قبلہ اول لہو لہو امت مسلمہ خوابیدہ

مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ امت اسلامی کا تیسرا مقدس مقام بھی ہے

ISLAMABAD:
مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ امت اسلامی کا تیسرا مقدس مقام بھی ہے، سر زمین فلسطین پر واقع ہے، فلسطین ایک ایسی سر زمین ہے کہ جہاں ہمیشہ انبیائے کرام تشریف لاتے رہے اور اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے، اسی مسجد اقصیٰ جسے قبلہ اول کہا جاتا ہے، کی جانب رخ کر کے ہمارے پیارے نبی اکرم حضرت محمدؐ ایک عرصے تک نماز ادا کرتے رہے اور جب اللہ کا حکم آیا تو رخ تبدیل کیا گیا۔ یہی وہ مقام ہے کہ جب پیارے نبی حضرت محمدؐ کو شب معراج عرش کی طرف سفر کروایا گیا، تو پہلے مسجد حرام یعنی مکہ سے مسجد اقصیٰ ہی لایا گیا تھا اور روایات میں موجود ہے کہ یہاں اس مقام پر ستر ہزار انبیائؑ کی ارواح مقدسہ نے آپؐ کی امامت میں نماز ادا کی۔ بہرحال قبلہ اول کے فضائل اور برکات کے بارے میں جتنی بھی گفتگو کی جائے اور اس کے فضائل بیان کیے جائیں کم ہیں۔

1948 میں برطانیہ اور امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کے ایما پر اسی سرزمین فلسطین پر ایک غاصب ریاست اسرائیل کو وجود میں لایا گیا۔ اس ریاست کے وجود کے قیام سے ہی پہلے سے اس سرزمین پر بسنے والے عربوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور ایک طرف تو ان کو بڑے پیمانے پر قتل کیا جانے لگا تو دوسری طرف ان کے مکانات اور اراضی پر شدت پسند یہودیوں نے قبضہ بھی جمانا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ انھوں نے مظالم کا سلسلہ بڑھانا شروع کیا اور آج تک وہی سلسلہ جاری ہے۔

صہیونیوں کے ان مظالم کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے جبری طور پر بے گھر کردیے گئے، جلاوطن ہوئے اور آج بھی مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دسیوں ہزار ہی صہیونیوں کے مظالم کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاکھوں ایکڑ فلسطینی اراضی پر بھی صہیونیوں نے قبضہ کرلیا، غرض یہ کہ گزشتہ 67 سال میں ان انسانیت کے دشمن صہیونیوں نے تمام تر مقاصد کہ جن میں فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، بے گھر کرنا، تعلیم جیسی سہولت سے محروم کرنا، نوجوانوں کو قید و بند کرنا، خواتین کی عصمت دری کرنا سمیت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنا، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

صہیونی ریاست کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد ان شدت پسند صہیونیوں کا بنیادی مقصد مسجد اقصیٰ پر بھی اپنا تسلط قائم کرنا تھا، جس کے لیے انھوں نے 1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ناکامی کے نتیجے میں باقاعدہ طور پر اس شہر القدس کو اپنے تسلط میں لے لیا جب کہ 1969 میں ایک منظم سازش کے تحت مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا گیا، جس کے نتیجے میں مسجد کے تاریخی مقامات اور مقدس مقامات کو شدید نقصان پہنچا۔ البتہ اس دوران پوری مسلم دنیا میں کھلبلی مچ اٹھی اور واویلا بپا ہوا، اسی کے نتیجے میں پھر مسلمانوں کی غیرت جاگ اٹھی اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کے بنیادی مقاصد میں قبلہ اول کا دفاع اور تحفظ کو یقینی بنانا تھا، تاہم آج وہی اسلامی سربراہی کانفرنس اور اس کے سربراہان امریکا کی کاسہ لیسی کی بدولت تنظیم کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔


البتہ سابقہ دور میں مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونیوں کی سازشوں کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ قبلہ اول پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ دوسری جانب اسرائیل نے بھی قبلہ اول کے خلاف اپنی سازشوں کا طریقہ کار تبدیل کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبلہ اول کی بنیادوں کو خفیہ طریقوںسے کھوکھلا کیا جانے لگا، جس کا انکشاف 2000 اور اس کے بعد ہوا اور ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں بے چینی کی لہر نے جنم لے لیا۔

حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر سرزمین فلسطین سے تیسری تحریک انتفاضہ کے شعلوں کے اٹھنے کی گونج سنائی دی ہے، یہ تحریک یکم اکتوبر 2015 سے شروع ہوچکی ہے، اس تحریک کا آغاز مسجد اقصیٰ پر صہیونی حملوں کے جواب میں قبلہ اول کے دفاع کے لیے شروع ہوا ہے، صہیونیوں نے اپنے مذموم اور ناپاک مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قبلہ اول پر براہ راست حملوں کا آغاز کیا ہے اور اس کے جواب میں مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں نے پہلے پہل تو سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہروں سے صہیونی ناپاک عزائم کو روکنے کے لیے مزاحمت کا آغاز کیا لیکن صہیونی جارحیت جوں جوں فلسطینیوں اور بالخصوص قبلہ اول کے خلاف بڑھی، اسی طرح فلسطینیوں نے بھی قبلہ اول کے دفاع اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے صہیونی فوجیوں پر مسلح حملوں کا آغاز کردیا ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج قبلہ اول کو ماضی سے کہیں زیادہ خطرات ہیں، براہ راست صہیونی قبلہ اول کی توہین اور تقدس کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں، معصوم بچوں کو جیلوں کی نذر کیا جارہا ہے، خواتین و مردوں کا قتل عام جاری ہے، جواب میں فلسطینی اپنا دفاع کررہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ معمولی نوعیت کے خنجر کے حملوں کے بعد ان کی موت یقینی ہوجائے گی، اس کے باوجود بھی انھوں نے شہادت کو اپنے لیے فخر اور اعزاز قرار دیا ہے۔

لیکن امت مسلمہ خوابیدہ ہے، کسی عرب یا غیر عرب مسلم ملک کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے یا پھر اس طرح کہہ لیجیے کہ قبلہ اول کے دفاع کے لیے کسی طرح کی آواز نہیں اٹھائی گئی ہے۔ تمام کی تمام عرب بادشاہتیں اور غیر عرب مسلمان امریکی کاسہ لیس حکمران قبلہ اول کے خلاف صہیونی جارحیت پر اس طرح چپ سادھے ہوئے ہیں جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہے، حالانکہ فلسطینیوں نے کسی مسلم عرب یا غیر عرب ملک سے کوئی مدد نہیں مانگی یا ان سے یہ نہیں کہا کہ ہمیں اتنی مالیت کی مدد دو یا اسلحہ دو، لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ فرض عائد ہے کہ ہم فلسطینیوں کی حمایت میں کم سے کم آواز بلند کریں، یا جو بھی کردار ادا کرسکتے ہیں کریں۔ میں شرمندگی کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ پاکستان بھی ان ہی ممالک کی فہرست میں ہے کہ جہاں ابھی تک کسی قسم کی کوئی موثر آواز سامنے نہیں آئی ہے۔

ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین نجانے کس گوشہ غفلت میں ہیں یا یہ کہ شاید قبلہ اول کے دفاع کے لیے کوئی اقدام یا بات کرنا اب ان کی ترجیحات میں نہیں رہا، کیونکہ شاید ان سب نے اپنا قبلہ عالمی شیطانی قوتوںکو بنا لیا ہے یا پھر ان عالمی شیطانی قوتوں کی جانب سے دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان کو بھی ایسی سازشوں میں جکڑ لیا گیا ہے کہ ہم سب کے سب الجھ کر رہ گئے ہیں اور اپنے اصل دشمن صہیونزم کی طرف توجہ نہیں کر رہے۔ آخر کب تک امت اسلامی خواب خرگوش میں رہے گی؟ کیا اس وقت بیدار ہوں گے جب قبلہ اول پر صہیونی پرچم لہرا دیا جائے گا؟
Load Next Story