پیرس دہشت گردی اسباب پر بھی غور کیا جائے
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے پیرس پر حملوں کے بعد تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا سکتے میں آ گئی ہے۔
KARACHI:
پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد عالمی رہنماؤں نے ان کی مذمت اور فرانس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی مکمل حمایت کرتا ہے، مصیبت اور دکھ کی اس گھڑی میں فرانسیسی حکومت اور عوام کے ساتھ ہیں، پاکستان شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد کرے گا۔ امریکی صدر بارک اوباما، روسی صدر ولادی میر پوٹن، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، مسیحی روحانی پیشوا پوپ فرانسس، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، افغان صدر اشرف غنی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، کینیڈا اور چین نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے فرانسیسی ہم منصب فرانسو اولاندے کو واقعے کی تحقیقات کے لیے تعاون کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو شکست دے کر دم لیں گے۔ پوپ فرانسس نے ان حملوں کو تیسری عالمی جنگ کی طرف ایک قدم قرار دیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ان حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی مسئلے کے منفی اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، شام میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فوری جنگ بندی اور 18 ماہ میں آئینی اصلاحات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے پیرس پر حملوں کے بعد تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا سکتے میں آ گئی ہے۔ ان حملوں میں 130 افراد ہلاک اور 352 زخمی ہو گئے جن میں سے 80 کی حالت تشویشناک ہے، پیرس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار کرفیو لگا دیا گیا اور ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر کے سرحدیں بند اور تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا۔ داعش نے حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے مارچ میں یورپ کے متعدد شہروں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں روم، لندن اور واشنگٹن پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔ خبروں کے مطابق پیرس میں کارروائی کے دوران ایک حملہ آور چلا رہا تھا کہ یہ سب فرانس کے صدر فرانسو اولاندے کی غلطی ہے، انھیں شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ حملہ آوروں کی لاشوں کے نزدیک سے شامی اور مصری پاسپورٹس ملے ہیں جب کہ ایک فرانسیسی حملہ آور کی شناخت ہو گئی ہے۔ دہشت گردوں کے حملوں کے بعد امریکا برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ، برسلز میں متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیرس میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں شام پر ہونے والے حملوں کا انتقام لیا گیا ہے اور داعش نے مستقبل میں بھی یورپ کے دیگر شہروں میں حملوں کا اعلان کرکے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس صورت حال کے بعد اس امر کا امکان ہے کہ امریکا اور تمام یورپی رہنما دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں گے تاکہ وہ اپنے ممالک کو دہشت گردوں سے محفوظ بنا سکیں، اس کے لیے یورپ کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی جائے گی جس سے وہاں مقیم غیر ملکی تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں فرانس نے جنگ سے متاثرہ سیکڑوں شامیوں کو اپنے ہاں قیام کی اجازت دی تھی، ان حملوں کے بعد ممکن ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے مزید شامیوں اور دیگر تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کر دے۔ امریکا اور بڑی طاقتیں پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ وہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے، اب پیرس حملوں کے بعد انھیں اس حقیقت کا یقیناً ادراک ہو گیا ہو گا کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان ہی سے نتھی نہیں بلکہ یہ عالمی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور ساری دنیا کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح داعش نے شام کے بحران میں ملوث یورپی ممالک کے خلاف اظہار جنگ کیا ہے خدشہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دے جس کے بعد مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی ممالک اس امر پر بھی غور کریں وہ کیا اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر ان کے ہاں بھی دہشت گردوں کے حملے شروع ہو گئے ہیں جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک اس ناسور کو ختم نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کو جنم دینے میں یورپی ممالک کی اپنی پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے جس پر انھیں نظرثانی کرنی چاہیے۔
پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد عالمی رہنماؤں نے ان کی مذمت اور فرانس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی مکمل حمایت کرتا ہے، مصیبت اور دکھ کی اس گھڑی میں فرانسیسی حکومت اور عوام کے ساتھ ہیں، پاکستان شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد کرے گا۔ امریکی صدر بارک اوباما، روسی صدر ولادی میر پوٹن، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، مسیحی روحانی پیشوا پوپ فرانسس، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، افغان صدر اشرف غنی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، کینیڈا اور چین نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے فرانسیسی ہم منصب فرانسو اولاندے کو واقعے کی تحقیقات کے لیے تعاون کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو شکست دے کر دم لیں گے۔ پوپ فرانسس نے ان حملوں کو تیسری عالمی جنگ کی طرف ایک قدم قرار دیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ان حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی مسئلے کے منفی اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، شام میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فوری جنگ بندی اور 18 ماہ میں آئینی اصلاحات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے پیرس پر حملوں کے بعد تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا سکتے میں آ گئی ہے۔ ان حملوں میں 130 افراد ہلاک اور 352 زخمی ہو گئے جن میں سے 80 کی حالت تشویشناک ہے، پیرس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار کرفیو لگا دیا گیا اور ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر کے سرحدیں بند اور تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا۔ داعش نے حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے مارچ میں یورپ کے متعدد شہروں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں روم، لندن اور واشنگٹن پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔ خبروں کے مطابق پیرس میں کارروائی کے دوران ایک حملہ آور چلا رہا تھا کہ یہ سب فرانس کے صدر فرانسو اولاندے کی غلطی ہے، انھیں شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ حملہ آوروں کی لاشوں کے نزدیک سے شامی اور مصری پاسپورٹس ملے ہیں جب کہ ایک فرانسیسی حملہ آور کی شناخت ہو گئی ہے۔ دہشت گردوں کے حملوں کے بعد امریکا برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ، برسلز میں متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق یوں معلوم ہوتا ہے کہ پیرس میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں شام پر ہونے والے حملوں کا انتقام لیا گیا ہے اور داعش نے مستقبل میں بھی یورپ کے دیگر شہروں میں حملوں کا اعلان کرکے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس صورت حال کے بعد اس امر کا امکان ہے کہ امریکا اور تمام یورپی رہنما دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں گے تاکہ وہ اپنے ممالک کو دہشت گردوں سے محفوظ بنا سکیں، اس کے لیے یورپ کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی جائے گی جس سے وہاں مقیم غیر ملکی تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں فرانس نے جنگ سے متاثرہ سیکڑوں شامیوں کو اپنے ہاں قیام کی اجازت دی تھی، ان حملوں کے بعد ممکن ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے مزید شامیوں اور دیگر تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کر دے۔ امریکا اور بڑی طاقتیں پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ وہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرے، اب پیرس حملوں کے بعد انھیں اس حقیقت کا یقیناً ادراک ہو گیا ہو گا کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان ہی سے نتھی نہیں بلکہ یہ عالمی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور ساری دنیا کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح داعش نے شام کے بحران میں ملوث یورپی ممالک کے خلاف اظہار جنگ کیا ہے خدشہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دے جس کے بعد مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی ممالک اس امر پر بھی غور کریں وہ کیا اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر ان کے ہاں بھی دہشت گردوں کے حملے شروع ہو گئے ہیں جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک اس ناسور کو ختم نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کو جنم دینے میں یورپی ممالک کی اپنی پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے جس پر انھیں نظرثانی کرنی چاہیے۔