ایک دن اکیڈمی ادبیات کے ساتھ

اختر رضا سلیمی شاعر ہیں، اب ناول نگار بھی ہو گئے ہیں

ISLAMABAD:
اختر رضا سلیمی شاعر ہیں، اب ناول نگار بھی ہو گئے ہیں، ''جاگے ہیں خواب میں'' ناول کا نام ہے۔ مزید یہ کہ اختر رضا سلیمی اکیڈمی ادبیات اسلام آباد میں مدیر ادبیات کے عہدے پر فائز ہیں۔ میں نے انھیں دو روز پہلے لاہور سے فون کیا تھا کہ بھائی ہم شاعر ادیبوں کی عارضی رہائش کے لیے اکیڈمی نے جو ''دی رائٹرز ہاؤس'' بنایا ہے وہاں ایک رات گزارنے کا انتظام کر دو۔ سلیمی نے ایک کمرہ بک کروا دیا۔ 10 نومبر دوپہر دو بجے اکیڈمی پہنچا کمرے میں بیگ رکھا، اختر رضا سلیمی سے ان کے کمرے میں ملاقات ہوئی۔ شاعر کے پاس ایک اور شاعر بیٹھے تھے، خاور اعجاز، سلیمی نے اپنا ناول مجھے دیا۔ خاور اعجاز جب اٹھ کر جانے لگے تو انھوں نے سر کو ذرا جھکایا اور بولے ''لاہور جائیے تو لحد جالبؔ پر میرا نام لے کر سلام پیش کیجیے گا۔ کہیے گا خاور اعجاز کا سلام قبول ہو'' نوجوان شاعر خاور اعجاز کا یوں اظہار عقیدت و محبت، بس یہی جالبؔ نے ساری زندگی کمایا۔

خاور اعجاز جا چکے تھے، اختر رضا سلیمی بولے ''چیئرمین صاحب سے مل لیں'' میری ذرا سی ہچکچاہٹ پر سلیمی بولے ''ارے چلیں سعید پرویز صاحب'' ساتھ ہی چیئرمین صاحب کا کمرہ تھا، سلیمی نے تعارف کروایا۔ یہ سعید پرویز ہیں، افسانہ نگار، کالم بھی لکھتے ہیں اور حبیب جالبؔ صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں'' تعارف کے آخری حصے نے خوب کام دکھایا، چیئرمین صاحب کرسی چھوڑ، کھڑے ہو کر بغل گیر ہوئے۔ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو! ولیوں، صوفیوں، فقیروں کی دھرتی کے سارے رنگ میں ان کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ علی احمد تالپور صاحب کا ذکر بھی آیا۔ سلیمی نے میرے کام کے بارے میں بتایا کہ ''اکیڈمی کے کہنے پر سعید پرویز صاحب نے ''حبیب جالبؔ، فن اور شخصیت'' لکھی تھی۔'' بگھیو صاحب نے اختر سلیمی سے کہا ''اب اس کتاب کو دیکھو اور دوبارہ چھپواؤ'' پھر وہ بولے ''ہم کیا کر رہے ہیں، سعید پرویز صاحب سے اب تک ہماری ملاقات کیوں نہ ہو سکی۔

اگلے روز صبح کی چائے پر ملاقات کے وعدے کے ساتھ یہ نشست ختم ہوئی۔ میں کمرے میں آیا، رسالہ ''ماہ نو'' نے حبیب جالبؔ نمبر شایع کیا ہے۔ رسالے کے مدیر اعلیٰ محمد سلیم صاحب سے ملاقات طے تھی۔ ان کا ڈرائیور آ چکا تھا اور میں ادھر روانہ ہو گیا۔ سلیم صاحب لائلپور (فیصل آباد) کے رہنے والے ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی ادب سے گہری دلچسپی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ جالبؔ صاحب کے بڑے مداح ہیں۔ سلیم صاحب بڑے تپاک سے ملے، یہ ان سے بالمشافہ پہلی ملاقات تھی۔ اعلیٰ سرکاری عہدیدار ہوتے ہوئے میں نے ان میں عام آدمی والا رنگ بھی دیکھا۔ کھل کے گفتگو کرتے ہیں، چیزوں کو حقیقت پسندی سے دیکھتے ہیں۔

سلیم صاحب نے اپنے کمرے کے ریک میں سجے ماہ نو نمبر دکھائے، فیضؔ، جالبؔ، فرازؔ کے نمبر سجے ہوئے تھے۔ اب وہ جوشؔ اور احمد ندیمؔ قاسمی نمبر بھی شایع کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔

تقریباً 45 منٹ کی ملاقات کے بعد میں نے سلیم صاحب سے کہا کہ مجھے کمیٹی چوک راولپنڈی چھڑوا دیں، انھوں نے ڈرائیور کو بلایا اور اپنے کمرے سے نکل کر باہر تک چلے آئے۔ اب ہم راولپنڈی اسلام آباد کی سب سے بڑی کتابوں کی دکان اشرف بک ایجنسی کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا، اسلام آباد کی سڑکوں پر دھول مٹی اڑ رہی تھی اور ٹریفک جام تھی۔ ڈرائیور طیب نے بتایا کہ فلائی اوور اور انڈر پاسز بن رہے ہیں جس کی وجہ سے توڑ پھوڑ جاری ہے۔ اسلام آباد ''ایک پر سکون خاموش شہر'' اب کی بار ایسا کچھ نہیں تھا۔


شام ہو چکی تھی، میں واپس اکیڈمی ادبیات کے ''دی رائٹرز ہاؤس'' پہنچ چکا تھا۔ مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی، میں کمرے سے نکل کر استقبالیہ کاؤنٹر پر آیا تو میری نظر اس طرف ٹھہر گئی، دیوار پر ایک سلور کلر کی پلیٹ پیوست تھی جس پر لکھا تھا ''رائٹرز کیفے'' افتتاح بدست جناب عطاء الحق قاسمی بتاریخ 21 فروری 2015ء۔ میں کیفے میں داخل ہو گیا اور چائے طلب کی، فوراً گرما گرم چائے آ گئی۔ نومبر کی شام ڈھل چکی ہو، ٹھنڈک ہو اور چائے مل جائے بس وہی مزا میں بھی لے رہا تھا، خوش رہیں ڈاکٹر قاسم بگھیو جس کی چیئرمین شپ میں یہ کام ہو گیا اور دعائیں بھائی عطاء کے لیے جن کے بدست رائٹر کیفے کا آغاز ہوا۔ رائٹر کیفے کے ساتھ ہی ایک کشادہ کمرہ بطور کامن روم بھی بنایا گیا ہے جس کی دیواروں کے ساتھ آرام دہ صوفے رکھے گئے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، مصوروں، فنکاروں کو چاہیے کہ وہ شام کی ملاقاتیں رائٹر کیفے میں کیا کریں۔

رات کے نو بج رہے ہیں اور نیند کا غلبہ امڈ رہا تھا۔ میں کیفے سے اٹھا کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ رات گیارہ سے بارہ بجے تک لائٹ جائے گی۔ (لوڈشیڈنگ اسلام آباد میں معمول ہے) میں اسی انتظار میں جاگتا تھا، مگر اس رات لوڈشیڈنگ کا حملہ نہیں ہوا، ''پھر مجھے نیند آ گئی'' چلیے پورا شعر سن لیں۔ رئیس فروغؔ صاحب کا شعر ہے؎

رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا، پھر مجھے نیند آ گئی

صبح اٹھا، تو اکیڈمی کے باغیچہ کے ساتھ ٹہلتا رہا، وہاں بھی بہت اچھا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ چند پودے تھے، جو اب خوب قد نکال چکے ہیں۔ 15 اکتوبر 1998ء کی تاریخ میں یہ درخت جن ادبی شخصیات نے لگائے تھے وہ تھے شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی، مشفق خواجہ، انتظار حسین اور مشتاق احمد یوسفی۔ ایک درخت کے ساتھ تختی لگی ہے، سید قاسم محمود اور تاریخ لکھی ہے 15 مارچ 1999ء۔ ان تمام درختوں میں سے سب سے زیادہ قد جناب انتظار حسین کے لگائے ہوئے پودے نے نکالا ہے۔ ان پودے لگانے والوں میں انتظار حسین اور مشتاق یوسفی صاحبان بقید حیات ہیں... اللہ انھیں ًطویل زندگی دے، صحت تندرستی کے ساتھ۔

اکیڈمی میں گلاب کے پھول خوب لگے ہوئے ہیں، کہیں کہیں پتیاں جھڑ کر پودوں کے قدموں میں پڑی ہیں۔ غرضیکہ اکیڈمی کی پھول پھلواڑی میں بھی بڑے رنگ ہیں۔ اب صبح کے دس بج چکے ہیں اور میں اختر رضا سلیمی کو ساتھ لے کر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو چیئرمین اکیڈمی ادبیات کے ساتھ چائے پیوں گا اور لاہور واپسی کے لیے روانہ ہو جاؤں گا جہاں 13 نومبر 2015ء بروز جمعہ شام 4 بجے ادبی بیٹھک الحمرا میں میرے والد صاحب صوفی عنایت اللہ کی 624 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ''ارمغان صوفی'' کی تقریب پذیرائی ہے۔

صبح کی چائے پر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو سے مختصر ملاقات طویل ہوتی چلی گئی، بہت باتیں ہوئیں اور گفتگو کا مرکزی کردار ظاہر ہے حبیب جالبؔ تھا۔
Load Next Story