معاملہ ’مون گارڈن‘ کا
ریاست کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پکڑ ان غداروں کی ہونی چاہیئے جنہوں نے یہ سازش رچی ہے۔
عزت، جان اور مال کی امان پاؤں تو کچھ کہنا چاہتا ہوں، آئینِ پاکستان کے حصہ دوم میں درج شق 19 کے تحت مجھے کہنے کا حق حاصل ہے، میرا یہ حق اقوامِ متحدہ کے منشور برائے انسانی حقوق کی شق نمبر 19 کے تحت بھی محفوظ ہے۔
تقریباً 100 سال تک جدوجہد کرنے کے بعد حاصل شدہ وطن میں 68 سال گذرنے کے بعد بھی اگر لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوں تو کچھ تو گڑبڑ ہے۔ اس مملکتِ خداداد میں یہ حال؟ کیا یہ وطن اس لئے بنایا تھا ہم نے؟ متوسط معیارِ زندگی کا وعدہ ہم سے اکثر سیاسی پارٹیوں نے کیا تھا، کچھ تو آج بھی اسی وعدے کےعوض ووٹ حاصل کر رہی ہیں، پینے کا صاف پانی، رہنے کے لئے گھر، باعزت روزگار، علاج معالجے کی سہولیات اور تعلیم یہ وہ وعدے ہیں جو ہم سے کئے گئے۔ روٹی، کپڑا اور مکان یہ کامیاب ترین نعرہ ہے، لیکن کیا ریاست نے ہمیں یہ حقوق دیئے؟ دینے کیا تھے، اب تو غصب کرنا شروع کردیئے ہیں۔
کسی بھی راہ چلتے آدمی کو اگر ریاستی بیانیہ بیان کیا جائے تو اس کا ردِعمل کچھ یوں ہوگا کہ ''صحیح ہوا ہے ان مون گارڈن والوں کے ساتھ، بدمعاش کہیں کے، ریاست کا حق کھانے والے، ان سب پر تو آرٹیکل 6 بی لاگو ہونا چاہیئے۔ ظالم قبضہ گیر کہیں کے، کھا گئے پاکستان ریلوے کا علاقہ، سفاری پارک کی اراضی بھی نگل گئے۔ 18 حکومتی اداروں کو چکما دیا انہوں نے، 18 ادارے ۔۔۔۔۔ ان کو تو نشانِ عبرت بنا دینا چاہیئے'' کیوںکہ ریاست کے مطابق ان افراد نے حکومت کی اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
لیکن جب ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جن کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ریاست پر ظلم و جبر ڈھانے والے یہ قبضہ گیر کتنے بے بس و لاچار ہیں، کہیں بچے بلک رہے ہیں، کہیں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی بے پردگی ہو رہی ہے، کل تک جو اپنے ذاتی گھروں کے مالک تھے، آج بے حال و بد حال، سڑک پر بیٹھے ہیں۔ یہ ظالم ہیں، نہ جابر، یہ تو مظلوم اور مجبور ہیں۔ دھوکے کا شکار ہوئے ہیں، ان کو ٹھگا گیا ہے اور یہ کوئی چھوٹا موٹا نہیں، کروڑوں کا اسکینڈل ہے، سینکڑوں گھرانوں کے مستقبل داؤ پر لگ گئے ہیں، اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی حق حلال کی کمائی داؤ پر لگ گئی ہے۔
لیکن کیا ریاست کا حق انہی لوگوں نے غصب کیا ہے؟ نہیں بالکل نہیں، ان افراد کو ٹھگنے والا کوئی اور ہے، لیکن عتاب یہ افراد سہہ رہے ہیں۔ ایک قدیم رومی قول ہے، Lex injusta non est lex مطلب غیر منصفانہ قانون، قانون ہی نہیں۔ مون گارڈن کے رہائشیوں کو دیکھ کر دو واقعات یاد آرہے ہیں۔
پہلا تو چند ماہ پرانا ہے۔ اسلام آباد کے علاقے آئی الیون میں قائم افغان بستی، وہاں بھی ریاست نے اپنی رٹ قائم کی تھی اور شہریوں کو در بدر کر دیا تھا۔
دوسرا واقعہ کافی پرانا ہے، اس کا تعلق فرانس سے ہے، جہاں غربت و افلاس کے مارے عوام نے جب ملکہ سے روٹی کا مطالبہ کیا تو ملکہ نے کہا، یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ اس قول نے عوام کو رعیت سے شہری بننے کا سفر طے کرنے پر مجبور کردیا تھا اور یہ سفر حکمراں طبقے کے لئے کافی خونی ثابت ہوا تھا۔
ہم انسان دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں جو اپنے لئے ہی بنائی گئی زمین پر رہنے کے لئے پیسے دیتے ہیں، دیگر جاندار بس رہتے ہیں، آرام سے، اطمینان سے، چلیں مان لیا سکون سے رہنے کے لئے کچھ قوانین، قواعد اور ضوابط وضع کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے ملکیت کے قوانین بنائے، دولت کے قوانین بنائے، لیکن کیا یہ قوانین انسان دوست ہیں؟ ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں خاندان آج بھی بے گھر ہیں اور ہر ماہ ہر گھرانہ ہزاروں روپے کسی مالک مکان کو دے کر اپنی ریائش کو ممکن بناتے ہیں.
کوئی خاندان بہت زیادہ محنت کرکے اتنے پیسے جمع کر بھی لے کہ اپنا آشیانہ ''خرید'' سکے تو وہ بھی ٹھگ لیا جاتا ہے۔ کاش کہ ریاست خود تمام شہریوں کو زمینیں الاٹ کردے، سستے داموں پر، آسان اقساط پر، اگر ایسا نہ کیا گیا تو چند شاطر افراد اپنی چالاکی سے لوگوں کو دھوکہ دے کر اِسی طرح بھاگ جانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے اور پکڑ میں وہی عوام آئے گی جس کی گردن غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی بہت پتلی ہوگئی ہے۔
مندرجہ بالہ جو کچھ بھی نکات اُٹھائے ہیں اُن کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں کہ ریاست اپنا کام نہ کرے، بھلا کون بدبخت ہوگا یہ کہہ سکتا ہے، اگر ریاست اپنا کام نہیں کرے گا تو پھر معاملات کس طرح چلے گی؟ لیکن ہاں، اِتنا سب کچھ کہنے کا مقصد یہ ضرور ہے کہ ریاست اپنا کام ٹھیک طرح سے کرے۔ ریاست کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پکڑ ان غداروں کی ہونی چاہیئے جنہوں نے یہ سازش رچی ہے، ان حرام خوروں کے خلاف ہونی چاہیئے جنہوں نے رشوت لے کر ریاست کو نقصان پہنچایا، ان فسادیوں کے اثاثے ضبط ہونے چاہئیں ناں کہ مظلوم و لاچار شہریوں کے۔ اگر اِن سب کو چھوڑ کر عوام کو ہی گھر سے بے گھر کیا گیا تو پھر میں بولوں گا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر بولوں گا۔
[poll id="767"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
تقریباً 100 سال تک جدوجہد کرنے کے بعد حاصل شدہ وطن میں 68 سال گذرنے کے بعد بھی اگر لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوں تو کچھ تو گڑبڑ ہے۔ اس مملکتِ خداداد میں یہ حال؟ کیا یہ وطن اس لئے بنایا تھا ہم نے؟ متوسط معیارِ زندگی کا وعدہ ہم سے اکثر سیاسی پارٹیوں نے کیا تھا، کچھ تو آج بھی اسی وعدے کےعوض ووٹ حاصل کر رہی ہیں، پینے کا صاف پانی، رہنے کے لئے گھر، باعزت روزگار، علاج معالجے کی سہولیات اور تعلیم یہ وہ وعدے ہیں جو ہم سے کئے گئے۔ روٹی، کپڑا اور مکان یہ کامیاب ترین نعرہ ہے، لیکن کیا ریاست نے ہمیں یہ حقوق دیئے؟ دینے کیا تھے، اب تو غصب کرنا شروع کردیئے ہیں۔
کسی بھی راہ چلتے آدمی کو اگر ریاستی بیانیہ بیان کیا جائے تو اس کا ردِعمل کچھ یوں ہوگا کہ ''صحیح ہوا ہے ان مون گارڈن والوں کے ساتھ، بدمعاش کہیں کے، ریاست کا حق کھانے والے، ان سب پر تو آرٹیکل 6 بی لاگو ہونا چاہیئے۔ ظالم قبضہ گیر کہیں کے، کھا گئے پاکستان ریلوے کا علاقہ، سفاری پارک کی اراضی بھی نگل گئے۔ 18 حکومتی اداروں کو چکما دیا انہوں نے، 18 ادارے ۔۔۔۔۔ ان کو تو نشانِ عبرت بنا دینا چاہیئے'' کیوںکہ ریاست کے مطابق ان افراد نے حکومت کی اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
لیکن جب ہم ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جن کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ریاست پر ظلم و جبر ڈھانے والے یہ قبضہ گیر کتنے بے بس و لاچار ہیں، کہیں بچے بلک رہے ہیں، کہیں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی بے پردگی ہو رہی ہے، کل تک جو اپنے ذاتی گھروں کے مالک تھے، آج بے حال و بد حال، سڑک پر بیٹھے ہیں۔ یہ ظالم ہیں، نہ جابر، یہ تو مظلوم اور مجبور ہیں۔ دھوکے کا شکار ہوئے ہیں، ان کو ٹھگا گیا ہے اور یہ کوئی چھوٹا موٹا نہیں، کروڑوں کا اسکینڈل ہے، سینکڑوں گھرانوں کے مستقبل داؤ پر لگ گئے ہیں، اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی حق حلال کی کمائی داؤ پر لگ گئی ہے۔
لیکن کیا ریاست کا حق انہی لوگوں نے غصب کیا ہے؟ نہیں بالکل نہیں، ان افراد کو ٹھگنے والا کوئی اور ہے، لیکن عتاب یہ افراد سہہ رہے ہیں۔ ایک قدیم رومی قول ہے، Lex injusta non est lex مطلب غیر منصفانہ قانون، قانون ہی نہیں۔ مون گارڈن کے رہائشیوں کو دیکھ کر دو واقعات یاد آرہے ہیں۔
پہلا تو چند ماہ پرانا ہے۔ اسلام آباد کے علاقے آئی الیون میں قائم افغان بستی، وہاں بھی ریاست نے اپنی رٹ قائم کی تھی اور شہریوں کو در بدر کر دیا تھا۔
دوسرا واقعہ کافی پرانا ہے، اس کا تعلق فرانس سے ہے، جہاں غربت و افلاس کے مارے عوام نے جب ملکہ سے روٹی کا مطالبہ کیا تو ملکہ نے کہا، یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ اس قول نے عوام کو رعیت سے شہری بننے کا سفر طے کرنے پر مجبور کردیا تھا اور یہ سفر حکمراں طبقے کے لئے کافی خونی ثابت ہوا تھا۔
ہم انسان دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں جو اپنے لئے ہی بنائی گئی زمین پر رہنے کے لئے پیسے دیتے ہیں، دیگر جاندار بس رہتے ہیں، آرام سے، اطمینان سے، چلیں مان لیا سکون سے رہنے کے لئے کچھ قوانین، قواعد اور ضوابط وضع کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے ملکیت کے قوانین بنائے، دولت کے قوانین بنائے، لیکن کیا یہ قوانین انسان دوست ہیں؟ ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں خاندان آج بھی بے گھر ہیں اور ہر ماہ ہر گھرانہ ہزاروں روپے کسی مالک مکان کو دے کر اپنی ریائش کو ممکن بناتے ہیں.
کوئی خاندان بہت زیادہ محنت کرکے اتنے پیسے جمع کر بھی لے کہ اپنا آشیانہ ''خرید'' سکے تو وہ بھی ٹھگ لیا جاتا ہے۔ کاش کہ ریاست خود تمام شہریوں کو زمینیں الاٹ کردے، سستے داموں پر، آسان اقساط پر، اگر ایسا نہ کیا گیا تو چند شاطر افراد اپنی چالاکی سے لوگوں کو دھوکہ دے کر اِسی طرح بھاگ جانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے اور پکڑ میں وہی عوام آئے گی جس کی گردن غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی بہت پتلی ہوگئی ہے۔
مندرجہ بالہ جو کچھ بھی نکات اُٹھائے ہیں اُن کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں کہ ریاست اپنا کام نہ کرے، بھلا کون بدبخت ہوگا یہ کہہ سکتا ہے، اگر ریاست اپنا کام نہیں کرے گا تو پھر معاملات کس طرح چلے گی؟ لیکن ہاں، اِتنا سب کچھ کہنے کا مقصد یہ ضرور ہے کہ ریاست اپنا کام ٹھیک طرح سے کرے۔ ریاست کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پکڑ ان غداروں کی ہونی چاہیئے جنہوں نے یہ سازش رچی ہے، ان حرام خوروں کے خلاف ہونی چاہیئے جنہوں نے رشوت لے کر ریاست کو نقصان پہنچایا، ان فسادیوں کے اثاثے ضبط ہونے چاہئیں ناں کہ مظلوم و لاچار شہریوں کے۔ اگر اِن سب کو چھوڑ کر عوام کو ہی گھر سے بے گھر کیا گیا تو پھر میں بولوں گا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر بولوں گا۔
[poll id="767"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔