نواز حکومت کشمیر کا ایک بار پھر سودا

ممکن ہے کہ نواز شریف صاحب نے فوج کو وہاں ’’مارنے‘‘ کی کوشش کی ہو جہاں اسے چوٹ لگے اور وہ بہترین جگہ کشمیر ہی ہے۔

شکست کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب مہم چلانے کا وقت آیا تو نواز حکومت نے انتہائی با اثر اور متحرک سفیر ضمیر اکرم صاحب کو تبدیل کردیا اور نیا سفیر مقرر کردیا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR:
اقوامِ متحدہ کے اہم ترین اداروں میں سے ایک، کونسل برائے انسانی حقوق (United Nations Human Rights Council UNHRC) ہے جو کہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں عالمی ایجنڈا متعین ہوتا ہے اور پھر یہی ایجنڈا سلامتی کونسل (United Nations Security Council UNSC) میں پیش ہوتا ہے اور جنگ و امن سمیت باقی تمام معاملات سلامتی کونسل میں طے پاتے ہیں، یعنی کونسل برائے انسانی حقوق کی اہمیت سے بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی اہمیت بھی اپنی جگہ مُسلَّم ہے۔

دیگر فورمز کی طرح کونسل برائے انسانی حقوق میں بھی ہر 3 سال بعد رکنیت کیلئے انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان سال 2006 سے کونسل برائے انسانی حقوق کا رُکن رہا ہے لیکن اس سال پاکستان ان انتخابات میں حیرت انگیز طور پر ہار گیا، حیرت انگیز اِس لیے کہ پاکستان تو کیا اِس شکست کے بارے میں سوچتا، بلکہ اُس کا دشمن بھارت بھی ایسا نہیں سوچ رہا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اِس شکست کو ہندوستان میں بھی حیرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اب پاکستان کی حیثیت کونسل میں محض ایک آبزرور کی ہے جو کچھ بول نہیں سکتا بس تماشا دیکھ سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ رکنیت کی میعاد 31 دسمبر 2015 تک ہے لیکن اگلے 3 سالوں کیلئے پاکستان بس ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان کی رائے کو اس بین الاقوامی فورم میں ہمیشہ ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے جس کی وجہ پاکستان کی بہترین سفارتکاری اور ہمارا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ سال 2014 میں پاکستان نے اسی فورم پر امریکہ سمیت دیگر سپر پاروز کی موجودگی کے باوجود ڈرون حملوں کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی اور یہ ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی تھی جس کا ہمارے میڈیا کو آج تک شاید پتہ بھی نہ ہو، کیونکہ ہمارے ہاں عالمی میڈیا میں امریکی، برطانوی اور ہندوستانی میڈیا کودیکھا جاتا ہے جہاں پاکستان کو ہمیشہ''نیچے'' دکھایا جاتا، جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برخلاف ہے۔

بات ہو رہی تھی پاکستان کے انتخابات ہارنے کی، دفترِ خارجہ کے مطابق یہ ایک پسپائی ہے جس کی کچھ ''بتائی جانے والی'' وجوہات یہ ہیں،

  • آسیان ممالک (Association Of Southeast Asian Nations ASEAN) کا پاکستان کو ووٹ نہ دینا۔

  • جی سی سی ممالک (Gulf Cooperation Council GCC) کا پاکستان کو ووٹ نہ دینا۔

  • او آئی سی ممالک (Organisation Of Islamic Cooperation OIC) کا پاکستان کو ووٹ نہ دینا۔

  • مغربی ممالک کی پاکستان مخالفت، اور

  • ہندوستانی لابی کا متحرک ہونا۔


یہ وہ وجوہات ہیں جو بتائی جا رہی ہیں اور بظاہر نظر آرہی ہیں، لیکن ''پردے کے پیچھے'' خاموشی کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہوا جو کہ منظرِعام پر نہیں آیا، اب ہم ذرا ان اصل وجوہات پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔

  • انتخابات سے چند روز پہلے اچانک اور بغیر کسی وجہ کے اقوامِ متحدہ میں موجود انتہائی قابل اور متحرک پاکستانی سفیر ضمیر اکرم صاحب کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ایک نئے سفیر کو مقرر کر دینا۔


  • نئے آنے والے سفیرکو انتخابی مہم چلانے کیلئے بہت کم وقت مِلنا۔

  • پاکستان کو ایک ایسے وقت میں کشمیر کی آواز بلند کرنے سے باز رکھنا جب پاکستان کشمیر کے معاملے پر فرنٹ فُٹ پر کھیل رہا ہے اور ہندوستان بیک فُٹ پر ہے۔

  • نواز حکومت کو اپنے دور کے باقی 3 سالوں میں مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر پیچھے ڈال دینے کا موقع فراہم کرنا کیونکہ یہ عین وہی 3 سال ہیں جن میں پاکستان کے پاس اقوامِ متحدہ میں بھی رکنیت نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان کشمیر پر بات نہیں کرسکتا۔ پاکستان 2016 سے 2018 تک اقوامِ متحدہ کا رُکن نہیں ہوگا اور یہی 3 سال نواز حکومت کے باقی ہیں۔


تو یہ ہیں جناب اصل وجوہات! اب ہم ''بتائی جانے والی'' وجوہات کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ جس طرح انتخابات سے پہلے انتخابی مہم چلائی جاتی ہے بالکل اسی طرح اقوامِ متحدہ میں بھی انتخابی مہم چلائی جاتی ہے، اپنے پڑوسی اور دوست ممالک کے سفیروں سے بات چیت اور ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے دوست اور پڑوسی ممالک کو پاکستان کو ووٹ دینے کیلئے راضی کریں، لیکن جب یہ کام کرنے کا موقع آیا تو نواز حکومت نے انتہائی با اثر اور متحرک سفیر ضمیر اکرم صاحب کو تبدیل کردیا اور نیا سفیر مقرر کردیا، ظاہر ہے نئے شخص کو نظام سمجھنے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جو کہ اس اچانک تبدیلی کی وجہ سے نہیں ہوسکی۔

جی سی سی اور او آئی سی ممالک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کیونکہ پاکستان نے یمن کے معاملے میں عرب ممالک کا ساتھ نہیں دیا تھا اس لئے وہ ناراض ہیں اور ووٹ نہیں دیا، لیکن یہ بات درست نہیں بلکہ یہاں بھی لابنگ کا نہ ہونا وجہ ہے کیونکہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے صدر جناب خلیفہ بن زائد النہیان نے سوات میں 100 بستروں کے اسپتال کاافتتاح کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورۂ سعودی عرب اور کچھ عرصہ پہلے ہونے والی پاک سعودیہ مشترکہ جنگی مشقیں اس بات کی عکاس ہیں کہ ملکی معاملات میں ناراضگیاں نہیں چلتیں بلکہ مفادات دیکھے جاتے ہیں۔

مغربی ممالک کی مخالفت کب نہیں رہی؟ اِس پر بات کرنا اور اُن سے اُمید رکھنا ویسے ہی فضول ہے، رہی بات ہندوستانی لابی کی تو وہ لابی تو 2006 میں زیادہ طاقتور تھی اور اس وقت پاکستان کشمیر کا نام تک نہیں لیتا تھا پھر بھی پاکستان انتخابات میں جیتتا رہا اور مسلسل 9 سالوں تک رُکن رہا تو اب ایسا کیا ہوگیا جو ہندوستانی لابی کا بہانہ بنایا جا رہا ہے جب وہ کمزور ہیں اور بیک فُٹ پر ہیں؟

ہمارے میڈیا میں اس مسئلے کی کوئی باز گشت سنائی نہیں دیتی سوائے ایک صحافی، احمد قریشی صاحب کے جو کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ اپنے ٹی وی پروگرام میں اُٹھاتے رہتے ہیں، اب وجہ صرف ایک ہی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ دانستہ یہ کام وزارتِ خارجہ یا نواز حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے۔ عین وقت پر سفیر کو تبدیل کردیا گیا تاکہ ان کی حکومت کے باقی 3 سالوں میں ان کی جان کشمیر کے مسئلے سے چھوٹی رہے، اوفا میں بھی یہی کام کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اب مسئلہ کشمیر پر کاری ضرب لگائی گئی ہے تاکہ ایک بار پھر اس مسئلے کو پیچھے ڈال دیا جائے اور شاید ایک بار پھر کشمیر پر سودا کرنے کی کوشش کی جائے، ہندوستان سے پینگیں بڑھائی جائیں اور وہاں اپنے کاروبار کو مزید ترقی دی جائے، جس ہندوستانی لابی کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے وہ شاید خود وزارتِ خارجہ یا نواز حکومت کے اندر موجود ہے۔

کشمیر کے مسئلے کو اِس طرح ٹارگٹ کرنے کی ایک اور ممکنہ وجہ نواز شریف صاحب کی فوج کے ساتھ فطری، روایتی اور پرانی ٹسل بھی ہوسکتی ہے۔ اس وقت عوامی رائے بھی یہی ہے کہ ملک منتخب حکومت نہیں بلکہ آرمی چیف چلا رہے ہیں، فوج ہمیشہ کشمیر کے معاملے میں حساس رہی ہے تو ممکن ہے کہ نواز شریف صاحب نے فوج کو وہاں ''مارنے'' کی کوشش کی ہو جہاں اسے چوٹ لگے اور وہ بہترین جگہ کشمیر ہی ہے۔ اب ان سوالوں کے جوابات وزارتِ خارجہ یا نواز حکومت ہی دے سکتی ہے۔۔۔

[poll id="755"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story