سانحات کا سلسلہ کب تھمے گا

سانحات کا ایک تسلسل ہے جو کہ چار سو برس قبل جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے، جاری ہے۔

سانحات کا ایک تسلسل ہے جو کہ چار سو برس قبل جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے، جاری ہے۔ سانحات کا یہ تسلسل ہے کہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، یہ سانحات آئے روز برپا ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین سانحہ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ لاہور میں بدھ 4 نومبر کو پیش آیا اور قیامت صغریٰ برپا کر گیا۔ مقام اس سانحے کا تھا راجپوت پولیمر فیکٹری جو کہ زمین بوس ہو گئی جب یہ فیکٹری زمین بوس ہوئی، تو اس وقت فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی کتنی تعداد فیکٹری میں موجود تھی۔ اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں، البتہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذرایع سے جو اطلاعات پہنچی ہیں ان کے مطابق تادم تحریر ایک سو سے زائد زخمی محنت کشوں کو ملبے کے نیچے سے نکالا گیاہے، شہدا کی تعداد 56 ہے۔ جب کہ اس سانحے کو اتنیروز گزر گئے ہیں مگر ابھی تک تمام کوششوں کے باوجود زمین بوس ہونے والی فیکٹری کا ملبہ نہیں ہٹایا جا سکا۔

تفصیلات میں اگر جائیں تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ راجپوت پولیمر فیکٹری جو کہ 3 منزلہ تھی مگر زر پرست فیکٹری مالک رانا اشرف کی خواہش تھی کہ فیکٹری کو وسعت دیں تا کہ زیادہ منافع حاصل ہو سکے۔

واضح رہے کہ مذکورہ فیکٹری میں پلاسٹک بیگز تیار کیے جاتے تھے، چنانچہ فیکٹری مالک رانا اشرف جو کہ خود بھی اس سانحے کی نذر ہو چکے ہیں کہ راجپوت پولیمر فیکٹری کو وسعت دینے کے لیے تین منزلہ فیکٹری کی اوپری منزل پر مزید ایک اور ڈپارٹمنٹ بنانے کی کوششیں شروع کر دیں بلکہ کام بھی شروع کر دیا گیا۔ اگر قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر ایک پہلو سے اس فیکٹری میں قانونی پہلوؤں کو یکسر نظرانداز کیا گیا تھا۔

ایک تو یہ فیکٹری غیر رجسٹرڈ تھی، یہ اس لیے کہ تمام قسم کے ٹیکسز سے بچا جا سکے۔ دوئم اس فیکٹری میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی تھی جن کی عمریں 18 برس سے کم تھیں، ایسا اس لیے کہ ایسے نوجوان قلیل ترین اجرت پر بھی کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں، جب کہ ایسے نوجوانوں سے دوسرے محنت کشوں کے برابر کام لیا جاتا ہے گویا ان نوجوانوں کا اس طرح بھی استحصال ہو رہا تھا۔

سوئم، جب چوتھی منزل کا کام شروع ہوا تو پہلے سے قائم تین منزلوں کے بوسیدہ ہونے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اور چوتھی منزل کا کام شروع کر دیا گیا جب کہ ضروری تھا کہ ماہرین کی ایک ٹیم پوری دیانتداری کے ساتھ اس فیکٹری کا تفصیلی معائنہ کرتی اور تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے چوتھی منزل کا کام شروع کرنے یا نا شروع کرنے کا فیصلہ کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا جب کہ چوتھی منزل پر کام کرنے والے ٹھیکیدار کے بقول اس نے زیر تعمیر منزل پر اس وقت کام جاری رکھنے سے منع کر دیا، جب 26 اکتوبر 2015ء کو آنے والے زلزلے کے بعد زیریں تین منزلوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں مگر ٹھیکیدار سے کہا گیا کہ تمہیں روپوں سے مطلب ہونا چاہیے وہ تمہیں مل جائیں گے۔


آخر کار فیکٹری مالکسرمایہ دار تھے نا اور سرمایہ دار ہر معاملے کو روپوں کی نظر سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ راجپوت پولیمر فیکٹری میں بھی ایسا ہی ہوا جب کہ کام سے انکار فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں نے 9 اور 10 محرم کو بھی کیا تھا ان محنت کشوں کا موقف تھا کہ یہ دو یوم یعنی 9 اور 10 محرم ہم مسلمانوں کے نزدیک شہادت امام حسینؓ کے باعث قابل احترام ہیں اور ہم ان دو یوم کو اپنے اپنے مسلک کے مطابق منانا چاہتے ہیں مگر ان محنت کشوں کو 9 اور 10 محرم کو بھی کام جاری رکھنے کی سختی کے ساتھ تاکید کی گئی۔

ہر گزرتے وقت کے ساتھ مزید انکشافات اس فیکٹری کے بارے میں ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فیکٹری کی تعمیر کی اجازت دو منزل کی تھی مگر اس کے باوجود چوتھی منزل کی تعمیر شروع کر دی گئی تھی مگر جو سریا اس فیکٹری میں استعمال ہوا تھا وہ 4MM تھا گویا فیکٹری نہ ہوئی کبوتروں کا گھروندا ہوا جب کہ ضرورت اس امر کی تھی کم سے کم 8MM سریا استعمال ہوتا یہ بھی ممکن ہے کہ عمارت میں سیمنٹ کی مقدار کم و ریتی بجری کی مقدار زیادہ استعمال ہوئی ہو۔

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اس فیکٹری میں دو سو محنت کش کام کرتے تھے جب کہ حاضری رجسٹر میں 114 محنت کشوں کا نام درج ہوا اور سوشل سیکیورٹی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ فقط چالیس محنت کشوں کی کروائی گئی تھی۔ اس سانحے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا اور سانحے میں جاں بحق و زخمی محنت کشوں کے لیے امدادی رقوم کا اعلان کیا۔ امید ہے یہ امدادی رقوم شہدا کے لواحقین تک پہنچے گی نا کہ یہ امدادی رقوم کا اعلان سیاسی نعرہ ثابت ہو گا۔

جیسے کہوزیر اعظم نے شہدا علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن کراچی کے لواحقین کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے رقوم کا اعلان کیا مگر یہ اعلان فقط سیاسی نعرہ ثابت ہوا جب کہ سانحے کے بعد صدر پاکستان و وزیر اعظم نے سانحے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی اور نوٹس لے لیا تھا۔ اب تو یہ روایت بن چکی ہے کہ ہر سانحے کے بعد صدر پاکستان و وزیر اعظم و وزراء اعلیٰ نوٹس لے لیتے ہیں اور رپورٹ طلب کر لیتے ہیں بعد میں کیا ہوتا ہے سب کے علم میں ہے۔

بہرکیف مستقبل میں جو کام کرنے کے ہیں وہ یہ ہیں کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر کے دوران وہ عمارت فیکٹری ہو، شاپنگ پلازہ ہو یا بغرض رہائش کثیر منزلہ عمارت تعمیر کی جائے ایک کوالٹی چیکر ہمہ وقت عمارت کی حدود میں موجود رہے اور عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مٹیریل چیک کرتا رہے تا کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر میں ناقص مٹیریل استعمال نہ ہو تا کہ آنے والے وقتوں میں اس قسم کے سانحات سے محفوظ رہا جا سکے۔

سانحات سے محفوظ رہنے کے لیے ایک اور طریقہ بھی استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ طریقہ ہے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا۔ یا دوسرے الفاظ میں سیفٹی قوانین پر عمل درآمد کا اس سلسلے میں بھی عمارت کی تعمیر کے دوران ایک انسپکٹر محنت کشوں کے ساتھ رہے اور چیک کرتا رہے تا کہ تمام محنت کش HSE قوانین کی مکمل پابندی کریں کیونکہ HSE قوانین کے مطابق ہر محنت کش کے لیے لازم ہے کہ وہ سر پر سیفٹی ہیلمٹ ہاتھوں پر دستانے، منہ پر فیس ماسک، پاؤں میں سیفٹی جوتے، تنگ لباس، پینٹ شرٹ یا ڈانگری کا استعمال کریں ان چیزوں کے علاوہ HSE یا سیفٹی قوانین کے 79اصول ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ایک محنت کش خواہ اس کا تعلق صنعت سے ہو یا عمارتوں کی تعمیرات سے وہ محنت کش سیفٹی قوانین کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کریں اور ایسے کسی پروجیکٹ پر محنت کش ہرگز کام نہ کریں جہاں سیفٹی قوانین پر پابندی سے عمل درآمد نہ ہوتا ہو نیز محنت کش اس بارے میں بھی پوری پوری معلومات حاصل کریں محنت کش چاہے کسی ٹھیکیدار کے ساتھ بھی کام کریں اس کیفیت میں بھی کسی حادثے کی شکل میں زخمی ہونے پر یا کام کے دوران کسی مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں محنت کشوں کے حقوق ہیں ضرورت فقط ان حقوق کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ہے تا کہ بوقت ضرورت محنت کش اپنے حقوق طلب کر سکیں یوں بھی سرمایہ داری نظام میں حقوق طلب کرنے سے نہیں بلکہ جدوجہد سے حاصل ہوتے ہیں۔
Load Next Story