میرا یقین کیجیے
ایک مقدمہ تھا جس کی گواہی ہورہی تھی، آٹھ سال قبل یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا،
KARACHI:
ایک مقدمہ تھا جس کی گواہی ہورہی تھی، آٹھ سال قبل یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا، کراچی کی ہائی کورٹ کے سول مقدمات میں عموماً گواہی کروانے کا فرض کمشنر کو سونپا جاتا ہے جو عموماً وکلا ہوتے ہیں۔ دونوں فریقین کا ان پر اعتماد ہوتا ہے۔ کمشنر کا کام گواہی ریکارڈ کرکے اس کے کاغذات عدالت کو سونپ دینا ہوتا ہے۔ مقدمے کے فریقین فی گواہ کے اعتبار سے کمشنر کو فیس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں ایسا کمرہ بنایا گیا ہے جس میں تمام فریقین کے سامنے بڑے ہلکے پھلکے ماحول میں گواہی قلمبند ہوتی ہے۔ ہمارے مقدمے میں دو بھائی اور ان کے یتیم بھتیجوں و بیوہ بھابھی کے درمیان مکان کا تنازعہ ہے، تینوں فریقین گراؤنڈ پلس ٹو فلور کے قبضے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ہم یتیموں و بیوہ کی جانب سے مقدمے کے وکیل ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں میں چودہ پندرہ سال کے لڑکے بائیس سال کے نوجوان بن چکے ہیں۔
گواہی کا موقع تھا اور ہم دیگر لوگوں کا انتظار کررہے تھے۔ نوجوان کا سوال تھا کہ انصاف بڑی دیر سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے عدالتی انصاف کا واقعہ سنایا کہ ان ہی دنوں اوریا مقبول جان صاحب کی کتاب ''مجھے ہے حکم اذاں'' زیر مطالعہ تھی۔ کالم نگار اپنی تحریر میں ایک پاکستانی کا قصہ سناتے ہیں جس نے چند لوگوں سے شراکت کی تھی (صفحہ104) وہ بے ایمان نکلے اور ان صاحب کا روپیہ اور موٹر سائیکل لے کر فرار ہوگئے۔ مظلوم نے مقدمہ درج کروایا تو چاروں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ دو کو تو پیسے کھا کر چھوڑدیا تو دو کی عدالت سے ضمانت ہوگئی، ان میں سے دو ملزمان بھاگ کر افغانستان چلے گئے۔ یتیم نوجوان یہ کہانی بڑے غور سے سن رہا تھا، اس کے والد نے کویت میں محنت کرکے جو جائیداد بنائی اور بھائیوں کو بھی سر چھپانے کی جگہ دی اچانک انتقال ہوگیا، بیوہ خاتون کے نام باقاعدہ رجسٹری کے باوجود ہم آٹھ سال سے مقدمہ چلارہے ہیں، نوجوان نے پوچھا کہ پھر افغانستان میں کیا ہوا؟ وہاں طالبان کی حکومت تھی اور انھوں نے مظلوم کی شکایت پر دونوں ملزمان کو بلایا۔ انھوں نے اقرار کیا کہ آدھے پیسے اور موٹرسائیکل ہمارے پاس ہے۔
اگلے دن وہ شخص موٹر سائیکل اور پیسے لے کر پاکستان آگیا، اب وہ مظلوم اپنے ضلع کے ڈی سی سے کہہ رہا تھا کہ باقی دو افراد کو پکڑ کر میرے حوالے کردو۔ میں انھیں طالبان کے پاس لے جاؤں تاکہ مجھے انصاف مل سکے۔ مجھے آپ پر، آپ کی عدالت پر اور آپ کی پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں، تم بڑے عالی شان دفاتر بند کرو، چٹائی پر بیٹھنے والوں سے انصاف کرنا سیکھو، تھوڑی دیر میں دیگر لوگ آگئے اور ہم جرح کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کیا سول مقدمات کا فیصلہ دنیا بھر میں مشکل ہوتا ہے؟ ہمارے ملک میں اب فیملی اور کرایہ داری کے مقدمات نسبتاً جلدی نمٹ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک دو برس لگ ہی جاتے ہیں۔ کیا وکلا اور دیگر متعلقہ افراد اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ کیا وہ طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں؟ کیا بار اور بنچ آئین نو سے ڈرے ہوئے ہیں؟ مشکل سوالات ہیں لیکن ہم پہلے ہلکے پھلکے انداز میں بات کریںگے۔
پی ٹی وی کے ایک ڈرامے کے ہیرو منور سعید تھے۔ وہ گدھا گاڑی پر کوئلے گھروں میں پہنچایا کرتے تھے۔ یہ ہمارے اور پی ٹی وی کے لڑکپن کے دور کا ذکر ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے بڑے شہروں میں گیس کو پائپ کی لائنوں کے ذریعے گھروں تک پہنچانا شروع ہوا تھا۔ گھروں میں گیس آگئی تو خواتین نے منور سعید کو منع کرنا شروع کردیا کہ اب کوئلے دینے مت آنا۔ آہستہ آہستہ ڈرامے کے ہیرو کا کام کم ہوتا گیا، ایک بزرگوار ہی رہ گئے جو کوئلے منگواتے۔ منور پریشان تھے کہ کیا کروں؟ سوائے ایک شریف آدمی کے سب نے منع کردیا ہے۔ فاقے و بے روزگاری چل رہی تھی کہ جمع پونجی بھی ختم ہوگئی۔ اچانک منور دیکھتے ہیں کہ گیس کی لائن تو بزرگوار کے گھر پر بھی جا رہی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پھر وہ کوئلے کیوں منگوا رہے ہیں، ایک مرتبہ جب انھوں نے کوئلے لانے کا کہا تو منور نے پوچھا کہ میاں صاحب! گیس کی لائن تو آپ کے گھر پر بھی ہے تو آپ کوئلے کا کیا کرتے ہیں؟ انھوں نے منور کو گھر کے اندر بلایا، وہ گودام نما کمرے میں لے گئے جہاں کوئلے کی کئی بوریاں رکھی تھیں۔ انھوں نے منور کو کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔ وہ کہنے لگے کہ میری زبان نہیں اٹھتی تھی کہ تمہیں منع کروں۔
انھوں نے نہایت شفقت سے منور سے کہاکہ دیکھو! اب زمانہ بدل رہا ہے۔ کوئلے کا زمانہ ختم ہوا اور گیس کا دور آگیا ہے، کوئلے سے ہاتھ، کپڑے، برتن اور دیواریں کالی ہوتی تھیں، نئی دریافت میں آسانی ہے، تم بھی اپنے آپ کو بدلو، منور نے بزرگوار سے پوچھا کہ پھر کیا کروں؟ انھوں نے کہاکہ گھروں میں گیس کے چولہے آگئے ہیں تو یہ خراب بھی ہوںگے۔ تم ان کی مرمت کا کام ایک مہینے میں سیکھ سکتے ہو۔ پی ٹی وی کے ڈرامے کے آخری منظر میں دکھایاگیا کہ گدھا گاڑی پر گندے کپڑوں میں کام کرنے والا منور سعید صاف ستھرے کپڑوں میں سائیکل پر اس محلے میں کام کررہا ہے، جو خواتین منور سے کوئلے منگوایا کرتی تھیں وہ اب گیس کے چولہوں کی مرمت کا کام کروارہی ہیں۔
کیا انصاف کے شعبے سے وابستہ افراد سسٹم کو بہتر نہیں ہونے دے رہے؟ کیا طالبان کا سسٹم افغانستان میں ہی لاگو ہوسکتا ہے؟ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے مشکل سول مقدمات کے معاملات کس طرح آسانی سے حل ہوسکتے ہیں؟ دو سوالات کے جوابات تاریخ کے حوالے لیکن پہلے سوال کا جواب یہی ہے کہ بار اور بنچ میں کسی سسٹم کے حوالے سے کوئی خوف نہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے رکاوٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار لوگ عدالت میں صرف اس لیے نہیں آتے کہ تاخیر ہوجائے گی، نہ ان کے پاس صبرِ ایوبؑ ہوتا ہے نہ عمر نوحؑ اور نہ قارون کا خزانہ، جب انصاف جلد ملنے لگے گا تو بے شمار مظلومین عدالت کی جانب رجوع کریںگے۔
جتنی قناعت اور توکل علی اﷲ وکالت کے پیشے میں ہے شاید ہی کسی اور پروفیشن میں ہو، جنھیں ہر ماہ لگی بندھی تنخواہ مل جاتی ہے، انھیں قدرت کی کرم نوازیاں دیکھنے کے کم کم مواقع ملتے ہیں، جنھیں کنواں کھود کر پانی پینا ہوتا ہے وہ شکر کے جذبات زیادہ رکھتے ہیں، نوے فیصد سے زیادہ وکلا تنخواہ دار مزدور نہیں ہوتے، اگر قبائلی علاقوں و سوات کے لوگ یہ سسٹم کامیابی سے چلا پائیں اور آگے بڑھ کر مردان، دیر، بنوں سے ہوتا ہوا پشاور و کوئٹہ پہنچتا ہے تو اس سسٹم کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد آنے سے کون روک سکے گا؟ ایک اطمینان رکھیے کہ وکلا اور ججز کسی سسٹم سے خوفزدہ نہیں اور نہ کسی نظام کے آنے میں رکاوٹ ہیں، خوشگوار موڈ کے ساتھ کالم کے اختتام کی خاطر یہ واقعہ بتاتا ہوں۔
لمبے بالوں کا فیشن ستر اور اسی کی دہائی کا تحفہ ہے، ندیم، وحید مراد اور امیتابھ بچن کی اس دور کی فلمیں اس کی گواہ ہیں، اس زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ نائیوں کا کاروبار ختم ہوجائے گا۔ محلے میں ہیئر ڈریسنگ کی دکان کھلی تو ہم ہنس رہے تھے، جب ڈھائی تین ماہ بعد بال کٹوانے نوجوان جاتے تو نائی کہتا شیمپو کرنا پڑے گا، آپ انڈا لے آئیں تو اس کی زردی ملائیںگے تاکہ بال مضبوط ہوں، لیجیے انھوں نے اپنی آمدنی بڑھائی، اب لمبے بال اڑتے تو کہتے کہ انھیں جمانے کے لیے ڈرائی کرنا پڑے گا۔ اب بال کچھ جم جاتے لیکن تیز ہوا سے اڑنے لگتے۔ اب وہ کہنے لگے کہ بالوں کو اسپرے کرنا پڑے گا، یاد رکھیے جب بال بڑھتے ہیں تو انھیں کاٹنے والوں کا پیشہ کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ جب تک دنیا میں ظالم ہیں تو مظلوم کو صاحب آواز بنانے والا پیشہ بھی برقرار رہے گا، ہمیں قانونی نظام کی بہتری پر سوچنا چاہیے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بن رہا، کم از کم وکلا اور ججز تو بالکل نہیں۔ میرا یقین کیجیے۔
ایک مقدمہ تھا جس کی گواہی ہورہی تھی، آٹھ سال قبل یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا، کراچی کی ہائی کورٹ کے سول مقدمات میں عموماً گواہی کروانے کا فرض کمشنر کو سونپا جاتا ہے جو عموماً وکلا ہوتے ہیں۔ دونوں فریقین کا ان پر اعتماد ہوتا ہے۔ کمشنر کا کام گواہی ریکارڈ کرکے اس کے کاغذات عدالت کو سونپ دینا ہوتا ہے۔ مقدمے کے فریقین فی گواہ کے اعتبار سے کمشنر کو فیس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں ایسا کمرہ بنایا گیا ہے جس میں تمام فریقین کے سامنے بڑے ہلکے پھلکے ماحول میں گواہی قلمبند ہوتی ہے۔ ہمارے مقدمے میں دو بھائی اور ان کے یتیم بھتیجوں و بیوہ بھابھی کے درمیان مکان کا تنازعہ ہے، تینوں فریقین گراؤنڈ پلس ٹو فلور کے قبضے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ہم یتیموں و بیوہ کی جانب سے مقدمے کے وکیل ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں میں چودہ پندرہ سال کے لڑکے بائیس سال کے نوجوان بن چکے ہیں۔
گواہی کا موقع تھا اور ہم دیگر لوگوں کا انتظار کررہے تھے۔ نوجوان کا سوال تھا کہ انصاف بڑی دیر سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے عدالتی انصاف کا واقعہ سنایا کہ ان ہی دنوں اوریا مقبول جان صاحب کی کتاب ''مجھے ہے حکم اذاں'' زیر مطالعہ تھی۔ کالم نگار اپنی تحریر میں ایک پاکستانی کا قصہ سناتے ہیں جس نے چند لوگوں سے شراکت کی تھی (صفحہ104) وہ بے ایمان نکلے اور ان صاحب کا روپیہ اور موٹر سائیکل لے کر فرار ہوگئے۔ مظلوم نے مقدمہ درج کروایا تو چاروں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ دو کو تو پیسے کھا کر چھوڑدیا تو دو کی عدالت سے ضمانت ہوگئی، ان میں سے دو ملزمان بھاگ کر افغانستان چلے گئے۔ یتیم نوجوان یہ کہانی بڑے غور سے سن رہا تھا، اس کے والد نے کویت میں محنت کرکے جو جائیداد بنائی اور بھائیوں کو بھی سر چھپانے کی جگہ دی اچانک انتقال ہوگیا، بیوہ خاتون کے نام باقاعدہ رجسٹری کے باوجود ہم آٹھ سال سے مقدمہ چلارہے ہیں، نوجوان نے پوچھا کہ پھر افغانستان میں کیا ہوا؟ وہاں طالبان کی حکومت تھی اور انھوں نے مظلوم کی شکایت پر دونوں ملزمان کو بلایا۔ انھوں نے اقرار کیا کہ آدھے پیسے اور موٹرسائیکل ہمارے پاس ہے۔
اگلے دن وہ شخص موٹر سائیکل اور پیسے لے کر پاکستان آگیا، اب وہ مظلوم اپنے ضلع کے ڈی سی سے کہہ رہا تھا کہ باقی دو افراد کو پکڑ کر میرے حوالے کردو۔ میں انھیں طالبان کے پاس لے جاؤں تاکہ مجھے انصاف مل سکے۔ مجھے آپ پر، آپ کی عدالت پر اور آپ کی پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں، تم بڑے عالی شان دفاتر بند کرو، چٹائی پر بیٹھنے والوں سے انصاف کرنا سیکھو، تھوڑی دیر میں دیگر لوگ آگئے اور ہم جرح کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کیا سول مقدمات کا فیصلہ دنیا بھر میں مشکل ہوتا ہے؟ ہمارے ملک میں اب فیملی اور کرایہ داری کے مقدمات نسبتاً جلدی نمٹ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک دو برس لگ ہی جاتے ہیں۔ کیا وکلا اور دیگر متعلقہ افراد اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ کیا وہ طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں؟ کیا بار اور بنچ آئین نو سے ڈرے ہوئے ہیں؟ مشکل سوالات ہیں لیکن ہم پہلے ہلکے پھلکے انداز میں بات کریںگے۔
پی ٹی وی کے ایک ڈرامے کے ہیرو منور سعید تھے۔ وہ گدھا گاڑی پر کوئلے گھروں میں پہنچایا کرتے تھے۔ یہ ہمارے اور پی ٹی وی کے لڑکپن کے دور کا ذکر ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے بڑے شہروں میں گیس کو پائپ کی لائنوں کے ذریعے گھروں تک پہنچانا شروع ہوا تھا۔ گھروں میں گیس آگئی تو خواتین نے منور سعید کو منع کرنا شروع کردیا کہ اب کوئلے دینے مت آنا۔ آہستہ آہستہ ڈرامے کے ہیرو کا کام کم ہوتا گیا، ایک بزرگوار ہی رہ گئے جو کوئلے منگواتے۔ منور پریشان تھے کہ کیا کروں؟ سوائے ایک شریف آدمی کے سب نے منع کردیا ہے۔ فاقے و بے روزگاری چل رہی تھی کہ جمع پونجی بھی ختم ہوگئی۔ اچانک منور دیکھتے ہیں کہ گیس کی لائن تو بزرگوار کے گھر پر بھی جا رہی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پھر وہ کوئلے کیوں منگوا رہے ہیں، ایک مرتبہ جب انھوں نے کوئلے لانے کا کہا تو منور نے پوچھا کہ میاں صاحب! گیس کی لائن تو آپ کے گھر پر بھی ہے تو آپ کوئلے کا کیا کرتے ہیں؟ انھوں نے منور کو گھر کے اندر بلایا، وہ گودام نما کمرے میں لے گئے جہاں کوئلے کی کئی بوریاں رکھی تھیں۔ انھوں نے منور کو کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔ وہ کہنے لگے کہ میری زبان نہیں اٹھتی تھی کہ تمہیں منع کروں۔
انھوں نے نہایت شفقت سے منور سے کہاکہ دیکھو! اب زمانہ بدل رہا ہے۔ کوئلے کا زمانہ ختم ہوا اور گیس کا دور آگیا ہے، کوئلے سے ہاتھ، کپڑے، برتن اور دیواریں کالی ہوتی تھیں، نئی دریافت میں آسانی ہے، تم بھی اپنے آپ کو بدلو، منور نے بزرگوار سے پوچھا کہ پھر کیا کروں؟ انھوں نے کہاکہ گھروں میں گیس کے چولہے آگئے ہیں تو یہ خراب بھی ہوںگے۔ تم ان کی مرمت کا کام ایک مہینے میں سیکھ سکتے ہو۔ پی ٹی وی کے ڈرامے کے آخری منظر میں دکھایاگیا کہ گدھا گاڑی پر گندے کپڑوں میں کام کرنے والا منور سعید صاف ستھرے کپڑوں میں سائیکل پر اس محلے میں کام کررہا ہے، جو خواتین منور سے کوئلے منگوایا کرتی تھیں وہ اب گیس کے چولہوں کی مرمت کا کام کروارہی ہیں۔
کیا انصاف کے شعبے سے وابستہ افراد سسٹم کو بہتر نہیں ہونے دے رہے؟ کیا طالبان کا سسٹم افغانستان میں ہی لاگو ہوسکتا ہے؟ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے مشکل سول مقدمات کے معاملات کس طرح آسانی سے حل ہوسکتے ہیں؟ دو سوالات کے جوابات تاریخ کے حوالے لیکن پہلے سوال کا جواب یہی ہے کہ بار اور بنچ میں کسی سسٹم کے حوالے سے کوئی خوف نہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے رکاوٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار لوگ عدالت میں صرف اس لیے نہیں آتے کہ تاخیر ہوجائے گی، نہ ان کے پاس صبرِ ایوبؑ ہوتا ہے نہ عمر نوحؑ اور نہ قارون کا خزانہ، جب انصاف جلد ملنے لگے گا تو بے شمار مظلومین عدالت کی جانب رجوع کریںگے۔
جتنی قناعت اور توکل علی اﷲ وکالت کے پیشے میں ہے شاید ہی کسی اور پروفیشن میں ہو، جنھیں ہر ماہ لگی بندھی تنخواہ مل جاتی ہے، انھیں قدرت کی کرم نوازیاں دیکھنے کے کم کم مواقع ملتے ہیں، جنھیں کنواں کھود کر پانی پینا ہوتا ہے وہ شکر کے جذبات زیادہ رکھتے ہیں، نوے فیصد سے زیادہ وکلا تنخواہ دار مزدور نہیں ہوتے، اگر قبائلی علاقوں و سوات کے لوگ یہ سسٹم کامیابی سے چلا پائیں اور آگے بڑھ کر مردان، دیر، بنوں سے ہوتا ہوا پشاور و کوئٹہ پہنچتا ہے تو اس سسٹم کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد آنے سے کون روک سکے گا؟ ایک اطمینان رکھیے کہ وکلا اور ججز کسی سسٹم سے خوفزدہ نہیں اور نہ کسی نظام کے آنے میں رکاوٹ ہیں، خوشگوار موڈ کے ساتھ کالم کے اختتام کی خاطر یہ واقعہ بتاتا ہوں۔
لمبے بالوں کا فیشن ستر اور اسی کی دہائی کا تحفہ ہے، ندیم، وحید مراد اور امیتابھ بچن کی اس دور کی فلمیں اس کی گواہ ہیں، اس زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ نائیوں کا کاروبار ختم ہوجائے گا۔ محلے میں ہیئر ڈریسنگ کی دکان کھلی تو ہم ہنس رہے تھے، جب ڈھائی تین ماہ بعد بال کٹوانے نوجوان جاتے تو نائی کہتا شیمپو کرنا پڑے گا، آپ انڈا لے آئیں تو اس کی زردی ملائیںگے تاکہ بال مضبوط ہوں، لیجیے انھوں نے اپنی آمدنی بڑھائی، اب لمبے بال اڑتے تو کہتے کہ انھیں جمانے کے لیے ڈرائی کرنا پڑے گا۔ اب بال کچھ جم جاتے لیکن تیز ہوا سے اڑنے لگتے۔ اب وہ کہنے لگے کہ بالوں کو اسپرے کرنا پڑے گا، یاد رکھیے جب بال بڑھتے ہیں تو انھیں کاٹنے والوں کا پیشہ کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ جب تک دنیا میں ظالم ہیں تو مظلوم کو صاحب آواز بنانے والا پیشہ بھی برقرار رہے گا، ہمیں قانونی نظام کی بہتری پر سوچنا چاہیے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بن رہا، کم از کم وکلا اور ججز تو بالکل نہیں۔ میرا یقین کیجیے۔