شکریہ بہت میاں نواز شریف صاحب
دیہی سندھ آج کل کسی شعلے فلم کی مانند بنا ہوا ہے۔ کوئی ٹھاکر ہے تو کوئی گبر سنگھ۔ غلاموں کی بستی ہے
RAWALPINDI:
دیہی سندھ آج کل کسی شعلے فلم کی مانند بنا ہوا ہے۔ کوئی ٹھاکر ہے تو کوئی گبر سنگھ۔ غلاموں کی بستی ہے، ہر کوئی اپنی خیر مانگتا ہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو مجھ جیسے صدائے فقیر ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں سندھ کو جو دیکھتے ہیں تو آنکھ میں نمی بھر آتی ہے۔
جب میں جیکب آباد میں جان جیکب کی قبر پر جو ٹھہرا تو تاریخ آبشاروں کی مانند میرے وجود کو لپٹ پڑی۔ میرا اس شہر کو جانا پہلی مرتبہ تھا۔ ٹوٹا پھوٹا جیکب آباد، ویرانی سی ہر اک آنکھ میں تھی ٹھہری ہوئی۔ جیسے کسی شاعر کی یہ سطریں ہوں اس منظر کی عکاس:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جان جیکب کا بنایا ہوا جیکب آباد جہاں عورت کو کاری کر کے مارنے کی رسم عروج پر تھی۔ کوئی گبر سنگھ تھا تو کوئی شبر سنگھ، سرداری و قبائلی اس نگر میں ایک دم سے کاری کی رسم کو موت آ گئی۔ یہ تھا جان جیکب کا کمال لیکن اس نے اس بربریت کو ختم کرنے کے لیے اس کا علاج بھی بربریت میں ڈھونڈا۔ میں قانون کی حکمرانی کا طالب ہوں۔ نہ وہ صحیح تھا نہ جان جیکب۔ کیونکہ جان جیکب ''کاری'' کی اس سوچ کو ختم نہیں کر سکا۔ وہ زرعی و قبائلی معاشرہ میں صنعتی طریقہ کار جو لندن نے اپنایا تھا نہیں بنا سکا۔
میں حیران و پریشان رہ گیا کہ سندھیوں میں سکھ بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ سکھ تھے جو جان جیکب کے زمانے میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں آباد ہوئے تھے۔ مجھے اور حیرانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ وہاں سو ڈیڑھ سو گھر عیسائیوں کے بھی ہیں۔ ہندو تو اب بھی بہت ہیں، شیعہ ہیں، سنی ہیں۔ شاید آج کے سندھ میں مذہبی حوالے سے اتنی Diversity رکھنے والا کوئی اور شہر ہو۔
اور صرف یہ نہیں بلکہ عاشوروں میں سارے سنی، سکھ، ہندو سبیلیں لگاتے ہیں۔ بچے عاشوروں کے جلوس کے ساتھ نکلتے ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ اس بار جب جیکب آباد میں عاشورہ کا جلوس نکلا تو خودکش بمبار نے حملہ کیا اور وہ بھی اک تنگ گلی سی تھی بچوں کا یہاں ڈیرا تھا۔ میں نے ننگی آنکھوں سے وہ لہو کی پچکاریاں دیکھیں جو دیواروں سے چپٹ گئی تھیں، یہ اطفال کا لہو تھا یا شب و روز کا تماشا تھا اور میری خشک آنکھیں سانت پڑ گئیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں ایک ہندو عزادار موتی لال بھی تھا جو پانی کی سبیل لے کے جلسے کے ساتھ چل رہا تھا وہ بھی مارا گیا۔ اب مارا گیا تو اسے شمشان گھاٹ جانا تھا۔ ماں نے کہا ''نہیں میرا موتی شمشان گھاٹ نہیں جائے گا بلکہ اب اسے بھی ان شہیدوں کے ساتھ دفن کرو۔ تو پھر کیا ہوا؟ شیعہ عالموں کے لیے ایک سوال اٹھا تو جواب بھی ایک دم آیا کہ جی موتی لال کو بھی ان شہیدوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔
میں جس دن جیکب آباد گیا تھا یہ وہ دن تھا جس دن آج سے 76 سال پہلے، یکم نومبر 1939ء کو سندھ کی مذہبی رواداری کی صدیوں پرانی روایت میں پہلا چھرا گھونپا گیا تھا۔ ایک ایسے فقیر منش راگی کا قتل ہوا تھا جو میرا بائی کی طرح پریم کا سندیسہ دیتا رہتا تھا، بستی بستی، نگر نگر بنجارہ بن کے رلتا رہتا تھا۔ کوئل جیسی باریک اور دل کو چھو لینے والی اس کی آواز تھی۔
اس کی اپنی شاعری میں اپنی دھن بنا کے، ناچتے ہوئے وہ گانا سندھ کی موسیقی کا سرتاج گانا ہے جسے عابدہ نے بھی گایا ہے جس کے بول کچھ اس طرح سے ہیں ''کہو تمہیں کیسے مناؤں، کہو تو پھر ہندو ہو جاؤں، مسلماں ہو جاؤں، سکھ ہوج اؤں، تمہیں منانے کے لیے میں کچھ بھی ہو سکتا ہوں'' اس کی پوری کل کمائی اس محور پر تھی کہ پہلے انسان بنو اور پھر جو بننا چاہو بن جاؤ اور اگر تم اچھے انسان نہیں بن سکتے ہو تو پھر اچھے ہندو، مسلمان، سکھ وغیرہ بھی نہیں بن سکتے ہو۔ یہ واقعہ جیکب آباد کے بہت قریب رک اسٹیشن پر ہوا تھا۔
وہ شخص جس کے رک اسٹیشن پر مارے جانے سے سندھ کی صدیوں سے چلی ہوئی مذہبی رواداری کو سانپ سونگھ گیا۔ اس کے مرنے سے بھٹائی، سچل و ساس کی دھرتی کو لہو کے داغ لگ گئے۔ دونوں ہندو و مسلمان اس کے مرنے پر ماتم کر کے روئے اور پھر جو رسم چلی کہ بیٹھنے کا نام نہیں لیتی اب تو اس بستی میں جس کو جی چاہے کافر کہہ دے۔ میں کس کا شکریہ ادا کروں نریندر مودی کا یا میاں نواز شریف کا؟ ایک طرف مودی ہے جس نے نفرت بڑی بری بلا ہوتی ہے وہ کر کے دکھا دی کہ اب میں ہندوستان میں ارون دھتی رائے جیسی خاتون کو اپنا رہبر سمجھتا ہوں۔
اس بار جب دیوالی آئی تو دلی میں عجیب رنگ چلا کہ سابقہ فوجی افسروں نے مودی کے فاشزم پر احتجاج رقم کرتے ہوئے ''کالی دیوالی'' منائی۔ اور وہ سارے تمغے جلا دیے جو ان کو ریاست نے دیے تھے۔ لیکن مجھے شکریہ اصل میں اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ادا کرنا ہے جنھوں نے کراچی آ کر دیوالی پاکستان کے صدیوں پرانے باشندے ہندوؤں کے ساتھ منائی اور محبت میں آ کر ہمارے دین کے اصل پیغام کو اپنی روح کے ساتھ لگا کر یہ بھی کہہ دیا کہ ''اب جو ہولی آئے تو وہ رنگ میرے چہرے پر لگا دینا، اور میں بھی ہولی پر تم لوگوں کے پاس آؤں گا۔''
اور تو اور کنور بھگت کے نام پر ایک میڈیکل کمپلیکس حیدر آباد میں بنانے کا اعلان بھی کر دیا۔
آج سے بارہ سال پہلے جب پہلی بار میں نے بھگت کے اس مقام جانے کی جرأت کی تھی جہاں اسے مارا گیا تھا تو لوگوں نے مجھ پر انگلیاں اٹھائیں۔ مجھے پتہ تھا فیضؔ کی طرح ''اس راہ پر جو سب گزرتی ہے وہ گزری، تنہا میں زندہ، کبھی رسوا سر بازار'' لیکن میرے سامنے سندھ اور پاکستان کے لیے ایک Vision تھا۔ ''کیا ہونا چاہیے پاکستان کو؟'' میں نے یہی جواب پایا پاکستان کو جناح کے خیال جیسا ہونا چاہیے۔
میاں صاحب نے جو کل کراچی میں تقریر کی وہ جناح کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کا تسلسل ہے۔ ہاں مگر ایسی بات زرداری صاحب کرنے کی جرأت کرتے تو شاید کوئی منفی لقب ملتا۔ ایسی بات پنجابی ہی کر سکتا ہے۔ اور مجھے ایسا پنجابی، سندھی سے بھی قریب تر لگتا ہے۔ میاں صاحب کی تاریخ میں جو حقیقت جا کے دیکھی تو وہ ہمارے مودی جیسے شخص ضیا الحق کی صفوں میں رہتے تھے۔ وہ کتنا تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس میں ہماری فوج کی وہ جرأت ہے جس نے ان انتہا پرستوں کو اب کاغذی شیر بنا دیا ہے۔ تب جا کے ٹٹول ٹٹول کر میاں صاحب میں بھی جرأت پیدا ہوئی۔ ہمیں سمجھ آئی کہ جس طرح پاکستان کا دشمن کوئی اور نہیں ضیا الحق کی پیدا کردہ سوچ ہے بالکل اسی طرح ہندوستان کا دشمن کوئی اور نہیں خود نریندر مودی اور اس کی سوچ ہے۔ ہندوستان، پاکستان دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ایک اچھا ہندوستان، اچھے پاکستان کی ضمانت ہے اور ایک اچھا پاکستان، اچھے ہندوستان کی ضمانت ہے۔
میرے بھگت کنور پر کی ہوئی محنت پر بلاول بھٹو کو موئن جو دڑو پر دو ارب روپے خرچ کر کے مذہبی رواداری کے پیغام کی ضرورت نہیں تھی۔ بس جرأت کی ضرورت تھی، کانٹوں سے پُر اس ڈگر پر چلنے کی ضرورت تھی۔ سو میں نے کی۔ اس بار ہم نے سات ہزار دیے جلائے، صوفی راگ پلیٹ فارم کے پل پر چڑھ کر گایا اور اس بار جو دیوالی پر دیے جلے، شاید ہی اس سے پہلے جلے ہوں۔ آج سے پانچ سال پہلے خود عاصمہ جہانگیر کو بھی بھگت کنور کے ایک اسٹیشن لے گیا تھا۔
ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ جنگ انسانی حقوق کی جنگ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 20 کی پاسداری کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ''کالی'' کی رسم کو ختم کرانے کی جنگ ہے لیکن یہ جنگ ہم اکیلے سر جس طرح جان جیکب نے لڑی تھی نہ لڑنا چاہتے ہیں نہ لڑ سکتے ہیں۔ عورت کو برابری کا مقام دلانے کے لیے پاکستان میں ایک نئے سوشل معاہدے کی ضرورت ہے۔
سندھ کا دشمن کوئی اور نہیں اس کے اندر موجود وڈیرا شاہی ہے جس نے لوگوں کو غلام بنا کے رکھا ہے۔ بری حکمرانی نے تعلیمی اداروں کو مفلوج کر دیا ہے اور اب اس بری حکمرانی کی وجہ سے North سندھ میں مدرسوں کا سکہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔
دیہی سندھ آج کل کسی شعلے فلم کی مانند بنا ہوا ہے۔ کوئی ٹھاکر ہے تو کوئی گبر سنگھ۔ غلاموں کی بستی ہے، ہر کوئی اپنی خیر مانگتا ہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو مجھ جیسے صدائے فقیر ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں سندھ کو جو دیکھتے ہیں تو آنکھ میں نمی بھر آتی ہے۔
جب میں جیکب آباد میں جان جیکب کی قبر پر جو ٹھہرا تو تاریخ آبشاروں کی مانند میرے وجود کو لپٹ پڑی۔ میرا اس شہر کو جانا پہلی مرتبہ تھا۔ ٹوٹا پھوٹا جیکب آباد، ویرانی سی ہر اک آنکھ میں تھی ٹھہری ہوئی۔ جیسے کسی شاعر کی یہ سطریں ہوں اس منظر کی عکاس:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جان جیکب کا بنایا ہوا جیکب آباد جہاں عورت کو کاری کر کے مارنے کی رسم عروج پر تھی۔ کوئی گبر سنگھ تھا تو کوئی شبر سنگھ، سرداری و قبائلی اس نگر میں ایک دم سے کاری کی رسم کو موت آ گئی۔ یہ تھا جان جیکب کا کمال لیکن اس نے اس بربریت کو ختم کرنے کے لیے اس کا علاج بھی بربریت میں ڈھونڈا۔ میں قانون کی حکمرانی کا طالب ہوں۔ نہ وہ صحیح تھا نہ جان جیکب۔ کیونکہ جان جیکب ''کاری'' کی اس سوچ کو ختم نہیں کر سکا۔ وہ زرعی و قبائلی معاشرہ میں صنعتی طریقہ کار جو لندن نے اپنایا تھا نہیں بنا سکا۔
میں حیران و پریشان رہ گیا کہ سندھیوں میں سکھ بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ سکھ تھے جو جان جیکب کے زمانے میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں آباد ہوئے تھے۔ مجھے اور حیرانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ وہاں سو ڈیڑھ سو گھر عیسائیوں کے بھی ہیں۔ ہندو تو اب بھی بہت ہیں، شیعہ ہیں، سنی ہیں۔ شاید آج کے سندھ میں مذہبی حوالے سے اتنی Diversity رکھنے والا کوئی اور شہر ہو۔
اور صرف یہ نہیں بلکہ عاشوروں میں سارے سنی، سکھ، ہندو سبیلیں لگاتے ہیں۔ بچے عاشوروں کے جلوس کے ساتھ نکلتے ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ اس بار جب جیکب آباد میں عاشورہ کا جلوس نکلا تو خودکش بمبار نے حملہ کیا اور وہ بھی اک تنگ گلی سی تھی بچوں کا یہاں ڈیرا تھا۔ میں نے ننگی آنکھوں سے وہ لہو کی پچکاریاں دیکھیں جو دیواروں سے چپٹ گئی تھیں، یہ اطفال کا لہو تھا یا شب و روز کا تماشا تھا اور میری خشک آنکھیں سانت پڑ گئیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں ایک ہندو عزادار موتی لال بھی تھا جو پانی کی سبیل لے کے جلسے کے ساتھ چل رہا تھا وہ بھی مارا گیا۔ اب مارا گیا تو اسے شمشان گھاٹ جانا تھا۔ ماں نے کہا ''نہیں میرا موتی شمشان گھاٹ نہیں جائے گا بلکہ اب اسے بھی ان شہیدوں کے ساتھ دفن کرو۔ تو پھر کیا ہوا؟ شیعہ عالموں کے لیے ایک سوال اٹھا تو جواب بھی ایک دم آیا کہ جی موتی لال کو بھی ان شہیدوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔
میں جس دن جیکب آباد گیا تھا یہ وہ دن تھا جس دن آج سے 76 سال پہلے، یکم نومبر 1939ء کو سندھ کی مذہبی رواداری کی صدیوں پرانی روایت میں پہلا چھرا گھونپا گیا تھا۔ ایک ایسے فقیر منش راگی کا قتل ہوا تھا جو میرا بائی کی طرح پریم کا سندیسہ دیتا رہتا تھا، بستی بستی، نگر نگر بنجارہ بن کے رلتا رہتا تھا۔ کوئل جیسی باریک اور دل کو چھو لینے والی اس کی آواز تھی۔
اس کی اپنی شاعری میں اپنی دھن بنا کے، ناچتے ہوئے وہ گانا سندھ کی موسیقی کا سرتاج گانا ہے جسے عابدہ نے بھی گایا ہے جس کے بول کچھ اس طرح سے ہیں ''کہو تمہیں کیسے مناؤں، کہو تو پھر ہندو ہو جاؤں، مسلماں ہو جاؤں، سکھ ہوج اؤں، تمہیں منانے کے لیے میں کچھ بھی ہو سکتا ہوں'' اس کی پوری کل کمائی اس محور پر تھی کہ پہلے انسان بنو اور پھر جو بننا چاہو بن جاؤ اور اگر تم اچھے انسان نہیں بن سکتے ہو تو پھر اچھے ہندو، مسلمان، سکھ وغیرہ بھی نہیں بن سکتے ہو۔ یہ واقعہ جیکب آباد کے بہت قریب رک اسٹیشن پر ہوا تھا۔
وہ شخص جس کے رک اسٹیشن پر مارے جانے سے سندھ کی صدیوں سے چلی ہوئی مذہبی رواداری کو سانپ سونگھ گیا۔ اس کے مرنے سے بھٹائی، سچل و ساس کی دھرتی کو لہو کے داغ لگ گئے۔ دونوں ہندو و مسلمان اس کے مرنے پر ماتم کر کے روئے اور پھر جو رسم چلی کہ بیٹھنے کا نام نہیں لیتی اب تو اس بستی میں جس کو جی چاہے کافر کہہ دے۔ میں کس کا شکریہ ادا کروں نریندر مودی کا یا میاں نواز شریف کا؟ ایک طرف مودی ہے جس نے نفرت بڑی بری بلا ہوتی ہے وہ کر کے دکھا دی کہ اب میں ہندوستان میں ارون دھتی رائے جیسی خاتون کو اپنا رہبر سمجھتا ہوں۔
اس بار جب دیوالی آئی تو دلی میں عجیب رنگ چلا کہ سابقہ فوجی افسروں نے مودی کے فاشزم پر احتجاج رقم کرتے ہوئے ''کالی دیوالی'' منائی۔ اور وہ سارے تمغے جلا دیے جو ان کو ریاست نے دیے تھے۔ لیکن مجھے شکریہ اصل میں اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ادا کرنا ہے جنھوں نے کراچی آ کر دیوالی پاکستان کے صدیوں پرانے باشندے ہندوؤں کے ساتھ منائی اور محبت میں آ کر ہمارے دین کے اصل پیغام کو اپنی روح کے ساتھ لگا کر یہ بھی کہہ دیا کہ ''اب جو ہولی آئے تو وہ رنگ میرے چہرے پر لگا دینا، اور میں بھی ہولی پر تم لوگوں کے پاس آؤں گا۔''
اور تو اور کنور بھگت کے نام پر ایک میڈیکل کمپلیکس حیدر آباد میں بنانے کا اعلان بھی کر دیا۔
آج سے بارہ سال پہلے جب پہلی بار میں نے بھگت کے اس مقام جانے کی جرأت کی تھی جہاں اسے مارا گیا تھا تو لوگوں نے مجھ پر انگلیاں اٹھائیں۔ مجھے پتہ تھا فیضؔ کی طرح ''اس راہ پر جو سب گزرتی ہے وہ گزری، تنہا میں زندہ، کبھی رسوا سر بازار'' لیکن میرے سامنے سندھ اور پاکستان کے لیے ایک Vision تھا۔ ''کیا ہونا چاہیے پاکستان کو؟'' میں نے یہی جواب پایا پاکستان کو جناح کے خیال جیسا ہونا چاہیے۔
میاں صاحب نے جو کل کراچی میں تقریر کی وہ جناح کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کا تسلسل ہے۔ ہاں مگر ایسی بات زرداری صاحب کرنے کی جرأت کرتے تو شاید کوئی منفی لقب ملتا۔ ایسی بات پنجابی ہی کر سکتا ہے۔ اور مجھے ایسا پنجابی، سندھی سے بھی قریب تر لگتا ہے۔ میاں صاحب کی تاریخ میں جو حقیقت جا کے دیکھی تو وہ ہمارے مودی جیسے شخص ضیا الحق کی صفوں میں رہتے تھے۔ وہ کتنا تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس میں ہماری فوج کی وہ جرأت ہے جس نے ان انتہا پرستوں کو اب کاغذی شیر بنا دیا ہے۔ تب جا کے ٹٹول ٹٹول کر میاں صاحب میں بھی جرأت پیدا ہوئی۔ ہمیں سمجھ آئی کہ جس طرح پاکستان کا دشمن کوئی اور نہیں ضیا الحق کی پیدا کردہ سوچ ہے بالکل اسی طرح ہندوستان کا دشمن کوئی اور نہیں خود نریندر مودی اور اس کی سوچ ہے۔ ہندوستان، پاکستان دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ایک اچھا ہندوستان، اچھے پاکستان کی ضمانت ہے اور ایک اچھا پاکستان، اچھے ہندوستان کی ضمانت ہے۔
میرے بھگت کنور پر کی ہوئی محنت پر بلاول بھٹو کو موئن جو دڑو پر دو ارب روپے خرچ کر کے مذہبی رواداری کے پیغام کی ضرورت نہیں تھی۔ بس جرأت کی ضرورت تھی، کانٹوں سے پُر اس ڈگر پر چلنے کی ضرورت تھی۔ سو میں نے کی۔ اس بار ہم نے سات ہزار دیے جلائے، صوفی راگ پلیٹ فارم کے پل پر چڑھ کر گایا اور اس بار جو دیوالی پر دیے جلے، شاید ہی اس سے پہلے جلے ہوں۔ آج سے پانچ سال پہلے خود عاصمہ جہانگیر کو بھی بھگت کنور کے ایک اسٹیشن لے گیا تھا۔
ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ جنگ انسانی حقوق کی جنگ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 20 کی پاسداری کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ''کالی'' کی رسم کو ختم کرانے کی جنگ ہے لیکن یہ جنگ ہم اکیلے سر جس طرح جان جیکب نے لڑی تھی نہ لڑنا چاہتے ہیں نہ لڑ سکتے ہیں۔ عورت کو برابری کا مقام دلانے کے لیے پاکستان میں ایک نئے سوشل معاہدے کی ضرورت ہے۔
سندھ کا دشمن کوئی اور نہیں اس کے اندر موجود وڈیرا شاہی ہے جس نے لوگوں کو غلام بنا کے رکھا ہے۔ بری حکمرانی نے تعلیمی اداروں کو مفلوج کر دیا ہے اور اب اس بری حکمرانی کی وجہ سے North سندھ میں مدرسوں کا سکہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔