بہار میں مودی کی ہار
بی جے پی کی شکست بھارت میں رائے عامہ کی تبدیلی کا اشارہ ہے
ISLAMABAD:
پڑوسی ممالک سے تعلقات میں یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ وہاں سرکار کی گدی پر کون براجمان ہے، جس کی مثال بھارت میں راج کرتی مودی حکومت ہے، جس کے آنے کے بعد سے نہ صرف بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے بل کہ پاکستان کو بھی مسلسل نئی دہلی کی جانب سے مخاصمت، خطرات اور خدشات کا سامنا ہے۔
2014ء میں بھارت کے عام چناؤ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی تن تنہاحکومت بنانے میں کام یاب ہوئی اور نام زَد وزیراعظم نریندر مودی نے حلف اٹھایا، تو پاک وہند میں امن کے متوالے طرح طرح کے شکوک میں مبتلا ہو گئے۔ بابری مسجد کی شہادت سے گجرات کے مسلم کُش فسادات تک گھناؤنا کردار ادا کرنے والی جماعت اتنی طاقت وَر پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔
وقت گزرتے کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خدشات حقیقت میں بدلنے لگے۔ گائے کے ذبیحے کی اطلاعات پر بات قتل وغارت تک جا پہنچی۔ کہنے کو 2014ء میں نریندر مودی کی معاشی اصلاحات کی چمک دمک کی جیت ہوئی تھی، مگر مودی اور بی جے پی کے نفرت انگیز وچار سے واقف لوگ اس کے باطنی عزائم سے بھی آگاہ تھے۔
ایسے میں ہندوستان کی تیسری بڑی آبادی رکھنے والی ریاست بہار میں ریاستی انتخابات کا بگل بجتا ہے۔ وہ بہار جہاں گزشتہ برس لوک سبھا (ایوان زیریں) کے عام چناؤ میں بی جے پی نے 40 میں سے 32 نشستیں اپنے نام کی تھیں۔
ریاست کی 243 نشستوں کے لیے نئی صف بندیاں ہوتی ہیں۔ بی جے پی حسب سابق اپنے 1998ء میں بنائے گئے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) کے ساتھ میدان میں اتری، این ڈی اے میں ساماتا پارٹی کے علاوہ All India Anna Dravida Munnetra Kazhagam (AIADMK) کے علاوہ سب سے نمایاں ہندو توا کی عَلم بردار شیوسینا بھی شامل ہے، جب کہ اس کے مقابلے کے لیے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد یادیو جے یوڈی کے پلیٹ فارم پر متحد تھے۔
جو وہاں ''مہا گٹھ بندھن'' سے معروف ہے۔ حکم راں جماعت کو اپنی کام یابیوں کے سلسلے کو رواں رکھنے کے لیے بہار کے چناؤ جیتنا لازمی تھا، لہٰذا مودی نے بہار کے دسیوں پھیرے لگائے اور ریکارڈ 31 جلسے اور ریلیاں کر ڈالیں۔ بی جے پی کے صدر امیت شا ہندو انتہاپسندی میں اتنے بہہ گئے کہ اعلان کر ڈالا کہ ہمیں شکست ہوئی تو پاکستان میں خوشی سے پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔
الغرض جوں جوں چناؤ کا دن قریب آیا، انتخابی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اگر یہ چناؤ بی جے پی کی انتخابی کام یابیوں کو بڑھاوا دینے کے لیے ضروری تھے، تو دوسری طرف وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار اور لالو پرشاد یادو کی بھی سیاسی ساکھ کا سوال تھا۔ مرکزی سرکار انتخابات جیتنے کے لیے جہاں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی، وہیں پروپیگنڈا بھی زوروں پر تھا، مختلف سروے کی بنیاد پر مودی جی جشن فتح کی تیاریاں کرتے محسوس ہوتے تھے، لیکن انتخابی نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری بھرکم فتح کا نشہ ہرن کر دیا۔ حکم راں اتحاد فقط 58 نشستوں پر ہانپ کر رہ گیا، جب کہ جے ڈی یو (مہا گٹھ بندھن) کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد 178 تک جا پہنچی، باقی سات نشستیں دیگر جماعتوں کے حصے میں آئیں۔
یوں لالو پرشاد یادو کی 'راشٹریہ جنتا دل' نے کانگریس اور نتیش کمار کی 'یونائیٹڈ جنتا دل' کے ساتھ اکٹھ کر کے بہار میں نریندر مودی کی انتہاپسندی کے آگے کام یابی سے بند باندھ دیا ہے۔ بہار پر 1990ء تا 2005ء راج کرنے والے لالو پرشاد کی جماعت گزشتہ ریاستی چناؤ میں محض 22 نشستوں تک سمٹ گئی تھی۔ اب ایک بار پھر ان کی 'راشٹریہ جنتا دل' 80 نشستیں حاصل کر کے بہار کی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری ہے۔
لالو پرشاد یادو 2013ء میں ایک مقدمے میں پھنسنے کے بعد چناؤ کے لیے نااہل قرار پائے، تو بیٹی اور بیوی کو انتخابی دنگل میں اتارا، مگر قسمت کی روٹھی دیوی کو نہ منا سکے۔ 1990ء میں 122 نشستیں لینے والے لالو کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ گھر کی نشستیں بھی نہ بچا پائے۔
اپنے 15 سالہ دور میں بی جے پی سے اتحاد، بعدازاں اس کے اراکین کو توڑ کر راج کرنے والے لالو کا سیاسی دور اور مختلف نشیب وفراز سے دوچار رہا۔ 2010ء میں ان کی اتحادی کانگریس نے لالو کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ فقط 22 نمائندے ہی جتوا سکے۔اسے لالو پرشاد کا بدترین دور کہا جاتا ہے، لیکن پھر2014ء کے عام انتخابات میں مودی کی بھاری بھرکم فتح نے دو حریفوں نتیش کمار اور لالو پرشاد کو ایک کر دیا۔ بہار کے ضمنی انتخاب میں اس کے مثبت نتائج نے دونوں کا حوصلہ بڑھایا۔
بہار کی شکست کے بعد جہاں ہندوستان کی معروف سروے ایجنسی 'ٹوڈیز چانکیہ' نے بی جے پی کے موافقت کا دعویٰ کرنے پر تحریری معافی مانگی، وہیں خود کو ہندوستان کا مستقبل سمجھنے والی بی جے پی میں صف ماتم بچھ گئی ہے، جس کے ایک اجلاس میں پارٹی صدر امیت شاکے پاکستان کے حوالے سے کی گئی تقریر پر بھی کافی لے دے ہوئی ہے۔
اگرچہ بہ حیثیت جماعت بی جے پی اب بھی بہار اسمبلی کی ایک نمایاں جماعت ہے، لیکن دو تہائی اکثریت کے زعم میں ہندوستان بھر میں دندنانے والی مودی سرکار کی خود اعتمادی کو اتنی زبردست ٹھیس پہنچی ہے، کہ وہ لڑکھڑاتی سی محسوس ہوتی ہے۔ بہار کے اثرات دلی کے ریاستی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے سے زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں، جو رواں برس فروری میں ہوئے تھے۔
کچھ دن قبل بساڑا (اترپردیش) میں مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت کھانے کے شبہہ میں قتل کیے جانے والے محمد اخلاق کے بیٹے محمد سرتاج نے بہار چناؤ کے نتائج کو اپنے والد کے لیے خراج عقیدت قرار دیا ہے، تو دوسری طرف بساڑا کے سابق پردھان 75 سالہ بھوپ سنگھ نے بھی انتخابی نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے گاؤں میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، محمد اخلاق کی موت نے مجھے بے انتہا تکلیف پہنچائی۔
بہار کے چناؤ کے نتیجے کے بعد ہندوستان میں سیکولر سیاسی سوچ رکھنے والوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے اور ان کے حوصلے اب کافی بلند ہیں۔ اب لوگوں کی نظریں 2017ء کے اترپردیش کے ریاستی چناؤ پر جمی ہیں، کیوں کہ ایک طرف لالو پرشاد یادو اب مرکزی سطح پر بھی مودی کا قلع قمع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، تو دوسری طرف سماج وادی پارٹی اور اس طرح کی دیگر اعتدال پسند سیاسی قوتوں کو مودی سرکار مخالف چھتری تلے متحد ہونے کی باتیں کی جانے لگی ہیں، کیوں کہ اگر سماج وادی پارٹی بھی لالو پرشاد کے ساتھ مل کر انتخاب لڑتی، تو یقیناً اسے بھی ایک دو نشستوں کا ثمر ضرور مل جاتا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اگرچہ بی جے پی کی شکست پر اظہار مسرت کیا ہے، لیکن ان کی جماعت بھی بہار میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ ظاہر ہے، اگر بہار کے مسلمان 'اتحاد المسلمین' کے امیدوار کو ووٹ دیتے تو یقینی طور پر اس کا فائدہ بی جے پی کو جاتا۔ اس طرح ایک طرف کٹر ہندو انتہا پسندوں کو شکست ہوئی وہاں مسلم شناخت کی عَلم بردار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی کام یاب نہ ہو سکی۔
ہندوستان میں سیاسی پنڈت اب اس رائے کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نریندر مودی کی معاشی چمک دمک کا سراب اب ہندوستانی عوام پر عیاں ہو چکا ہے اور بہار چناؤ کے نتائج بی جے پی کے بھاری بھرکم راج کے اختتام کا آغاز تو ثابت نہیں ہونے والے۔
مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ
تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ نے جن 30 مسلم نشستوں پر کلین سوئپ کیا تھا، ان میں سے تین نشستوں کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ یہ قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والی ان 17 نشستوں میں شامل تھی، جو کبھی نئی ریاست کا حصہ ہی نہ بن سکے، باقی کی 13 نشستوں میں یوپی کی چھے، ممبئی اور مدراس کی تین، تین، جب کہ سی پی اورآسام کی ایک ایک نشست شامل تھی۔
بہار کے حالیہ چنائو میں 24 مسلمان بھی سرخرو ہوئے ہیں، جو کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ 2010ء میں 19 مسلمان اراکین ہی فتح یاب ہو سکے تھے۔ 24 مسلمان نمائندوں میں لالوپرشاد یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے 12، کانگریس 6، نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کے 5، جب کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔
رواں چنائو میں جیتنے والے 24 اراکین منتخب ایوان کا 10 فی صد بنتے ہیں، اس لحاظ سے یہ اب بھی بہار کی 16.5 فی صد مسلم نمائندگی سے کم ہی قرار پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ نومنتخب رکن عبدالباری صدیقی کو بہار کا نائب وزیراعلیٰ نام زد کرنے کی بازگشت بھی ہے، ماضی میں ریاست کے مسلمان وزیراعلیٰ بنائے جانے کے لیے بھی ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ تاہم ابھی اس قسم کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔
پڑوسی ممالک سے تعلقات میں یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ وہاں سرکار کی گدی پر کون براجمان ہے، جس کی مثال بھارت میں راج کرتی مودی حکومت ہے، جس کے آنے کے بعد سے نہ صرف بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے بل کہ پاکستان کو بھی مسلسل نئی دہلی کی جانب سے مخاصمت، خطرات اور خدشات کا سامنا ہے۔
2014ء میں بھارت کے عام چناؤ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی تن تنہاحکومت بنانے میں کام یاب ہوئی اور نام زَد وزیراعظم نریندر مودی نے حلف اٹھایا، تو پاک وہند میں امن کے متوالے طرح طرح کے شکوک میں مبتلا ہو گئے۔ بابری مسجد کی شہادت سے گجرات کے مسلم کُش فسادات تک گھناؤنا کردار ادا کرنے والی جماعت اتنی طاقت وَر پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔
وقت گزرتے کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خدشات حقیقت میں بدلنے لگے۔ گائے کے ذبیحے کی اطلاعات پر بات قتل وغارت تک جا پہنچی۔ کہنے کو 2014ء میں نریندر مودی کی معاشی اصلاحات کی چمک دمک کی جیت ہوئی تھی، مگر مودی اور بی جے پی کے نفرت انگیز وچار سے واقف لوگ اس کے باطنی عزائم سے بھی آگاہ تھے۔
ایسے میں ہندوستان کی تیسری بڑی آبادی رکھنے والی ریاست بہار میں ریاستی انتخابات کا بگل بجتا ہے۔ وہ بہار جہاں گزشتہ برس لوک سبھا (ایوان زیریں) کے عام چناؤ میں بی جے پی نے 40 میں سے 32 نشستیں اپنے نام کی تھیں۔
ریاست کی 243 نشستوں کے لیے نئی صف بندیاں ہوتی ہیں۔ بی جے پی حسب سابق اپنے 1998ء میں بنائے گئے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) کے ساتھ میدان میں اتری، این ڈی اے میں ساماتا پارٹی کے علاوہ All India Anna Dravida Munnetra Kazhagam (AIADMK) کے علاوہ سب سے نمایاں ہندو توا کی عَلم بردار شیوسینا بھی شامل ہے، جب کہ اس کے مقابلے کے لیے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد یادیو جے یوڈی کے پلیٹ فارم پر متحد تھے۔
جو وہاں ''مہا گٹھ بندھن'' سے معروف ہے۔ حکم راں جماعت کو اپنی کام یابیوں کے سلسلے کو رواں رکھنے کے لیے بہار کے چناؤ جیتنا لازمی تھا، لہٰذا مودی نے بہار کے دسیوں پھیرے لگائے اور ریکارڈ 31 جلسے اور ریلیاں کر ڈالیں۔ بی جے پی کے صدر امیت شا ہندو انتہاپسندی میں اتنے بہہ گئے کہ اعلان کر ڈالا کہ ہمیں شکست ہوئی تو پاکستان میں خوشی سے پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔
الغرض جوں جوں چناؤ کا دن قریب آیا، انتخابی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اگر یہ چناؤ بی جے پی کی انتخابی کام یابیوں کو بڑھاوا دینے کے لیے ضروری تھے، تو دوسری طرف وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار اور لالو پرشاد یادو کی بھی سیاسی ساکھ کا سوال تھا۔ مرکزی سرکار انتخابات جیتنے کے لیے جہاں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی، وہیں پروپیگنڈا بھی زوروں پر تھا، مختلف سروے کی بنیاد پر مودی جی جشن فتح کی تیاریاں کرتے محسوس ہوتے تھے، لیکن انتخابی نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری بھرکم فتح کا نشہ ہرن کر دیا۔ حکم راں اتحاد فقط 58 نشستوں پر ہانپ کر رہ گیا، جب کہ جے ڈی یو (مہا گٹھ بندھن) کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد 178 تک جا پہنچی، باقی سات نشستیں دیگر جماعتوں کے حصے میں آئیں۔
یوں لالو پرشاد یادو کی 'راشٹریہ جنتا دل' نے کانگریس اور نتیش کمار کی 'یونائیٹڈ جنتا دل' کے ساتھ اکٹھ کر کے بہار میں نریندر مودی کی انتہاپسندی کے آگے کام یابی سے بند باندھ دیا ہے۔ بہار پر 1990ء تا 2005ء راج کرنے والے لالو پرشاد کی جماعت گزشتہ ریاستی چناؤ میں محض 22 نشستوں تک سمٹ گئی تھی۔ اب ایک بار پھر ان کی 'راشٹریہ جنتا دل' 80 نشستیں حاصل کر کے بہار کی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری ہے۔
لالو پرشاد یادو 2013ء میں ایک مقدمے میں پھنسنے کے بعد چناؤ کے لیے نااہل قرار پائے، تو بیٹی اور بیوی کو انتخابی دنگل میں اتارا، مگر قسمت کی روٹھی دیوی کو نہ منا سکے۔ 1990ء میں 122 نشستیں لینے والے لالو کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ گھر کی نشستیں بھی نہ بچا پائے۔
اپنے 15 سالہ دور میں بی جے پی سے اتحاد، بعدازاں اس کے اراکین کو توڑ کر راج کرنے والے لالو کا سیاسی دور اور مختلف نشیب وفراز سے دوچار رہا۔ 2010ء میں ان کی اتحادی کانگریس نے لالو کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ فقط 22 نمائندے ہی جتوا سکے۔اسے لالو پرشاد کا بدترین دور کہا جاتا ہے، لیکن پھر2014ء کے عام انتخابات میں مودی کی بھاری بھرکم فتح نے دو حریفوں نتیش کمار اور لالو پرشاد کو ایک کر دیا۔ بہار کے ضمنی انتخاب میں اس کے مثبت نتائج نے دونوں کا حوصلہ بڑھایا۔
بہار کی شکست کے بعد جہاں ہندوستان کی معروف سروے ایجنسی 'ٹوڈیز چانکیہ' نے بی جے پی کے موافقت کا دعویٰ کرنے پر تحریری معافی مانگی، وہیں خود کو ہندوستان کا مستقبل سمجھنے والی بی جے پی میں صف ماتم بچھ گئی ہے، جس کے ایک اجلاس میں پارٹی صدر امیت شاکے پاکستان کے حوالے سے کی گئی تقریر پر بھی کافی لے دے ہوئی ہے۔
اگرچہ بہ حیثیت جماعت بی جے پی اب بھی بہار اسمبلی کی ایک نمایاں جماعت ہے، لیکن دو تہائی اکثریت کے زعم میں ہندوستان بھر میں دندنانے والی مودی سرکار کی خود اعتمادی کو اتنی زبردست ٹھیس پہنچی ہے، کہ وہ لڑکھڑاتی سی محسوس ہوتی ہے۔ بہار کے اثرات دلی کے ریاستی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے سے زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں، جو رواں برس فروری میں ہوئے تھے۔
کچھ دن قبل بساڑا (اترپردیش) میں مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت کھانے کے شبہہ میں قتل کیے جانے والے محمد اخلاق کے بیٹے محمد سرتاج نے بہار چناؤ کے نتائج کو اپنے والد کے لیے خراج عقیدت قرار دیا ہے، تو دوسری طرف بساڑا کے سابق پردھان 75 سالہ بھوپ سنگھ نے بھی انتخابی نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے گاؤں میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، محمد اخلاق کی موت نے مجھے بے انتہا تکلیف پہنچائی۔
بہار کے چناؤ کے نتیجے کے بعد ہندوستان میں سیکولر سیاسی سوچ رکھنے والوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے اور ان کے حوصلے اب کافی بلند ہیں۔ اب لوگوں کی نظریں 2017ء کے اترپردیش کے ریاستی چناؤ پر جمی ہیں، کیوں کہ ایک طرف لالو پرشاد یادو اب مرکزی سطح پر بھی مودی کا قلع قمع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، تو دوسری طرف سماج وادی پارٹی اور اس طرح کی دیگر اعتدال پسند سیاسی قوتوں کو مودی سرکار مخالف چھتری تلے متحد ہونے کی باتیں کی جانے لگی ہیں، کیوں کہ اگر سماج وادی پارٹی بھی لالو پرشاد کے ساتھ مل کر انتخاب لڑتی، تو یقیناً اسے بھی ایک دو نشستوں کا ثمر ضرور مل جاتا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اگرچہ بی جے پی کی شکست پر اظہار مسرت کیا ہے، لیکن ان کی جماعت بھی بہار میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ ظاہر ہے، اگر بہار کے مسلمان 'اتحاد المسلمین' کے امیدوار کو ووٹ دیتے تو یقینی طور پر اس کا فائدہ بی جے پی کو جاتا۔ اس طرح ایک طرف کٹر ہندو انتہا پسندوں کو شکست ہوئی وہاں مسلم شناخت کی عَلم بردار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی کام یاب نہ ہو سکی۔
ہندوستان میں سیاسی پنڈت اب اس رائے کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نریندر مودی کی معاشی چمک دمک کا سراب اب ہندوستانی عوام پر عیاں ہو چکا ہے اور بہار چناؤ کے نتائج بی جے پی کے بھاری بھرکم راج کے اختتام کا آغاز تو ثابت نہیں ہونے والے۔
مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ
تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ نے جن 30 مسلم نشستوں پر کلین سوئپ کیا تھا، ان میں سے تین نشستوں کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ یہ قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والی ان 17 نشستوں میں شامل تھی، جو کبھی نئی ریاست کا حصہ ہی نہ بن سکے، باقی کی 13 نشستوں میں یوپی کی چھے، ممبئی اور مدراس کی تین، تین، جب کہ سی پی اورآسام کی ایک ایک نشست شامل تھی۔
بہار کے حالیہ چنائو میں 24 مسلمان بھی سرخرو ہوئے ہیں، جو کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ 2010ء میں 19 مسلمان اراکین ہی فتح یاب ہو سکے تھے۔ 24 مسلمان نمائندوں میں لالوپرشاد یادو کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے 12، کانگریس 6، نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کے 5، جب کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن شامل ہیں۔
رواں چنائو میں جیتنے والے 24 اراکین منتخب ایوان کا 10 فی صد بنتے ہیں، اس لحاظ سے یہ اب بھی بہار کی 16.5 فی صد مسلم نمائندگی سے کم ہی قرار پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ نومنتخب رکن عبدالباری صدیقی کو بہار کا نائب وزیراعلیٰ نام زد کرنے کی بازگشت بھی ہے، ماضی میں ریاست کے مسلمان وزیراعلیٰ بنائے جانے کے لیے بھی ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ تاہم ابھی اس قسم کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا۔