18 لاکھ پاکستانی بچوں کی زندگی خطرے میں

پاکستان بچوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل لیکن ان کی فلاح وبہبودکے لئے ہم کیا کر رہے ہیں؟

پاکستان بچوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل لیکن ان کی فلاح وبہبودکے لئے ہم کیا کر رہے ہیں؟ ، فوٹو : فائل

کبھی ہم بچے تھے اور اپنے والدین کی زندگی کا محور تھے اور آج ہم والدین ہیں تو ہماری زندگی اپنے بچوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ لیکن ہمیں اس محور کو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دیگر بچوں تک وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں ان میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ یہ سوچ یقینا ہر باشعور کی ہے لیکن کیا کریں کہ ہم میں سے اکثر اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں آپاتے۔ اپنے بچوں کے لئے تو وہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کو بھی تیار ہیں لیکن اپنے اردگرد موجود دیگر بچوں کے حقوق سے اتنے ہی بے پرواہ ہیں اور اس بے اعتنائی کی بہت سی مثالیںہمارے آس پاس موجود ہیں۔

یہ ہماری لاپرواہی کی انتہا ہی تو ہے کہ ہم آج تک یہ طے نہیں کر پائے کہ ملکی سطح پر عمر کے کس گروپ کی آبادی کو بطور ''بچہ'' تسلیم کیا جائے گا۔کیونکہ مختلف ملکی قوانین میں بچوں کی عمر کی حد کہیں کچھ ہے تو کہیں کچھ۔ 1973 ء کے آئین کو ہی لے لیجئے جس میں واضح طور پر ''بچہ'' کی کوئی تعریف موجود نہیں۔ د ی انسٹی ٹیوٹ فار سوشل جسٹس کی ایک دستاویز کے مطابق قانون ساز اور قانون کی تشریح کرنے والے اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 11 اور 25 A کا ریفرنس دیتے ہیں۔

آرٹیکل11 کے مطابق کوئی بھی بچہ جس کی عمر 14 سال سے کم ہوگی وہ کسی فیکٹری، کان یا اور کسی بھی قسم کی خطرناک ملازمت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ جبکہ آئین کا آرٹیکل 25 A کہتا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ 5 سے16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے۔ اس کے علاوہ بچپن کی شادی پر پابندی کے ایکٹ 1929 جس میں 1981 میں ترمیم کی گئی کی سیکشن 2 (a) کے مطابق ''بچہ'' سے مراد وہ فرد ہے جو اگر مرد ہے تو اُس کی عمر 18 سال سے کم ہو اور اگر خاتون ہے تو 16 سال سے کم عمر ہو۔

اسی طرح سندھ چلڈرن ایکٹ 1995 کے سیکشن 5 میں 16 سال تک کی عمر کو نہ پہنچنے والے کو ''بچہ'' قرار دیا گیا ہے۔دی سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ 2011 کی سیکشن 2 (g) اور خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن ویلفئیر ایکٹ کی سیکشن2 (d) میں بچوں کی عمر 18سال ہے۔ دی ویسٹ پاکستان ویکسینیشن آرڈیننس 1958 سیکشن (a) کے مطابق 16 سال تک کی عمر کو نہ پہنچنے والا فرد بچہ کہلائے گا۔The Juvenile Justice System Ordinance 2000 کے سیکشن 2 میں 18 سال تک کی عمر سے کم کو بچہ کہا گیا ہے۔ دی ریلویز ایکٹ 1890 کے سیکشن 130:(1) کے مطابق 12 سال سے کم عمر کو بچہ کہا گیا ہے۔

The Punjab Destitute and Neglected Children Act, 2004 کے سیکشن3 (1) (e) کے مطابق 18 سال سے کم عمر کو بچہ قرار دیا گیا ہے۔ دی فیکٹریز ایکٹ 1934 ترمیم شدہ1997 کی سیکشن2 (c) میں 15 سال سے کم عمر فرد کو بچہ مانا گیا ہے۔ دی مائنز ایکٹ 1923 کی سیکشن 3 (c) بچہ کے لئے عمر کی حد 15 سال قرار دیتی ہے۔ دی شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس1969 کی سیکشن2 (iii) ایسے فرد کو بچہ کہتی ہے جس کی عمر 14 سال سے کم ہو۔ اس کے علاوہ کئی ایک اور ملکی قوانین میں بچوں کی عمر کی حد کا تعین ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ نے 18 سال سے کم عمر فرد کو ''بچہ'' تسلیم کیا ہے۔

بچوں کی عمر کے گروپ کا تعین دراصل وہ بنیادی پیمانہ ہے کہ جس کی مدد سے کوئی بھی ادارہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں موثر منصوبہ بندی کرتا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک اس پیمانہ کے تعین میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کر پائے اور ہماری انفرادی اور اجتماعی روایتی کاہلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد مصائب اور محرومیوں کی چکی میں پس رہی ہے۔ یہ لفاظی نہیں حقیقت ہے کیونکہ اگر ہم اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے مقرر کردہ ایج گروپ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی آبادی میں بچوں کی آبادی کا تناسب دیکھیںتو 2015 تک پاکستان کی 42 فیصد آبادی کی عمر18 سال تک ہے۔

اور وطن عزیزاس حوالے سے دنیا بھر میں 61 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں بچوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ہے۔ جو 8 کروڑ 26 لاکھ سے زائد ہے۔

لیکن اس کثیر آبادی کی فلاح وبہبودکے لئے ہم کیا کر رہے ہیں؟یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب چند بنیادی پہلوؤں کے جائزہ سے لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً تعلیم کو لے لیں۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پرائمری سکول جانے والی عمر کے صرف57 فیصد بچے سکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔ اور پرائمری سطح میں داخل ہونے والے بچوں کا بھی آدھا حصہ اپنی پرائمری تعلیم مکمل کر پاتا ہے۔ اور جس طرح تعلیمی مدارج آگے بڑھتے ہیں داخلے کی شرح میں مزید کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔

پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ سروے 2013-14 کے مطابق ملک میں10 سے 12 سال کی عمر کے محض 21 فیصد بچے مڈل کی سطح کے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح میٹرک کی سطح میں داخل ہونے والے بچوں کی شرح صرف 14 فیصد ہے جو کہ 13 سے 14 سال کے ایج گروپ پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سکولوں سے باہر بچوں کی دوسری بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جو یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانٹرنگ رپورٹ 2015 کے مطابق 2012 تک 53 لاکھ 70 ہزار تھی۔ اور مزید بدقسمتی یہ کہ اس تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہو چکا ہے۔ اور یہ پاکستان ایجوکیشن فار آل رپورٹ 2015 کے مطابق 67 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

سکولوں سے باہر بچوں کی بڑی تعداد کا نوحہ اپنی جگہ لیکن سکول جانے والے بچوںکو بھی مختلف طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں سکول کی عمارت نہیںتو کہیں چاردیواری غائب، کہیں پینے کا صاف پانی نہیں تو کہیںبجلی نہیں اورکہیں بیت الخلاء سے عاری سکول ہماری غفلت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔


اس کے علاوہ سکولوں کی عمارتوں سے جڑا ایک اور مسئلہ چیخ چیخ کر ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہا ہے اور وہ سرکاری سکولوں کی عمارتوں کی مخدوش صورتحال ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے پرائمری سے لے کر ہائر سیکنڈری تک کے16 ہزار 3 سو 80 تعلیمی اداروں کی بلڈنگز کو خطرناک قرار دیا جا چکا ہے۔

وزارتِ تعلیم، ٹریننگز اینڈ اسٹینڈرڈز ان ہائر ایجوکیشن کی نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اکیڈمی کی رپورٹ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس2013-14 کے تجزیہ (Analysis) کے مطابق پاکستان ( پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر او ر اسلام آباد)کے مجموعی طور پر 10.92 فیصد سرکاری تعلیمی ادارے جو پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری کی سطح کے حامل ہیں کی عمارتیں خطرناک ہیں۔ جو کسی بھی وقت حادثہ کا باعث بن سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان چار سطحوں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر او ر اسلام آباد کے مجموعی طور پر ایک کروڑ66 لاکھ78 ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہیںجبکہ ان تعلیمی اداروںکی کل تعداد ایک لاکھ49 ہزار9 سو41 ہے۔ یعنی اوسطً 111 بچے فی تعلیمی ادارہ زیر تعلیم ہیں۔ یوں لگ بھگ 18 لاکھ بچے ایسے سکولوں میں پڑھنے جاتے ہیں جن کی عمارتیں خدانخواستہ کسی بھی وقت المیہ کا باعث بن سکتی ہیں۔

لیکن ذمہ داران اپنی ذات کے اُس محور سے باہر آنے کو تیار نہیں جو صرف اُن کے اپنے بچوں کے گرد گھومتا ہے چونکہ اُن کے بچے ایسے سکولوں میں زیر تعلیم ہی نہیں کہ جن کی عمارتوں کو مخدوشی کا سامنا ہے تو وہ پھر کیسے اُس خوف کو محسوس کر سکتے ہیں جو اُن والدین کو لاحق ہے جن کے بچے بوسیدہ عمارتوں کے حامل سکولوں میں اپنی علم کی پیاس بجھانے جاتے ہیں یقیناً وہ بچوں کے خیریت سے گھر پہنچنے پر روز جیتے اور بچوں کو سکول بھیج کر روزسولی پر لٹک جاتے ہوں گے۔

اسی طرح اگر صحت کے شعبے کی کارکردگی پر نظر ڈالیںتو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں کی لاپرواہی واضح نظر آتی ہے۔ بطور والدین ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بیماریوں اور معذوری سے بچانے کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات نہ صرف لگوائیں بلکہ اُس کا کورس بھی مکمل کروائیں۔ اور سرکاری اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بچوں کے لئے یہ سہولت مہیا کریں۔ لیکن کہیں بطور والدین ہم لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہیں متعلقہ ادارے سستی اور نااہلی کی مجسم صورت بن جاتے ہیں۔

اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں 12 سے23 ماہ تک کی عمرکے صرف 58 فیصد بچوںکو حفاظتی ٹیکہ جات لگوائے جاتے ہیں۔ ریکارڈ کی بنیاد پر مرتب کردہ ان اعدادوشمار کی روشنی میں بلوچستان کے بچےImmunize ہونے کی سب سے کم تر شرح کے حامل ہیں جہاں ایک سے دوسال کی عمر کے درمیان کے صرف 27 فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کی عالمی درجہ بندی میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ اور ہر سال 3 لاکھ 94 ہزار پاکستانی نو نہال اپنی پانچویں سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور دنیا سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34 فیصد بچوں کا پیدائشی اندراج ہوتا ہے جو ایک بار پھر والدین اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔

اب اگر بچوں کی نشوونما کے لئے اُن کی غذائیت کی صوتحال کا جائزہ لیں تو جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ ایک اور رنج کی کیفیت کا باعث بنتے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ زچلڈرن 2015 کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 32 فیصد بچوں کا وزن اُن کی عمر کے حساب سے کم ہے۔ اسی طرح 45 فیصد بچے اپنی عمر کے اعتبار سے پستہ قد اور11 فیصد کا وزن اُن کے قدکے لحاظ سے کم ہے۔

بچوں کے اس Nutritional Status کی معاشی اور معاشرتی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک اہم وجہ بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے رجحانات ہیں۔ عالمی ادارہ اطفال کے مطابق پاکستان کے6 ماہ سے کم عمر بچوں کے38 فیصد کو صرف اور صرف ماں کے دودھ کی نعمت میسر آتی ہے جبکہ 2 سال تک دیگر خوراک کے ساتھ ساتھ ماں کا دودھ 56 فیصد بچوں کا نصیب ٹھہرتا ہے۔ بچے کی صحت اور نشوونما کا براہ راست تعلق ماں کے دودھ پینے سے ہے ۔کیونکہ تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ پیدائش کے بعد ماں کا پہلا دودھ جسے Colostrum کہتے ہیں وہ بچے کی زندگی، صحت اور نشوونما کے لئے نہایت ضروری ہے لیکن اکثر اسے خراب یا گندہ دودھ کہہ کر ضائع کر دیا جاتاہے ۔

یہی وجہ ہے بچہ کی پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر اندر صرف 18 فیصد بچے ماں کا دودھ پی پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے کی زندگی کے پہلے 6 ماہ تک اُسے صرف اور صرف ماں کا دودھ ہی دینا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ ماؤں کی اپنی صحت ہے جو بار بار کے حمل، نا مناسب خوراک اور نو عمری میںکی جانے والی شادی سے متاثر ہوتی ہے۔کیونکہ ابھی لڑکی کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ نو عمری میں شادی کے بعد ماں بن جاتی ہیں جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن ، کمزور اور مائیں خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بچے کو اُس کی ضرورت کے مطابق اپنا دودھ پلا نہیں پاتیں۔ جس کے باعث بچہ مزید کمزور صحت کا حامل ہو جاتا ہے۔ کم سنی کی شادی بچپن کے ایج گروپ میں کی جانے والی شادی کے زمرے میں آتی ہے۔

اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کی 20 سے 24 سال کی شادی شدہ خواتین کے21 فیصد کی شادی کے وقت عمر 18سال سے کم تھی جبکہ 3 فیصد کی 15 سال سے بھی کم تھی۔ اور مذکورہ عمر کے گروپ کی 8 فیصد شادی شدہ خواتین کا پہلا بچہ18 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہو چکا تھا۔ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کم عمر ماؤں کے یہاںاکثر پری میچور برتھ کیسز ( قبل از وقت پیدائش) ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے تو ایسی صورتحال میں پیدا ہونے والا بچہ کیونکر صحت مند اور تندرست ہو سکتا ہے۔ وہ دنیا میں آنے کے ساتھ ہی مختلف بیماریوں کی گرفت میں آکر یا تو فوت ہو جاتا ہے یا پھر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزوری کا شکار رہتا ہے۔

بچوں کی جسمانی اوردماغی کمزوری کا ایک اور گہرا تعلق ماہرین اُن پر کسی بھی قسم کا تشدد یا اُن کے اردگرد ماحول میںتشدد کی موجودگی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ کیا ہمارے گھر تشدد سے مبرا ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ تشدد سے پاک ہے؟ کیا ہمارے اسکولوں میں مار نہیں پیار کے اصول کا احترام کیا جاتا ہے؟ قصورکے واقعہ کے بعد ہر ذی شعور اب یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کیا ہمارا معاشرتی ماحول بچوں کے لئے محفوظ ہے؟ بد قسمتی سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے ساتھ بد فعلی کا جرم موجود ہے اور 2014 میں 3508 کیسز ملک بھر کے میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ ساحل نامی غیر سرکاری تنظیم کی پاکستان کے70 قومی، علاقائی اور مقامی اخبارات میں شائع شدہ خبروں کی بنیاد پر مرتب کردہ اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ سال ملک میں ہر روز 10 بچے جنسی ہوس کا نشانہ بنے۔

بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اُن کی شخصیت پر گہرے منفی نقوش چھوڑ جاتی ہے اور دیگر محرومیاں ان نقوش کو ان مٹ بنا دیتی ہیں۔ لہذا بچوں کے معاملے میں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے بچوں کی طرح باقی بچوں سے بھی پیار اور اُن کے حقوق کا احترام کریں تاکہ کل ضمیر کی کوئی خلش آپ کو اپنا قیدی نہ بنا لے۔
Load Next Story