امریکی کمپنی کا مہمند ڈیم منصوبے پرکام کی اجازت نہ ملنے پروزیر اعظم کو خط
پہلے بلڈآپریٹ ٹرانسفرکی بنیاد پرمنصوبہ ملابعدمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کاکہاگیالیکن واپڈابات سننے کوبھی تیارنہیں
ISLAMABAD:
ملک میں توانائی بحران کے باوجود دریائے سوات پر800 میگا واٹ بجلی پیداوارکا منڈا ڈیم منصوبہ امریکی کمپنیAMZO ایمزوکارپوریشن کی جانب سے کام شروع کرنے میںگہری دلچسپی کے باوجود سردخانے کی نذرکر دیا گیا ہے۔
میسرز ایمزوکارپوریشن کو 2004ء میں منڈاڈیم جسے بعد میں مہمند ڈیم کانام دیاگیا کا لیٹر آف انٹینٹ جاری کیاگیا تھا ۔اس کثیرالمقاصد منصوبہ سے بجلی پیداوارکے علاوہ سیلاب سے بچاؤ،آبپاشی کے پانی فراہمی ہوگا جس سے مقامی معیشت کوترقی ملنے کے ساتھ ماحول اورسیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ایمزو نے یہ منصوبہ ''بلڈ،آپریٹ ٹرانسفر''کی بنیاد پر مکمل کرکے چلاکرحوالے کرنا تھا۔
امریکی کمپنی نے منصوبے پرکام شروع کرنے کی اجازت کیلیے تمام دروازے کھٹکھٹانے کے بعد مایوس ہوکر رسمی طور پر وزیراعظم نواز شریف سے معاملہ پر جلد غورکی درخواست کی ہے ۔وزارت پانی وبجلی کے سرکاری ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ کمپنی نے وزیراعظم نوازشریف کواس حوالے سے یکم اکتوبر2015ء کو خط لکھا تھا ۔ایمزوکا وفد اکتوبرکے آخری ہفتے وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر واشنگٹن میں وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف سے بھی ملا تھا ۔امریکی کمپنی نے وزیراعظم کوخط میں وہ تمام وجوہات بیان کی ہیں جس کی وجہ سے یہ اہم منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔
اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جرمنی کی کمپنی نے تیارکی جسے 2006ء میں حکومت پاکستان کے ماہرین نے منظورکیا ۔ایک سال دو ماہ بعد جنوری 2008 ء میں ایمزواوراس کے مقامی نمائندوں کے مابین شراکت داری کے مسائل کے پیش نظرکمپنی سے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کی بنیاد پر واپڈا کے ساتھ مل کر منصوبہ شروع کرنے کی رضامندی سے متعلق پوچھاگیا حالانکہ قبل ازیں یہ بلڈآپریٹ اورٹرانسفارکی بنیاد پر تھا۔ ایمزونے پبلک پرائیویٹ شراکت داری پر بھی مثبت جواب دیا اور حکومت پاکستان کے قانونی مشیرنے اس تجویزکوسب سے قابل عمل قراردیا جسے منصوبہ بندی کمیشن کی بھی رضامندی حاصل تھی۔
کمپنی کے مطابق حکومت پاکستان کی پالیسی کوایک طرف رکھتے ہوئے منصوبہ واپڈا کومنتقل کردیاگیا۔حکومت پاکستان نے ایمزوکوکہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کیلئے واپڈا سے رجوع کرے ۔خط میں کہا گیا کہ 2008ء کے بعد سے ایمزو حکومت پاکستان کی ہدایت کے مطابق واپڈا سے رابطے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جواب نہیں ملا لیکن فنڈزکی کمی کی وجہ سے واپڈا خود بھی اس منصوبے پر کام آگے نہیں بڑھا سکا۔ذرائع کے مطابق خط میں کہا گیاہے کہ واپڈا نے ایمزوکی جانب سے پہلے سے منظور شدہ فزیبلٹی اسٹڈی اوردیگر اہم معلومات کوخفیہ رکھا ہے ۔
اس لئے کمپنی پی سی ون کی منظوری کے عمل کے دوران منصوبہ واپڈا کوغیر قانونی طریقے سے منتقل کرنے پرعدالت سے رجوع کر رہی ہے۔ان ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کوخط میں امریکی کمپنی نے بتایا ہے کہ اسے لیٹر آف انٹینٹ جاری کیاگیا تھا اورمنظورشدہ فیزبلٹی اسٹڈی کیلیے بھی کمپنی نے ہی سرمایہ فراہم کیا ۔ایمزو نے منصوبہ کیلیے سو فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کا بندوبست بھی کرلیا ہے اوراسے جلد ازجلد مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔اس منصوبہ کی تکمیل سے حکومت پاکستان کاکوئی خرچہ نہیں ہوگا اورنیشنل گرڈ میں 800 میگاواٹ بجلی شامل ہوگی۔
ملک میں توانائی بحران کے باوجود دریائے سوات پر800 میگا واٹ بجلی پیداوارکا منڈا ڈیم منصوبہ امریکی کمپنیAMZO ایمزوکارپوریشن کی جانب سے کام شروع کرنے میںگہری دلچسپی کے باوجود سردخانے کی نذرکر دیا گیا ہے۔
میسرز ایمزوکارپوریشن کو 2004ء میں منڈاڈیم جسے بعد میں مہمند ڈیم کانام دیاگیا کا لیٹر آف انٹینٹ جاری کیاگیا تھا ۔اس کثیرالمقاصد منصوبہ سے بجلی پیداوارکے علاوہ سیلاب سے بچاؤ،آبپاشی کے پانی فراہمی ہوگا جس سے مقامی معیشت کوترقی ملنے کے ساتھ ماحول اورسیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ایمزو نے یہ منصوبہ ''بلڈ،آپریٹ ٹرانسفر''کی بنیاد پر مکمل کرکے چلاکرحوالے کرنا تھا۔
امریکی کمپنی نے منصوبے پرکام شروع کرنے کی اجازت کیلیے تمام دروازے کھٹکھٹانے کے بعد مایوس ہوکر رسمی طور پر وزیراعظم نواز شریف سے معاملہ پر جلد غورکی درخواست کی ہے ۔وزارت پانی وبجلی کے سرکاری ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ کمپنی نے وزیراعظم نوازشریف کواس حوالے سے یکم اکتوبر2015ء کو خط لکھا تھا ۔ایمزوکا وفد اکتوبرکے آخری ہفتے وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر واشنگٹن میں وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف سے بھی ملا تھا ۔امریکی کمپنی نے وزیراعظم کوخط میں وہ تمام وجوہات بیان کی ہیں جس کی وجہ سے یہ اہم منصوبہ شروع نہیں ہوسکا۔
اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جرمنی کی کمپنی نے تیارکی جسے 2006ء میں حکومت پاکستان کے ماہرین نے منظورکیا ۔ایک سال دو ماہ بعد جنوری 2008 ء میں ایمزواوراس کے مقامی نمائندوں کے مابین شراکت داری کے مسائل کے پیش نظرکمپنی سے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کی بنیاد پر واپڈا کے ساتھ مل کر منصوبہ شروع کرنے کی رضامندی سے متعلق پوچھاگیا حالانکہ قبل ازیں یہ بلڈآپریٹ اورٹرانسفارکی بنیاد پر تھا۔ ایمزونے پبلک پرائیویٹ شراکت داری پر بھی مثبت جواب دیا اور حکومت پاکستان کے قانونی مشیرنے اس تجویزکوسب سے قابل عمل قراردیا جسے منصوبہ بندی کمیشن کی بھی رضامندی حاصل تھی۔
کمپنی کے مطابق حکومت پاکستان کی پالیسی کوایک طرف رکھتے ہوئے منصوبہ واپڈا کومنتقل کردیاگیا۔حکومت پاکستان نے ایمزوکوکہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کیلئے واپڈا سے رجوع کرے ۔خط میں کہا گیا کہ 2008ء کے بعد سے ایمزو حکومت پاکستان کی ہدایت کے مطابق واپڈا سے رابطے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جواب نہیں ملا لیکن فنڈزکی کمی کی وجہ سے واپڈا خود بھی اس منصوبے پر کام آگے نہیں بڑھا سکا۔ذرائع کے مطابق خط میں کہا گیاہے کہ واپڈا نے ایمزوکی جانب سے پہلے سے منظور شدہ فزیبلٹی اسٹڈی اوردیگر اہم معلومات کوخفیہ رکھا ہے ۔
اس لئے کمپنی پی سی ون کی منظوری کے عمل کے دوران منصوبہ واپڈا کوغیر قانونی طریقے سے منتقل کرنے پرعدالت سے رجوع کر رہی ہے۔ان ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کوخط میں امریکی کمپنی نے بتایا ہے کہ اسے لیٹر آف انٹینٹ جاری کیاگیا تھا اورمنظورشدہ فیزبلٹی اسٹڈی کیلیے بھی کمپنی نے ہی سرمایہ فراہم کیا ۔ایمزو نے منصوبہ کیلیے سو فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کا بندوبست بھی کرلیا ہے اوراسے جلد ازجلد مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔اس منصوبہ کی تکمیل سے حکومت پاکستان کاکوئی خرچہ نہیں ہوگا اورنیشنل گرڈ میں 800 میگاواٹ بجلی شامل ہوگی۔