غمِ اکتوبرآخری حصہ
بچپن جوانی میں اور جوانی بڑھاپے میں ڈھل جاتی ہے اور زندگی موت کی منزل پر آکر ٹھہر جاتی ہے،
ماہ اکتوبر میں ہی عمران خان اور ریحام خان کی علیحدگی ہوگئی، جس قدر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عمران خان کے چاہنے والوں کو ان کی شادی خانہ آبادی کی خوشی تھی اس سے کہیں زیادہ دکھ ان کی خانہ بربادی کا ہوا ہے۔ 10 ماہ کا عرصہ ایک قلیل سی مدت ہے، دیکھتے ہی دیکھتے سال گزر جاتے ہیں۔ زندگیاں بیت جاتی ہیں۔
بچپن جوانی میں اور جوانی بڑھاپے میں ڈھل جاتی ہے اور زندگی موت کی منزل پر آکر ٹھہر جاتی ہے، وقت کے بیت جانے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ عمر کی نقدی کہاں چلی گئی؟ تو پھر سوچنے کی بات ہے دس ماہ تو چند لمحات، کچھ ساعتوں کے متبادل ہوسکتے ہیں، مگر اس عرصے میں ریحام خان کی طرف سے افسوسناک باتیں سننے کو ملیں، کسی نے سچ ہی تو کہاہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، ایک پہیہ اگر ناکارہ ہوجائے تو گاڑی کی رفتار میں کمی آجاتی ہے، بعض اوقات گاڑی تھم جاتی ہے لیکن اسی دور میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اپنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ تن تنہا زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔
اپنے بچوں کی پرورش کرتے اور رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں۔ سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ دولت کی طلب مال و زر کی ہوس فرعونوں کی جماعت میں شامل کردیتی ہے، فرعون کے پاس ہیرے اور موتیوں کے ڈھیر اور سونے چاندی کے ہتھیار تھے وہ پیسے کا پجاری تھا، لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا۔ صراطِ مستقیم سے بھٹکانا چاہتا تھا، اپنے آپ کو خدا کہنے والے کا کیا انجام ہوا؟ کہ عبرت کا نشان بن گیا اور قارون بھی موسیٰ کی قوم سے تھا اسے بھی اﷲ تعالیٰ نے بے پناہ دولت سے نوازا تھا۔ مال و متاع کے خزانے دیے تھے۔
اس کے مال و متاع کی کنجیاں آدمیوں کی جماعت بمشکل اٹھاتی تھی، ایک دن یوں ہوا کہ وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے آیا تو جو لوگ دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے انھوں نے کہاکہ کاش ہمیں بھی اس قدر مال و زر دیا جاتا، یقیناً یہ بڑا خوش نصیب ہے، کیا دولت کا حصول انسان کو خوش نصیب بناسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔جو لوگ صاحب علم تھے انھوں نے کہاکہ ارے بدبختو! اﷲ تعالیٰ کے ہاں بدلہ زیادہ بہتر ہے، اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر قارون کا انجام کچھ اس طرح ہوا کہ دولت اس کے کام نہ آئی، اﷲ رب العزت نے قارون اور اس کی جماعت کو زمین میں دھنسا دیا۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
محض دولت کے حصول کے لیے معتبر و مقدس رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا بد نصیبی اور گھاٹے کے سودے کے سوا کچھ نہیں۔اسی مہینے میں جہاں اس قدر دکھ ملے وہاں ایک بڑا دکھ اور سیکڑوں لوگوں کی شہادت اور مال و اسباب کی بربادی کا سامان بھی زلزلے کی شکل میں پیدا ہوگیا، یقیناً جو ضروریات زندگی اور تعیشات زیست کی چیزیں ہم خریدتے ہیں ان چیزوں کو ہم برت بھی نہیں پاتے ہیں اور زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے، آناً فاناً زمین ہلی اور بڑی عمارات، مکانات زیر زمین دھنس گئے۔ 2005 کا زلزلہ بھی نہیں بھول سکے تھے کہ ایک بار پھر آنیوالے زلزلے نے زخم ہرے کردیے۔
زخم بھرے ہی کہاں تھے، آج تک پچھلے زلزلے سے متاثر ہونیوالے لوگ اپنی صحت اور اپنے مکانات سے محروم ہیں کچھ لوگوں نے گھر بنالیے ہیں اور ابھی مکمل بھی نہیں ہوسکے تھے کہ دوبارہ ڈھے گئے اور گھروں پر پرسکون زندگی گزارنیوالے ایک بار پھر متاثرین میں شامل ہوگئے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے متاثرین کی مدد کے لیے تین ارب روپے جاری کردیے اس قدرتی آفت میں 272 افراد شہید اور پچیس ہزار زخمی ہوئے۔
ان برے حالات میں ریلیف آپریشن کے دائرہ کار کو سوات سے ملحق علاقوں تک پھیلادیا گیا ہے، ہماری افواج ہر کڑے وقت میں ہر طرح سے مدد کرتی ہے،2C، 130 طیارے امدادی سامان لے کر چترال پہنچے تھے۔وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے زلزلہ متاثرین کے لیے پیکیج کا اعلان کیا ، ورثا کو 6 گھر بنانے کے لیے 2 لاکھ دیے جائیں گے جوکہ کم ہیں، جنرل راحیل شریف نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امداد و تعاون کی فراہمی کے لیے حسب عادت احکامات جاری کیے۔
جس دن خیبر پختونخوا میں زلزلہ آیا تھا ٹھیک اسی دن افغانستان اور پاکستان کے کئی شہروں بشمول کراچی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تھے لیکن الحمدﷲ کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، اﷲ کی مہربانی پر جس قدر شکر ادا کیا جائے اور انفرادی واجتماعی طور پر توبہ، استغفار کا ورد کیا جائے کم ہے، کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ شہر کراچی سطح سمندر سے نیچے ہونے کی وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور قابل فکر بات یہ بھی ہے کہ یہ زلزلے کی پٹی پر ہے۔
اس قدرتی آفت کے آنے کا انتظار کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کنٹرول اتھارٹی کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ممتاز حیدر نے شہر بھر کی 301 عمارات کو مخدوش قرار دے دیا اور ان عمارتوں کے انہدام کے لیے کمشنر کراچی کی ہدایت کیمطابق لائحہ عمل تیار کرلیاگیا ہے اگر کام کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہا تو یہ دانشمندی کا تقاضا ہوگا۔ عمارتوں کو مسمار کرنے سے قبل یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہوگی کہ ان عمارات میں رہنے، بسنے والے لوگ کہاں جائیں گے، یقینی بات ہے کہ انسانی ہمدردی اور فرائض منصبی کے اعتبار سے انھیں کوئی متبادل ایسی جگہ فراہم کرنا ناگزیر ہوگا کہ جہاں ضروریات زندگی خصوصاً بنیادی ضروریات مثلاً پانی، بجلی، گیس اور چار دیواری کا ہونا لازمی ہے۔
ورنہ تو صرف عمارات گرانے اور مکینوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑدینا کہاں کی حکمت اور شرافت ہے، مجبوروں اور ضرورت مندوں کی بد دعائیں ضرور رنگ لے آتی ہیں۔ لہٰذا بد دعاؤں سے بچنے کی اس پر آشوب دور میں زیادہ ضرورت ہے، انسان کے اعمال ہی کام کرتے ہیں۔آج کے دور میں خودکش بمباروں نے قیامت بپا کی ہوئی ہے، لیکن پہلے سے بے حد کم ہے، گزرے ماہ و سال میں خلیجی ممالک میں ان ننھے، معصوم، بے کس اور مجبور بچوں کو اونٹوں کے پیچھے باندھ کر اونٹوں کی ریس ہوا کرتی تھی، بچوں کی چیخ و پکار سے اونٹ تیز بھاگتا اور ریس میں اول آجاتا، کس قدر ظالمانہ طریقہ تھا، یہ بچے اغوا کیے جاتے اور جرائم پیشہ افراد سے خرید لیے جاتے تھے۔
اگر والدین اپنے پھول سے بچوں کی حفاظت اور کفالت کریں اور حکومت اپنا کردار ادا کرے تب شاید معاشرے میں گھناؤنے کرداروں کی موت واقع ہو جائے۔
بچپن جوانی میں اور جوانی بڑھاپے میں ڈھل جاتی ہے اور زندگی موت کی منزل پر آکر ٹھہر جاتی ہے، وقت کے بیت جانے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ عمر کی نقدی کہاں چلی گئی؟ تو پھر سوچنے کی بات ہے دس ماہ تو چند لمحات، کچھ ساعتوں کے متبادل ہوسکتے ہیں، مگر اس عرصے میں ریحام خان کی طرف سے افسوسناک باتیں سننے کو ملیں، کسی نے سچ ہی تو کہاہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، ایک پہیہ اگر ناکارہ ہوجائے تو گاڑی کی رفتار میں کمی آجاتی ہے، بعض اوقات گاڑی تھم جاتی ہے لیکن اسی دور میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اپنی ہمت اور حوصلے کے ساتھ تن تنہا زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔
اپنے بچوں کی پرورش کرتے اور رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں۔ سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ دولت کی طلب مال و زر کی ہوس فرعونوں کی جماعت میں شامل کردیتی ہے، فرعون کے پاس ہیرے اور موتیوں کے ڈھیر اور سونے چاندی کے ہتھیار تھے وہ پیسے کا پجاری تھا، لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا۔ صراطِ مستقیم سے بھٹکانا چاہتا تھا، اپنے آپ کو خدا کہنے والے کا کیا انجام ہوا؟ کہ عبرت کا نشان بن گیا اور قارون بھی موسیٰ کی قوم سے تھا اسے بھی اﷲ تعالیٰ نے بے پناہ دولت سے نوازا تھا۔ مال و متاع کے خزانے دیے تھے۔
اس کے مال و متاع کی کنجیاں آدمیوں کی جماعت بمشکل اٹھاتی تھی، ایک دن یوں ہوا کہ وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے آیا تو جو لوگ دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے انھوں نے کہاکہ کاش ہمیں بھی اس قدر مال و زر دیا جاتا، یقیناً یہ بڑا خوش نصیب ہے، کیا دولت کا حصول انسان کو خوش نصیب بناسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔جو لوگ صاحب علم تھے انھوں نے کہاکہ ارے بدبختو! اﷲ تعالیٰ کے ہاں بدلہ زیادہ بہتر ہے، اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر قارون کا انجام کچھ اس طرح ہوا کہ دولت اس کے کام نہ آئی، اﷲ رب العزت نے قارون اور اس کی جماعت کو زمین میں دھنسا دیا۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
محض دولت کے حصول کے لیے معتبر و مقدس رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا بد نصیبی اور گھاٹے کے سودے کے سوا کچھ نہیں۔اسی مہینے میں جہاں اس قدر دکھ ملے وہاں ایک بڑا دکھ اور سیکڑوں لوگوں کی شہادت اور مال و اسباب کی بربادی کا سامان بھی زلزلے کی شکل میں پیدا ہوگیا، یقیناً جو ضروریات زندگی اور تعیشات زیست کی چیزیں ہم خریدتے ہیں ان چیزوں کو ہم برت بھی نہیں پاتے ہیں اور زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے، آناً فاناً زمین ہلی اور بڑی عمارات، مکانات زیر زمین دھنس گئے۔ 2005 کا زلزلہ بھی نہیں بھول سکے تھے کہ ایک بار پھر آنیوالے زلزلے نے زخم ہرے کردیے۔
زخم بھرے ہی کہاں تھے، آج تک پچھلے زلزلے سے متاثر ہونیوالے لوگ اپنی صحت اور اپنے مکانات سے محروم ہیں کچھ لوگوں نے گھر بنالیے ہیں اور ابھی مکمل بھی نہیں ہوسکے تھے کہ دوبارہ ڈھے گئے اور گھروں پر پرسکون زندگی گزارنیوالے ایک بار پھر متاثرین میں شامل ہوگئے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے متاثرین کی مدد کے لیے تین ارب روپے جاری کردیے اس قدرتی آفت میں 272 افراد شہید اور پچیس ہزار زخمی ہوئے۔
ان برے حالات میں ریلیف آپریشن کے دائرہ کار کو سوات سے ملحق علاقوں تک پھیلادیا گیا ہے، ہماری افواج ہر کڑے وقت میں ہر طرح سے مدد کرتی ہے،2C، 130 طیارے امدادی سامان لے کر چترال پہنچے تھے۔وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے زلزلہ متاثرین کے لیے پیکیج کا اعلان کیا ، ورثا کو 6 گھر بنانے کے لیے 2 لاکھ دیے جائیں گے جوکہ کم ہیں، جنرل راحیل شریف نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امداد و تعاون کی فراہمی کے لیے حسب عادت احکامات جاری کیے۔
جس دن خیبر پختونخوا میں زلزلہ آیا تھا ٹھیک اسی دن افغانستان اور پاکستان کے کئی شہروں بشمول کراچی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تھے لیکن الحمدﷲ کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، اﷲ کی مہربانی پر جس قدر شکر ادا کیا جائے اور انفرادی واجتماعی طور پر توبہ، استغفار کا ورد کیا جائے کم ہے، کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ شہر کراچی سطح سمندر سے نیچے ہونے کی وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور قابل فکر بات یہ بھی ہے کہ یہ زلزلے کی پٹی پر ہے۔
اس قدرتی آفت کے آنے کا انتظار کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کنٹرول اتھارٹی کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ممتاز حیدر نے شہر بھر کی 301 عمارات کو مخدوش قرار دے دیا اور ان عمارتوں کے انہدام کے لیے کمشنر کراچی کی ہدایت کیمطابق لائحہ عمل تیار کرلیاگیا ہے اگر کام کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہا تو یہ دانشمندی کا تقاضا ہوگا۔ عمارتوں کو مسمار کرنے سے قبل یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہوگی کہ ان عمارات میں رہنے، بسنے والے لوگ کہاں جائیں گے، یقینی بات ہے کہ انسانی ہمدردی اور فرائض منصبی کے اعتبار سے انھیں کوئی متبادل ایسی جگہ فراہم کرنا ناگزیر ہوگا کہ جہاں ضروریات زندگی خصوصاً بنیادی ضروریات مثلاً پانی، بجلی، گیس اور چار دیواری کا ہونا لازمی ہے۔
ورنہ تو صرف عمارات گرانے اور مکینوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑدینا کہاں کی حکمت اور شرافت ہے، مجبوروں اور ضرورت مندوں کی بد دعائیں ضرور رنگ لے آتی ہیں۔ لہٰذا بد دعاؤں سے بچنے کی اس پر آشوب دور میں زیادہ ضرورت ہے، انسان کے اعمال ہی کام کرتے ہیں۔آج کے دور میں خودکش بمباروں نے قیامت بپا کی ہوئی ہے، لیکن پہلے سے بے حد کم ہے، گزرے ماہ و سال میں خلیجی ممالک میں ان ننھے، معصوم، بے کس اور مجبور بچوں کو اونٹوں کے پیچھے باندھ کر اونٹوں کی ریس ہوا کرتی تھی، بچوں کی چیخ و پکار سے اونٹ تیز بھاگتا اور ریس میں اول آجاتا، کس قدر ظالمانہ طریقہ تھا، یہ بچے اغوا کیے جاتے اور جرائم پیشہ افراد سے خرید لیے جاتے تھے۔
اگر والدین اپنے پھول سے بچوں کی حفاظت اور کفالت کریں اور حکومت اپنا کردار ادا کرے تب شاید معاشرے میں گھناؤنے کرداروں کی موت واقع ہو جائے۔