بہار میں بی جے پی کا دھڑن تختہ

یہ درست ہے کہ بی جے پی کو جھارکھنڈ اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں کچھ انتخابی کامیابی نصیب ہوئی

MULTAN:
آیا نریندر مودی کا جادو ماند پڑ گیا یا انتخابی حکمت عملی کی تیاری میں خامی تھی لیکن جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی کا دھڑن تختہ ہو گیا ہے۔ بی جے پی بظاہر بہادری سے ڈٹ کر کھڑی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کو جو سیاسی نقصان ہوا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس کے خلاف اتحاد کر لیا تھا۔

بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج نے صرف بی جے پی کو ہی نہیں بلکہ بالخصوص وزیر اعظم مودی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کے منہ پر ایک جھانپڑ رسید کر دیا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں تو ووٹوں کی گنتی کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھیں جب کہ پارٹی کے اندرونی حلقوں سے مخالفانہ آوازیں دن بدن بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں ان میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ روایت ہے کہ انتخابات کے بعد نتائج کا تجزیہ کیا جاتا ہے لیکن بہار کے انتخابات کا تجزیہ در تجزیہ بار بار کیا جائے گا۔

اس سے قبل کوئی بھی انتخاب اس بری طرح سے فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوا اور نہ ہی سیاست میں اسقدر تقسیم در تقسیم اور مذہبی عدم برداشت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور نہ ہی کوئی ایسے اسمبلی انتخابات ہوئے جس میں درجنوں وفاقی وزراء نے انتخابی مہم میں حصہ لیا ہو اور نہ ہی کسی وزیراعظم نے 30 ریلیوں سے خطاب کیا۔

پارٹی کے صدر امیت شاہ انتخابی حکمت عملی کی تیاری کے لیے 8 ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے بہار میں براجمان تھے تاہم جب نتائج کا اعلان ہوا تو سیاسی جماعتوں کے بڑے اتحاد کی کامیابی سامنے آ گئی۔ نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو نے کانگریس کے ساتھ مل کر جو اتحاد بنایا گیا تھا وہ خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے۔ نتیش کمار' لالو پرشاد یادیو نے کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد بنایا جب کہ کانگریس 2014ء کی انتخابی شکست کا بدلہ لینا چاہتی تھی، وہ بڑی خاموشی کے ساتھ بھاری اکثریت سے جیتنے کی منصوبہ بندی کرتی رہی۔

انھوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی کی تقسیم در تقسیم پالیسی کے بجائے سماجی بہبود اور اقتصادی ترقی کے نعرے کا سہارا لے کر میدان مار لیا۔ آخر میں تو ایسے ظاہر ہوا جیسے بہار کے عوام نے بی جے پی کو یکسر مسترد کر دیا ہے جو کہ 2014ء میں اقتدار میں آئی تھی اور مودی گجرات ماڈل کو اپنی کامیابی کی علامت کے طور پر ظاہر کر رہے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو سب سے پہلے دہلی میں مسترد کیا گیا جب عام آدمی پارٹی (عاپ) 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر اقتدار میں آ گئی۔

یہ درست ہے کہ بی جے پی کو جھارکھنڈ اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں کچھ انتخابی کامیابی نصیب ہوئی جب کہ ریاست جموں اور کشمیر میں اس نے پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (PDP) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کر لی لیکن بہار وہ ریاست تھی جس میں بی جے پی کو جیتنے کی سب سے زیادہ امید تھی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ میرے خیال میں اس بات کی بے شمار وجوہات ہیں جنہوں نے بی جے پی کی شکست میں کردار ادا کیا۔ ان میں ایک تو معاشرے میں تقسیم در تقسیم کی کوششیں' دوسرا قبائلیوں کے لیے کوٹہ مقرر کرنا (ریزرویشن) تیسرے گائے کُشی کا معاملہ وغیرہ۔ حالانکہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ نتیش کمار نے گزشتہ دو ٹرموں میں بہت اچھی گورننس کا مظاہرہ کیا تھا۔

چھوٹے چھوٹے مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے جیسے کہ جتم رام منجی نے بھی ریاست پر مختصر عرصے کے لیے حکومت کی تھی جس کے لیے اسے نتیش کمار کا شکر گزار ہونا پڑا۔ بالفاظ دیگر بہار کے ووٹر چاہتے تھے کہ نتیش کمار کی حکومت جاری رہے کیونکہ اس کی گورننس بہت اچھی تھی حالانکہ نتیش کمار نے اپنے ایک پرانے حریف لالو یادیو کے ساتھ الحاق کر لیا تھا جو کہ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے سربراہ ہیں۔ آر جے ڈی ممکن ہے کہ جنتا دل یونائیٹڈ سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیتی اور اس صورت میں عین ممکن تھا کہ کابینہ کی تشکیل کے موقع پر لالویادیو اس سے آدھا کلو جسمانی گوشت طلب کر لیتے (اشارہ شائیلاک کی کہانی کی طرف ہے)۔ مجھے اس بارے میں مکمل یقین ہے کہ نتیش بہت اچھے طریقے سے حکومت کریں گے اور جن لوگوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ انھیں کسی صورت مایوس نہیں کریں گے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ کانگریس اپنے ارد گرد کے حالات کو نظرانداز نہیں کرے گی کیونکہ اسمبلی میں اس کی خاصی نشستیں ہیں۔


مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ لالویادیو نے نتیش کی بہار پر حکومت کے بارے میں کیا کہا البتہ اس کا زیادہ فوکس مودی کی مرکزی حکومت پر تھا۔ مجھے یہ سرگوشیاں بھی سنائی دیں کہ لالویادیو کے بیٹوں کو کابینہ کے وزراء کے طور پر نامزد کیا جا رہا ہے جب کہ ان میں سے ایک نائب وزیراعلیٰ بھی ہو گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نتیش کو بی جے پی اور اس کی حریف این ڈی اے کے مابین ایک توازن قائم کرنا ہو گا جو کہ دونوں اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ کب وہ سارے کا سارا سودا جھپٹ لیں۔

مجھے اس بات میں غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ بی جے پی سے کیا غلطی ہوئی کیونکہ اس پارٹی کے اپنے ''پَول منیجرز'' ساری صورت حال کا تجزیہ کریں گے لیکن جو بات میں بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ بہار کے انتخاب نے مستقبل میں ہونیوالے انتخابات کے لیے ایک راستہ متعین کر دیا ہے۔ تین ریاستوں میں جن میں آسام، مغربی بنگال اور تامل ناڈو شامل ہیں یہاں آیندہ سال انتخابات ہوں گے۔ علاقائی پارٹیاں ممکن ہے کہ ریاست بہار کے ماڈل پر بعض اتحاد قائم کر لیں تا کہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو ناکوں چنے چبوائے جا سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ریاست کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور تعمیر و ترقی کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے کہ کس طرح مقامی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے لیکن صرف ایک شاطرانہ امتزج جس طرح کہ نتیش کمار اور لالو یادیو کے مابین قائم ہوا جن کے مقامی ووٹروں کی نبض پر ہاتھ تھے۔ بہار میں یہی ان کی فتح کی کلید تھی۔ انتخابات سے پہلے کیے جانے والے رائے عامہ کے تجزیے بہت مختصر اور مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جانے چاہئیں۔

جہاں تک مودی اور امیت شاہ کی قیادت کے ماڈل کا تعلق ہے تو مجھے بصد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہو گئے تھے۔ ان کا تکبر انتخابی مہم کے دوران نمایاں تھا اور غالباً یہی پارٹی کی شکست کی بنیادی وجہ تھی اور بے شک آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے ''ریزرویشن'' کا سوال اٹھا کر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا حتی کہ بہار میں بی جے پی کی قیادت نے ایسے بیانات دیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے بعض معاملات میں کیا طرز عمل اختیار کرنا ہے جب کہ آر ایس ایس کے سربراہ کا بیان تو قطعی طور پر بہار کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی اپنا راستہ کھو بیٹھے ہیں اور انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ نوکرشاہی کی مشکلات پر کس طرح قابو پایا جائے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو ان سے پہلے حکومت کرنیوالوں کو بھی درپیش تھا۔ پارٹی نے جن اقتصادی اصلاحات کا اعلان کیا تھا ان کے نتیجے میں ملک کا رجحان انتہائی دائیں بازو کی طرف ہو گیا جس پر انھیں کوئی خجالت نہیں۔

اگر جواہر لعل نہرو کا سوشلسٹک نمونہ ترک کر دیا گیا تو پھر بی جے پی یہ تاثر بھی قائم کرنے میں ناکام رہے گی کہ وہ امیروں اور کارپوریٹ کلچر کے حق میں ہے کیونکہ ملک کے عوام کی اکثریت غریب ہے جن کے لیے دائیں بازو کی پالیسی بے معنی ہو گی۔ ملک میں امیر غریب کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھ رہا ہے جس کا مداوا کرنا حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ مودی اور ان کی پارٹی جس قدر جلد اس کا احساس کر لیں اتنا ہی بہتر ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story