کولمبس کا خوف ناک روپ

حقائق بتاتے ہیں کہ وہ ایک ولین تھا، جسے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا

صرف آٹھ سال کی مدت میں کرسٹوفر کولمبس نے پوری کی پوری مقامی آبادی کو یہاں سے اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ تیار کرلیا،:فوٹو:فائل

کرسٹوفرکولمبس کو کون نہیں جانتا، یہ الگ بات ہے کہ امریکا دریافت کرنے والے ایک جہازراں اور مہم جو کی اس دریافت کو کوئی اس کا کارنامہ سمجھتا ہے اور کسی کی رائے ہے کہ امریکا دریافت کرکے اس نے دنیا کو مصیبت میں ڈال دیا۔

یہ اطالوی جہازراں اکتوبر 1451سے پہلے Genoa (عوامی جمہوریہ جینیوا) میں پیدا ہوا تھا اور 20مئی1506 کو Valladolid میں انتقال کرگیا۔ ویسے تو کولمبس جمہوریہ جینیوا کا شہری تھا، مگر اسے اسپین کے کیتھولک بادشاہوں کی خصوصی سرپرستی حاصل تھی۔ اس نے انہی کی سرپرستی میں بحراوقیانوس کے پار چار بحری سفر مکمل کیے تھے۔ یہ کولمبس کی مہم جوئی اور نئی دنیا میں نو آبادیوں کے قیام کے لیے اس کی کوششیں ہی تھیں جن کی وجہ سے اس نے جزیرۂ ispaniola میں مستقل بنیادوں پر اسپینی نو آبادی کی داغ بیل ڈالی تھی۔



اس دور میں ایک تو مغربی بادشاہت مسلسل فروغ پارہی تھی، دوسرے یورپی بادشاہتوں کے درمیان مختلف نوآبادیاں بھی قائم ہورہی تھیں اور نئے نئے بحری تجارتی راستے بھی وجود میں آرہے تھے جس کی وجہ سے دنیا میں مسلسل معاشی اور اقتصادی مقابلوں کی فضا پیدا ہورہی تھی۔ چناں چہ اس صورت حال میں جب کولمبس نے مغرب کی طرف روانہ ہوکر ایسٹ انڈیز تک پہنچنے کے لیے اپنے بحری سفر کا آغاز کیا تو اسپینی بادشاہوں نے اس کی مکمل سرپرستی کی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ وہ ایک نئے مغربی تجارتی راستے کے ذریعے کولمبس کی مدد سے ایشیا کے ساتھ گرم مسالوں کی تجارت میں قدم رکھ سکتے ہیں۔

اپنی پہلی مہم کے دوران کولمبس 1492 میں جاپان پہنچنے کے بجائے نئی دنیا جاپہنچا اور اس نے جزیرہ نماBahamas میں قدم رکھ دیا جس کا نیا نام کولمبس نے San Salvador رکھا تھا۔

اپنی مزید تین مہم جوئیوں کے دوران کولمبس گریٹر اور لیسر Antilles تک جاپہنچا، وہ وینے زوئلا میں بحیرۂ روم کے ساحل اور وسطی امریکا تک بھی گیا۔ اسپینی بادشاہت کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے کولمبس کو اپنی نوآبادیوں میں اہم عہدے حاصل کرنے کے مواقع ملے جنہیں اس نے نہیں چھوڑا اور خوب عیش کیے۔

٭کولمبس ڈے:
کرسٹوفر کولمبس نے 12اکتوبر1492ء کو وسطی امریکا کی سرزمین پر قدم رکھا تھا، اس لیے براعظم امریکا کے متعدد ملکوں میں 12اکتوبر کو کولمبس کا دن بڑ ے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسے ایک کلچرل ڈے یا ثقافتی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بہاماز، لاطینی امریکا، اٹلی اور اسپین میں بھی کولمبس ڈے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

٭کولمبس ڈے کی تاریخ:
ویسے تو تاریخی اعتبار سے کولمبس ڈے اٹھارھویں صدی سے غیرسرکاری طور منایا جارہا ہے، مگر بیسویں صدی کے اوائل سے یہ مختلف ملکوں میں سرکاری طور پر منایا جانے لگا ہے اور اس دن متعلقہ ملکوں میں عام تعطیل بھی ہوتی ہے۔


کولمبس ڈے سب سے پہلے سرکاری سطح پر 1906میں کولوراڈو میں منایا گیا تھا جس کے بعد 1937میں یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں منایا جانے لگا اور اسے ایک وفاقی تعطیل قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، پیریڈ بھی ہوتی ہے، جلسے ہوتے ہیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ یوں ہر اعتبار سے کولمبس کو اس کے کارنامے پر یاد کیا جاتا ہے اور اسے خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے۔

٭کولمبس ڈے کی مخالفت:
مگر اس کے ساتھ ساتھ اسی خطے میں کچھ ملک ایسے بھی ہیں جو نہ تو کولمبس کو یاد کرتے ہیں اور نہ ہی کولمبس ڈے مناتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ تاریخ سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کولمبس ایسی شخصیت نہیں جس کا دن منایا جائے یا اسے عزت کے ساتھ یاد کیا جائے۔

٭مخالفت کی وجوہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرسٹوفر کولمبس کو تاریخ ایک ماہر جہاز راں کے طور پر جانتی ہے، مگر اس کی شخصیت کا دوسرا پہلو کیسا تھا؟ یہ وہ حقیقت ہے جو کولمبس کو دوسرے لوگوں کی نظروں میں ہیرو کے بجائے زیرو بناتی ہے۔ کولمبس نے لوگوں پر کیسے کیسے ظلم توڑے، انہیں کیسے کیسے مسائل سے دوچار کیا، اس کے بارے میں سچ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ دنیا بھر کے اسکولوں کی کتابیں کولمبس کے کارناموں اور اس کی تعریفوں سے بھری پڑی ہیں۔

اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 1492میں اپنے بحری سفر پر روانہ ہوا تو اس کا جہاز نیلے پانی میں بڑے دھیمے دھیمے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ کولمبس کے سبھی ساتھی اس سفر سے بہت خوش تھے۔ وہ نئی دنیا اور نیا جہان کھوجنے جارہے تھے۔ ان کی آنکھیں آنے والے سنہری وقت کو دیکھ رہی تھیں، مگر ان کتابوں اور رسالوں میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ کولمبس نے انسانیت پر بے تحاشا ظلم توڑے اور وحشت و بربریت کی ایسی سنگین مثالیں قائم کیں جنہیں پڑھ کر ہر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

حال ہی میں 12اکتوبر کو جب دنیا کے کئی ملکوں میں ''کولمبس ڈے'' یا ''یوم کولمبس'' منایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ یہ کولمبس کے بحری سفر کی تکمیل اور اس کے خشکی پر اترنے کی خوشی میں منایا جانے والا یہ دن پورے جوش وخروش سے منایا گیا، مگر کیا کسی کو یہ پتا چل سکا کہ کرسٹوفر کولمبس اصل میں کیسا شخص تھا۔

اس کے مخالفین تاریخی حقائق سامنے لاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرسٹوفر کولمبس اپنے دور کا دنیا کا خطرناک ترین انسان تھا، وہ اتنا وحشی، ظالم اور غارت گر تھا کہ روئے زمین پر کسی بھی انسان نے ایسا بے رحم انسان نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کے بارے میں آج تک ہم نے جو کچھ سنا یا پڑھا، وہ سب بالکل غلط ہے۔ اس حوالے سے دنیا نے کولمبس کو جس طرح ایک اچھا انسان بناکر پیش کیا ہے، وہ سب سفید جھوٹ ہے۔ اس کے بارے میں بہت سے حقائق بھی صحیح نہیں ہیں۔ آئیے کچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں:



٭کولمبس کبھی امریکا نہیں پہنچا تھا:
کرسٹوفر کولمبس نے کبھی براعظم امریکا دریافت نہیں کیا تھا اور نہ وہ کبھی اس سرزمین پر پہنچا تھا۔ وہ اپنے پہلے بحری سفر پر بہ مشکل کیوبا تک پہنچا تھا، بلکہ اپنے دوسرے، تیسرے اور چوتھے بحری سفر میں بھی وہ وسطی امریکا اور جزیرۂ Hispaniola تک پہنچا تھا۔ یہ علاقے اس وقت ہیٹی اور ڈومینیکن جمہوریہ کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپریل 1513میں کچھ اہل یورپ نے پہلی بار براعظم امریکا پر اس وقت قدم رکھا تھا جب Juan Ponce de Leon بحری سفر کرتا ہوا Puerto Rico سے فلوریڈا پہنچا تھا۔ اس مضمون کے ساتھ ہم کولمبس کے ان چار بحری سفروں کا نقشہ بھی دے رہے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کولمبس نئی دنیا سے صحیح معنیٰ میں کتنے فاصلے پر تھا۔


٭کولمبس نے ان مقامی محسنوں کو آدم خور قرار دیا جنہوں نے اس کی جان بچائی تھی:
بہاماز پہنچنے پر کرسٹوفر کولمبس کے بحری جہاز کے ساتھ حادثہ پیش آگیا جس کے بعد وہاں کی مقامی آبادی فوراً بحری جہاز کے سواروں کی مدد کے لیے پہنچ گئی اور اس نے گھنٹوں محنت کرکے جہاز کے عملے اور جہاز میں موجود تمام سامان کو بچالیا اور ان کی ہر طرح سے مدد کی۔ اس پر کولمبس کو ان کا ممنون ہونا چاہیے تھا، مگر کولمبس کے شاطر ذہن نے الٹا کام کیا، اس نے ان نیک لوگوں کی ہم دردی کا یہ بدلہ دیا کہ ان لوگوں کو غلام بنانے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ اس کے خیال میں یہ ایک نہایت منافع بخش کام ہوسکتا تھا۔ اپنی ڈائری میں کولمبس نے اس حوالے سے لکھا تھا:
''میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں کے کم از کم پچاس لوگوں کو غلام بناکر ان سے ہر طرح کا کام کروایا جاسکتا ہے۔ یہ ایسے بھولے بھالے لوگ ہیں کہ کسی بھی طرح کی مزاحمت نہیں کرسکتے۔''

کولمبس اپنے محسنوں کے تمام احسان بھول گیا، ان کی ہم دردی بھول گیا، بل کہ انہیں غلام بنانے پر تل گیا۔ اس کے لیے پہلے اس نے انھیں آدم خور قرار دے دیا اور بعد میں مزید باتیں بھی کیں۔ 1493 میں اس نے لکھا تھا:''یہ لوگ وحشی اور خوں خوار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کا تعلق جزیرۂ Caribe سے ہے اور یہ زندہ انسانوں کو کھا جاتے ہیں۔''

کولمبس نے ان لوگوں کے بارے میں بڑے تحقیر آمیز انداز میں یہ بھی لکھا تھا:''یہ نہایت ظالم اور اجڈ لوگ آدم خور ہیں۔ ان کی ناکیں کتوں جیسی ہیں اور یہ اپنے شکار (انسان) کا خون بڑی رغبت سے پیتے ہیں۔''

٭کولمبس کے تمام ملاح قاتل اور ظالم تھے:
اپنے دوسرے بحری سفر پر کولمبس کے ساتھ 1200افراد تھے۔ یہ سب کے سب بڑے جارح مزاج تھے۔ انہوں نے موقع ملتے ہی نہ صرف مقامی افراد کو بے دردی سے قتل کیا، بل کہ ان کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب بھی ہوئے، یہاں تک کہ انہوں نے خواتین پر ظلم و ستم کرکے اور اپنی فتح کا جشن منایا۔ کولمبس کے ایک قریبی ساتھی اور گہرے دوست Michele de Cuneo نے لکھا ہے:''اپنے بحری سفر کے دوران ایک جزیرے پر میں نے ایک Carib عورت کو دیکھا جسے میرے لارڈ ایڈمرل نے مجھے تحفے میں دے دیا تھا۔



میں اسے اپنے کیبن میں لے گیا، عورت اپنے قبیلے کے رواج کے مطابق لباس سے بے نیاز تھی، میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی تو اس نے اپنے تیز ناخنوں سے میرا منہ اس بری طرح نوچا کہ میری حالت بگڑ گئی۔ میں نے اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر کنویں میں پھینک دیا۔ اس کی بھیانک چیخیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ بعد میں ہم نے اسے کنویں سے نکالا اور وہ عورت پیشہ ور بن گئی۔''

کولمبس کے متعدد ساتھی اس کی حرکتوں کی وجہ سے بعد میں اس کے خلاف ہوگئے تھے۔ ان میں ایک نام de Las Casas کا بھی تھا۔ اس نے ابتدا میں کولمبس کے ساتھ مل کر مقامی آبادیوں پر بہت ظلم کیا تھا۔ بعد میں وہ تائب ہوگیا تھا اور دیسی افراد اور آبادیوں کے لیے سماجی انصاف فراہم کرنے میں معاونت کرنے لگا تھا۔

اس نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ کولمبس نے کس طرح مقامی لوگوں کے ساتھ وحشت و بربریت کا سلوک کیا تھا اور اس کے ظلم کا نشانہ بننے والوں میں ننھے منے اور شیر خوار بچوں کی نگہ داشت کرنے والی مائیں بھی شامل تھیں۔ اس نے لکھا ہے:''ان وحشیوں نے چھوٹے شہروں اور قصبوں پر حملے کے اور نہ تو بچوں کو چھوڑا اور نہ بوڑھوں کو، ان لوگوں نے تو حاملہ خواتین تک کو مار ڈالا اور ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ انہوں نے دودھ پیتے بچوں کو ان کی مائوں سے چھینا اور نہایت سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بپھرے ہوئے دریائوں میں پھینک دیا۔''

٭کولمبس نے سونے کی خاطر ڈھائی لاکھ افراد کو تہ تیغ کیا:
کولمبس نے اسپین کے بادشاہ فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا کو یہ یقین دلایا تھا کہ بحراوقیانوس کے اس پار نئی دنیا میں سونے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے اسپین کے بادشاہ اور ملکہ دونوں نے کولمبس کو وہاں جانے اور بحری سفر کی اجازت بھی دی تھی اور اس کو ہر طرح سہولت فراہم کی تھی، اس لیے کولمبس کو شاہ اور ملکہ کو سونا تو دینا تھا لہٰذا اس نے مقامی لوگوں کو غلام بنایا اور انہیں پابند کیا کہ وہ ہر تیسرے ماہ کھدائی کرکے کچھ نہ کچھ سونا ضرور دیں گے۔ حکم نہ ماننے والے لوگوں کو قتل کیا گیا یا ان کے جسمانی اعضا کاٹ ڈالے گئے۔ ان میں سے متعدد لوگوں نے خودکشی کرلی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہیٹی کی نصف آبادی ہلاک ہوگئی تھی اور یہ سب سونے کی طلب کا شاخسانہ ہی تھا۔

٭پھر کولمبس کو معزول کردیا گیا:
تاریخ میں کولمبس پر وہ برا وقت بھی آیا تھا جب کولمبس کو Hispaniola کی گورنری سے معزول کرکے اسے واپس اسپین طلب کرلیا گیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس پر کولمبس اور اس کے آدمی لگ بھگ پاگل ہوگئے تھے۔

''اے ڈاگز ہسٹری آف امریکا'' میں کتاب کے مصنف مارک ڈیر نے کولمبس اور اس کے ساتھیوں کے ظلم اور بربریت کی کہانی اس طرح بیان کی ہے:''کولمبس لومڑیوں کے بجائے اپنے کتوں کے ذریعے مقامی لوگوں کا شکار کرتا تھا۔ اس وحشت ناک کھیل کے لیے خصوصی اور اعلیٰ نسل کے کتے اسپین سے منگوائے جاتے تھے جو انسان کی بو پر جھپٹتے تھے۔ ان کی ٹانگیں لمبی ہوتی تھیں اور ان کے نوکیلے دانت اور خوف ناک جبڑے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔

یہ کتے پلک جھپکتے میں مقامی لوگوں کے چیتھڑے اڑا دیتے تھے۔ اس خوف ناک عمل کو ''کھیل'' کا نام دیا جاتا تھا۔ بعض اوقات مقامی لوگوں کو نشے آور چیزیں پلاکر کر ان وحشی کتوں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا۔ ان بے بس لوگوں کے ہاتھ میں ہتھیار کے نام پر صرف ایک معمولی سی چھڑی ہوتی تھی اور جسم پر لباس نہیں ہوتا تھا جس کے بعد پھر موت اور زندگی کا کھیل شروع ہوجاتا تھا۔

جس وقت یہ خوں خوار کتے ان مقامی لوگوں پر حملے کرکے ان کے ٹکڑے کرتے تو نئے آباد کار خوشی سے نعرے لگاتے تھے اور کتوں کو ان کی ''بہادری'' کی دل کھول کر داد دیتے تھے۔بہرحال کولمبس کو اس کے گناہوں کی سزا تو ملنی ہی تھی، چناں چہ جب کولمبس کی شامت آئی تو اسے اسپین کے حکم رانوں کے حکم پر ایک قیدی کی حیثیت سے اسپین واپس لایا گیا۔ اصل میں کافی عرصے سے کولمبس اور اس کے ساتھیوں کی بدانتظامی کی خبریں ہر طرف پھیل رہی تھیں۔ لوگ کھلم کھلا یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کولمبس اس جزیرے کے وسائل کو بے دریغ ضائع کررہا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ کام نہیں کررہا۔

چناں چہ اس طرح کی خبروں پر کولمبس کے خلاف 1500میں اشتعال پھیل گیا اور اسے Hispaniola کی گورنری سے معزول کرکے زنجیروں میں جکڑ کر اسپین طلب کرلیا گیا۔


لوگوں کا خیال تھا کہ اب کولمبس سزا سے نہیں بچ سکے گا اور اسے اس کے کیے کی سزا مل کر رہے گی، مگر کولمبس ایک بار پھر خوش قسمت نکلا، کیوں کہ اسپین کے بادشاہ فرڈی نینڈ نے اسے سزا دینے کے بجائے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کردیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اسپین کا بادشاہ فردینند کولمبس کو بہت پسند کرتا تھا، اس لیے فرڈی نینڈ نے اسے معاف کردیا، بلکہ اس کی چوتھی مہم جوئی کے لیے اپنی تجوری کا منہ بھی کھول دیا اور اسے دل کھول کر فنڈز بھی فراہم کردیے۔

صرف آٹھ سال کی مدت میں کرسٹوفر کولمبس نے پوری کی پوری مقامی آبادی کو یہاں سے اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ تیار کرلیا، جس کے بعد اس نے نہ صرف مقامی آبادیوں کو غلام بنایا، بل کہ ان کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کا وہ درد ناک سلسلہ شروع کیا جسے بعد میں یورپی نو آبادیوں میں آنے اور بسنے والوں نے بھی جاری رکھا۔ اس حوالے سے اگر دیکھا اور سمجھا جائے تو ہر سال 12اکتوبر کو اس دن کو بہ طور کولمبس ڈے منانے کے بجائے Indigenous Peoples' Day یعنی مقامی افراد کے دن کے طور پر منایا جانا چاہیے۔
Load Next Story