پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل نہیں چلے گا سپریم کورٹ
اٹارنی جنرل وزیراعظم کو بھی بتادیں، 31جولائی 2009ء کے فیصلے میں واضح کیا جاچکا، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اگر آئی ایس آئی یعنی انٹرسروسز انٹیلی جنس میں کوئی سیاسی سیل موجود ہے بھی تو وہ اب کام نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل نہیں چلے گا۔
3نومبر 2007ء کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نافذ کی گئی ایمرجنسی کے خلاف عدالت کے 31جولائی 2009ء کے فیصلے میں یہ واضح کیا جاچکا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چونکہ وزیراعظم کے ماتحت ہے اس لیے ان کے نوٹس میں بھی لائیں کہ اب اس ادارے میں کوئی سیاسی سیل کام نہیں کرسکتا۔
پیر کو سیاست میں فوج کی مداخلت اور آئی ایس آئی کے ذریعے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے خلاف دائر اصغر خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ سرکاری خزانے کو منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے استعمال کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔کیس کی سماعت کرنے والے بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے جو سمری وزارت قانون کو بھیجی تھی اس کا جائزہ لیا جائے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ سمری سر بہ مہر کر کے عدالت میں پیش کی جائے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس سمری سے متعلق کچھ دستاویزات اٹارنی جنرل آفس میں بھی بھیجی گئی تھیں انھیں وہاں بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ وزارت قانون اور کابینہ ڈویژن کا سارا ریکارڈ تلاش کیا گیا لیکن نوٹیفکیشن کہیں نہیں مل رہا۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ اسد درانی کے جوابات سے ایک بات واضح ہوئی ہے کہ آئی ایس آئی نے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کیں تاہم اس بات کا پتا نہیں چل رہا کہ کتنی رقم تقسیم کی گئی اور کس کس سیاستدان کو رقم دی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو قومی خزانے سے کسی بھی حکومت کو خراب کرنے یا اس کے خلاف سازش کرنے کا حق نہیں۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس معاملے میں سختی سے نمٹے گی تاہم اس حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کرنے ہوں گے۔ عدالت نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کی تشکیل کا نوٹفکیشن پیش نہ کرنے پر سخت نو ٹس لیا اور اٹارنی جنرل کو اگلی سماعت سے پہلے ہر حال میں نوٹیفکیشن پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سیکریٹری دفاع نر گس سیٹھی خود پیش ہوئیں اور عدالت کو بتایا کہ نوٹیفکیشن تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے، اس ضمن میں کابینہ ڈویژن اور ملٹری ونگ کا ریکارڈ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے عدالت سے مزید مہلت کی درخواست کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 39 سال پرانا نوٹیفکیشن ہے ڈھونڈنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ وزارت دفاع ملٹری ونگ کے ڈی جی بریگیڈئیر شہباز بھی پیش ہوئے اور بتا یا کہ نوٹیفکیشن تا حال نہیں مل سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت اہم دستاویز ہے اس کے حوالے سے اتنی غفلت نہیں برتنی چا ہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان باتوں کو بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں جس ادارے کی جو ذمے داری ہے، اسے وہی نبھانی چا ہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط اور عدلیہ کو کمزور کرنے کی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس اہم مقدمے میں ابھی تک ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع نرگس سیٹھی نے کہا کہ دونوں ایجنسیاں اپنا موقف خود عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ہمیں ڈر ہے کہیں بنگلہ دیش ماڈل نہ آجائے کیونکہ آج بھی حمید گل ٹی وی پر بیٹھ کر اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی غیر آئینی اقدام کی تو ثیق نہیں کرے گی۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹص نے کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا نظام نہیں چلے گا، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اس بات کی دلیل ہے کہ نظام چل رہا ہے تین دنوں میں نئے وزیر اعظم کا آنا نظام کے تسلسل کی دلیل ہے۔
خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں ایجنسیوں کا کردار غیر أئینی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نظام چلتا ہے، افراد آتے جاتے ہیں، آج وہ جج ہیں کل ان کی جگہ کوئی اور ہوں گے۔ فاضل جج نے کہا کہ قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو نا گزیر کہلاتے تھے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی اور رقوم کی تقسیم کے حوالے سے وزارت قانون کی طرف سے پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کا دیگر ذرائع سے جمع کی جانے والی رپورٹ سے موازانہ کرنے کی ہدایت کی گئی جبکہ اسد درانی سے اس رپورٹ پر جواب طلب کرلیا گیا۔
3نومبر 2007ء کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نافذ کی گئی ایمرجنسی کے خلاف عدالت کے 31جولائی 2009ء کے فیصلے میں یہ واضح کیا جاچکا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چونکہ وزیراعظم کے ماتحت ہے اس لیے ان کے نوٹس میں بھی لائیں کہ اب اس ادارے میں کوئی سیاسی سیل کام نہیں کرسکتا۔
پیر کو سیاست میں فوج کی مداخلت اور آئی ایس آئی کے ذریعے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے خلاف دائر اصغر خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ سرکاری خزانے کو منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے استعمال کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔کیس کی سماعت کرنے والے بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے جو سمری وزارت قانون کو بھیجی تھی اس کا جائزہ لیا جائے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ سمری سر بہ مہر کر کے عدالت میں پیش کی جائے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس سمری سے متعلق کچھ دستاویزات اٹارنی جنرل آفس میں بھی بھیجی گئی تھیں انھیں وہاں بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ وزارت قانون اور کابینہ ڈویژن کا سارا ریکارڈ تلاش کیا گیا لیکن نوٹیفکیشن کہیں نہیں مل رہا۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ اسد درانی کے جوابات سے ایک بات واضح ہوئی ہے کہ آئی ایس آئی نے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کیں تاہم اس بات کا پتا نہیں چل رہا کہ کتنی رقم تقسیم کی گئی اور کس کس سیاستدان کو رقم دی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو قومی خزانے سے کسی بھی حکومت کو خراب کرنے یا اس کے خلاف سازش کرنے کا حق نہیں۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس معاملے میں سختی سے نمٹے گی تاہم اس حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کرنے ہوں گے۔ عدالت نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کی تشکیل کا نوٹفکیشن پیش نہ کرنے پر سخت نو ٹس لیا اور اٹارنی جنرل کو اگلی سماعت سے پہلے ہر حال میں نوٹیفکیشن پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سیکریٹری دفاع نر گس سیٹھی خود پیش ہوئیں اور عدالت کو بتایا کہ نوٹیفکیشن تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے، اس ضمن میں کابینہ ڈویژن اور ملٹری ونگ کا ریکارڈ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے عدالت سے مزید مہلت کی درخواست کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 39 سال پرانا نوٹیفکیشن ہے ڈھونڈنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ وزارت دفاع ملٹری ونگ کے ڈی جی بریگیڈئیر شہباز بھی پیش ہوئے اور بتا یا کہ نوٹیفکیشن تا حال نہیں مل سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت اہم دستاویز ہے اس کے حوالے سے اتنی غفلت نہیں برتنی چا ہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان باتوں کو بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں جس ادارے کی جو ذمے داری ہے، اسے وہی نبھانی چا ہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط اور عدلیہ کو کمزور کرنے کی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس اہم مقدمے میں ابھی تک ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع نرگس سیٹھی نے کہا کہ دونوں ایجنسیاں اپنا موقف خود عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ہمیں ڈر ہے کہیں بنگلہ دیش ماڈل نہ آجائے کیونکہ آج بھی حمید گل ٹی وی پر بیٹھ کر اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی غیر آئینی اقدام کی تو ثیق نہیں کرے گی۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹص نے کہا کہ پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا نظام نہیں چلے گا، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اس بات کی دلیل ہے کہ نظام چل رہا ہے تین دنوں میں نئے وزیر اعظم کا آنا نظام کے تسلسل کی دلیل ہے۔
خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں ایجنسیوں کا کردار غیر أئینی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نظام چلتا ہے، افراد آتے جاتے ہیں، آج وہ جج ہیں کل ان کی جگہ کوئی اور ہوں گے۔ فاضل جج نے کہا کہ قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو نا گزیر کہلاتے تھے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی اور رقوم کی تقسیم کے حوالے سے وزارت قانون کی طرف سے پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کا دیگر ذرائع سے جمع کی جانے والی رپورٹ سے موازانہ کرنے کی ہدایت کی گئی جبکہ اسد درانی سے اس رپورٹ پر جواب طلب کرلیا گیا۔