دسمبر آنے والا ہے

سولہ دسمبر کو ٹھیک ایک ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے جوں جوں یہ دن قریب آ رہا ہے

amjad.aziz@express.com.pk

سولہ دسمبر کو ٹھیک ایک ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے جوں جوں یہ دن قریب آ رہا ہے دل و دماغ پر سوچ کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں اس خون آشام دن کے مناظر پھر سے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ہیں ۔سولہ دسمبر2014 ء کا دن کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ ننھی کلیوں کو جس بے دردی کے ساتھ موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا ۔دہشت گردوں نے ایک سو چالیس بچوں کو جو اس وطن عزیز کا تابناک مستقبل تھے لمحوں میں شہید کر دیا۔آرمی پبلک اسکول اور اس کے بہادر بچے ساری دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف نفرت کی وہ فضا قائم کر گئے جس کی مثال ملنی مشکل ہے،ایک ایسا دن جو شاید کبھی فراموش نہ کیا جا سکے اورجس سے کئی دنوں تک پشاور اور خیبر پختون خوا سمیت سارا ملک سوگواراورغم میں ڈوبارہا۔ پھولوں کے شہر میں خوشبوؤں سے مہکتے142 پھول لاکھوں اور کروڑوں افراد کوبہت بڑا گھاؤ دے گئے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نہ ہو کوئی چہرہ ایسا نہ تھا جس پر لکھا دکھ پڑھا نہ جاتا ہو۔

شہر بے مثال پشاور نے بارہ برس خود کش دھماکوں میں پاکستان آرمی کے قابل فخر افسر اور جوان ،خیبر پختون خوا پولیس کے نڈر اور جرات مند اہل کاراور ہزاروں بے گناہ معصوم مردوزن، بچے، جوان اور بوڑھے وطن عزیز کی بقاء اور سالمیت پر قربان کردیے،اب کے پھرسولہ دسمبر کا دن یہ سارے غم تازہ کر دے گا۔ایک ایک شہید کی یاد آئے گی۔ ایک ایک واقعہ پھر سے ذہنوں میں گردش کرے گا،آہ وبکا اور چیخ و پکار کرنے والے پھر سے اپنے سوالات دہرانے لگیں گے۔ وہ پھرسے پوچھیں گے کہ ان کے پیاروں نے ملک و قوم کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دیے اور وہ جو دو لاکھ سے زیادہ دھماکوں کا نشانہ بننے کے باوجود بچ گئے لیکن کسی کی آنکھ نہیں تو کوئی ہاتھ اور بازو گنوا بیٹھا ،کسی کی قوت سماعت چلی گئی تو کوئی ٹانگوں سے محروم ہو گیا یہ سب بھی پوچھیں گے کہ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے تو اس ملک کو کیا حاصل ہوا ؟کیا ان کی قربانیاں دہشت گردی کو ختم اور نئی نسل کو ایک نیا پاکستان دے پائیں؟

ان کے جوابات بھی ہیں ممکن ہے یہ جواب انھیں کسی حد تک مطمئن کر پائیں وہ یہ کہ پاکستان آرمی نے اچھے اور برے طالبان کی تمیز کیے بغیر جس طرح آپریشن ضرب عضب شروع کیا اس کے خاصے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں سب سے بڑی مثال خود کش دھماکوں میں کمی قرار دی جا سکتی ہے۔بڑی حد تک صوبے میں امن قائم ہو چکا ہے ایک سال میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے ایک تو سولہ دسمبر کا دل خراش واقعہ اور دوسرا بڈھ بیر میں پاکستان ائیر فورس کے رہائشی کیمپ پر دہشت گردوں کا حملہ تھا۔اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان آرمی کی جانب سے اب کسی دہشت گرد کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جا رہی۔


اس آپریشن میں پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں نے بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں جنھیں کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔مشکل ترین قبائلی علاقوں میں جہاں کبھی آرمی نہیں گئی تھی آج ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے لیے آرمی کے جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے مادر وطن کی حفاظت کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔یہ سب سولہ دسمبر 2014ء کو ہونے والے واقعہ ہی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ ساری سیاسی جماعتیں اس نکتے پر رضامند دکھائی دیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی بلا امتیاز ہونی چاہیے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شامل تھے جن کی صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومت ہے ۔

جب چیف آف آرمی اسٹاف ترکی کے دورے میں ان بچوں کے نام سے تعمیر کی جانے والی شہداء کی یادگار پر گئے اور پھول رکھے تو پشاور میں جو اسکول ان شہیدوں کے ناموں سے منسوب کیے گئے ہیں توجہ اس جانب چلی گئی کہ کیا ان شہیدوں کا خون اس قدر ارزاں تھا کہ صوبائی حکومت ایک سال گذرنے کے بعد بھی نہ صرف آرمی پبلک اسکول بلکہ ساٹھ ہزار سے زیادہ شہدا ء کی کوئی یادگار تعمیر نہ کر سکی۔اسکولوں کے باہر ان شہیدوں کی تصاویر پینا فلیکس پر بنوا کر لٹکا دی گئیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ اکثر اسکولوں کے باہر یہ تصویریں پھٹ چکی ہیںاور یوں شہیدوں کے والدین کا غم کم ہونے کی بجائے ان تصویروں کو دیکھ کرگہرا ہو جاتا ہے۔عام شہری بھی ان تصویروں کو دیکھ کر حکومت کی بے حسی پر ماتم کناں دکھائی دیتا ہے۔

ایک ادارے نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کو تجویز پیش کی کہ چند دوست ممالک پشاور میں شہیدوں کی یادگار تعمیر کرنے کے لیے دو سو کروڑ روپے دینے کو تیار ہیں اگر حکومت زمین فراہم کر دے تو بھلے زمین منتقل کیے بغیر بھی شہیدوں کی ایک ایسی عظیم یادگار تعمیر ہو سکتی ہے یہ یادگار شہر سے باہر بھی تعمیر ہو سکتی ہے جس میں چار بڑی گیلریاں ہوں گی ان میں پاک فوج، پولیس، عوام اور اے پی ایس اسکول کی گیلریاں شامل ہوںگی، کانفرنس روم ہو گا، تھیٹر ہو گا جس میں صرف شہداء کی دستاویزی فلموں کی نمائش ہو گی،لائبریری ہو گی اور بہت سی تجاویز اس منصوبے میں شامل تھیں تاکہ کسی بھی وزیٹر کو یادگار میں تقریبا ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگے اور پھر ہر روز ایک سے دو اسکولوں کے بچے اس یادگار کا دورہ کریں، پھول رکھیں اور اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کریں، اسی طرح ہر ملکی و غیر ملکی شخصیت پر لازم ہو کہ وہ پشاور آنے کے بعد اس یادگار پر حاضری دے۔

اس سلسلے میں ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بہت خوبصورت یادگار تعمیر کی گئی ہے اسی طرح آذربائیجان کے بانی صدر حیدر علییوف کی یادگار بھی قابل ستائش ہے، بہرطوروزیر اعلیٰ نے نقشے دیکھے اور تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فوری طور پر ڈپٹی کمشنر کو زمین فراہم کرنے کا حکم دیا اور پھر وہی ہوا جو گذشتہ اڑھائی سال سے ہو رہا ہے، نوکر شاہی آخر خود کو کمیشن سے کیسے دور رکھ پاتی، ڈپٹی کمشنر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اور دو سو کروڑ کا یہ منصوبہ ردی کی ٹوکری کی نذرہوگیا یہ نا صرف پشاور بلکہ سارے صوبے کا المیہ رہا ہے کہ یہاں نہ تو کوئی کام کرتا ہے اور نہ کسی کو کرنے دیا جاتا ہے، چنانچہ ایک رکن اسمبلی نے تو کہہ دیا کہ شہر کے ایک چوک میں شہیدوں کی یادگار تعمیر کی جا رہی ہے نئی یادگار کی کوئی ضرورت نہیں، یہ ہے صوبے کے اراکین اسمبلی کا وژن جس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نجانے کون اور کیوںکر نیا خیبر پختون خوا بنائے گا، نئے پختون خوا سے متعلق آیندہ تفصیل سے ذکر ہو گا مگر جوں جوں سولہ دسمبر کا دن قریب آ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ جسم سے جاں نکلنے کو ہے،رگوں میں خوں کی روانی بند ہونے کو ہے،دل و دماغ سن ہونے کو اور آنکھیں ایک بار پھر آنسوؤں سے بھیگ جانے کو ہیں کہ جہاں حکم ران بے حس ہوں وہاں عوام کا اللہ ہی حافظ!
Load Next Story