پر ڈیزائن کرکے مودی برانڈ کو بے تحاشا کامیابی دلوائی۔وہ پرشانت کشور بھی پریشان ہو کر نتیش کمار کے پاس چلا گیا اور اس نے '' ہر گھر پر دستک '' کے نعرے کے گرد بی جے پی مخالف اتحاد ''مہا گٹھ بندھن ''کی انتخابی مہم ڈیزائن کر کے مودی لشکر کو بہار کی دھلیز پر روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہار اسمبلی کی دو سو تینتالیس سیٹوں میں سے بی جے پی اور اس کے اتحادی صرف اٹھاون سیٹیں جیت پائے حالانکہ پچھلے ریاستی انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے اکیانوے اسٹیٹں حاصل کی تھیں۔ان انتخابی نتائج کے سبب بائیں بازو اور سیکولر جماعتوں کے تنِ مردہ میں جان پڑ گئی ہے جنھیں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پہلے تو مودی لہر بہا کر لے گئی اور پھر مودی کی پالیسیوں نے ہی انھیں زندہ کردیا۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا کی دو سو پینتالیس سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس اس وقت تریسٹھ سیٹیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایوانِ زیریں لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود بی جے پی راجیہ سبھا میں حزبِ اختلاف کی خوشنودی کے بغیر کوئی قانون منظور نہیں کروا سکتی۔جب دو ہزار سترہ میں بہار سے راجیہ سبھا کے نئے ارکان لیے جائیں گے تو ایوان میں بی جے پی کی اکثریت اور کم ہوجائے گی۔
اب مودی کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ آر ایس ایس کو سمجھائیں کہ بھارت کو ہندوتوا مخالفین سے ہر طرح سے پاک کرنے کی لاحاصل مشق کے بجائے اقتصادی اصلاحات پر عمل کرنے دیا جائے یا پھر مودی اور آر ایس ایس مل کر ملک میں اتنی نفرت بڑھا دیں کہ ہندو اکثریتی ووٹ بینک حوفزدہ ہو کر ان کے ساتھ چمٹا رہے۔مگر بہار میں شکست کے بعد پلان بی پر عمل درآمد اور مشکل ہوجائے گا۔آر ایس ایس کے لیے بری سہی مگر باقی بھارت کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔
اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نریندر مودی اپنے بنیادی انتخابی وعدے پر توجہ دیتے کہ '' اچھے دن آنے والے ہیں ''۔جس کے تحت ترقی کے ثمرات گھر گھر پہنچانے کے لیے معاشی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں گی۔اگلے عام انتخابات تک پورا بھارت ڈجیٹل ہو جائے گا۔گاؤں گاؤں بجلی ، صاف پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت پہنچائی جائے گی اور بڑے شہروں کو صفائی ستھرائی اور سہولتوں کے اعتبار سے '' اسمارٹ سٹی'' کا روپ مل جائے گا۔
مگر ہوا یوں کہ '' برانڈ مودی '' کے پیچھے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ماں راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) نے اپنا گھونگٹ پورا اٹھا دیا اور '' اچھے دن '' لانے کے لیے پلان اے یعنی اقتصادی ترقی کے بجائے پلان بی یعنی ہندو سماج کو آبِ جنون سے پوتر کرنا شروع کردیا۔
برسرِ اقتدار آنے کے صرف ڈیڑھ برس کے دوران گائے کی حفاظت ، مخالفین کو پاکستان بھیجنے ، ہندوتوا کے غدار لکھاریوں ، فنکاروں ، مورخوں ، دانشوروں کے گھیراؤ جیسے نان ایشوز آگے بڑھا دیے گئے۔سائنس میں قدیم بھارت کی ترقی کے محیرالعقول دعوے شروع ہوگئے۔تعلیمی نصاب میں آر ایس ایس کے نظریات کی روشنی میں بنیادی تبدیلیاں ہونے لگیں۔پونا فلم انسٹی ٹیوٹ سے فلم سنسر بورڈ تک اور ہسٹری کمیشن سے لے کے سائنس کمیشن تک آر ایس ایس کے نظریاتی کارکنوں کے حوالے ہوتے چلے گئے۔میڈیا پر ہندوتوا کا کنٹرول تقریباً مکمل ہوگیا۔
گھٹن اتنی بڑھ گئی کہ رام جیٹھ ملانی جیسے بی جے پی کے حامی بھی چیخ پڑے کہ بھارت تیزی سے فسطائیت کے راستے پر جا رہا ہے جہاں ہندوتوا سے اختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ مودی نے اچھے دن کا جھوٹا وعدہ کرکے جنتا کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پیش گوئی کی کہ حالات کی رفتار یہی رہی تو اگلے ڈیڑھ برس میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوجائے گی اور بنیادی حقوق سلب ہوجائیں گے۔گلزار صاحب نے کہا کہ میں نے پچھلے اڑسٹھ برس میں اتنا برا دور نہیں دیکھا۔
پچھلے چھ ماہ کے دوران نامعلوم ہندوتوا جوشیلوں کے ہاتھوںتین ہندو ادیبوں کے قتل اور بڑی عید کے دوسرے دن دلی کے قریب دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں اخلاق احمد کے قتل نے گویا رواداری اور کھلے پن کے اونٹ کی کمر کا آخری تنکہ بھی توڑ دیا اور پھر اس جبر اور گھٹن کے خلاف اعزازات واپس کرنے کی لہر چل پڑی۔
اب تک سو سے زائد ادیب ، دانشور ، فن کار ، مورخ ، صحافی سرکاری ایوارڈز واپس کرچکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنے اور اپنے جوشیلوں کو لگام دینے کے بجائے ان تمام اقدامات اور وارداتوں کا دفاع کرنا شروع کردیا۔بی جے پی کے جس رکنِ پارلیمان کے منہ میں جو آیا بکتا چلا گیا اور میڈیا کے مزے آتے گئے۔
نریندر مودی نے پچھلے ڈیڑھ برس میں دو کام کیے۔ جس ریاست میں گئے اس کے لیے بھاری امدادی پیکیج کا اعلان کیا یا پھر بیرونِ بھارت غیرملکی رہنماؤں کے ساتھ سوٹ بدل بدل کر سیلفیاں کھنچوائیں اور بیرونِ ملک مقیم بھارتیوں کو یہ تاثر دے کر تالیاں پٹوائیں کہ میری قیادت میں بھارت دو ہزار پچاس تک اقتصادی و فوجی سپر پاورز کے کلب میں شامل ہوجائے گا۔
اس پس منظر میں پہلا دھچکا اس سال کے شروع میں دہلی کے مقامی انتخابات میں پہنچا جب عام آدمی پارٹی کے اروند کیجری وال نے بی جے پی کی انتخابی کھٹیا کھڑی کرکے دوسری بار دلی کی وزارتِ اعلی اپنے نام کر لی۔مگر یہ دھچکا بھی بی جے پی کی قیادت کے لیے وارننگ نہ بن سکا۔اس کی ساری توجہ بہار کے ریاستی انتخابات پر مرکوز ہوگئی۔
جہاں حزبِ اختلاف نے آخری مزاحتمی مورچہ لگایا ہوا تھا۔سنگھ پریوار کو پکا یقین تھا کہ اگر بہار فتح ہوگیا تو پھر گجرات سے بنگال اور کشمیر تا تامل ناڈو بی جے پی کو کوئی نہ روک پائے گا۔بہار کا الیکشن ثابت کردے گا کہ عوام کو مودی اور اس کی پالیسیوں پر کس قدر اعتماد ہے۔
چنانچہ بہار پر چاروں طرف سے ہلہ بولا گیا۔آر ایس ایس کے تین لاکھ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ قریہ قریہ پھیل کر ووٹروں سے رابطہ کریں اور انھیں یقین دلائیں کہ بی جے پی کی فتح کے بعد بہار بھارت کی سب سے پسماندہ ریاست نہیں رہے گا۔دو تہائی بہار جو اس وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے وہاں بجلی پہنچائی جائے گی۔اٹھاون فیصد آبادی کہ جس کی عمر پچیس برس سے کم ہے اسے ریاست میں تیزی سے ہونے والی انڈسٹرلائزیشن کے سبب روزگار کے مواقع ملیں گے۔
وزیرِ اعلی نتیش کمار اور اس سے پہلے لالو پرساد نے بہار میں مافیاؤں کی سرپرستی کرکے اور سماج کو ذات برادری میں بانٹ کر جو جنگل راج قائم کیا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔اگر بی جے پی بہار میں ہار گئی تو پاکستان میں خوشی کے پٹاخے پھوٹیں گے۔چین اور پاکستان اس وقت صرف مودی جی سے ڈرتے ہیں۔
اگر بی جے پی کو بہار میں شکست ہو گئی تو دونوں دشمن ملک اور شیر ہوجائیں گے۔چیف منسٹر نتیش کمار نے گائے رکھشا کے لیے کیا کیا ؟ وہ دو ہزار بارہ میں پاکستان تو چلے گئے مگر بہار کے جس گوتم بودھ کو ماننے والے سری لنکا سے جاپان تک بستے ہیں ان سے کبھی ملنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی۔نتیش اور لالو جیت گئے تو پسماندہ طبقات کا مختص تعلیمی و ملازمتی کوٹہ اقلیتوں ( مسلمانوں ) کو بانٹ دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
بی جے پی نے بہار فتح کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔الیکشن مہم کے نگراں خود بی جے پی کے صدر امیت شاہ بنے۔وزیراعظم مودی نے ریاست کے طول و عرض میں اکتیس بڑے جلسوں سے خطاب کیا جو کسی بھی وزیرِ اعظم کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔بہار کے لیے مودی نے انتخابی مہم شروع ہونے سے مہینہ بھر پہلے ہی سوا لاکھ کروڑ روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔
مگر اس چکا چوند میں بی جے پی کے سیاسی جرنیل یہ دیکھنے سے قاصر رہے کہ بہار میں پچھلے دس برس کے دوران نتیش کمار کی وزارتِ اعلی میں جتنی ترقی ہوئی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔بہاریوں کو خزانے کی جھلک دکھانے والے ارہر اور دیگر دالوں کی قیمتیں آسمان سے زمین پر لانے میں ناکام رہے جو پچھلے تین ماہ کے دوران دو سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس سینتیس سالہ بہاری نوجوان پرشانت کشور اور اس کی ٹیم نے دو ہزار بارہ کے گجرات الیکشن میں مودی کو گڈ گورننس کا برانڈ بنایا اور پھر دو ہزار تیرہ کی عام انتخابات کی ڈجیٹل مہم ''چائے پے چرچا'' اور '' اچھے دن آنے والے ہیں '' کے نعرے پر ڈیزائن کرکے مودی برانڈ کو بے تحاشا کامیابی دلوائی۔وہ پرشانت کشور بھی پریشان ہو کر نتیش کمار کے پاس چلا گیا اور اس نے '' ہر گھر پر دستک '' کے نعرے کے گرد بی جے پی مخالف اتحاد ''مہا گٹھ بندھن ''کی انتخابی مہم ڈیزائن کر کے مودی لشکر کو بہار کی دھلیز پر روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہار اسمبلی کی دو سو تینتالیس سیٹوں میں سے بی جے پی اور اس کے اتحادی صرف اٹھاون سیٹیں جیت پائے حالانکہ پچھلے ریاستی انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے اکیانوے اسٹیٹں حاصل کی تھیں۔ان انتخابی نتائج کے سبب بائیں بازو اور سیکولر جماعتوں کے تنِ مردہ میں جان پڑ گئی ہے جنھیں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پہلے تو مودی لہر بہا کر لے گئی اور پھر مودی کی پالیسیوں نے ہی انھیں زندہ کردیا۔
پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا کی دو سو پینتالیس سیٹوں میں سے بی جے پی کے پاس اس وقت تریسٹھ سیٹیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایوانِ زیریں لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود بی جے پی راجیہ سبھا میں حزبِ اختلاف کی خوشنودی کے بغیر کوئی قانون منظور نہیں کروا سکتی۔جب دو ہزار سترہ میں بہار سے راجیہ سبھا کے نئے ارکان لیے جائیں گے تو ایوان میں بی جے پی کی اکثریت اور کم ہوجائے گی۔
اب مودی کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ آر ایس ایس کو سمجھائیں کہ بھارت کو ہندوتوا مخالفین سے ہر طرح سے پاک کرنے کی لاحاصل مشق کے بجائے اقتصادی اصلاحات پر عمل کرنے دیا جائے یا پھر مودی اور آر ایس ایس مل کر ملک میں اتنی نفرت بڑھا دیں کہ ہندو اکثریتی ووٹ بینک حوفزدہ ہو کر ان کے ساتھ چمٹا رہے۔مگر بہار میں شکست کے بعد پلان بی پر عمل درآمد اور مشکل ہوجائے گا۔آر ایس ایس کے لیے بری سہی مگر باقی بھارت کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔