ماتا ہری۔۔۔رقاصا یا جاسوس
دنیا بھر میں مختلف ممالک کا ایک دوسرے کی اہم معلومات اور راز حاصل کرنے کے لیے جاسوسی کا اپنا اپنا نظام رہا ہے
RAWALPINDI:
دنیا بھر میں مختلف ممالک کا ایک دوسرے کی اہم معلومات اور راز حاصل کرنے کے لیے جاسوسی کا اپنا اپنا نظام رہا ہے جس کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ زیادہ تر کام اس نوعیت کے عموماً مرد حضرات ہی کرتے رہے ہیں۔ عورتوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن فوجی و سول اعلیٰ افسران اور سیاستدانوں کی خوابگاہوں میں داخل کر کے!! اقتدار کی غلام گردشوں میں، دربار کی راہداریوں میں، خوبصورت کنیزیں، طرحدار عورتیں جاسوسی کے فرائض نہایت ماہرانہ اور خفیہ طریقے سے انجام دیتی رہی ہیں۔
پہلے وہ ناز و ادا سے مخاطب کو زیر کرتی ہیں، کبھی خواجہ سرا کو سیڑھی بناتی ہیں، تو کبھی کسی بااختیار وزیر یا لارڈ کی ڈانس پارٹنر بن کر اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں غرض یہ کہ حسن کا جال بچھا کر ایسی ایسی معلومات حاصل کر لی جاتی ہیں جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کبھی باہر نکل سکتی تھیں؟ ان معاملات میں بیشمار عورتوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے لیے مخالف ملک کے فوجی و سرکاری افسران سے معلومات حاصل کر کے اعزازات بھی پاتی رہی ہیں لیکن جاسوسی کی دنیا میں جو نام اور مقام ''ماتا ہری'' کو ملا، وہ کسی اور کو نہیں۔
حسین عورتیں کس طرح پیار کا جال ڈال کر مشہور، ممتاز اور طاقت ور لوگوں کا شکار کرتی ہیں، یہ تو آج بھی نظر آتا ہے کہ جو کام مخالفین کی شر انگیزی، گالم گلوچ، دولت اور طعن و تشنیع سے نہ ہو سکا وہ چند دنوں میں کسی خوبرو عورت نے کس آسانی سے انجام دے دیا لیکن پھر بھی ماتا ہری کے بعد کوئی دوسری عورت ''ماتا ہری'' نہ بن سکی۔ ماتا ہری دراز قد، انتہائی پرکشش اور خوبرو عورت تھی۔ اس کا جنم 7 اگست 1876ء کو نیدرلینڈز (ہالینڈ) میں ہوا تھا۔ اس کا اصل نام مارگریٹا سیلے تھا۔ اس نے ایک مالدار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ معاشی آسودگی کے جھولے میں وہ تیرہ سال تک جھولتی رہی۔ اس کا باپ بڑا بزنس مین تھا، اپنی اکلوتی بیٹی کو دنیا جہاں کی نعمتیں فراہم کیں لیکن 1889ء میں وہ دیوالیہ ہو گیا۔
ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی اور 1891ء میں اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ ایک بیجا لاڈ پیار اور ناز و نعم میں پلی لڑکی کو کئی جھٹکے ایک ساتھ لگے۔ پہلا باپ کے دیوالیہ ہونے کا، دوسرا والدین کی علیحدگی کا اور تیسرا ماں کی موت کا۔ پندرہ سال کی عمر چوتھا سانحہ یہ تھا کہ اس کے باپ نے دوسری شادی بھی کر لی۔ اس طرح یہ خاندان بکھر گیا اور مارگریٹا اپنے ایک عزیز کے پاس رہنے کے لیے چلی گئی جہاں اس کے سرپرست نے اسے ٹیچر ٹریننگ اسکول میں داخل کر دیا، تربیت کے بعد اسے نوکری مل گئی لیکن اسکول کا ہیڈ ماسٹر اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تو اس کے سرپرست نے اسے اسکول سے واپس بلا لیا اور وہ اپنے انکل کے پاس ہیگ (جرمنی) چلی گئی۔
مارگریٹا خوبصورت تو تھی ہی لیکن اس میں فطری طور پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی پوری صلاحیت تھی جسے اس نے اپنی موت تک بخوبی استعمال کیا کیونکہ وہ مرد کی فطری کمزوری سے پوری طرح واقف تھی۔ اب وہ اٹھارہ برس کی ہو چکی تھی۔ امیری سے غریبی کا سفر اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ وہ کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی جس سے عیش و عشرت کی وہ زندگی دوبارہ جی سکے جس کی وہ تیرہ برس تک عادی رہی تھی۔
اسی زمانے میں ایک ڈچ اخبار میں ''ضرورت رشتہ'' کے اشتہار نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔ جو ڈچ نوآبادیاتی فوج کے ایک کیپٹن روڈولف نے دیا تھا اور بیوی کی تلاش میں تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں اس نے مارگریٹا سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ 11 جون 1895ء کو یہ شادی ہو گئی۔ اس شادی کے بعد وہ معاشرے کے اعلیٰ طبقات میں گھل مل گئی جس نے اس کی آمدنی اور قیمتی تحائف میں خوب اضافہ کر دیا۔ مالی آسودگی اور امراء و رؤسا کی صحبتوں کے ساتھ شوہر سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے۔ وہ اپنے شوہر سے بیس برس چھوٹی تھی، جس کا احساس بھی وہ اسے دلاتی رہتی تھی۔
اس کا شوہر جو عمر میں اس سے بیس سال بڑا تھا، شراب کا رسیا بھی تھا، ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں ایک اور عورت بھی تھی۔ جیسی کہ جاپانی معاشرے میں ''گیشا گرل''۔ اب ان میں ہاتھا پائی بھی شروع ہو چکی تھی۔ مارگریٹا دراصل خواہشوں کی اسیر تھی اور لوگوں کو اپنی کامیابی کے لیے سیڑھی بنانا وہ خوب جانتی تھی۔
کیپٹن روڈولف سے اس کے دو بچے بھی تھے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ آہستہ آہستہ اس کے شوہر کی آمدنی گھٹنے لگی اور ترقی بھی رک گئی جس کا ذمے دار وہ اپنی بیوی کو ٹھہراتا تھا۔ عارضی طور پر دونوں میں علیحدگی ہو گئی اور مارگریٹا ایک اور ڈچ آفیسر کے ساتھ گھومنے لگی۔ 1902ء میں اس نے طلاق لے لی اور ایک مقامی ڈانس کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس نے بطور خاص انڈونیشیا کے کلاسیکی روایتی رقص اور رسوم و رواج سیکھنے کی طرف بھی توجہ دی۔ اس دوران وہ جان گئی تھی کہ ڈچ ایسٹ انڈیر (اب انڈونیشیا) میں ملی جلی آبادی ہے۔
عیسائی، ہندو اور مسلمان روحانیت پہ یقین رکھتے ہیں لہٰذا اس نے منصوبے کے تحت 1897ء میں اپنے فنکارانہ نام کا اعلان ''ماتا ہری'' کے نام سے کیا اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی دیوی کا عکس ہے۔ کالی ماتا کا نام اور اس کی طاقت کا ذکر اس نے سن رکھا تھا۔ پادریوں کے اثر و رسوخ سے بھی واقف تھی اور مسلمانوں کی روحانیت کا بھی اسے ادراک تھا۔ 1903ء میں جب وہ پیرس آئی تو یہاں سرکس میں گھوڑا دوڑانے سے لے کر ماڈلنگ اور اسٹیج پہ اپنے ہوش ربا رقص کی وجہ سے وہ راتوں رات مشہور ہو گئی۔ فرانس میں اس کے رقص کی دھوم تھی۔ دولت اب اس کے قدموں میں اور شہرت کا تاج سر پہ تھا۔
آہستہ آہستہ اس نے ہندوانہ روایتی رقص بھی کرنے شروع کر دیے۔ جن کی شبیہہ صرف مندر کی اندرونی دیواروں پہ تھی۔ یہ رقص سستی شہرت حاصل کرنے کا بھی ذریعہ بنے اور جرمنی و فرانس کے فوجی اعلیٰ افسران سے تعلقات بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوئے۔ اعلیٰ فوجیوں، سیاستدانوں اور دوسرے با رسوخ افراد سے اس کے ذاتی تعلقات ہو گئے۔ اپنی اسی خصوصیات کی بناء پر وہ بیرون ملک بھی پہچانی جانے لگی۔وہ آزادانہ طور پر نیدرلینڈز، اسپین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی آنے جانے لگی کیونکہ حسن اور غمزہ و ادا کا پروانہ راہداری اس کے پاس تھا۔ اب وہ مارگریٹا سیلے کے بجائے صرف ''ماتا ہری'' تھی اور یہ نام اس نے بہت سوچ سمجھ کے اپنایا تھا۔
اب وہ ایک جاسوس تھی جس کا کردار پہلی جنگ عظیم میں بہت نمایاں تھا۔ وہ جرمنی کے لیے جاسوسی کرتی تھی اور فرانس کے فوجی راز جرمنی تک پہنچاتی تھی جس کے بدلے میں دولت اس پہ نچھاور ہوتی رہتی تھی۔ جرمن فوجیوں کی قربت سے فرانسیسی حکومت کو شبہ ہوا ۔ انھوں نے ماتا ہری کی خفیہ نگرانی شروع کر دی۔ فرانس کے فوجی افسران نے اس کے بیحد اہم ریڈیائی پیغامات پکڑ لیے جو جرمنی کو دیے جا رہے تھے اور آواز ماتا ہری کی تھی۔ لہٰذا مسلسل نگرانی اور یقین کے بعد اسے 13 فروری 1917ء کو پیرس کے ایک ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا۔ 24 جولائی 1917ء کو اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی کہ وہ جرمن جاسوس ہے۔ جس کی جاسوسی کی وجہ سے کم ازکم پچاس ہزار فرانسیسی سپاہیوں کی زندگی ختم ہو گئی۔
لیکن ماتا ہری نے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ جس طرح کہ عام طور پر بڑے مجرم کیا کرتے ہیں۔ اور آج تک کر رہے ہیں۔ اس نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی دوستی چونکہ دونوں ملکوں کے فوجیوں، اعلیٰ سیاسی قیادت اور افسران سے تھی اس لیے وہ دونوں ملکوں میں آزادانہ آتی جاتی تھی۔
اور دولت کی دیوی کو مہربان رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن فرانس نے اس کی بات پہ یقین نہیں کیا اور 15 اکتوبر 1917ء کو صرف اکتالیس سال کی عمر میں اسے فائرنگ اسکواڈ نے ہلاک کیا۔ یوں ماتا ہری اپنے انجام کو پہنچی۔ ماتا ہری نے جو کہ ایک پیشہ ور رقاصہ تھی 1916ء میں فرانس کے لیے جاسوسی کرنا قبول کیا تھا کہ وہ جرمنی کے فوجی راز فرانسیسی حکومت کو دے گی اور وہ کام کر بھی رہی تھی۔ لیکن بعد میں اس نے جرمنی کو بھی فرانس کے راز بیچنا شروع کر دیے۔ یعنی وہ ''ڈبل ایجنٹ'' بن گئی۔ فرانس کو جب شبہ ہوا تو سچ نکلا کہ دونوں ملکوں کے لیے کام کر رہی تھی۔ ایک عرصے تک اس کے جرائم کا کوئی خاص ثبوت نہ ملا۔ لیکن بعد میں 1970ء کی دہائی میں ثبوت مل گئے کہ وہ مکمل طور پر ''ڈبل ایجنٹ'' تھی۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ماتا ہری پیدائشی طور پر جاسوس ہی تھی۔
دنیا بھر میں مختلف ممالک کا ایک دوسرے کی اہم معلومات اور راز حاصل کرنے کے لیے جاسوسی کا اپنا اپنا نظام رہا ہے جس کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ زیادہ تر کام اس نوعیت کے عموماً مرد حضرات ہی کرتے رہے ہیں۔ عورتوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن فوجی و سول اعلیٰ افسران اور سیاستدانوں کی خوابگاہوں میں داخل کر کے!! اقتدار کی غلام گردشوں میں، دربار کی راہداریوں میں، خوبصورت کنیزیں، طرحدار عورتیں جاسوسی کے فرائض نہایت ماہرانہ اور خفیہ طریقے سے انجام دیتی رہی ہیں۔
پہلے وہ ناز و ادا سے مخاطب کو زیر کرتی ہیں، کبھی خواجہ سرا کو سیڑھی بناتی ہیں، تو کبھی کسی بااختیار وزیر یا لارڈ کی ڈانس پارٹنر بن کر اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں غرض یہ کہ حسن کا جال بچھا کر ایسی ایسی معلومات حاصل کر لی جاتی ہیں جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کبھی باہر نکل سکتی تھیں؟ ان معاملات میں بیشمار عورتوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے لیے مخالف ملک کے فوجی و سرکاری افسران سے معلومات حاصل کر کے اعزازات بھی پاتی رہی ہیں لیکن جاسوسی کی دنیا میں جو نام اور مقام ''ماتا ہری'' کو ملا، وہ کسی اور کو نہیں۔
حسین عورتیں کس طرح پیار کا جال ڈال کر مشہور، ممتاز اور طاقت ور لوگوں کا شکار کرتی ہیں، یہ تو آج بھی نظر آتا ہے کہ جو کام مخالفین کی شر انگیزی، گالم گلوچ، دولت اور طعن و تشنیع سے نہ ہو سکا وہ چند دنوں میں کسی خوبرو عورت نے کس آسانی سے انجام دے دیا لیکن پھر بھی ماتا ہری کے بعد کوئی دوسری عورت ''ماتا ہری'' نہ بن سکی۔ ماتا ہری دراز قد، انتہائی پرکشش اور خوبرو عورت تھی۔ اس کا جنم 7 اگست 1876ء کو نیدرلینڈز (ہالینڈ) میں ہوا تھا۔ اس کا اصل نام مارگریٹا سیلے تھا۔ اس نے ایک مالدار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ معاشی آسودگی کے جھولے میں وہ تیرہ سال تک جھولتی رہی۔ اس کا باپ بڑا بزنس مین تھا، اپنی اکلوتی بیٹی کو دنیا جہاں کی نعمتیں فراہم کیں لیکن 1889ء میں وہ دیوالیہ ہو گیا۔
ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی اور 1891ء میں اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ ایک بیجا لاڈ پیار اور ناز و نعم میں پلی لڑکی کو کئی جھٹکے ایک ساتھ لگے۔ پہلا باپ کے دیوالیہ ہونے کا، دوسرا والدین کی علیحدگی کا اور تیسرا ماں کی موت کا۔ پندرہ سال کی عمر چوتھا سانحہ یہ تھا کہ اس کے باپ نے دوسری شادی بھی کر لی۔ اس طرح یہ خاندان بکھر گیا اور مارگریٹا اپنے ایک عزیز کے پاس رہنے کے لیے چلی گئی جہاں اس کے سرپرست نے اسے ٹیچر ٹریننگ اسکول میں داخل کر دیا، تربیت کے بعد اسے نوکری مل گئی لیکن اسکول کا ہیڈ ماسٹر اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تو اس کے سرپرست نے اسے اسکول سے واپس بلا لیا اور وہ اپنے انکل کے پاس ہیگ (جرمنی) چلی گئی۔
مارگریٹا خوبصورت تو تھی ہی لیکن اس میں فطری طور پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی پوری صلاحیت تھی جسے اس نے اپنی موت تک بخوبی استعمال کیا کیونکہ وہ مرد کی فطری کمزوری سے پوری طرح واقف تھی۔ اب وہ اٹھارہ برس کی ہو چکی تھی۔ امیری سے غریبی کا سفر اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ وہ کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی جس سے عیش و عشرت کی وہ زندگی دوبارہ جی سکے جس کی وہ تیرہ برس تک عادی رہی تھی۔
اسی زمانے میں ایک ڈچ اخبار میں ''ضرورت رشتہ'' کے اشتہار نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔ جو ڈچ نوآبادیاتی فوج کے ایک کیپٹن روڈولف نے دیا تھا اور بیوی کی تلاش میں تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں اس نے مارگریٹا سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ 11 جون 1895ء کو یہ شادی ہو گئی۔ اس شادی کے بعد وہ معاشرے کے اعلیٰ طبقات میں گھل مل گئی جس نے اس کی آمدنی اور قیمتی تحائف میں خوب اضافہ کر دیا۔ مالی آسودگی اور امراء و رؤسا کی صحبتوں کے ساتھ شوہر سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے۔ وہ اپنے شوہر سے بیس برس چھوٹی تھی، جس کا احساس بھی وہ اسے دلاتی رہتی تھی۔
اس کا شوہر جو عمر میں اس سے بیس سال بڑا تھا، شراب کا رسیا بھی تھا، ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں ایک اور عورت بھی تھی۔ جیسی کہ جاپانی معاشرے میں ''گیشا گرل''۔ اب ان میں ہاتھا پائی بھی شروع ہو چکی تھی۔ مارگریٹا دراصل خواہشوں کی اسیر تھی اور لوگوں کو اپنی کامیابی کے لیے سیڑھی بنانا وہ خوب جانتی تھی۔
کیپٹن روڈولف سے اس کے دو بچے بھی تھے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ آہستہ آہستہ اس کے شوہر کی آمدنی گھٹنے لگی اور ترقی بھی رک گئی جس کا ذمے دار وہ اپنی بیوی کو ٹھہراتا تھا۔ عارضی طور پر دونوں میں علیحدگی ہو گئی اور مارگریٹا ایک اور ڈچ آفیسر کے ساتھ گھومنے لگی۔ 1902ء میں اس نے طلاق لے لی اور ایک مقامی ڈانس کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس نے بطور خاص انڈونیشیا کے کلاسیکی روایتی رقص اور رسوم و رواج سیکھنے کی طرف بھی توجہ دی۔ اس دوران وہ جان گئی تھی کہ ڈچ ایسٹ انڈیر (اب انڈونیشیا) میں ملی جلی آبادی ہے۔
عیسائی، ہندو اور مسلمان روحانیت پہ یقین رکھتے ہیں لہٰذا اس نے منصوبے کے تحت 1897ء میں اپنے فنکارانہ نام کا اعلان ''ماتا ہری'' کے نام سے کیا اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی دیوی کا عکس ہے۔ کالی ماتا کا نام اور اس کی طاقت کا ذکر اس نے سن رکھا تھا۔ پادریوں کے اثر و رسوخ سے بھی واقف تھی اور مسلمانوں کی روحانیت کا بھی اسے ادراک تھا۔ 1903ء میں جب وہ پیرس آئی تو یہاں سرکس میں گھوڑا دوڑانے سے لے کر ماڈلنگ اور اسٹیج پہ اپنے ہوش ربا رقص کی وجہ سے وہ راتوں رات مشہور ہو گئی۔ فرانس میں اس کے رقص کی دھوم تھی۔ دولت اب اس کے قدموں میں اور شہرت کا تاج سر پہ تھا۔
آہستہ آہستہ اس نے ہندوانہ روایتی رقص بھی کرنے شروع کر دیے۔ جن کی شبیہہ صرف مندر کی اندرونی دیواروں پہ تھی۔ یہ رقص سستی شہرت حاصل کرنے کا بھی ذریعہ بنے اور جرمنی و فرانس کے فوجی اعلیٰ افسران سے تعلقات بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوئے۔ اعلیٰ فوجیوں، سیاستدانوں اور دوسرے با رسوخ افراد سے اس کے ذاتی تعلقات ہو گئے۔ اپنی اسی خصوصیات کی بناء پر وہ بیرون ملک بھی پہچانی جانے لگی۔وہ آزادانہ طور پر نیدرلینڈز، اسپین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی آنے جانے لگی کیونکہ حسن اور غمزہ و ادا کا پروانہ راہداری اس کے پاس تھا۔ اب وہ مارگریٹا سیلے کے بجائے صرف ''ماتا ہری'' تھی اور یہ نام اس نے بہت سوچ سمجھ کے اپنایا تھا۔
اب وہ ایک جاسوس تھی جس کا کردار پہلی جنگ عظیم میں بہت نمایاں تھا۔ وہ جرمنی کے لیے جاسوسی کرتی تھی اور فرانس کے فوجی راز جرمنی تک پہنچاتی تھی جس کے بدلے میں دولت اس پہ نچھاور ہوتی رہتی تھی۔ جرمن فوجیوں کی قربت سے فرانسیسی حکومت کو شبہ ہوا ۔ انھوں نے ماتا ہری کی خفیہ نگرانی شروع کر دی۔ فرانس کے فوجی افسران نے اس کے بیحد اہم ریڈیائی پیغامات پکڑ لیے جو جرمنی کو دیے جا رہے تھے اور آواز ماتا ہری کی تھی۔ لہٰذا مسلسل نگرانی اور یقین کے بعد اسے 13 فروری 1917ء کو پیرس کے ایک ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا۔ 24 جولائی 1917ء کو اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی کہ وہ جرمن جاسوس ہے۔ جس کی جاسوسی کی وجہ سے کم ازکم پچاس ہزار فرانسیسی سپاہیوں کی زندگی ختم ہو گئی۔
لیکن ماتا ہری نے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ جس طرح کہ عام طور پر بڑے مجرم کیا کرتے ہیں۔ اور آج تک کر رہے ہیں۔ اس نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی دوستی چونکہ دونوں ملکوں کے فوجیوں، اعلیٰ سیاسی قیادت اور افسران سے تھی اس لیے وہ دونوں ملکوں میں آزادانہ آتی جاتی تھی۔
اور دولت کی دیوی کو مہربان رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن فرانس نے اس کی بات پہ یقین نہیں کیا اور 15 اکتوبر 1917ء کو صرف اکتالیس سال کی عمر میں اسے فائرنگ اسکواڈ نے ہلاک کیا۔ یوں ماتا ہری اپنے انجام کو پہنچی۔ ماتا ہری نے جو کہ ایک پیشہ ور رقاصہ تھی 1916ء میں فرانس کے لیے جاسوسی کرنا قبول کیا تھا کہ وہ جرمنی کے فوجی راز فرانسیسی حکومت کو دے گی اور وہ کام کر بھی رہی تھی۔ لیکن بعد میں اس نے جرمنی کو بھی فرانس کے راز بیچنا شروع کر دیے۔ یعنی وہ ''ڈبل ایجنٹ'' بن گئی۔ فرانس کو جب شبہ ہوا تو سچ نکلا کہ دونوں ملکوں کے لیے کام کر رہی تھی۔ ایک عرصے تک اس کے جرائم کا کوئی خاص ثبوت نہ ملا۔ لیکن بعد میں 1970ء کی دہائی میں ثبوت مل گئے کہ وہ مکمل طور پر ''ڈبل ایجنٹ'' تھی۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ماتا ہری پیدائشی طور پر جاسوس ہی تھی۔