میں نے فرانس کا جھنڈا کیوں لگایا

ہمیں ان تمام لوگوں سےفاصلہ رکھنا چاہیےجنہوں نے اسلام کا نام لیکریہ گھناؤنا کام کیا اوربے گناہ انسانوں کو ناحق قتل کیا۔

اگر ظلم کے خلاف ہم چپ کر جائیں تو اس نظریے کو اور تقویت ملے گی کہ ابھی بھی مسلمان غیر مسلموں کے دھماکوں میں مرنے پر خوش ہوتے ہیں۔



کہتے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسکا ذہن ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، اس پر جو بھی لکھیں وہ ایسے ہی محفوظ ہوگا اور وہ بچہ جب اس قابل ہوجائے کہ خود کچھ کرسکے تو وہ ایسا ہی عمل کرے گا، جو اُس کی یاداشت میں محفوظ ہوگا، یہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اچھے بھلے انسان بھی اب ایسا ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسان کے ارد گرد جب بھی کوئی غیر فطری واقعہ ہو تو اسکا ردِعمل بھی غیر فطری سا اور جتنی اسکو سمجھ ہوگی اسکے مطابق غلط یا سہی ہوگا، مگر جیسے جیسے وہ دوسرے لوگوں کے خیالات و آراء اس بارے میں سنے گا، اسکا دماغ ان خیالات کو جذب کرلے گا اور اس کے بعد یہ ان تھیوریز کے بارے میں سوچے گا اور اسکی رائے اکثریت کے حق میں ہوگی یا اقلیت کے خلاف ہوگی، یعنی اس وقت تک یہ کسی ایک سوچ کا پیرو کار کا حصّہ بن چکا ہوگا، ایسا ہی کچھ آجکل دیکھنے کو مل رہا ہے۔




فرانس میں ہوئے ہولناک دہشتگردی کے حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر پر فرانس کا جھنڈا لگا کر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ اگر متاثرہ خاندانوں کی حمایت تک رہتا تو ٹھیک تھا مگر پاکستان میں خصوصاً اس نے ایک آن لائن جنگ کی صورت اختیار کرلی ہے، جو لوگ اپنی تصویر پر فرانس کا جھنڈا لگا رہے ہیں وہ اُن افراد کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ان ممالک کے ساتھ ناانصافی ہے جن میں مظالم کو سوشل میڈیا اہمیت نہیں دے رہا۔





اگر ہم ایک سطر میں اس کا جواب دیں تو یہ بالکل ناانصافی اور زیادتی ہے، مگر جس وقت اور جن حالات کے پیشِ نظر یہ ہو رہا ہے ان پر بحث کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ کیا اسکا مقصد مغرب کی پیروی کرتے ہوئے مسلم ممالک میں ہونے والے مظالم کو نظر انداز کرنا ہے؟ جی نہیں ۔۔۔ اس کا سادہ سا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام کا نام لے کر اس مکروہ عمل کو سر انجام دیا ان کی حوصلہ شکنی کی جائے، اخبارات کے مطابق ایک حملہ آور نے ''الله اکبر'' کہا اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی، اس کو سننے والا عام مغربی یہی کہے گا کہ یہ مسلمانوں کا کلمہ ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ایسے ہی سوچتے ہیں۔

اسی وجہ سے مسلمانوں کے اس رویے کو دنیا بھر کے میڈیا نے کور کیا اور اس پر اسٹوریز کیں، یاد رہے کہ جب عراق جنگ کا فیصلہ ہوا تھا تو سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے یورپ میں ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوام نے اس جنگ کی شدید مخالفت کی تھی، دوسری بات یہ کہ ان حملوں کا زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوگا جیسے 9/11 کے بعد ہوا۔ ہوائی اڈوں پر مسلمانوں کو، داڑھی والوں کو زیادہ مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگے گا، مسلمانوں کے لئے یورپ میں قوانین اور سخت ہوجائیں گے، ہم تو اپنے اپنے ممالک میں جیسے رہ رہے تھے ویسے رہیں گے، مشکل ہمارے ان ہم وطنوں کو ہوگی جو ان ملکوں میں رہتے ہیں اور ہر روز یہاں رہنے والوں سے سامنا ہوتا ہے، اس صورتِ حال میں وہ کیسے خود کا دفاع کریں گے۔




آخر میں یہی کہوں گا کہ اس سے پہلے کہ ہم مغرب کی طرف دیکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں کر رہا، میرے خیال میں ہمیں اپنے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے، ہماری حکومتوں کو اپنے طور پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ہمیشہ یہی رونا روتے رہیں گے کہ ہمارے شہیدوں کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔

جس پر گذرتی ہے وہی جانتا ہے، پچھلے سال جب پشاور میں حملہ ہوا تو اس ملک پر قیامتِ صغرا کا عالم تھا اور اس حال میں ہم سب سیاسی، مذہبی وابستگی، آپس کے اختلافات بھلا کر ان خاندانوں کے دُکھ میں برابر کے شریک تھے جن کے پھول جیسے بچے محض اس لیے بھون دئیے گئے کہ ان کا ملک دہشتگردوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ حملے بھی فرانس کے داعش کے خلاف حملوں کا نتیجہ ہیں جس میں وہ بے قصور شہری مارے گئے جن کا اس سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔

مسلمانوں خصوصاً پاکستان پر ہمیشہ یہ الزام لگتا ہے کہ ہم دہشتگردوں کے لئے ''نرم گوشہ'' رکھتے ہیں اور اگر ظلم کے خلاف ہم چپ کرجائیں تو اس نظریے کو اور تقویت ملے گی کہ ابھی بھی مسلمان غیر مسلموں کے دھماکوں میں مرنے پر خوش ہوتے ہیں، جبکہ اس عمل سے ہم اپنے اور ان کے درمیان جنہوں نے اسلام کا نام لے کر یہ گھناؤنا کام کیا اور بے گناہ انسانوں کو ناحق قتل کیا سے، فاصلہ قائم کرسکتے ہیں اور دنیا کو پیغام دے سکتے ہیں کہ مسلمانوں اور اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
[poll id="769"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

Load Next Story