لاہور لہور اے
PHA وجود میں آنے کے بعد شہر کی سڑکوں کے دو رویہ درخت لگانے اور ہریالی میں اضافہ کرنے کا کام بڑی تیزی سے ہوا ہے
ISLAMABAD:
چند روز قبل میں ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ شکیل احمد میاں کی پشت کی طرف والی دیوار پر آویزاں بورڈ پر نظر پڑی جس پر پہلا نام کامران لاشاری کا اس کے DG کے طور پر اکیس ستمبر 1998ء کی تاریخ کے ساتھ لکھا تھا۔
میرا ذہن 1998ء کی طرف گھوم کر اس دن کی طرف گیا جب دفتر میں چھٹی کا وقت قریب تھا اور مجھے وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری کا ٹیلیفون پر پیغام ملا کہ وزیر اعلیٰ کا حکم ہے کہ آج ہی ایک سمری بمع ڈرافٹ نوٹیفکیشن برائے منظوری بھجوائی جائے کہ لاہور کو گل و گلزار کرنے کے لیے ایک اتھارٹی جس کا نام Parks & Horticulture Development Authority ہو گا قائم کی جا رہی ہے جس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کا نام بھی تجویز کیا گیا تھا۔ حکم حاکم تھا اس روز دیر تک دفتر میں بیٹھ کر ڈرافٹ کی تیاری منظوری اور نوٹیفکیشن کے مراحل طے کیے گئے۔
کچھ عرصہ بعد جی او آر ون کے ایک ڈنر پر لاشاری نے حاضرین کو مخاطب کر کے بتایا کہ اس اتھارٹی کا انگریزی مخفف PHDA بنتا ہے جس کو دوست احباب ''پھڈا'' بول کر مذاق کرتے ہیں لہٰذا اس میں سے Development نکال دیا جائے تا کہ یہ PHA رہ جائے اور لوگوں کا اسے ''پھڈا'' کہہ کر بلانا بند ہو جائے یوں اس کا نام PHDA سے PHA کر دیا گیا اور اس روز جو میں نے PHA سے نکلتے ہوئے شکیل احمد میاں کو اپنا لائحہ عمل بتاتے اور لاہور کی خوبصورتی کے لیے پر عزم دیکھا تو سترہ سال قبل اس اتھارٹی کے قیام کا دن یاد آ گیا۔
لاہور کی تاریخی دستاویزات اس وقت برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ شہر لاہور کی موجودگی ایک ہزار سال قبل مسیح میں بھی پائی گئی ہے۔ یہ شہر جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے باغات، روشنیوں اور تعلیمی اداروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا نام ہندو دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے نام پر رکھا گیا۔ لاوا کو لوہ کے نام سے بھی بلایا جاتا تھا اس دور کی البتہ کوئی تاریخی عمارت اب موجود نہیں۔
گیارہویں صدی میں محمود غزنوی نے یہ شہر فتح کیا اس صدی کے اخیر میں شہاب الدین غوری اس پر قابض ہوا جب کہ سولہویں صدی میں یہ مغل بادشاہوں کے تسلط میں آیا، ان کے بعد سکھوں کا دور آیا پھر انگریز آئے اور 1947ء سے یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ PHA نے اس شہر کو باغات اور ہریالی سے بھرپور باغات کا شہر بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ اس وقت یہاں چھوٹے بڑے نو سو کے قریب باغات ہیں۔ اسے صوفیائے کرام کی خانقاہوں کا مرکز بھی کہ سکتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؓ کا عرس منعقد ہونے پر لاکھوں لوگ بڑی عقیدت سے نماز و دعا کے لیے دربار پر حاضری دیتے ہیں جب کہ میلہ چراغاں پر یعنی مادھو لعل حسین کی یاد میں دھمال اور رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوتی ہیں۔
PHA وجود میں آنے کے بعد شہر کی سڑکوں کے دو رویہ درخت لگانے اور ہریالی میں اضافہ کرنے کا کام بڑی تیزی سے ہوا ہے اور اس کے علاوہ سڑکوں کے سنگھم پر رنگ برنگے موسمی پھولوں کے پودوں کی کیاریاں اور چوکٹھے لگانے میں خوب محنت کی جا رہی ہے جس سے ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ PHA نے جشن بہاراں کا اہتمام کر کے نہر کنارے اور مختلف مقامات پر لوگوں کے دیدہ و دل کی ضیافت کا خوب انتظام کیا ہے۔
یہ کینال میلہ دن کو ہی نہیں رات کے وقت بھی قابل دید ہوتا ہے۔ مغلیہ عہد کی عمارات میں ان کا مخصوص تعمیراتی حسن بادشاہی مسجد، وزیر خاں مسجد، قلعہ لاہور، قلعہ کے شیش محل، نور جہاں اور جہانگیر کے مقبروں میں اور بعد کے دور کی عمارات جن میں گنگا رام اسپتال، جنرل پوسٹ آفس، ایچیسن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس اور میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے جو برطانوی دور میں بنیں۔ صرف نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) ہی کو لے لیں تو جو معروف آرٹسٹ اس سے منسلک رہے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں چند نام جو بھلائے نہ بھولیں ان میں بھائی رام سنگھ، عبدالرحمن چغتائی، شاکر علی، خالد اقبال، نیر علی دادا، کولن ڈیوڈ، سلیمہ ہاشمی، ساجدہ ونڈل، سعید اختر اور بشیر احمد ہیں۔
لاہور کی شہرت اس کے متنوع دسترخوانوں کی بنا پر بھی کسی میزبان اور مہمان سے ڈھکی چھپی نہیں، پرانے شہر یعنی ڈاؤن ٹاؤن سے لے کر گلبرگ کے گرد و نواح میں دنیا کے ہر قابل ذکر ملک کے لذیذ پکوان کھائے بغیر کوئی سیاح واپس نہیں جا سکتا۔
پنجابی کہتے ہیں کہ ''جس نے لاہور نہیں دیکھا اوہ جمیا ای نہیں'' اور لاہور کے شہری کہتے ہیں ''لاہور لہور اے'' جب کہ اس روشنیوں کے شہر کے بارے میں فیض احمد فیضؔ منٹگمری جیل سے پندرہ اپریل 1954ء میں یوں نغمہ سرا تھے؎
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی بڑھتی، اٹھتی گرتی رہتی ہے
کُہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کُہر کے پیچھے روشینوں کا شہر
اے روشینوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشینوں کے شہر
شب خوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں اونچی رکھیں لو
لاہور شہر کی ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ریگولیٹ کرنے کے لیے موجودہ حکومت میٹروبس، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری سڑکیں بنانے پر بہت توجہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سسٹم پر توجہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس پر تین آراء ہر جگہ زیر بحث آ رہی ہیں۔ ایک ان منصوبوں کے حق میں اور دوسری یہ کہ کیا صرف لاہور کا دس پندرہ کلو میٹر مرکزی علاقہ ہی ان بے انتہا گراں منصوبوں کا حقدار ہے۔ تیسرے یہ کہ مجوزہ اورنج لائن ٹرین جس پر 365 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اس کے لیے متعدد تاریخی ثقافتی ورثے میں شامل عمارات کو ادھیڑنا ہو گا۔ ایک مکتب فکر کا کہنا ہے کہ کیا اتنی خطیر رقم کا خرچ دانشمندانہ فعل ہو گا کیا اس کا متبادل منصوبہ بہتر نہ ہو گا۔ لیکن اس وقت مضمون کی اسپرٹ کو یہیں تک پابند رکھنا مناسب ہو گا کہ بلا شبہ ''لاہور لہور اے۔''
چند روز قبل میں ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ شکیل احمد میاں کی پشت کی طرف والی دیوار پر آویزاں بورڈ پر نظر پڑی جس پر پہلا نام کامران لاشاری کا اس کے DG کے طور پر اکیس ستمبر 1998ء کی تاریخ کے ساتھ لکھا تھا۔
میرا ذہن 1998ء کی طرف گھوم کر اس دن کی طرف گیا جب دفتر میں چھٹی کا وقت قریب تھا اور مجھے وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری کا ٹیلیفون پر پیغام ملا کہ وزیر اعلیٰ کا حکم ہے کہ آج ہی ایک سمری بمع ڈرافٹ نوٹیفکیشن برائے منظوری بھجوائی جائے کہ لاہور کو گل و گلزار کرنے کے لیے ایک اتھارٹی جس کا نام Parks & Horticulture Development Authority ہو گا قائم کی جا رہی ہے جس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کا نام بھی تجویز کیا گیا تھا۔ حکم حاکم تھا اس روز دیر تک دفتر میں بیٹھ کر ڈرافٹ کی تیاری منظوری اور نوٹیفکیشن کے مراحل طے کیے گئے۔
کچھ عرصہ بعد جی او آر ون کے ایک ڈنر پر لاشاری نے حاضرین کو مخاطب کر کے بتایا کہ اس اتھارٹی کا انگریزی مخفف PHDA بنتا ہے جس کو دوست احباب ''پھڈا'' بول کر مذاق کرتے ہیں لہٰذا اس میں سے Development نکال دیا جائے تا کہ یہ PHA رہ جائے اور لوگوں کا اسے ''پھڈا'' کہہ کر بلانا بند ہو جائے یوں اس کا نام PHDA سے PHA کر دیا گیا اور اس روز جو میں نے PHA سے نکلتے ہوئے شکیل احمد میاں کو اپنا لائحہ عمل بتاتے اور لاہور کی خوبصورتی کے لیے پر عزم دیکھا تو سترہ سال قبل اس اتھارٹی کے قیام کا دن یاد آ گیا۔
لاہور کی تاریخی دستاویزات اس وقت برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ شہر لاہور کی موجودگی ایک ہزار سال قبل مسیح میں بھی پائی گئی ہے۔ یہ شہر جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے باغات، روشنیوں اور تعلیمی اداروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا نام ہندو دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے نام پر رکھا گیا۔ لاوا کو لوہ کے نام سے بھی بلایا جاتا تھا اس دور کی البتہ کوئی تاریخی عمارت اب موجود نہیں۔
گیارہویں صدی میں محمود غزنوی نے یہ شہر فتح کیا اس صدی کے اخیر میں شہاب الدین غوری اس پر قابض ہوا جب کہ سولہویں صدی میں یہ مغل بادشاہوں کے تسلط میں آیا، ان کے بعد سکھوں کا دور آیا پھر انگریز آئے اور 1947ء سے یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ PHA نے اس شہر کو باغات اور ہریالی سے بھرپور باغات کا شہر بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ اس وقت یہاں چھوٹے بڑے نو سو کے قریب باغات ہیں۔ اسے صوفیائے کرام کی خانقاہوں کا مرکز بھی کہ سکتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؓ کا عرس منعقد ہونے پر لاکھوں لوگ بڑی عقیدت سے نماز و دعا کے لیے دربار پر حاضری دیتے ہیں جب کہ میلہ چراغاں پر یعنی مادھو لعل حسین کی یاد میں دھمال اور رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوتی ہیں۔
PHA وجود میں آنے کے بعد شہر کی سڑکوں کے دو رویہ درخت لگانے اور ہریالی میں اضافہ کرنے کا کام بڑی تیزی سے ہوا ہے اور اس کے علاوہ سڑکوں کے سنگھم پر رنگ برنگے موسمی پھولوں کے پودوں کی کیاریاں اور چوکٹھے لگانے میں خوب محنت کی جا رہی ہے جس سے ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ PHA نے جشن بہاراں کا اہتمام کر کے نہر کنارے اور مختلف مقامات پر لوگوں کے دیدہ و دل کی ضیافت کا خوب انتظام کیا ہے۔
یہ کینال میلہ دن کو ہی نہیں رات کے وقت بھی قابل دید ہوتا ہے۔ مغلیہ عہد کی عمارات میں ان کا مخصوص تعمیراتی حسن بادشاہی مسجد، وزیر خاں مسجد، قلعہ لاہور، قلعہ کے شیش محل، نور جہاں اور جہانگیر کے مقبروں میں اور بعد کے دور کی عمارات جن میں گنگا رام اسپتال، جنرل پوسٹ آفس، ایچیسن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس اور میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے جو برطانوی دور میں بنیں۔ صرف نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) ہی کو لے لیں تو جو معروف آرٹسٹ اس سے منسلک رہے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں چند نام جو بھلائے نہ بھولیں ان میں بھائی رام سنگھ، عبدالرحمن چغتائی، شاکر علی، خالد اقبال، نیر علی دادا، کولن ڈیوڈ، سلیمہ ہاشمی، ساجدہ ونڈل، سعید اختر اور بشیر احمد ہیں۔
لاہور کی شہرت اس کے متنوع دسترخوانوں کی بنا پر بھی کسی میزبان اور مہمان سے ڈھکی چھپی نہیں، پرانے شہر یعنی ڈاؤن ٹاؤن سے لے کر گلبرگ کے گرد و نواح میں دنیا کے ہر قابل ذکر ملک کے لذیذ پکوان کھائے بغیر کوئی سیاح واپس نہیں جا سکتا۔
پنجابی کہتے ہیں کہ ''جس نے لاہور نہیں دیکھا اوہ جمیا ای نہیں'' اور لاہور کے شہری کہتے ہیں ''لاہور لہور اے'' جب کہ اس روشنیوں کے شہر کے بارے میں فیض احمد فیضؔ منٹگمری جیل سے پندرہ اپریل 1954ء میں یوں نغمہ سرا تھے؎
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی بڑھتی، اٹھتی گرتی رہتی ہے
کُہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کُہر کے پیچھے روشینوں کا شہر
اے روشینوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشینوں کے شہر
شب خوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں اونچی رکھیں لو
لاہور شہر کی ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو ریگولیٹ کرنے کے لیے موجودہ حکومت میٹروبس، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری سڑکیں بنانے پر بہت توجہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ بھی پائپ لائن میں ہے۔ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سسٹم پر توجہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس پر تین آراء ہر جگہ زیر بحث آ رہی ہیں۔ ایک ان منصوبوں کے حق میں اور دوسری یہ کہ کیا صرف لاہور کا دس پندرہ کلو میٹر مرکزی علاقہ ہی ان بے انتہا گراں منصوبوں کا حقدار ہے۔ تیسرے یہ کہ مجوزہ اورنج لائن ٹرین جس پر 365 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اس کے لیے متعدد تاریخی ثقافتی ورثے میں شامل عمارات کو ادھیڑنا ہو گا۔ ایک مکتب فکر کا کہنا ہے کہ کیا اتنی خطیر رقم کا خرچ دانشمندانہ فعل ہو گا کیا اس کا متبادل منصوبہ بہتر نہ ہو گا۔ لیکن اس وقت مضمون کی اسپرٹ کو یہیں تک پابند رکھنا مناسب ہو گا کہ بلا شبہ ''لاہور لہور اے۔''