ترکی میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس

غریب اور پسماندہ ملکوں میں ذہین قیادت کا فقدان اور سیاسی تنازعات نے صورت حال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے

اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو دنیا کی موجودہ تشویشناک صورتحال کی اصل ذمے داری ان ترقی یافتہ ممالک پر ہی عاید ہوتی ہے، فوٹو : فائل

KARACHI:
دنیا کے آٹھ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں نے ''جی ایٹ'' یعنی آٹھ عظیم کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس میں بعدازاں مزید بارہ صنعتی ملکوں کو شامل کر کے اب اس کو ''جی ٹوئنٹی'' یعنی 20 ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم بنا دیا گیا۔ اس تنظیم کا سربراہ اجلاس ترکی میں شروع ہو گیا ہے۔ اس دو روزہ اجلاس میں سربراہوں کا فوکس پیرس کے حالیہ واقعات کے بعد دہشت گردی پر ہی مرکوز رہے گا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ اس عالمی دہشت گردی پر موثر طور پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ چینی صدر شی جن پنگ اور دیگر عالمی لیڈر ترکی کے دارالحکومت انقرہ پہنچ گئے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کے سربراہوں کے بنیادی ایجنڈے میں شام کا بحران سرفہرست تھا جب کہ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی اس کانفرنس میں بحث ہونا تھی تاہم اب پیرس دھماکے کے نتیجے میں سارے پروگرام تبدیل کر دیے ہیں اور اس کانفرنس کے شرکا کے لیے جو تفریحی تقریبات ہونا تھیں وہ منسوخ کر دی گئیں۔


سعودی فرمانروا شاہ سلمان ایک بہت بڑے شاہی وفد کے ہمراہ دو روز قبل ہی ترکی کے تاریخی شہر انا طولیہ پہنچ چکے ہیں جن کی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے خصوصی ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ اس کانفرنس میں دیگر شرکت کرنے والوں میں آسٹریلیا کے وزیراعظم میکلم ٹرنبل، جنوبی افریقی صدر جیکب زوما اور کینیڈا کی نومنتخب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی شامل ہیں۔ کانفرنس کے لیے آخر میں پہنچنے والوں میں امریکا اور روس کے صدر (اوباما اور پیوٹن) شامل تھے تاہم فرانسیسی صدر نے ملک کی تازہ صورت حال کے باعث شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو دنیا کی موجودہ تشویشناک صورتحال کی اصل ذمے داری ان ترقی یافتہ ممالک پر ہی عاید ہوتی ہے جنہوں نے ترقی پذیر ملکوں کو ایسے قوانین کا اسیر بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے غریب ممالک کی ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

ایشیا اور افریقہ میں جاری خانہ جنگیاں ہوں یا دہشت گردی کا عفریت ان کے حقیقی عوامل پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ صنعتی ترقی یافتہ ممالک نے سرمائے کا ارتکاز اپنے پاس کر رکھا ہے' عالمی مالیاتی اداروں پر کنٹرول بھی ترقی یافتہ ملکوں کا ہے' غریب اور پسماندہ ملکوں کے لیے یہ انتہائی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر ترقی کر سکیں۔ غریب اور پسماندہ ملکوں میں ذہین قیادت کا فقدان اور سیاسی تنازعات نے صورت حال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے' جی 20 ممالک کو اپنی اقتصادی پالیسیوں اور ان کے سیاسی و سماجی اثرات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے تا کہ دنیا میں ترقی کا ہموار عمل شروع ہو سکے۔
Load Next Story