ہینڈ شیک ڈپلومیسی
وقت بدلا تو ڈپلومیسی کی اصطلاحات بھی بدلتی گئیں خصوصاً چینی سیاسی اصطلاحات تیزی سے بدلتی گئیں
وقت بدلا تو ڈپلومیسی کی اصطلاحات بھی بدلتی گئیں خصوصاً چینی سیاسی اصطلاحات تیزی سے بدلتی گئیں۔ پاکستان کی آزادی کے دو برس بھی نہ گزرے تھے کہ چین ایشیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ مگر پاکستان کی آزادی کا موازنہ چین کی آزادی سے بالکل نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز 1857ء سے ہوا جو ہتھیار کی مدد سے شروع ہوئی تھی گو کہ بظاہر ناکام ہوئی مگر اس کی جنگ آزادی کے طور طریقے بدلتے رہے وقت گزرتا گیا انگریزی سامراج جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا وہ مسلسل جدوجہد خصوصاً اہنسا کے طور طریقے اور ہڑتالوں کے طریقے نیوی کی بغاوت، بھگت سنگھ کے طریقہ بغاوت، گاندھی، نہرو اور قائد اعظم کے آزادی کے انداز نے انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔
برصغیر میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ان لیڈروں کو ان گزرگاہوں سے نہیں گزرنا پڑا جس سے چین کے لیڈروں کو گزرنا پڑا تھا۔ ہمارے علاقے میں برطانوی سامراج نے انخلا کا وہ انداز اپنایا کہ یہاں خلا پیدا نہ ہو اور ہند کی تقسیم کے اثاثہ جات بھی باقاعدگی سے تقسیم ہوئے۔ یہاں تک کہ فوج کی تقسیم کی پالیسی بھی بنائی گئی۔ لیڈروں میں یہاں تک کہ نچلے درجے کے لیڈروں میں بھی قتل و غارت گری نہ ہوئی یہ الگ بات تھی کہ انگریز نے عوام الناس میں نفرت کے بیج بوئے اور ہندو مسلم قتل و غارت گری کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر نفرتوں کے پرخار جنگلات میں تبدیل ہو گئے۔
گاندھی، نہرو اور قائداعظم ایک ہی وقت کے رہنما تھے بلکہ محمد علی جناح بھی ایک وقت کانگریس میں تھے اور اس کے بھی رہنما تھے۔ کیونکہ وہ کانگریس کی سیکولر پالیسی سے متفق تھے وہ الگ بات تھی کہ انھیں کانگریس کی پالیسی پر مکمل اعتماد نہ تھا کہ وہ سیکولر پالیسی پر اتفاق تو کرتے ہیں مگر وہ عملی طور پر اس کو پریکٹس نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قائداعظم کو کانگریس چھوڑنی پڑی کیونکہ پاکستان اور بھارت کے لیڈر ایک ساتھ برطانیہ کے خلاف جدوجہد کرتے تھے اس لیے ان میں ماضی کی رواداری تھی۔ اس کی ایک جھلک قائداعظم کی وہ تقریر جو 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی جہاں قائداعظم نے پاکستان کو مسلمانوں کی ریاست تو کہا مگر اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق پر کھل کر بیان دیا۔
غرض چین کو ایسے حالات کا سامنا نہ تھا کہ وہ تقسیم ہو جاتے۔ وہاں پر بھی جو حالات گزرے وہ بھی کم خطرناک نہ تھے۔ یہاں پر مذہب کے نام پر لوگ قتل ہوئے وہاں جنگ آزادی کی وجہ سے جیسے برصغیر پاک و ہند کی ایک عظیم تاریخ ہے وہاں چین کی بھی اپنی ایک طویل تہذیب و ثقافت ہے۔
دیوار چین کو ہی لے لیجیے جو آج سے 2000 سال پرانی ہے جو وہاں کے حکمرانوں نے بنوائی تھی چین کے پہلے حکمران خاندانی بادشاہت کے سلسلے تھے۔ چین پر بیرونی حملے کم ہوئے 1271ء میں قبلائی خان نے حملہ کیا تھا پھر 1894ء میں چین جاپان لڑائی ہوئی اور پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی جاپان نے حملہ کیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ چین میں ان دو جنگوں میں تقریباً 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ جاپانیوں نے ان پر ایسے مظالم کیے کہ آج تک چین اور جاپان کے تعلقات مثبت نہ ہو سکے۔
دوسری وجہ چین روس کا اتحادی رہا اور جاپان امریکا کا، دراصل چین اور روس کے درمیان ایک ایسا دور آیا جب چین میں 1960ء کی دہائی میں ثقافتی انقلاب کا دور آیا۔ اس میں چین کے معروف لیڈر معتوب ہوئے تھے۔ مگر چین کے لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل روس نے 60,000 کمیونسٹ رضاکار چین بھجوائے اور یہی رضاکار اس وقت کام آئے جب قوم پرست گروپ کے رہنما جو ایک وقت لانگ مارچ میں کمان دار کی پوزیشن رکھتے تھے اور اپنے کو کومنتانگ پارٹی کے ورکرز کو کمیونسٹ نظریات سے الگ کرنا شروع کیا اور درمیان میں جنگ شروع ہو گئی۔
یہ وہ کھیل نہ تھا جو اکثر پاکستان میں لیڈران ہوائی جہاز اور ریل میں بیٹھ کر اسلام آباد جاتے ہیں اور لانگ مارچ کی آواز لگاتے ہیں بلکہ 8000 میل لمبا مارچ تھا چیانگ کائی شیک جو مغربی ممالک کے طرز حکومت کے حامی تھے چین پر قبضہ چاہتے تھے مگر پرجوش چین اور روس کے والنٹیئر نے چیانگ کائی شیک کی فوج کو پسپا کردیا۔ ہر روز لانگ مارچ کے اہداف تھے کہ کم از کم 8 تا 10 میل علاقے کو آزاد کرانا ہے اور وہاں کسانوں کی کمیٹی قائم کرتے جانا ہے۔ لانگ مارچ میں دو لاکھ چینی گھروں سے سر پر کفن باندھ کے نکلے تھے اور اپنے ساٹھ ہزار ساتھیوں کو لے کر چلے جو روس سے آئے تھے۔
جب لانگ مارچ میں شنگھائی ماؤزے تنگ کی فوجوں کے ہاتھ آ گیا تو چیانگ کائی شیک کو شکست کا احساس ہو چلا تھا آخر کار چیانگ کائی شیک پسپا ہو کر تائیوان تک محدود ہو گئے۔ بہت عرصے تک چین کو سفارتی طور پر دو چین کے نظریہ کے تحت امریکا چلاتا رہا بالآخر حقیقت تو سامنے آنی تھی۔ آخرکار چین دنیا کے بلند مقام پر فائز ہو کے رہا۔ کیونکہ وہاں کے لیڈروں نے ایثار اور قربانی کو مدنظر رکھا۔ اپنے بینک بیلنس نہ بنائے، سیاست میں خاموشی اختیار کی۔ لیکن اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
سیاسی طور پر وہ اس وقت روس کا زبردست حامی بن گیا ہے بلکہ یہاں تک کہ فار ایسٹ اور برصغیر میں روس نے چین کو اپنے اہداف دے رکھے ہیں۔ برصغیر، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں روس نے اپنے اتحادیوں کو متحد کرنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ وہ سرد جنگ کے سوویت دور میں تھا۔ اس وقت شمالی کوریا اور چین کا ایک اعلیٰ سطح کا ملٹری وفد شمالی کوریا اور چین کے دورے پر ہے۔ عالمی سطح پر جو بھی اقدامات چین اٹھا رہا ہے وہ سب روس کی ایما پر کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ شام کے مسئلے پر چین روس کے اقدامات کی تائید کر رہا ہے۔
اس لیے بھارت کی جو چھیڑ چھاڑ کی سیاست ہے وہ بھی وقتی طور پر ہے اور ہمارے خطے میں جنگ کے بادل زیادہ دیر نہیں رہیں گے۔ نریندر مودی جو چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے وہ محض سرمایہ داروں کی پشت پناہی پر کر رہے تھے۔ وہ چھیڑ چھاڑ ان کو رسوا کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ خود اپنے دستور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں کیونکہ سیکولر ازم تو ان کے دستور کا حصہ ہے مگر وہ کاربند فسطائیت پر ہیں۔ اس میں سیکولرازم کی خرابی نہیں بلکہ پارٹی کی رجعت پسندانہ سیاست کا دخل ہے۔
اب ذرا باریک بینی سے دیکھیں چین اور تائیوان کے حالات اور بھارت اور پاکستان کے سیاسی حالات بالکل مختلف ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہند برطانیہ کی حکمت عملی سے ہوئی۔ کوئی جنگ نہ ہوئی پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کی رضامندی سے ہوئی، ماسوائے چند ریاستوں کے جہاں بھارت نے ہیرا پھیری سے کام لیا اور کشمیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے تاریخ مسخ ہوتی جا رہی ہے اور حالات بدلتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ بات آج کے لوگوں کو معلوم ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1946ء میں قصہ خوانی بازار پشاور کا وزٹ کیا، فاٹا اور شمالی وزیرستان کا دورہ کیا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب اس علاقے میں خان عبدالغفار خان کی پارٹی برسراقتدار تھی۔ عدم تشدد ان کا نعرہ تھا اور آج پہاڑوں سے دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں ہیں۔
ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کی تنگ نظر مذہبی پارٹیوں نے جن کے افکار سے لیس ایک شخص نے مہاتما گاندھی پر گولی چلائی تھی، وہی پارٹی حکمران ہے۔ اور سیکولرازم جس کا معنی ہر شخص کا دین اس کے ساتھ ہے نہ کہ لادینیت، ورنہ کرناٹک میں یوم ٹیپو سلطان نہ منایا جاتا مگر انتہاپسندوں نے پروگرام کو تباہ کر دیا۔ چین اور تائیوان میں خونریزی کا بڑا دریا حائل تھا پھر بھی چینی صدر ایک معمولی سے جزیرہ نما معمولی رقبے کی چھوٹی سی ریاست کے صدر سے ملنے کے لیے ڈیڑھ ارب کی ریاست کا صدر ہونے کے باوجود ریاست تائیوان کے صدر مازنگ جیو سے ملاقات کے لیے گزشتہ ہفتے سنگا پور نہ جاتے۔ کیونکہ چین کی پالیسی پرامن بقائے باہمی پر مبنی ہے۔ 1949ء کے بعد وہ 68 برس بعد تعلقات بحال کرنے گئے تھے۔
یہ ہیں بڑے لیڈروں کے ذمے دارانہ رویے۔ جنگی اخراجات کے خرچے نہ ہوں تو بہتر ہے تا کہ یہ رقم تعمیری مد میں خرچ ہو، مگر بھارت پاکستان کے تعلقات اس درجہ خراب نہ تھے پاک بھارت وزرائے اعظم آتے اور جاتے رہے۔ لیاقت نہرو پیکٹ اور دریاؤں کی تقسیم کے مسئلے پر صدر ایوب خان اور پنڈت نہرو میں مذاکرات ہوئے تھے۔
بعدازاں بھی روابط رہے مگر پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے طرز پر بھارت میں بھی ایسی تنظیمیں نریندر مودی کی سرپرستی میں سر اٹھا رہی ہیں۔ مگر بھارت کی عام رائے عامہ خود ان جماعتوں کو جلد منطقی انجام تک پہنچا دے گی۔ بھارت نے جب سے امریکا کے ساتھ روابط بڑھائے ہیں وہاں یہ قوتیں سر اٹھا رہی ہیں جو پاک بھارت کے عوام کے لیے بے حد پر خطر ہیں۔ کیونکہ اس خطے میں روس چین سیاسی اتفاق رائے سے کسی نئے طالع آزما کو بڑھنے کی اجازت نہ دے گا۔ لہٰذا جلد یا دیر دونوں ملکوں کو ہینڈ شیک کرنا ہی ہو گا جیسا کہ چین اور تائیوان کے صدور نے کیا اور نئی روایت کا آغاز کیا۔
پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز 1857ء سے ہوا جو ہتھیار کی مدد سے شروع ہوئی تھی گو کہ بظاہر ناکام ہوئی مگر اس کی جنگ آزادی کے طور طریقے بدلتے رہے وقت گزرتا گیا انگریزی سامراج جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا وہ مسلسل جدوجہد خصوصاً اہنسا کے طور طریقے اور ہڑتالوں کے طریقے نیوی کی بغاوت، بھگت سنگھ کے طریقہ بغاوت، گاندھی، نہرو اور قائد اعظم کے آزادی کے انداز نے انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔
برصغیر میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ان لیڈروں کو ان گزرگاہوں سے نہیں گزرنا پڑا جس سے چین کے لیڈروں کو گزرنا پڑا تھا۔ ہمارے علاقے میں برطانوی سامراج نے انخلا کا وہ انداز اپنایا کہ یہاں خلا پیدا نہ ہو اور ہند کی تقسیم کے اثاثہ جات بھی باقاعدگی سے تقسیم ہوئے۔ یہاں تک کہ فوج کی تقسیم کی پالیسی بھی بنائی گئی۔ لیڈروں میں یہاں تک کہ نچلے درجے کے لیڈروں میں بھی قتل و غارت گری نہ ہوئی یہ الگ بات تھی کہ انگریز نے عوام الناس میں نفرت کے بیج بوئے اور ہندو مسلم قتل و غارت گری کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر نفرتوں کے پرخار جنگلات میں تبدیل ہو گئے۔
گاندھی، نہرو اور قائداعظم ایک ہی وقت کے رہنما تھے بلکہ محمد علی جناح بھی ایک وقت کانگریس میں تھے اور اس کے بھی رہنما تھے۔ کیونکہ وہ کانگریس کی سیکولر پالیسی سے متفق تھے وہ الگ بات تھی کہ انھیں کانگریس کی پالیسی پر مکمل اعتماد نہ تھا کہ وہ سیکولر پالیسی پر اتفاق تو کرتے ہیں مگر وہ عملی طور پر اس کو پریکٹس نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قائداعظم کو کانگریس چھوڑنی پڑی کیونکہ پاکستان اور بھارت کے لیڈر ایک ساتھ برطانیہ کے خلاف جدوجہد کرتے تھے اس لیے ان میں ماضی کی رواداری تھی۔ اس کی ایک جھلک قائداعظم کی وہ تقریر جو 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی جہاں قائداعظم نے پاکستان کو مسلمانوں کی ریاست تو کہا مگر اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق پر کھل کر بیان دیا۔
غرض چین کو ایسے حالات کا سامنا نہ تھا کہ وہ تقسیم ہو جاتے۔ وہاں پر بھی جو حالات گزرے وہ بھی کم خطرناک نہ تھے۔ یہاں پر مذہب کے نام پر لوگ قتل ہوئے وہاں جنگ آزادی کی وجہ سے جیسے برصغیر پاک و ہند کی ایک عظیم تاریخ ہے وہاں چین کی بھی اپنی ایک طویل تہذیب و ثقافت ہے۔
دیوار چین کو ہی لے لیجیے جو آج سے 2000 سال پرانی ہے جو وہاں کے حکمرانوں نے بنوائی تھی چین کے پہلے حکمران خاندانی بادشاہت کے سلسلے تھے۔ چین پر بیرونی حملے کم ہوئے 1271ء میں قبلائی خان نے حملہ کیا تھا پھر 1894ء میں چین جاپان لڑائی ہوئی اور پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی جاپان نے حملہ کیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ چین میں ان دو جنگوں میں تقریباً 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ جاپانیوں نے ان پر ایسے مظالم کیے کہ آج تک چین اور جاپان کے تعلقات مثبت نہ ہو سکے۔
دوسری وجہ چین روس کا اتحادی رہا اور جاپان امریکا کا، دراصل چین اور روس کے درمیان ایک ایسا دور آیا جب چین میں 1960ء کی دہائی میں ثقافتی انقلاب کا دور آیا۔ اس میں چین کے معروف لیڈر معتوب ہوئے تھے۔ مگر چین کے لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل روس نے 60,000 کمیونسٹ رضاکار چین بھجوائے اور یہی رضاکار اس وقت کام آئے جب قوم پرست گروپ کے رہنما جو ایک وقت لانگ مارچ میں کمان دار کی پوزیشن رکھتے تھے اور اپنے کو کومنتانگ پارٹی کے ورکرز کو کمیونسٹ نظریات سے الگ کرنا شروع کیا اور درمیان میں جنگ شروع ہو گئی۔
یہ وہ کھیل نہ تھا جو اکثر پاکستان میں لیڈران ہوائی جہاز اور ریل میں بیٹھ کر اسلام آباد جاتے ہیں اور لانگ مارچ کی آواز لگاتے ہیں بلکہ 8000 میل لمبا مارچ تھا چیانگ کائی شیک جو مغربی ممالک کے طرز حکومت کے حامی تھے چین پر قبضہ چاہتے تھے مگر پرجوش چین اور روس کے والنٹیئر نے چیانگ کائی شیک کی فوج کو پسپا کردیا۔ ہر روز لانگ مارچ کے اہداف تھے کہ کم از کم 8 تا 10 میل علاقے کو آزاد کرانا ہے اور وہاں کسانوں کی کمیٹی قائم کرتے جانا ہے۔ لانگ مارچ میں دو لاکھ چینی گھروں سے سر پر کفن باندھ کے نکلے تھے اور اپنے ساٹھ ہزار ساتھیوں کو لے کر چلے جو روس سے آئے تھے۔
جب لانگ مارچ میں شنگھائی ماؤزے تنگ کی فوجوں کے ہاتھ آ گیا تو چیانگ کائی شیک کو شکست کا احساس ہو چلا تھا آخر کار چیانگ کائی شیک پسپا ہو کر تائیوان تک محدود ہو گئے۔ بہت عرصے تک چین کو سفارتی طور پر دو چین کے نظریہ کے تحت امریکا چلاتا رہا بالآخر حقیقت تو سامنے آنی تھی۔ آخرکار چین دنیا کے بلند مقام پر فائز ہو کے رہا۔ کیونکہ وہاں کے لیڈروں نے ایثار اور قربانی کو مدنظر رکھا۔ اپنے بینک بیلنس نہ بنائے، سیاست میں خاموشی اختیار کی۔ لیکن اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
سیاسی طور پر وہ اس وقت روس کا زبردست حامی بن گیا ہے بلکہ یہاں تک کہ فار ایسٹ اور برصغیر میں روس نے چین کو اپنے اہداف دے رکھے ہیں۔ برصغیر، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں روس نے اپنے اتحادیوں کو متحد کرنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ وہ سرد جنگ کے سوویت دور میں تھا۔ اس وقت شمالی کوریا اور چین کا ایک اعلیٰ سطح کا ملٹری وفد شمالی کوریا اور چین کے دورے پر ہے۔ عالمی سطح پر جو بھی اقدامات چین اٹھا رہا ہے وہ سب روس کی ایما پر کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ شام کے مسئلے پر چین روس کے اقدامات کی تائید کر رہا ہے۔
اس لیے بھارت کی جو چھیڑ چھاڑ کی سیاست ہے وہ بھی وقتی طور پر ہے اور ہمارے خطے میں جنگ کے بادل زیادہ دیر نہیں رہیں گے۔ نریندر مودی جو چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے وہ محض سرمایہ داروں کی پشت پناہی پر کر رہے تھے۔ وہ چھیڑ چھاڑ ان کو رسوا کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ خود اپنے دستور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں کیونکہ سیکولر ازم تو ان کے دستور کا حصہ ہے مگر وہ کاربند فسطائیت پر ہیں۔ اس میں سیکولرازم کی خرابی نہیں بلکہ پارٹی کی رجعت پسندانہ سیاست کا دخل ہے۔
اب ذرا باریک بینی سے دیکھیں چین اور تائیوان کے حالات اور بھارت اور پاکستان کے سیاسی حالات بالکل مختلف ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہند برطانیہ کی حکمت عملی سے ہوئی۔ کوئی جنگ نہ ہوئی پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کی رضامندی سے ہوئی، ماسوائے چند ریاستوں کے جہاں بھارت نے ہیرا پھیری سے کام لیا اور کشمیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے تاریخ مسخ ہوتی جا رہی ہے اور حالات بدلتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ بات آج کے لوگوں کو معلوم ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1946ء میں قصہ خوانی بازار پشاور کا وزٹ کیا، فاٹا اور شمالی وزیرستان کا دورہ کیا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب اس علاقے میں خان عبدالغفار خان کی پارٹی برسراقتدار تھی۔ عدم تشدد ان کا نعرہ تھا اور آج پہاڑوں سے دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں ہیں۔
ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کی تنگ نظر مذہبی پارٹیوں نے جن کے افکار سے لیس ایک شخص نے مہاتما گاندھی پر گولی چلائی تھی، وہی پارٹی حکمران ہے۔ اور سیکولرازم جس کا معنی ہر شخص کا دین اس کے ساتھ ہے نہ کہ لادینیت، ورنہ کرناٹک میں یوم ٹیپو سلطان نہ منایا جاتا مگر انتہاپسندوں نے پروگرام کو تباہ کر دیا۔ چین اور تائیوان میں خونریزی کا بڑا دریا حائل تھا پھر بھی چینی صدر ایک معمولی سے جزیرہ نما معمولی رقبے کی چھوٹی سی ریاست کے صدر سے ملنے کے لیے ڈیڑھ ارب کی ریاست کا صدر ہونے کے باوجود ریاست تائیوان کے صدر مازنگ جیو سے ملاقات کے لیے گزشتہ ہفتے سنگا پور نہ جاتے۔ کیونکہ چین کی پالیسی پرامن بقائے باہمی پر مبنی ہے۔ 1949ء کے بعد وہ 68 برس بعد تعلقات بحال کرنے گئے تھے۔
یہ ہیں بڑے لیڈروں کے ذمے دارانہ رویے۔ جنگی اخراجات کے خرچے نہ ہوں تو بہتر ہے تا کہ یہ رقم تعمیری مد میں خرچ ہو، مگر بھارت پاکستان کے تعلقات اس درجہ خراب نہ تھے پاک بھارت وزرائے اعظم آتے اور جاتے رہے۔ لیاقت نہرو پیکٹ اور دریاؤں کی تقسیم کے مسئلے پر صدر ایوب خان اور پنڈت نہرو میں مذاکرات ہوئے تھے۔
بعدازاں بھی روابط رہے مگر پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے طرز پر بھارت میں بھی ایسی تنظیمیں نریندر مودی کی سرپرستی میں سر اٹھا رہی ہیں۔ مگر بھارت کی عام رائے عامہ خود ان جماعتوں کو جلد منطقی انجام تک پہنچا دے گی۔ بھارت نے جب سے امریکا کے ساتھ روابط بڑھائے ہیں وہاں یہ قوتیں سر اٹھا رہی ہیں جو پاک بھارت کے عوام کے لیے بے حد پر خطر ہیں۔ کیونکہ اس خطے میں روس چین سیاسی اتفاق رائے سے کسی نئے طالع آزما کو بڑھنے کی اجازت نہ دے گا۔ لہٰذا جلد یا دیر دونوں ملکوں کو ہینڈ شیک کرنا ہی ہو گا جیسا کہ چین اور تائیوان کے صدور نے کیا اور نئی روایت کا آغاز کیا۔