ورکنگ وویمن اب بھی گھروں پرمردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں
صنفی انقلاب ابھی تک یک طرفہ رہا ہے خواتین تو ان ملازمتوں میں گھس گئی ہیں جو مردوں کی سمجھی جاتی ہیں،ماہر سماجیات
بہت سے مردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ گھر کے کام اور بچوں کی دیکھ بھال اپنی بیویوں کے تقریباً برابر کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اس سلسلے میں پیو ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں ایسے گھروں کا سروے کیا ہے جہاں شوہر اور بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق بچوں سے پہلے شوہر اور بیوی دونوں تقریباً ہفتے بھر میں ساڑھے 14 گھنٹے گھر کا کام کرتے ہیں مگر پیدائش کے بعد خاتون کا سارا کام جس میں معاوضے پر کیا جانے والا کام، ہاؤس ورک اور بچوں کی دیکھ بھال شامل ہے ہفتے میں 21 گھنٹے بڑھ جاتا ہے جب کہ مردوں کا صرف ساڑھے 12 گھنٹے بڑھتا ہے۔
بچوں کے بعد مردوں پر یہ دھن سوار ہوجاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمائیں جب کہ عورتوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ گھر پر زیادہ وقت دیں مگر جیسا کہ ماہر سماجیات پالا انگلینڈ اور دوسروں نے لکھا ہے کہ جینڈر (صنفی) انقلاب ابھی تک یک طرفہ رہا ہے خواتین تو ان ملازمتوں میں گھس گئی ہیں جو مردوں کی سمجھی جاتی ہیں۔ مرد ابھی تک روایتی زنانہ سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں پیو ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں ایسے گھروں کا سروے کیا ہے جہاں شوہر اور بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق بچوں سے پہلے شوہر اور بیوی دونوں تقریباً ہفتے بھر میں ساڑھے 14 گھنٹے گھر کا کام کرتے ہیں مگر پیدائش کے بعد خاتون کا سارا کام جس میں معاوضے پر کیا جانے والا کام، ہاؤس ورک اور بچوں کی دیکھ بھال شامل ہے ہفتے میں 21 گھنٹے بڑھ جاتا ہے جب کہ مردوں کا صرف ساڑھے 12 گھنٹے بڑھتا ہے۔
بچوں کے بعد مردوں پر یہ دھن سوار ہوجاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کمائیں جب کہ عورتوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ گھر پر زیادہ وقت دیں مگر جیسا کہ ماہر سماجیات پالا انگلینڈ اور دوسروں نے لکھا ہے کہ جینڈر (صنفی) انقلاب ابھی تک یک طرفہ رہا ہے خواتین تو ان ملازمتوں میں گھس گئی ہیں جو مردوں کی سمجھی جاتی ہیں۔ مرد ابھی تک روایتی زنانہ سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔